کورونا سے عبرت

ڈاکٹر ابو زاہد شاہ سید وحید اللہ حسینی

        مولانا ڈاکٹر ابو زاہد شاہ سید وحید اللہ حسینی القادری الملتانی (کامل الحدیث جامعہ نظامیہ) خلیفہ و جانشین دوم حضرت ابو العارف شاہ سید شفیع اللہ حسینی القادری الملتانیؒ (سابق سجادہ نشین درگاہ امام پورہ شریف حیدرآباد) و جنرل سکریٹری مرکزی مجلس فیضان ملتانیہ نے اپنے ایک بیان میں کہا کہ تمام کامیابیاں و شکستیں اور نعمتیں اور مصائب سب کچھ اللہ کی طرف سے ہیں۔ جب انسان کامیابی اور نعائم پر غرور کرتا ہے یا ان کا غلط استعمال کرتا ہے تو یہ کامیابی اور عنایتیں اس کے حق میں باعث عذاب بن جاتے ہیں اس کے برعکس جو بندہ مومن ناکامی، آسمان سے نازل ہونے والے مصائب و بلائیات، زمین میں پھوٹ پڑنی والی وبائوں پر صبر کرتا ہے اور حالات سے گھبرانے کے بجائے اِن بیدار کرنے والے عوامل سے نصیحت و عبرت حاصل کرتا ہے، اپنے ذنوب و اوزار سے توبہ کرتا ہے اور اپنے کردار کو بدلنے کی کوشش کرتا ہے تو دنیا کے مسائل و مشاکل اس کے حق میں نعمت بن جاتے ہیں۔ حضرت مولانا جلال الدین رومیؒ فرماتے ہیں اللہ تعالی کی طرف سے مصائب تنبیہ کے لیے آتے ہیں یہ عین رحمت ہوتے ہیں تاکہ تجھے غفلت سے بیداری حاصل ہو۔ بندہ مومن یہ بات اچھی طرح جانتا ہے کہ اللہ تعالی کے نیک بخت بندے وہی ہوتے جو شدت رنج و الم، غم و اندوہ، خشک سالی و بیماری، حوادثات و مشکلات اور شدائد کے ظہور کے وقت اللہ کی طرف متوجہ اور بے راہ روی و گمراہی دلدل سے نکل کر راہ راست و صراط مستقیم کی طرف پلٹ جاتے ہیں۔

 افسوس صد افسوس کہ کورونا وائرس نے پوری دنیا میں تباہی مچادی ہے کئی لوگ زندگی اور موت کی کشمکش میں مبتلا ہیں،  کئی لوگ اس دنیا سے رخصت ہوگیے ہیں،  تقریباً ہر روزانسان کو موت نہیں بلکہ اموات کی خبریں مل رہی ہیں لیکن اس کے باوجود بہت سارے لوگ ایسے ہیں جو اب بھی دھوکہ دینے،  ظلم کرنے، جھو ٹ بولنے، خیانت کرنے، غلط طریقہ سے پیسہ کمانے وغیرہ میں مصروف ہیں اس کا صاف مطلب یہی ہے کہ کورونا وائرس کی وبا سے برپا ہونے والے مصائب سے انسان نے کوئی نصیحت حاصل نہیں کی چونکہ وہ خواب غفلت کی نیند سویا ہوا ہے لیکن یہ روش مومن کی نہیں ہوسکتی چونکہ حقیقی مومن وہی ہے جومشاکل و مصائب سے ڈرنے کے بجائے ان سے عبرت حاصل کرتا ہے جس کا اظہار اس کے کردار میں تبدیلی سے ظاہر ہوتا ہے۔

