کون کر رہا شام کی سرپرستی؟

ڈاکٹر ظفردارک قاسمی

 اسوقت  مشرق وسطی خصوصا شام عراق اور افغانستان میں انسانیت کے خون سے ہولی کھیلی جارہی ہے؛ عزتوں کو رسواکیا جارہا ہے سماج میں افرا تفری کا ماحول بپا ہے حد تویہ ہے کہ کلمہ گو ایک دوسرے کے خون کے پیاسے ہیں 57 مسلم.ممالک میں اتنی طاقت و قوت نہیں کہ وہ اس تباہی سے امت کوبچانے کی اجتماعی منصوبہ بندی کر سکیں – ان کی اس بیزاری اور عدم دلچسپی کو تاریخ کے اوراق کبھی نہیں بھلائنگے- اگر ہم شام کی صورتحال پر نظر ڈالیں تو اندازہوگا کہ وہاں جو کچھ ہورہا ہے اس سے انسانیت سسک رہی ہے اور شیطنت محو رقص ہے اس جنگ کے سیاسی اغرا ض و مقاصد جو بھی ہوں لیکن اس بات سے قطعی انکار نیں کیا جا سکتا ہے کہ اس میں خون شام کے معصو م اور بے گناہوں کا بہایا جا رہا ہے- افسوس اس بات کا ہے کہ مرنے والوں میں ان گنت تعداد معصوم بچوں کی ہے  جو انتہائ نا زیبا حرکت ہے اس کی جتنی مذمت کیجائے وہ کم ہے –

اس وقت جہاں تباہی زیادہ مچائ جا ری ہے وہ شام کا شہر غوطہ ہے جس کا روس اور بشار الاسد کی فوج نے گزشتہ 7 ِماہ سے محاصرہ کر رکھا   ہے اگر اس کے عواقب پر نظر ڈالیں تو انداز ہو گ عالم عرب کے موجودہ حالات بتا رے ہیں کہ یہ درندگی اور بہیمت صرف اور صرف تیل کی دولت کے لئے مچی ہے جو دولت عرب حکمرانو ں کی آشائش او آرام طلبی کا ذریعہ تھی وہ اب انکے لئے عذاب بنتی جا رہی دلچسپ المیہ یہ ہیکہ عربوں کی اس دولت پر قابض ہونے کے لئے سپر پاور طاقتوں میں ہوڑ کا سماں بنا ہوا ہے- ادھر اس حقیقت سے بھی انکار نہیں کیا جا سکتا ہے سازش رچا کر اسی پیٹرول کے ذخیرہ کے لئے عراق کی اینٹ سے اینٹ بجادی پھر دہشت گردی کے نام پر افغانستان کو تہس نہس کرڈالا اور اب شام میں لاکھوں انسانوں کا قتل کر ڈالا ہے یہاں یہ عرض کرنا مناسب معلوم.ہوتا ہے کہ شام در اصل امریکہ اور روس کےبیچ جاری اختلاف کا بڑی تیزی سے شکار ہے – یوں تو کہا جا تاہے کہ سرد جنگ 1991سوویت یونین کے منتشر ہونے کے بعد ختم.ہوگئی تھی مگر حقیقت یہ ہیکہ آج بھی جاری و ساری ہے-  اسی پر بس نہیں بلکہ سر زمین شام کی صورت حال دن بدن تشویشناک حد تک خراب ہوتی نظرآرہی ہے جس کی بناء پر یہ  ایک عالمی مسئلہ کی شکل اختیار کر چکا ہے- نیز اب یہ عظیم طاقتوں کی اَنا کی بھینٹ چڑھ گیا ہے۔ جس کی  وجہ سے فوری اس کا حل ممکن نہیں ہے- اگر ہم اس کے پس پردہ نظر ڈالیں تو اندازہ ہو گا کہ اس کی جڑیں spring revolution سے  ہم آہنگ نظر آتی ہیں کیونکہ اس انقلاب نے  بہت سے آمروں کو چلتا کردیا تھا اور اس کی وجہ یہ تھی کہ 17 دسمبر 2010 کو تیونس میں ایک بے روزگار شخص البو عزیزی نے خود کشی کی ناکام سعی کی تھی ؛ اس وقت کسی کو یہ اندازہ نہیں تھا کہ چھوٹا سا واقعہ پورے مشرق وسطی کے حالات کا رخ تبدیل کردے گا – شام کے موجودہ حالات کو شاید اسی لئے نظر انداز کیا جا رہا ہے کہ شام چھوٹا سا ملک ہے مگر اس بات کو نہیں بھولنا چاہئے کہ شام کا مسئلہ اب انسانیت کا مسئلہ بن چکا ہے؛  اس لئے شام میں امن بحال کرنے کے لئے مناسب قدم نہیں اٹھایا جا تا ہے تو خدشہ اس بات کا ہے کہ شام کی جھلستی آگ میں مفاد پرست طاقتیں اپنی سیاسی بازیافت کی جستجو میں لگ جائینگی اور پھر ان کے لئے انسانیت کا خون بہانا مزید آسان ہونے کا خوف ہے- اگر عرب انقلاب کی تاریخ پر نظر ڈالیں تو معلوم.ہوگا کہ تیونس کے اس انقلاب نے جہاں عرب دنیامیں کئی دہائیوں سے بیٹھے حکمرانوں کو چلتا کیا وہیں پر یہ شام میں ایک خونریز جنگ کا پیش خیمہ ثابت ہوا۔ یہاں یہ بتانا بھی ضروری.معلوم ہوتا ہے کہ2011 کے شروع میں جو تحریکیں  حقوق اور جمہوری نظام کے حق میں وجود میں آئیں اسی طرح جہاں جہاں   جلوس اور ریلیاں نکالی گئیں وہ اس وقت ایک منظم اور باقاعدہ جنگ کی صورت اختیار کر چکی ہیں جو کہ اقوام متحدہ کے کردار اور فعال ہونے پر ایک سوالیہ نشان ہیں۔

