کمالِ عشق تو دیکھو

ڈاکٹر شکیل احمد خان

چندکتابی جملے سنیے، ایسے جملے جنھیں ہم ایک کان سے سن کر دوسرے سے باہر نکال دیتے ہیں۔ جیسے ’’ دنیا میں کچھ بھی ناممکن نہیں ہے۔‘‘، ’’ کامیابی ارادوں سے حاصل ہوتی ہے، اسباب سے نہیں۔ ‘‘ وغیرہ وغیرہ۔ پر کیا یہ واقعی صرف کتابی جملے ہیں جنھیں زیبِ داستان کے لئے استعمال کیا جاتا ہے؟ اطمینان سے سونچیے۔اور سونچنے کی ابتدا کے لیے ہم آپ کو ایک نکتہ فراہم کرتے ہیں۔ اس نکتہ کا نام ہے کیارو لی ٹیاکیس Karoly Takacs۔ ۲۱ جنوری ۱۹۱۰ کو ہینگری کے شہر بوڈاپیسٹ میں پیدا ہوئے کیارولی کا ایک ہی سپنا تھا، دنیا کا سب سے اچھا نشانہ باز بننا اور اولمپک مقابلوں میں گولڈ میڈل حاصل کرنا۔ ایک دھن سوار تھی اور وہ زیادہ تر وقت پستول سے نشانہ بازی کی مشق کیا کرتے۔ ۱۹۳۸ کے اولمپک مقابلوں کے آتے آتے وہ دنیاکے ایک بہترین نشانہ باز بن چکے تھے۔ لیکن زندگی نے انھیں پہلا دھچکہ دیا۔ انھیں ہینگری کی اولمپک ٹیم میں شامل کرنے سے انکار کر دیا گیا کیونکہ وہ فوج میں سارجنٹ کے عہدہ پر تعینات تھے جب کہ فوج کے صرف کمیشنڈ آفیسرس کو ہی شرکت کی اجازت تھی۔ بعد ازاں اس امتناع کو برخاست کر دیا گیا۔اور کیارولی کو ۱۹۴۰ میں ٹوکیو میں ہونے والے اولمپک میں شامل ہونے اور کامیابی کی چوٹی پر پہونچنے کی پوری توقع ہوگی۔ یہی ان کی زندگی کا خواب اور مقصد تھاَ۔ سالہا سال کی مشق، مشقت، اور قربانیوں کے بعد یہ مقصد حاصل ہونے ہی والا تھا کہ مقابلوں سے دو سال قبل ۱۹۳۶ میں ان کی زندگی میں ایک المیہ واقع ہوگیا۔ فوج کی ایک تربیتی مشق کے دوران ان کے ہاتھ میں ایک ہتھ گولہ پھٹ گیا۔اس ہاتھ کے چھتڑے اڑ گئے جوان کی زندگی بھر کی محنت، مشق اور قربانیوں کا صلہ دلوانے کے قابل بن چکا تھا۔ کسی شخص کو شکست خوردہ، نا امید، اور مایوس کردینے کے لئے کیا اس سے بڑ کر بھی کوئی واقعہ ہو سکتا ہے؟ ہر کوئی ان پر ترس کھا رہا تھا۔لیکن کیارولی نہ تو ایک قابلِ رحم انسان کے طور پر زندگی گزارنے کے لئے تیار تھے اور نہ ہی اپنے خواب سے دست بردار ہونے کو! ابتدائی صدمے سے باہرنکلتے ہی فیصلہ کیا کہ وہ اس چیز پر فوکس نہیں کریں گے جو کھو چکا ہے بلکہ اس پر فوکس کریں گے جو باقی بچا ہے۔ ان کے پاس کیا باقی بچا تھا؟ جی ہاں، بایاں ہاتھ! وہ ہاتھ جس سے نشانہ لگانا تو دور، وہ قلم پکڑ کر لکھ بھی نہیں سکتے تھے۔ انھوں نے کسی کو بتائے بغیر نہایت رازداری سے با ئیں ہاتھ سے مشق شروع کردی۔ایک سال بعد ۱۹۳۹ میں ہینگری کے نیشنل شوٹنگ مقا بلے ہو رہے تھے، اسٹیڈیم بھرا ہواتھا، ملک کے ماہر ترین نشانہ باز تیار تھے کہ کیارو لی آتے دکھائی دیئے۔ کھلاڑیوں نے کہا، واہ کیارولی، اسے کہتے ہیں اسپورٹنگ اسپرٹ، اتنی محرومی اور المیہ کے باوجود آپ مقابلے دیکھنے اور ہماری ہمت افزائی کے لئے آئے ہو ! کیارولی نے کہا میں تمہیں ترغیب دینے نہیں بلکہ تم سے مقابلہ کرنے آیا ہوں۔ ہر کوئی ششدر تھا۔ ہر کھلاڑی اپنا بہترین ہاتھ استعمال کر رہا تھا اور کیارولی اپنا تنہا ہاتھ! جیت ہوئی تنہا ہاتھ کی، جوش و جنون کی جس نے ایک سال میں اپنے واحد ہاتھ کو بہترین ہاتھ میں بدل دیا۔۱۹۳۹ میں ہی UTI عالمی شوٹنگ چیمپین شپ جیتنے والی ہینگری کی ٹیم کے وہ ممبر بن گئے۔ انہیں ۱۹۴۰ میں ہونے والے اولمپک میں اپنا مقصد حاصل ہوجانے کی پوری توقع ہو گئی۔ لیکن زندگی نے پھر ایک دھچکہ دیا۔۱۹۴۰ کے اولمپک دوسری جنگِ عظیم کے باعث منسوخ ہوگئے۔آنکھوں میں آنسو آگے لیکن کیارولی نے مایوسی کاشکار ہونے کی بجائے اب ا پنی پوری توجہ ۱۹۴۴ میں ہونے والے اولمپک پر مرکوز کردی۔ لیکن صبر آزما انتظار، قرباینوں اور مشق کے باوجود قدرت پھر ایک بار انھیں دھچکہ دے کر ان کے عزم و حوصلہ کا امتحان لینے تیار تھی۔ ۱۹۴۴ کے اولمپک بھی جنگِ عظیم کے جاری رہنے سے منسوخ ہوگئے۔کیارولی کی کیفیت کا اندازہ کیا جاسکتا ہے۔یوں محسوس ہوتا تھا جیسے اولمپک میں شرکت اور کامیابی ان کی قسمت میں ہی نہیں۔ لیکن انھوں نے پھر خود کو سنبھالا اور ۱۹۴۸ میں ہونے والے اولمپک پر اپنی توجہ مرکوز کر دی۔۱۹۴۸ کے اولمپک آئے۔ ۱۹۳۸ سے ۱۹۴۸ تک دس سال کا عرصہ گزر چکا تھا۔ انکی عمر کافی بڑھ چکی تھی۔ کئی نوجوان اور ماہر حریف تیار ہو چکے تھے۔مقابلہ کے دن UTI عالمی شوٹنگ چیمپین کارلوس ویلینٹ ان کے قریب آیا اور طنزا پو چھاکہ تم یہاں کیا کر رہے ہو؟ کیارولی نے کہا میں یہاں سیکھنے آیا ہوں۔ اور پھر اسی دن اولمپک میں انھوں نے گولڈ میڈل حاصل کر کے ساری دنیا کو حیران کر دیا۔ نوجوان کارلوس نے مبارک باد دی اور کہا کہ واقعی آپ کافی سیکھ چکے ہیں۔ یہی نہیں، انھوں نے ۱۹۵۲ میں ہوئے اولمپک میں بھی گولڈ میڈل حاصل کرکے خود کا لوہا منوالیا۔کارلوس ان کے قریب آیا اور کہا کہ آپ ضرورت سے ذیادہ ہی سیکھ چکے ہیں، اب مجھے سیکھائیے! اس طرح کیارولی rapid fire pistol 25 metre مقابلوں میں دو مرتبہ گولڈ میڈل حاصل کرنے والے دنیا کے پہلے کھلاڑی بن گئے۔اس کے بعد بھی انھوں نے کئی مقابلے جیتے۔ فوج سے بطورلیفٹیننٹ کرنل ریٹایرڈ ہونے کے بعد ۵ جنوری ۱۹۷۶ کو اس دنیا سے رخصت ہوئے۔

