افتخار راغبؔ
کوئی اُس سے نہ وہ کسی سے ملے
روشنی کیسے تیرگی سے ملے
.
دور ہی سے سلام ہے اُس کو
پاس آکر جو بے دلی سے ملے
.
کھول کر چشم تیرگی دیکھی
موند کر آنکھ روشنی سے ملے
.
موت چارہ گری کو آ پہنچی
اِس قدر زخم زندگی سے ملے
.
حدِّ امکاں سے ہے پرے اے دل
کیا کوئی تیری بے کلی سے ملے
.
علم والوں کو علم ہے راغبؔ
دولتِ جہل آگہی سے ملے
تبصرے بند ہیں۔