ادھر روسی صدر پیوٹن کے اس   فیصلہ نے کہ وہ ہر قیمت پر بشارالاسداور اس کی حکومت کا دفاع کریں گے  شام کے حالات کو مزید ابتر بنادیا ہے بلکہ یہ کہا جائے تو مبالغہ نہ ہو گا کہ شام کی حالت کوریا اور ویت نام جیسی ہو چکی ہے۔ مگر یہ بات قابلِ دید ہے کہ پیوٹن کا یہ فیصلہ ایک عمل نہیں بلکہ شام کے لئے امریکی خارجہ پالیسی کا ردِ عمل ہے۔ یہ روسی صدر کا ایک مصمم اور غیر متزلزل ارادہ ہے کہ مغربی ممالک کی تمام تر مخالفت کے باوجود وہ شامی صدر کی مکمل حمایت جاری رکھے ہوئے ہیں ۔ لیکن اپنی تمام تر کو ششوں کے با وجودروس کے حمایت یافتہ بشا ر الاسد شام کے صرف پچیس فیصدحصے پر کنٹرول برقرار رکھ سکے ہیں ۔ شامی صدر کو روس کے علاوہ ایران، عراق اور حزب اللہ کی حمایت بھی حاصل ہے۔

امریکہ ماہر سیاسیاتFrancis Fukuyamaنے اپنی مشہور کتابThe End of History میں بڑی عجیب و غریب بات لکھی ہے ان کا ماننا ہے کہ  اب امریکی طاقت کی بدولت جنگ ہونا نہایت مشکل اور ناممکن ہے۔ اس کتاب کے جواب میں امریکہ کے دوسرے ماہر سیاست پروفیسرSamuel Huntington نے اپنی کتابThe Clash of Civilizations  پیش کی اور اس بات کا  خدشہ ظاہر کیا کہ آئندہ ہونے والی جنگیں نسل اور تہذیب کی بنیا د پر لڑی جائیں گی۔ مگر شام کے موجودہ  گھمبیر حالات اور روسی صدر پیوٹن کے عزم نے ان دونوں حضرات کے سیاسی نظریات اور تھیوری کو غلط ثابت کرنے کی کوشش کی ہے۔