آج پوری دنیا کورونا وباء سے خائف ہے لیکن مسلمان سوائے اپنے خالق کے کسی مخلوق سے نہیں ڈرتا چونکہ کورونا وباء بھی مخلوق ہے اس لیے اس وبا سے ڈرنے کے بجائے بندہ مومن ان تباہ کن حالات سے عبرت حاصل کرتا ہے اور اسلامی تعلیمات کے مطابق احتیاطی تدابیر اختیار کرتے ہوئے اپنے کردار کو سنوارنے پر زیادہ توجہ مرکوز کرتا ہے نتیجتاً وہ برائیوں سے تائب ہوکرنیکیوں کی طرف مائل ہوجاتا ہے۔ کورونا وائرس کی مہلک وبا پھوٹنے کے باوجود اگر کسی مسلمان کے کردار میں تبدیلی نہیں آئی ہے تو سمجھ لیں ہمارا ایمان بہت کمزور ہوچکا ہے تب ہی تو ہم ایسے نازک حالات میں بھی اللہ اور اس کے حبیبؐ کی اطاعت و فرمانبرادی کرنے کے بجائے اپنے نفسیانی خواہشات کی تکمیل میں ترجیح دے رہے ہیں۔ جو لوگ اپنی زندگی کا بڑا حصہ اللہ کی نافرمانی میں گزارے ہیں وہ اپنی زندگی کا جائزہ لیں کہ انہیں اس بے راہ روی سے کیا حاصل ہوا تو انہیں پتہ چلے گا کہ سوائے ذہنی تنائو، قلبی اضطراب، روحانی انحطاط اور دنیا کی موقتی خوشحالی کے علاوہ انہیں کچھ حاصل نہیں ہوا۔

دنیا میں جو تباہیاں و بربادیاں آرہی ہیں اس کی اہم وجہ ہماری بداعمالیاں ہیں لہٰذا کورونا جیسی موذی وبا سے چھٹکارا پانے کے لیے ضروری ہے کہ ہم بداعمالیوں کو ترک کریں اور اللہ اور اس کے رسول کے مطیع و فرمانبردار بن جائیں۔ ہمارے اسلاف و بزرگان دین کی زندگیوں کا مطالعہ کرتے ہیں تو پتہ چلتا ہے کہ ان کے لیے نوافل کو ترک کرنا بھی بارگراں تھا تو دوسری طرف ہم ہیں جنہیں فرائض و واجبات کے چھوٹنے پر کوئی ملال نہیں ہوتا اور نہ ہی پیشانی پر شکن آتی ہے۔ بندہ مومن کے لیے کسی بھی لحاظ سے مناسب نہیں کہ وہ ناپائیدار سرور و نشاط کے حصول کے لیے نفس کی مکاریوں، شیطان کی عیاریوں اور دنیا کی جمال پرستی، زینتوں اور لذتوں کے دام فریب میں پھنس کر اس رب کریم سے غافل ہوجائے، اس کے احکامات سے روگردانی کرے اور ان کی انجام دہی میں قصور و کوتاہی کا ارتکاب کرے جس نے اپنے تقاضائے لطف و عنایت اور رحمت و رافت سے بغیر کسی طلب و عوض کے انسان کے عناصر ترکیبی میں تسویہ و تنظیم اور اعتدال و ہم آہنگیکو ملحوظ رکھا،  ماں کے پیٹ میں اسے معتدل و مناسب ڈھانچے والا بنایا، انسان کو گوناگوں مادی و معنوی نعائم و نوازشات سے سرفراز کیا (جس کو شمار کرنا بھی اس کے لیے محال ہے) اور زیبائی و خوبصورتی کے ساتھ فطری بیداری والی سیرت بھی عطا کی جو اسے دیگر خلائق سے ممتاز کرتی ہے۔

 اگر ہم اپنے جسم ہی پر غور کرلیں تو ہمیں اندازہ ہوجائے گا کہ ہمارے رب نے ہمیں کس قدر عظیم اور بے بدل نعمتوں سے سرفراز کیا ہے۔ اگر ہم سر کے بال کی قدر و قیمت جاننا چاہتے ہوں تو ان لوگوں سے دریافت کریں جو گنج پن کا شکار ہیں یا جو بال گرنے کے باعث ذہنی تنائو کا شکار ہیں،  یا جو گنجا پن دور کرنے کے لیے مصنوعی بالوں (wig) کا استعمال کرتے ہیں یا چہرے کی خوبصورتی میں اضافہ کرنے کے لیے ہزاروں روپیہ لگاکر اپنے ہی بالوں کی پیوندکاری (ہیر ٹرانسپلانٹ ) کرواتے ہیں۔ واضح باد کہ بالوں کی پیوندکاری سے متعلق شرعی حکم یہ ہے کہ اگر انسان اپنے ہی جسم کے بال اور کھال سے پیوندکاری کروا رہا ہے تو ہیر ٹرانسپلانٹ کی اس نئی ٹکنیک کا استعمال کرنا اس کے لیے جائز ہے ورنہ نہیں۔ اسی طرح ہمارے جسم میں قدرتی طور پر بننے والے خون کی قدر و قیمت ان لوگوں سے پوچھیں جو خون میں آئرن کی کمی، گردوں کی خرابی، سوزش کی وجہ سے ہیموگلوبن کی کمی یعنی Anemia کے عارضے کا شکار ہوجاتے ہیں۔ امراض خون کے ماہرین کے مطابق انیمیا کی بعض اقسام میں خون کا بدلائو ضروری ہوجاتا ہے۔ جسم میں توازن کے ساتھ بننے والے خون کی اہمیت کا اندازہ ان لوگوں سے لگائیں جن کے خون میں خلیات ابیض بہت زیادہ بننے شروع ہوجاتے ہیں جس کے باعث وہ بلڈ کینسر میں مبتلا ہوجاتے ہیں۔

