اکبر الہ آبادی طنز و مزاح کی چلمن سے

شمس تبریز

 حالی، اکبراوراقبال اردوکے وہ شعراء ہیں ،جنھوں نے اپنی شاعری کے ذریعہ قوم وملت کی اصلاح کی اوران کوآئینہ دکھایا۔ذہنی استعداد،بصیرت اورتخلیقیت کی بناپر ان کی شاعری کانقطۂ نظراوررنگ آہنگ الگ الگ ہے؛لیکن اس میں شک نہیں کہ تینوں نے ملک کے سماجی اورمعاشرتی مسائل کواپناموضع بنایااور فن کے تقاضوں کااحترام کرتے ہوئے تینوں کامطحِ نظر اصلاح اورفلاح تھا۔

  ان تینوں میں ’’اکبر حسین اکبرؔ‘‘نے  تقلیدکے طوق کواپنے گلے کاہاربنانابالکل بھی پسندنہیں کیا؛بل کہ اپنی ایک الگ راہ بنائی اور اس راہ پر چل کر نقشِ پا کواس طرح ثبت کیاکہ وہ دوسروں کے لیے مشعلِ راہ ثابت ہو۔اکبرؔکی ولادت ۱۶؍نومبر ۱۸۴۶ء کوہوئی۔

لسان العصر حضرت اکبرؔان چیدہ شاعروں میں سے تھے جن کا مثل مدتوں میں کہیں پیداہوتاہے۔ان کی ذات  شوخی وزندہ دلی اورحکمت وروحانیت کی عجیب وغریب سنگم تھی۔اکبرؔنے ہندوستان میں اس وقت شعور کی آنکھیں کھولیں ،جب کہ ہرطرف انارکی اورظلم وستم کاسماں برپاتھااورچہارجانب سے اسلامی تہذیب پرجدیدتہذیب کی یلغارہورہی تھی، اسلامی تمدن کے شیرازے بکھررہے تھے اورانگریزی تمدن اپنی دل فریبی کا سکہ جمارہاتھا؛چناں چہ علمائے اسلام اورزعمائے ملت اس حملے کو روکنے کے لیے سربکف ہوکرمیدانِ عمل میں آئے اور صف بندی کی اور اس محاذ پر اس وقت تک ڈٹے رہے،جب تک اس طوفان کارخ نہیں موڑدیا۔انھیں صفوں میں سے ایک محاذپرہم کو’’اکبرالہ آبادی‘‘ بھی نظرآتے ہیں ؛لیکن ہاں !یہ الگ بات ہے کہ ان کاہتھیار تیروتلوارنہیں ؛بل کہ شعروشاعری تھا،انھوں نے اپنی شاعری سے وہ کام لیا،جوکبھی میدانِ جنگ میں تیروکمان سے لیاجاتھا۔اکبرؔکی شاعری کاجب ہم مطالعہ کرتے ہیں ،تواندازہ یہ ہوتاہے کہ ان کی شاعری پانچ بابوں میں منقسم ہے:

(۱) ظرافت وزندہ دلی

(۲)عشق وتغزل

(۳)سیاسیات

(۴)اخلاق ومعاشرت

(۵)تصوف ومعرفت

  یہ سچ ہے کہ اکبرؔکی شہرت ومقبولیت کی سب سے بڑی نقیب ان کی ظرافت تھی۔ان کے نام کو قہقہوں نے اچھالا،ان کی شہرت کومسکراہٹوں نے چمکایا۔ہندوستان میں آج جوان کے نام کی شہرت بامِ عروج پر ہے،تواس عمارت کی ساری داغ بیل ان کی شوخ نگاری ولطیفہ گوئی ہی کی ڈالی ہوئی ہے۔ قوم نے ان کو جانا؛مگراس حیثیت سے کہ وہ پژمردہ دلوں کو آشفتہ کردیتے ہیں ،ملک نے ان کو پہچانا؛مگر اس اعتبار سے کہ وہ مرجھائے ہوئے دلوں کو کھِلادیتے ہیں ۔