 یہ جاننا بھی ضروری ہے امریکی وزیر خارجہ جان کیری  نےکچھ عر صہ قبل جو منصوبہ پیش کیا ہےوہ انتہائ قابل غور ہے  کہ انہوں نے  ا س کے تحت امریکہ نے شام کی خود مختار ریاست کو تین حصوں میں تقسیم کرنے کا خاکہ پیش کیا۔ یہ بات حیران کن ہے کہ جان کیری نے اپنے روسی ہم منصبSergey Lavrov  سے کئی ملاقاتیں کیں جن کی بنیا دی وجہ شاید شام میں امریکی آپریشنل اور اسٹریٹجک کمزوریاں ہیں۔

یہ بات نہایت اہمیت کی حامل ہے کہ سیز فائر کے بعد17ستمبر 2016کو امریکہ نے شامی افواج پر دیر الزور کے مقام پر ایک شدید فضائی حملہ کیا جس میں تقریباً62شامی فوجی ہلاک ہو گئے۔ اس حملے نے نہ صرف شامی فوج کو نقصان پہنچایا بلکہ داعش کے جنگجوؤ ں کے لئے راستہ بھی ہموار کیا۔ یہ کیا ماجراہے کہ اگر ہم اُس وقت کی امریکی وزیر خارجہ ہیلری کلنٹن کے2009-13کے بیانات کو دیکھیں تو وہ صاف طور پر یہ کہتی ہوئی نظر آتی ہیں کہ ہم جنگجوؤں کو اسلحہ اور تربیت فراہم کر رہے ہیں تاکہ وہ بشارالاسد کے بے رحمانہ اور مطلق العنان نظامِ حکومت کے خلاف لڑ سکیں۔ اگروکی لیکس کی رپورٹ اور تحقیقات کا جائزہ لیں تو اندازہ ہو گا کہ ہیلری کلنٹن نے  دوہرےرویہ اختیا ر کیا تھا جس کی شہادت اور رونمائ وکی.لیکس نے کردی  اسی طرح ان تمام   خفیہ دستاویزات کو عام کر دیا جن میں داعش کو اسلحے کی فراہمی اور تربیت سے متعلق معلوما ت تھیں ۔ بلکہ بعض  عالمی ماہرین  کا ماننا ہے  کہ بدنامِ زمانہ گوانتاناموبے جیل سے بیشتر قیدیوں کو خفیہ طور پر رہا کرایا گیا اور ان کو داعش جیسی انسانیت دشمن اور جنگجو تنظیم میں شامل.کیا گیا  اب وہی امریکی تربیت یافتہ جنگجو شام میں فساد کا باعث بن رہے ہیں اور آتش و آہن کاکھیل کھیل رہے ہیں جس سے  اب تک ہزاروں افراد موت کی نیند سو چکے ہیں انسانیت کے ان دشمنوں کو قطعی اس بات کا احساس نہیں ہے کہ جن نہتوں کو ہم اپنی شیطانی ہوس کا شکار بنا رہے ہیں کل.قیات میں ان کے متعلق سخت مواخذہ کیا جائے گا۔

 اس صداقت سے روگردانی نہیں کیجا سکتی ہے کہ  سُپر پاور۔ امریکہ نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادکے برعکس اور اجازت کے بغیر 2003میں عراق پر حملہ کیا اور ھر وہاں جو کچھ ہو وہ کسی کی نظروں سے مخفی نہہں ہے ان گنت افراد کو تختئہ مشق بنادیا گیا اور یہ ابھی تک  جاری ہے جو اس بات کا واضح ثبوت ہیکہ امریکہ کے اشارہ پر اس وقت دنیا میں تباہی مچی ہوئ ہے۔ اس وقت یہ خیال کیا جا رہا تھا   کہ امریکہ ایک بار پھر شام میں عراق والی مثال دہرائے گا اور بشار الاسد کو صدام حسین کی طرح تختہ دار پر لٹکائے گا۔ تاہم امریکہ ایسا کرنے سے فی الحال  باز نظر آرہا ہے۔