ہمیں سیکھایا گیا ہے کہ حکمت کی بات جہاں بھی ملے اسے حاصل کیا جائے۔ ہم بھی کامیاب ہونا چاہتے ہیں تو ہمیں ہر ملک و قوم کے کامیاب افراد کے طرز فکراور عادات و اطوار کو بھی مدِ نظر رکھنا ہوگا۔کیارولی تاریخ میں کن چیزوں کی علامت کے طور پر یاد رکھے جایں گے؟ یقیناًجوش و جذبہ، لگن و دھن،فولادی قوتِ ارادی و اعتماد، استقلال،اورصبر و انتظار کی بے پناہ صلاحیت۔ سیدھا ہاتھ کھونے کے بعد کیارولی کے سامنے دو راستہ تھے۔ایک تو مایوس و ناامید ہو کرگوشہ نشین ہو جائیں اور میدان چھوڑ دیں۔ یا دوسرا راستہ کہ موجودہ صورتِ حال میں نیا حل تلاش کریں۔ انھوں نے دوسرا راستہ چنا۔ اور یہی کامیاب لوگوں کا راستہ ہوتا ہے۔ کسی مفکر نے خوب کہا ہے، ’’ جب یہ واضح ہو جائے کہ منزل پرنہیں پہونچا جاسکتا تو منزل نہیں بلکہ منزل پر پہونچنے کا راستہ ( طریقہ) تبدیل کیجئے ‘‘۔ یہی انھوں نے کیا اوربائیں ہاتھ کو اپنی طاقت بنایا۔ ان کی دوسری اہم ترین خوبی منصوبہ بندی اور انتظار کی صلا حیت ہے۔ ہر مرحلہ پر ناکامی کے بعدانھوں نے ٓیئندہ کے لئے فورا منصوبہ بند کوشش شروع کردی۔ پے در پے ناکامیابیوں کے باوجودمایوس ہونے کی بجائے مسلسل دس سال تک اپنے جذبہ کی لو کو بجھنے نہیں دیا۔