   اس میں کوئی شک نہیں کہ اکبرؔظریف اور بہت ہی بڑے ظریف تھے۔جب تک جوان رہے، شوخیٔ طبع بھی جوان رہی، عمرکاآفتاب جب ڈھلنے لگا،توظرافت کابدرِکامل بھی رفتہ رفتہ ہلال بنتا گیا،اب اس کی جگہ آفتابِ معرفت طلوع ہونے لگا۔بالوں میں سفیدی آئی، صبحِ پیری کے اثرات نمودار ہوئے،توظرافت نے انگڑائی لی اورزندہ دلی کی شمع جھلملانے لگی،حکمت ودانائی کی تابش اورحقیقت کی تڑپ دل میں پیداہوئی۔جمالِ حقیقی کی جلوہ آرائیوں نے چشمِ بصیرت کو محوِ نظارہ بنایا،عشق کی لہر نے سینے میں چھپے ذوقِ عرفاں کی چنگاری کو برانگیختہ کیااورنورِمعرفت کی شعاعیں خود مطلعِ قلب سے اس چمک دمک سے پھوٹیں کہ تماشائیوں کی آنکھیں قریب تھاکہ چکاچوندمیں پڑجائیں ۔

 مبدأفیاض نے واقعی ان کے تئیں ذہانت وفطانت،شوخیٔ وزندہ دلی کی تقسیم میں بہت ہی فیاضی سے کام لیاتھا۔اکبرؔظریف تھے ’’ہزّال‘‘نہ تھے۔ان کے کلام دلوں کو خوش کرنے کے باعث بنتے تھے،نہ کہ سفلی جذبات کوبھڑکانے کاسبب۔ یوں توہر شاعراپنے زمانے کے معاشرے پر گہری نظر رکھتاہے ؛لیکن  اکبرؔ چوں کہ ا پنی قوم کو بیدار کرنے کے لیے طنزومزاح کاراستہ اختیارکیا تھا؛اس لیے چیزوں کاوہ بغور جائزہ لیتے، اسے جھانکتے، اسے ٹٹولتے، اس کے بعد اس کی بے اعتدالیوں اورناہمواریوں کواپنے طنزکانشانہ بناتے تھے۔ اکبرؔنے اپنے عہدکے سماجی اورسیاسی زندگی کی تصویرطنزومزاح کے موقلم سے اس طرح کھینچی ہے کہ وہ نہ صرف دل چسپ ہے، بل کہ اردو کی شاعری میں عدیم المثال بھی ہے ؛لیکن ظرافت کے نقاب کے تار کوچہرے پے کچھ اس اندازسے رکھتے کہ کسی کو پتہ بھی نہیں چلتاکہ نگاہیں کس جانب ہیں ؟لیکن کہیں کہیں مطبوعہ کلام میں کچھ وضاحت بھی کرتے ہوئے ملتے ہیں :

لغزشیں مدِظرافت میں کچھ آئیں نظر

دوستوں سے التجایہ ہے کریں اس کومعاف

سردموسم تھا،ہوائیں چل رہی تھیں برغبار

شایدمعنیٰ نے اوڑھاہے ظرافت کالحاف

 موسم سے اشارہ سیاسی فضاکی طرف ہے اور’’ہواؤں ‘‘سے مراد قانونی شکنجے اورسرکاری گرفتیں تھیں ۔ان کی ظرافت کابہت بڑامظہرسیاست کامیدان تھا۔

خوش ترآں باشدکہ سِرِّدلبراں

گفتہ آیددرحدیثِ دیگراں

اکبرؔان ’’دلبراں ‘‘سیاسی کے ایک ایک ادا کے محرم تھے اوریہ محرمیت ان کے اشعارکی چلمن سے جھانکتی ہوئی دکھائی دیتی ہے؛مگرزبان وہی اوروہی اپنامخصوص انداز۔جن لوگوں نے ان کے اندازِتخاطب کو پرکھ لیاتھا،وہ معنیٰ ومفہوم کو سمجھ کرپرخارہوجاتے تھے اورجونہ سمجھتے وہ بھی لطف وسرور لیے بغیرنہیں رہ پاتا۔

مصرع:    میخانے کامحروم بھی محروم نہیں ہوتا

 ایک جگہ فرمانایہ منظورہے کہ سیاسی حقوق جوہم روزبہ روزحاصل کرتے جارہے ہیں ،انھیں اپنی ترقی کی علامت باورکرکے اس پرخوش ہورہے ہیں ؛لیکن حریف نے ہماری حرص وہوس اورجادہ پرستی کاصحیح اندازہ کرکے ایک جال بچھادیاہے،جس میں ہم اورزیادہ جکڑتے جارہے ہیں ۔اس مفہوم کو انھوں نے کس چابک دستی سے معانی کو حسین ریشمی الفاظ کالبادہ ڈال کر یوں بیان کیاہے۔

ہاون تو ہے ہوس کا،دستہ ہے پالیسی کا

لیکن ادھرتصورجاتانہیں کسی کا

ہے کوفت،لیکن اس پہ مسرور ہورہے ہیں

ہرسواچھل رہے ہیں اورچورہورہے ہیں

اس قبلہ روجماعت کاانتشار دیکھو!