 قارئین کو یا د ہو گا جولائی 2016میں ترکی میں ں ہونے والی فوجی بغاوت‘ روس اور ترکی کو بہت قریب لے آئی تھی۔ وہیں یہ بھی یاد ہو گا  کہ نومبر 2015میں ترک فضائیہ نے روسی فضائیہ کا ایک لڑاکا طیارہ فضائی حدود کی خلاف ورزی پر مار گرایا تھا جس کی وجہ سے دونوں ممالک میں شدید تناؤ پیدا ہو گیا  یہ الگ مسئلہ ہے کہ  اس واقعے کے پیچھے سر پرستی  نیٹو اور امریکہ کی تھی یا نہیں ؟ البتہ یہ حقیقت اٹل ہے کہ   اُس وقت روسی فضائیہ امریکہ نواز باغیوں پر کاری ضرب لگانے میں مصروف عمل ضرور تھا۔  اس وقت تمام  عالمی ملی سیاسی اور سماجی اداروں کا متحدہ مقصد ہونا چاہئے کہ داعش اور اس جیسی سفاک تنظیموں کا مل کر خاتمہ کیا جائے تاکہ روئے زمین پر انسان دوستی کی روایت فروغ پا سکے اور دنیا میں امن وامان کی فضا ہموار ہو   کیونکہ آج کی یہ سب سے بنیادی ضرورت ہے دنیا کا ہر شخص اس وقت شانتی محبت اور پیار کا متلاشی ہے -اسی وجہ سے  امریکی صحافیDavid Swanson نے فروری 2016میں اپنے آرٹیکل میں اس بات کی چنتا  ظاہر کی ہے کہ  شام میں سیزفائر امن کے لئے نہیں بلکہ دونوں اطراف اس کو اپنے اپنے حامی متحارب گروپوں کو اسلحہ اور دیگر چیزیں فراہم کر نے کے لئے استعمال کرتی ہیں۔