اکثر مشاہدہ میں آتا ہے کہ اس عارضہ میں مبتلا لوگ علاج و معالجہ کروانے کے باوجودزیادہ عرصہ زندہ نہیں رہ پاتے۔ آنکھوں کی بینائی کی کیا اہمیت ہے ان لوگوں سے پوچھیں جو جسم کی مختلف کمزوریوں،  فضائی آلودگی، مسلسل خارش، کالا موتیا، قرنیہ کے دھندلے پن، آنکھوں کے دیگر سنگین امراض یا ناگہانی حادثات کی وجہ سے بینائی سے محروم ہوچکے ہوں اور تاریکی ان کا مقدر بن چکا ہو۔ بندہ مومن کے لیے مذکورہ بالا تین امثلہ کافی ہے چونکہ وہ خدا کی عطا کردہ عظیم دولت ’’عقل‘‘ کا استعمال کرتے ہوئے اشارے ہی سے بات کی تہہ تک پہنچ کر نتیجہ اخذ کرلیتا ہے۔ اسی لیے صرف تین مثالوں پر اکتفا کیا جاتا ہے ورنہ قرآن مجید کے مطابق رب کریم کی الطاف و عنایاتیں اپنے بندوں پر اس قدر ہیں کہ وہ اس کو شمار بھی نہیں کرسکتا۔ ان حقائق کو جاننے کے باوجود مسلمانوں کی اکثریت ایسی ہے جس پر رب کی اطاعت و فرمانبرداری بارِ گراں گزرتی ہے۔ اسی لیے وہ نت نئے بہانوں اور حیلوں سے الٰہی احکامات سے بغاوت و روگردانی کرتے رہتے ہیں اور شتر بے مہار بن کر زندگی کی موقتی خوشیاں حاصل کرنے کے لیے آخرت کی ہولناکیوں کو یکسر فراموش کردیتے ہیں۔ کتنے لوگ ایسے ہیں جنہوں نے دنیا میں عیش و عشرت کی زندگی گزارنے کی خاطر حدود الٰہیہ کو پاپال کیا تھا لیکن جب کورونا کی وبا پھوٹی تو ان میں بہت سارے لوگ ایسے ہیں جن کی جمع کردہ پونجی علاج و معالجہ کی نظر ہوگئی ان میں بہت سارے لوگ ایسے بھی ہیں جنہوں نے بہت ناجائز طریقوں سے کافی دولت اکٹھا کرلی تھی لیکن اس موذی مرض نے ان لوگوں کو لقمہ اجل بنادیا اور وہ پوری دولت یہیں پر چھوڑ کر خالی ہاتھ اس دنیا سے رخصت ہوگئے۔ کورونا وبا سے واقع ہونے والے ان عبرت ناک حوادثات و واقعات کا مشاہدہ کرنے کے بعد مسلمانوں پر لازم ہے کہ جرأت و احساس برتری میں مبتلا کرنے والی غفلت کی بیماری کا عزم مصمم کی دوا سے علاج کریں اور رجوع الی اللہ ہوتے ہوئے زندگی کے ہر معاملے میں رب کائنات اور اس کے حبیبؐ کے مطیع و فرمانبردار بن جائیں چونکہ اسی میں دنیا و آخرت کی حقیقی خوشحالی اور سلامتی مضمر ہے۔

آخر میں اللہ تعالی سے دعا ہے کہ بطفیل نعلین پاک مصطفیﷺ ہمیں قرآن اور صاحب قرآن ﷺ کی تعلیمات کے مزاج کو سمجھنے اور اس کے مطابق عمل کرنے کی توفیق رفیق عطا فرمائیں۔ آمین ثم آمین بجاہ سید المرسلین طہ و یسین۔

تبصرے بند ہیں۔