کوّا بنا استاد

اختر سلطان اصلاحی

چچاجان کو اچھوتی اور انوکھی کہانیاں کہنے کا بڑا ڈھنگ ہے اسی لئے جب وہ دہلی سے آتے ہیں بچے ان کے آگے پیچھے لگے رہتے ہیں۔ وہ بھی بچوں کا مطلب خوب سمجھتے ہیں، آج عشاء کے بعد عدی اور اُسید نے کہا ’’چچا آج ہم آپ سے ایک ایسی کہانی سننا چاہتے ہیں جو سچی بھی ہو اور مزیدار بھی ، اور جانوروں کی ہو‘‘ ندا نے لقمہ دیا۔
چچا جان بچوں کی بات سن کر مسکرائے اور بولے کہانی میں ضرور سناؤں گا مگر پہلے ایک سوال کا جواب دو۔ آج صبح میں کتنے لوگوں نے تلاوت کی ہے ؟
’’ہم نے ہم نے ‘‘ تمام بچے ایک ساتھ بول پڑے۔ اب یہ بتائیے کن سورتوں کی ؟ ’’چچا ہم نے عم پارہ پڑھا‘‘ اُسید بولا۔ ’’میں نے سورہ رحمن پڑھی ہے‘‘ عدی بولا ’’اورمیں نے سورہ مائدہ کی تلاوت کی ‘‘فاطمہ بولی ۔ماشاء اللہ ، ماشاء اللہ ہمارے گھر کے سب بچے تلاوت کرتے ہیں، مگر فاطمہ یہ تو بتاؤ آج تم نے سورہ مائدہ کی تلاوت کی ہے تو پھر کوّا استاد کی کہانی تو تم کو معلوم ہی ہوگئی ہوگی۔ ’’نہیں میں نے تو صرف تلاوت کی ہے ، ترجمہ نہیں پڑھا ہے ‘‘۔
میں نے پچھلے سفر میں تم لوگوں سے کہا تھا کہ قرآن ترجمہ کے ساتھ پڑھا کروتاکہ اس کی تعلیمات سے بھی تم کو آگاہی ہو، مگر بغیر سمجھے بوجھے قرآن پڑھنا تمہاری عادت بن گئی ہے ‘‘۔
’’چچا آپ پلیز کہانی سنائیے۔ آئندہ ہم لوگ ان شاء اللہ قرآن ترجمہ کے ساتھ پڑھنے کی کوشش کریں گے ‘‘ عدی ، اسید ایک ساتھ بول پڑے۔
’’ٹھیک ہے اگر تم وعدہ کرتے ہو تو میں تم کو کوّا استاذ کی کہانی سناتا ہوں، یہ کہانی قرآن کی سورۃ المائدہ میں ہے۔ کہانی آدم علیہ السلام کے دو بیٹوں کی ہے ، ویسے تو ہم سب حضرت آدم علیہ السلام کے بیٹے ہیں مگر یہ دونوں حضرت آدم علیہ السلام کے حقیقی بیٹے تھے کتابوں میں ان کا نام ہابیل اور قابیل لکہاہے۔ ان دونوں نے اللہ کے حضور نیاز پیش کی۔ ابوّ نیاز کسے کہتے ہیں؟ عفیفہ سوال کر بیٹھی ۔
شاباش بیٹا جو بات سمجھ میں نہ آئے اس کے بارے میں پوچھ لینا چاہئے ۔ نیاز کہتے ہیں اس صدقے یا چڑھاوے کو جو انسان اپنی کسی ضرورت کو اللہ کے حضور پیش کرنے کے لئے دیتا ہے۔ تو آدم علیہ السلام کے دونوں بیٹوں نے اللہ کے سامنے ایک صدقہ پیش کیا۔ ہابیل کی نیاز اللہ نے قبول کرلی، قابیل کی قبول نہ ہوئی ۔ بس اس بات پر قابیل اپنے بھائی ہابیل کا دشمن ہوگیا اور اپنے بھائی سے کہنے لگا ’’میں تجھ کو ضرور قتل کروں گا ‘‘۔ہابیل کہنے لگا ’’اللہ پرہیز گاروں کے اعمال ہی کو قبول کرتا ہے۔ اگر تو مجھے قتل کرنے کے لئے ہاتھ آگے بڑھائے گا تو بھی میں تجھ کو قتل کرنے کے لئے ہاتھ نہ چلاؤں گا۔ مجھے اللہ تمام جہانوں کے رب سے ڈر لگتا ہے۔ میں چاہتاہوں کہ تو میرے گناہ میں بھی پکڑا جائے اور اپنے گناہ میں بھی۔ پس دوزخیوں میں شامل ہو، ظلم کرنے والوں کی ایسی ہی سزا ہوتی ہے ۔
قابیل کے نفس نے اس برائی کو اس کے لئے آسان کردیا اور اس نے اپنے بھائی ہابیل کو قتل کردیا۔ قابیل نے ہابیل کو قتل توکردیا مگر اس کی سمجھ میں نہ آتا تھا کہ بھائی کی لاش کو کیا کرے ۔ یکایک ایک کوا آیا اور زمین کریدنے لگا ۔ بعض روایتوں میں ہے کہ کوے نے زمین کھود کر دوسرے مردہ کوے کو دفن کردیا۔ اس طرح قابیل نے مردہ دفن کرنے کا طریقہ سیکھا ۔ اب قابیل کو پچھتاوا ہونے لگا کہ میں کیسا کم علم اور کم عقل ہوں کہ ایک کوے نے مجھے بھائی کی لاش دفن کرنے کا طریقہ سکھایا۔ بھائی کے قتل کا گناہ تو وہ پہلے ہی کرچکا تھا۔ اب ایک معمولی کوے نے اسے دفن کرنے کا طریقہ سکھایا تو وہ اپنی نگاہ میں بھی حقیر اور پست ہوگیا۔
بچے شاید کچھ اور سننا چاہتے تھے مگر چچا نے کہانی ختم کردی تھی۔
اُسید نے کہا اس کا مطلب یہ ہے کہ آدمی نے مردے کی تدفین کا طریقہ کوے سے سیکھا ہے اس لئے اس کو کوا استاذ بھی کہہ سکتے ہیں۔
بالکل یہی تو اس کہانی میں بتایا گیا ہے۔
’’ابو قابیل نے بے چارے ہابیل کو ناحق قتل کردیا تو اسے کوئی سزانہ ملی ‘‘ عفیفہ بولی ۔
کیوں نہیں، پیارے نبیؐ نے فرمایا ’’دنیا میں جو بھی ناحق قتل ہوتا ہے تو اس کا گناہ قابیل کی گردن پر ضرور جاتا ہے ، اس لئے کہ وہ پہلا آدمی ہے جس نے ناحق قتل کی شروعات کی تھی۔
تمام بچے ایک ساتھ نعرہ لگاتے ہوئے کھڑے ہوگئے ’’کوے استاذ زندہ باد‘‘

تبصرے بند ہیں۔