اس باغ میں خزاں کی اکبرؔ!بہار دیکھو

لکھے گاکلک حسرت دنیاکی ہسٹری میں

اندھیراہورہاتھابجلی کی روشنی میں

 ’’قبلہ روجماعت ‘‘سے کھلی ہوئی بات ہے کہ ’’مسلمان‘‘مراد ہیں ۔ کلامِ اکبرؔکاروئے سخن بیش تراپنی ہی قوم وملت کی جانب رہتاہے۔تعلیمِ اکبرؔکاایک پہلو یہ بھی ہے کہ اصل الزام اپنوں پرہی رہتا ہے۔ مطلب یہ ہے کہ ہم اگر حرص وہوس کے بے دام غلام نہ ہوتے،توصیاد جال ڈالنے کی تکلیف ہی کیوں کرگوارہ کرتا؟

 اکبرؔکوجس ماحول سے سابقہ پڑا،وہ فرنگی تہذیب ومعاشرت کاماحول تھااورلوگ لپک لپک کراس خوشنماجام کو،جوزہرسے لبریزتھا،لے رہے تھے۔یہ دورنہایت ہی پرآشوب دور تھا۔ہندوستان کی سماجی،سیاسی، مذہبی اورمعاشرتی زندگی کی سنگین دیوار پر مغرب کی طرف سے بڑھتے ہوئے بدتہذیبی کے سیلاب ایسے شگاف پیداکررہے تھے، کہ معاشرے کی ساری عمارت کے گرجانے کاخطرہ پیدا ہوگیاتھا۔دیکھیے!اکبرؔنے طنزومزاح کے اندازمیں ، ملائمت اورنشتریت کے ایک خوش گوارامتزاج کے ساتھ کیسی تیکھی تنقید کی ہے۔

فکرساڑی کی ہے نہ کنگن کی

اب تودھن ہے انھیں فرگن کی

 مغربی تہذیب کے تسلط اور حاکم وقت کی طرزِ معاشرت کی تقلیداورمہذب بننے کے ساتھ عورتوں کی آزادی اورتعلیم کامسئلہ بھی اٹھا؛لیکن اکبرؔاس امر کومفید نہیں سمجھتے تھے کہ عورت بے پردہ رہے اورانگریزی تعلیم کے ساتھ فرنگی تہذیب بھی دامن میں سمیٹ لے آئے اورانگریزی لیڈیوں کی طرح کلبوں اورپارٹیوں میں جائے۔

  اکبرؔنے جا بجامذہب کی بیگانگی پرطنزکیاہے؛مگرطنزکی کڑوی گولی پرالفاظ کاشکراس طرح ڈال دیاہے کہ بڑے سے بڑے ضدی بچے بھی مچل مچل کراس کی طرف لپکیں   ؎

اگرمذہب خلل انداز ہے ملکی مقاصد میں

توشیخ وبرہمن پنہاں رہیں دیروحرم میں

شاید تشنگی باقی رہ گئی ہو،تولیجیے!اسی لذت کاایک اور شعرپیش خدمت ہے،تاکہ آپ تشنہ لب نہ رہ جائے۔

حریفوں نے رپٹ لکھوائی ہے جاجاکے تھانے میں

کہ اکبرنام لیتاہے خداکااس زمانے میں

  ان کے زمانے میں ایک ذہنیت یہ پھیلی ہوئی تھی کہ زبان سے توفرنگیت،فرنگی سیاست اورفرنگی تہذیب کوتوخوب برابھلاکہاجائے؛لیکن اگرانھیں حلقوں سے کہیں داد ملنے لگے،حوصلہ افزائی ہونے لگے،صلہ وستائش کی طرح پڑجائے؛تواس پربھی دل خوشی سے اچھلنے لگتااوراندرہی اندرفخرومسرت کی لہردوڑجاتی۔اکبرؔکی ژرف نگاہ اس پہلو پربھی پڑی، اس کی گرفت اپنے پنجۂ آ ہنی سے کی۔ صنعت گری کاکمال ملاحظہ ہو،کہ فولادی صلابت وکرختگی، کس خوبی کے ساتھ نرم وگدازمخملی دستانے اندرغائب کردی ہے۔