اگر ہم شام میں ہونے والے تمام قتل و غارت گری سے قطعِ نظر اس معاملے کو عالمی سیاست کے تناظر میں دیکھیں تو ہم یہ بات ماننے پر مجبور ہو جائیں گے کہ یہ صورتِ حال صدر پیوٹن کی ایک عظیم سیاسی، سفارتی اور فوجی فتح ہے۔ روسی افواج شام میں اپنے تمام جدید ترین اسلحے کو استعمال کر رہی ہیں اور اس کی آپریشنل استعدادِ کار کو پرکھ رہی ہیں ۔اسلئے ضروری ہے کہ بشار الاسد کو روس کی پالیسی پر گہرائ سے نظر رکھنے کی ضرورت کیونکہ ان کی نادانی کی وجہ سے لاکھوں افراد لقمئہ اجل بن چکے ہیں  حلب دمشق اور غوطہ کی سرزمین انسانی خون سے سرخ ہوچکی معصوموں بوڑھوں اور جوانوں کو بے رحمی سے قتل کیا گیا ہے حیرت اس بات کی ہے کہ درندگی ارو بہیمت کا یہ سلسلہ رکنے کا نام نہیں لے رہا ہے آخر عالم عرب کے نام نہاد رہنمائوں  کے قلوب میں کب انسانی ہمدردی کا احساس جاگے گا اس وقت شام میں جو ہو رہا ہے وہ اس بات کی بین دلیل ہے ہیکہ انسانی حقوق کے ادارے فعال اور متحرک ہونے کے باوجود شام میں نا کا م نظر آ رہے ہیں اس سے یہ اندازہ لگانا چنداں مشکل نہیں ہے شام میں انسانیت کا قتل سوچی سمجھی سازش کے تحت کرایا جا رہا ہے – ذاتی مفاد اور حکومت کے نشہ کی زد  میں صرف عوام اپنی جان گنوا رہی ہے حلب کی لڑائ کے دوران  ایک دلچسپ واقعہ دیکھنے میں آیا جب امریکہ نواز شامی باغیوں نے ایک امریکی ساختہ اینٹی ٹینک میزائل سے روسی ساختہ جدید ترین ٹی – 90ٹینک کو نشانہ بنایا۔اس سے یہ بات بالکل واضح ہو جاتی    ہے کہ شام کی لڑائی متحارب گروہوں کی نہیں بلکہ امریکہ اور روس کے درمیان ہے جو اپنی انا کے تحت شام کی عوام کو بھینٹ چڑھا رہے ہیں۔ وہیں اس سے یہ اندازہ بھی بحسن خوبی لگایا جا سکتا ہے جو ملک اپنے آپ کو ترقی یافتہ کہتا ہے اور جدید ٹیکنالوجی کا سردار جانا جاتا ہے وہ روسی ٹینک تباہ کرنے میں ناکام رہا اور ٹینک کا عملہ بھی محفوظ رہا۔ اس واقعے نے امریکی میزائل اور ٹیکنالوجی کو شک کے دائرے میں لا کھڑا کیا ہے نیز وہان کی  اسلحہ سازکمپنی بھی کشمکش میں مبتلا  ہے۔ الجزیرہ کی ایک رپورٹ کے مطابق شام کی لڑائی رُوس کے جدید ترین اسلحے کے لئے ایک شو روم کی حیثیت اختیار کر چکی ہے اور اس کے ہتھیاروں کی برآمدات ریکارڈ 56بلین ڈالر کی حد تک پہنچ چکی ہے۔

یہ کہنا غلط نہیں ہو گا کہ ہم ایک نیو کولڈ وارکے دور سے گزر رہے ہیں ۔ جہاں امریکہ اور روس جیسی عالمی طاقتیں ایک دوسرے کے خلاف برسرِپیکار ہیں اور ایک دوسرے کواور شاید پوری دنیا کو داعش اور القاعدہ جیسے دہشت گرد گروپوں کو تیار کر کے اسلام کو بدنام کر نے سازش رچی گئی ہے- کیونکہ اسلام کی تعلیمات انسانی اقدار اور انکی بقاء وتحفظ کے منافی نہیں ہیں ؛  اسلام.فوبیا کا بہانہ بناکر مغرب نے  بڑی ہوشیاری سے پوری دنیا کے سامنے اسلام اور مسلمانوں کو مشکوک بنا ڈالا ہے جس کا نقصان دنیا میں مسلمانوں کو ہو رہا ہے- اسرائیلی طاقتوں کا یہ ہمیشہ سے رویہ رہا ہے کہ وہ ہر غلط بات کو اتنی مرتبہ دوہراتے ہیں کہ وہ عوام کو سچ لگنے لگتی ہے – اس معاملہ میں ہمارے مسلم ممالک اور مذہبی اسکالرس نے مستعدی سے کام  نہیں لیا جسکی وجہ سے اسلامی تعلیمات کو غلط طریقہ سے پیش کیجارہاہے   اگر ہم آج اسلام کی تعلیمات کو عصری تقاضوں سے ہم آہنگ اور معترضین کے شکوک شبھات کو عقلی طور پر رفع کرتے تو یقینا جو صورت حا اس وقت مسلمانوں کے حوالے سے پوری دنیا میں بنی ہوئ ہے وہ نہیں ہوتی ۔ آج بھی یہ رائے قائم کر نا زیادہ مشکل نہیں ہے کہ شام میں جاری خانہ جنگی کم از کم مزید سات سے آٹھ سال جاری رہے گی۔ کیونکہ اس جنگ میں شامل کوئی بھی فریق عارضی جنگ بندی کے لئے بھی تیا ر نہیں ہے۔ یہ رائے تمام فریقین کے نزدیک ایک حقیقت ہے کہ جنگ بندی یا انسانی ہمدردی کی بنیاد پر کی جانے والی کارروائیاں درحقیقت اُن کے دشمنوں کو مضبوط ہونے کا موقع فراہم کرتی ہیں۔ ان تمام حالات کو اس طرح سے سمجھنے.میں  آسانی ہوگی کہ  Fog of War  کے مطابق جنگ افراد، قوموں اور لیڈروں کے سوچنے اور سمجھنے پر بہت گہرے اثرات مرتب کرتی ہے۔ یہ دُھند نما دُھواں نظر کی حد کو محدود کرنے کے ساتھ ساتھ ایک عجیب سی بد اعتمادی اور غیر یقینی کی کیفیت کو بھی جنم دیتا ہے اور یہ کیفیت فیصلہ سازی کے عمل کو بہت حد تک متا ثر کرتی ہے۔اگر ہم ایک نظر رُوسی اور امریکی (مغربی )میڈیا پر ڈالیں تو ان دونوں کی آپس کی چپقلش اس بات سے ثابت ہو جاتی ہے کہ دونوں ایک دوسرے کے خلاف زہر اُگلنے میں ہمہ وقت مصروف نظر آتے ہیں ۔ امریکی تمام حالات کا ذمہ دار روس اور روسی تمام واقعات کا ٹھیکرامغربی طاقتوں کے سر پھوڑتا ہوا نظر آتا ہے۔ ان سب باتوں کو سننے اور پڑھنے کے بعد  عام قاری کو یہ اندازہ لگانا مشکل ہو جاتا ہے کہ آخر حقیقت کیا ہے۔