فتح و کامیابی راتوں رات حاصل ہونے والی چیز نہیں ہے۔ یہ انعام ہے منصوبہ بندی، جہد مسلسل، استقلال اور انتظار کی صلاحیت کا۔ اب سوچیے، کیا من حیثیتِ القوم اور انفرادی طور پر بھی ہمارے پاس منصوبہ بندی ہے؟ سکون اور ٹھراؤ کے ساتھ دیرپا مقصد کے حصول کے لئے کوشش ہے؟ جہاں تک صبر اور انتظار کا تعلق ہے، ہم سے تو اتنا انتظار بھی نہیں ہوتا کے دعوت میں ایک صف کے لوگ فارغ ہو چکیں اوردستر صاف کیا جاسکے۔ گندے دستر اور چٹائیوں پر دھکا بکی کے ذریعہ قبضہ جمانے کی ایسی ویڈیوز وائرل ہوتی ہیں کہ سر شرم سے جھک جاتا ہے۔ اب ایسا بھی نہیں کہ ہم بیحد مصروف قوم ہیں اور ہمارا ایک ایک لمحہ قیمتی ہے۔ دعوت کے بعد یہی لوگ پان کی دوکان پر ایک ایک گھنٹہ دانتوں میں خلال کرتے کھڑے نظر آتے ہیں۔ خیر یہ تو ایک جملہِ معترضہ تھا۔ آمدم بر سرِ مطلب ! ہمیں یہ جان لینا اور تسلیم کر لینا چاہئے کہ کامیابی کا ایک مخصوس راستہ ہے اور یہ آسان راستہ نہیں ہے۔ آسانیاں اور کامیابیاں دو متضاد چیزیں ہیں۔ بقول خود کیارولی، ’’زندگی میں یہ اہم نہیں کہ آپ کتنے زور کا دھکا لگاتے ہیں، بلکہ یہ ہے کہ آپ کتنے دھکے برداشت کر سکتے ہیں اور ا نھیں سہہ کر آگے بڑ سکتے ہیں‘‘۔

کامیابی انہی کے قدم چومتی ہے جنھیں اپنے مقصد سے عشق کی حد تک شوق و لگن ہوتی ہے۔پہلا گولڈ میڈل جیتنے کے بعد کیارولی رک نہیں گئے اگرچہ کہ مقصد حاصل ہو چکا تھا۔ دوسرا میڈل بھی جیتا اور آپ کو یہ جان کر یقیناًحیرت انگیز مسرت ہونگی کہ۱۹۵۶ کے اولمپک میں تیسری بار بھی شرکت کی اور کانسہ کا میڈل حاصل کیا۔ یہی وہ جذبہ اور شوق ہے جسے جلیل مانک پوری نے محبوب کے حوالہ سے یوں سراہا ہے کہ :

کمالِ عشق تو دیکھو، وہ آ گئے لیکن
وہی ہے شوق، وہی انتظار باقی ہے

تبصرے بند ہیں۔