  رقیب سرٹیفکٹ دیں ،توعشق ہو تسلیم

 یہی ہے عشق،تواب ترکِ عشق اولی

 فلاں قومی شاعرکا’’خاں بہادر‘‘فلاں خادمِ ملت کا’’شمس العلماء‘‘بن جانا؛یہاں تک کہ اقبال کا’’سر‘‘کے خطاب سے سرفرازہونا؛سب مثالیں اسی رقیب کے دیے ہوئے سرٹیفکٹ کی ہیں ۔

  قدرت نے اکبرؔکو لفظوں کی بازیگری کاغضب کا ہنر کادیاتھا۔بعض جگہ فرسودہ اورمتروک الاستعمال تشبیہوں کو بھی استعمال کیاہے؛لیکن اپنے ہنر کی بدولت اس پر اس خوبصورتی سے ’’گل گونہ‘‘ڈال دیاہے کہ وہ متروکہ تعبیرحسن کے شباب پرجاپہونچاہے۔

 فرماگئے ہیں یہ خوب بھائی گھورن

دنیاروٹی ہے اورمذہب چورن

 زمانے کی ناقدری، شاعری دنیاکابہت ہی پرانامضمون ہے۔شاعرسداسے ہی لوگوں کی بدمذاقی اورناقدرشناسی کاڈھنڈھوراپیٹتے چلے آرہے ہیں ؛لیکن جب یہی فریاد چمستانِ ظرافت کے اس عندلیب کی زبان سے نکلتی ہے، توقاری کو ایسامحسوس ہوتاہے کہ جیسے اس نے کسی فردوسی حورکانغمہ سن لیاہو۔ایک مشاطۂ پرفن کاکمال ہی یہی ہے کہ بدصورت سے بدصورت کو بھی بدرِکامل بنادیتاہے۔

 قدردانوں کی طبیعت کاعجب رنگ ہے آج

   بلبلوں کو ہے یہ حسرت کہ وہ ’’الّو‘‘نہ ہوئے

  آئیے!اب اکبرؔکے شعری گلشن کابلاکسی تنقیدوتبصرہ کیے، یوں ہی سیرکیجیے، دیکھیے کہ اس سدابہارگلشن میں کس طرح کہیں گلاب ہے توکسی جگہ رات کی رانی جلوگر ہے،کہیں یاسمین مسکرارہی ہے توکسی شاخ پہ کنول کھِلکھلارہی ہے۔میں کہاں تک آپ کو بتلاتارہوں کہ یہ گلِ سرسبدہے اوریہ چمیلی اور ویسے بھی مشک کی مدح وتوصیف عطارکی زبان سے مشک کی قدروقیمت بڑھاتی نہیں ؛بل کہ اورگھٹادیتی ہے، اس لیے کہ خود مشک کی فطرت ہی اس کی شہرت کی نقیب ہے۔

مصرع :     مشک آں باشدکہ خود گوید۔

اورمیں توخیرعطاربھی نہیں ،اس لیے میں ہٹاچاہتاہوں

مشک حاضرہے، بے تکلف مشام جان معطرفرمائیں

کیوں کرخداکے عرش کے قائل ہوں یہ عزیز

یہی فرماتے رہے تیغ سے پھیلاہے اسلام

ہجرکاشب یوں ہی کاٹوبھائیو!۔

بت دل میں گھسے آتے ہیں جرمن کاستم بن کر

یہ تدبریہ فکرِاہل وعیال

۔جغرافیے میں عرش کانقشہ نہیں ملا

یہ نہ ارشاد ہوا توپ سے کیاپھیلاہے؟

ان کافوٹولے کے چاٹوبھائیو

میراتقویٰ کہاں تک روکے روم کے بیلجیم بن کر۔

تم توپروردگاربن بیٹھے۔

 یہ بات بالکل حق بہ جانب ہے کہ اکبرالٰہ آبادی نے طنزومزاح کے پیرائے میں حکومتِ وقت کے ظلم وستم کے خلاف احتجاج کیا،اس کی سیاسی چالوں سے قوم کو آگاہ کیا،اس پر تنقید کی ؛نیزہندوستانیوں کے رویے میں جہاں کمی اورکجی نظر آئی اس کی بھی نشاندہی کرتے ہوئے اردو شاعری میں طنزومزاح کی روایت کو آگے بڑھایا۔