امریکہ دنیا میں جمہوریت کے پھیلاؤ اوراظہارِ رائے کی آزادی کا خواہشمند ہے -یہ اصول  امریکی حکومت کوبے حد پسند  ہے کہ وہ اس کی خاطر قوموں کو جنگ کی آگ میں دھکیلنے سے گریز نہیں کرتی۔ برطانوی اور امریکی افواج نے اِسی خواہش پر پہلے صدام حسین کے  عراق کا بیڑہ غرق کیا اور پھر معمر قذافی کے  لیبیا کو آگ اور خون میں نہلا دیا۔ لیبیا اور عراق میں لگنے والی آگ نے پورے مشرقِ وسطیٰ کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے۔ اگر ہم امریکی صحافی   Steven Lee Myers کی کتابThe New Tsar کا مطالعہ کرتے ہیں تو پتہ چلتاہے کہ صدر پیوٹن ایک نیا راز ہیں اور اپنے ملک روس کی عالمی طاقت کو منوانے کے لئے وہ تشدد کا راستہ اپنا رہے ہیں- چنانچہ نتیجتا یہ کہا جا سکتا ہے کہ  امریکہ یا روس دونوں شام کے اندرونی مسئلے کو ایک علاقائی جنگ بنانے کے ذمہ دار ہیں۔ ہاں اس کا ذمہ دار امریکہ کچھ زیادہ ہے کیونکہ اس نے  شام پر عراق کی طرح کا یَک طرفہ حملہ کرنے کا اشارہ 2011میں دے دیا تھا۔ یہ بتانا بھی ضروری معلوم ہوتا ہے کہ مغربی سازش کا شکار سنی اور شیعہ اختلاف ہے کینکہ مغربی طاقتوں نے   شام کے سیاسی مسئلے کو سُنی اور شیعہ کے درمیان پیش کرنے کی کوشش کی ہے   جس کی وجہ  سعودی عرب اور ایران آمنے سامنے نظر آتے ہیں کینکہ مغرب کا اصول ہے پھوٹ ڈالو اور راج کرو سعودی اور ایران کے اختلاف سے جو نقصان امت کا ہو گا اس کا اندازہ شاید ان ملکوں کے سربراہان کو بھی نہیں ہو گا اس لئے مغرب کی اس پالیسی کو سنجیدگی سے لینے کی ضرورت ہے جبکہ تمام عالم عرب کو متحد ہوکر اپنے دشمنوں کا مقبلہ کرنا چاہئے تاکہ کو ئ طاقت ان کی جرات کو نا للکار سکے-

 شام میں امن فوج کی سر براہی کرے اور قیامِ امن کے فوری بعد ملک میں عالمی برادری کے مبصرین کی نگرانی میں آزاد اور شفاف الیکشن کرائے جائیں تا کہ شامی عوام اپنے حکمرانوں کا انتخاب خود کر سکیں ۔ روس اور امریکہ چاہے کتنے ہی مذاکرات کر لیں مگر شاید مزید پانچ سال بھی شام کے مسئلے کا حل نہ ڈھونڈ پائیں گے۔ شاید یہ بات بہت سے لوگ اور نا قابلِ عمل خیال تصور کریں۔ مگر تقریباً چھ سال کی خانہ جنگی، پانچ لاکھ سے زائد لوگوں کی ہلاکت، اربوں ڈالر کے انفراسٹرکچرکی تباہی اور لاکھوں انسانوں کی ہجرت اور سب سے بڑی بات کہ سپر طاقتوں اور علاقائی طاقتوں کی باہمی چپقلش   سے انسانی رشتوں کو مخدوش مجروح کیا جا رہا ہے – تصور کیجئے شام کی ایک بچی یہ کہتے ہوئے جاں بحق ہو گئی کہ میں اللہ کو سب بتادونگی اسے کیا پتہ کہ اللہ شام کے حالات سے بے خبر نہیں ہے – شام میں بد امنی پھیلانے لوگ   اللہ  کے انصاف سے با خبر نہیں ہیں-

 آخر میں یہ عرض کرنا ضروری.معلوم ہو تا ہےکہ ملک شام.میں جہاں بشارالاسد کئی برسوں سے حکومت پر قابض ہیں گزشتہ کئی برسوں سے یہاں خانہ جنگی ہو رہی ہے گزشتہ سال حلب کو جہنم بنادیا گیا اور شہر غوطہ روسی میزائلوں کی زد میں بری طرح آگیا ہے جہاں دن رات انسانوں کے خون سے ہولی.کھیلی جا رہی ہے- افسوس اس بات کا ہے کہ اس بار نشانہ عوام کے ساتھ اسپتا ل بھی رہے جو انتھائ شرمناک حرکت ہے ظلم بالائے ظلم یہ کہ کسی بھی.ملک کی امدادی ٹیم کو وہا ں  داخل نہیں ہونے دیا گیا   اور اس بار حملوں میں جدید آلات کا استعمال کیا گیا تھا مجھے امریکی وزیر خارجہ ریکس ٹلرسن کے وہ الفاظ یاد ہیں کہ انہوں نے کہا تھا کہ بشارالاسد کی حکومت اپنے ہی عوام کے خلاف کیمیائ ہتھیار وں کا استعمال کرعہی ہے ان کا یہ بھی کہنا پے کہ مشرقی غوطہ میں ہونے والی ہلاکتوں کے ذمہ دار روس ہے حملہ چاہے کسی نے بھی کئے ہوں لیکن جب سے روس ملوث ہو اہے شام بے شمار لوگوں کو زمیں بوس کردیا گیا ہے – شام کی تباہی میں روس کا ہاتھ ہو یا امریکہ کا مجرم دونوں برابر ہیں اس لئے انصاف پسند افراد پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہیکہ شام کے حالیہ تنازع کو فوری طور پر حل.کیا جائے تاکہ وہاں جلد از جلد امن کی فضا ہموار ہو سکے۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