  اکبرؔکے کلام میں اقبال کامقصد جھانکتاہوانظرآتا ہے یعنی دونوں کے کلام میں خودی اور خود داری کاسبق ملتاہے۔جام وپیمانہ الگ ہے؛لیکن دونوں کے خُم میں ایک ہی طرح کی شراب ہے،خودی اورخودداری کی۔ ایک پژمردہ چہرے پرشبنم برساتاہے،تودوسرادلوں میں جوش وحمیت کی آگ بھڑکاتاہے۔

 یہ حقیقت ہے کہ اکبرؔکی پوری شاعری طنزومزاح کے قالب میں نہیں ہے؛لیکن ہاں !ان کااکثرکلام اسی دھج پرضرور ہے اورکمال یہ ہے کہ طنزومزاح کے ڈانڈے کہیں بھی عریانی وفحاشی سے نہیں ملتے ہیں

 یہ سچ ہے کہ اردو شاعری کی دنیامیں ان کی شہرت کی عمارت ان کے عاشقانہ کلام پرنہیں ،بل کہ ان کے طنزیہ کلام پر ہے، اس کے باوجود انھوں نے غزل میں بھی طبع آزمائی کی ہے۔رواتی لب ولہجے میں محبوب کاسراپا،اس کے ناز نخرے،ہجروصال کی کیفیتوں کو زبان اورمحاورے کے چٹخارے کے ساتھ بیان کیاہے   ؎

دل توپہلے لے چکے، اب جان کے خواہاں ہیں آپ

اس میں بھی مجھ کونہیں انکار،اچھالیجیے

 اکبرؔکی غزلیہ شاعری میں بھی ایک خاص بات یہ ہے کہ ان کی غزلیہ شاعری روایتی ہوتے ہوئے بھی بالکل روایتی نہیں اس معنی کر کہ انھوں نے محبوب کی اس طرح عکاسی کی ہے اور اس کے نازو  نخرے کو اس انداز سے بیان کیاہے کہ اسے پہچاننے میں دقت نہیں ہوتی   ؎

لگاوٹ کی اداسے ان کاکہناپان حاضر ہیں

قیامت ہے،ستم ہے،دل فداہے، جان حاضرہے

 اکبرؔچوں کہ ایک مذہبی شاعر تھے۔ہمہ وقت دین وشریعت پیش نظر رہتی تھی؛اسی لیے ان سے اپنے محبوب کی بے پردگی بھی ایک آنکھ نہ بھائی۔وہ عام شاعروں کی طرح اپنے گلفام کو سرِ شام چھت پہ نہیں دیکھناچاہتے ہیں ؛بل کہ وہ باپردہ گھرمیں دیکھناپسندکرتے ہیں   ؎

وہ بے حجاب سرِ شام بام پرآنا

 حیابھی تو کوئی شے ہے،کسی کاڈر نہ سہی

 بہرحال اکبرؔکی شاعر میں سچائی جھانکتی ہوئی محسوس ہوتی ہے اوروہ اپنے ہی معطرواردات کی خوش بوکو الفاظ کے شیشے میں اتارتے تھے یعنی وہ اپنے ہی دل پہ بیتی ہوئی باتوں کواپنے اشعارمیں بیان کرتے ہیں ، کسی اور کے خیال پر اپنے اشعار کالبادہ نہیں ڈالتے، جیساکہ ان کے اس شعر سے مرتسم ہوتاہے۔

  شعرِاکبرؔمیں کوئی کشف وکرامات نہیں

دل پہ گزری ہوئی ہے،اور کی بات نہیں

الغرض اکبرؔاپنے اس فن میں تنہاویکتاتھے کوئی ان کاہمسرنہیں تھا۔

میں اپنے آپ میں ، ان شاعروں میں فرق پاتاہوں

سخن ان سے سنورتاہے، سخن سے میں سنورتاہوں

تبصرے بند ہیں۔