کچھ عالمی یوم خواتین کے حوالے سے

عبدالرشید طلحہ نعمانیؔ

عالمی یوم خواتین بین الاقوامی سطح پر 8؍ مارچ کو پوری آب وتاب کے ساتھ منایا جاتا ہے ؛جس کا مقصددنیابھرمیں مردوں کو خواتین کی اہمیت سے آگاہ کرنا اور لوگوں میں خواتین پر تشدد کی روک تھام کیلئے پیش قدمی کی ترغیب دینا ہے۔ دنیا میں سب سے پہلا عالمی یوم ِخواتین۱۹/ مارچ سن 1911 ء کومنایا گیا پھر سن 1977 میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے یہ بل پاس کیا کہ خواتین کا بین الاقوامی دن ہر سال آٹھ مارچ کو باقاعدہ طورپرمنایا جائے گا۔

 تحریکِ حقوق ِنسواں ، اقوام متحدہ کے پلیٹ فارم سے ہر سال عورت پر جسمانی تشدد، نفسیاتی استحصال، غصب شدہ حقوق اور صنفی عصبیت کا نگر نگر واویلا کرتی ہے۔

 عظیم الشان فیو اسٹارہوٹلوں میں پُرتّکلُف سیمینارز کا انعقاد، اخبارات میں رنگین ضمیموں کی اشاعت، کانفرنسوں اور سمپوزیم میں بے نتیجہ مباحثے اور پھر سے ہر سال نئی قراردادوں کے لیے سفارشات اس عالمی دن کی لاحاصل روایات و رسومات کا حصہ ہیں ۔

تعصب کی عینک اتار کر بہ نظر غائر دیکھاجائے تواسلام نے 1400 سال پہلے عورتوں پر ظلم کے خلاف جو آواز اٹھائی ہے اورحقوق کے تحفظ کا جوآسمانی بل پیش کیا ہے اسکی مثال لبرل، سیکیولر، نام نہاد عالمی حقوق نسواں کے ٹھیکیدار اور این جی اوز تاقیامت پیش کرنے سے قاصرہیں اور رہیں گے۔

اسلام نے عوتوں کو کتنی ترقی دی؟ کیسا بلند مقام عطاکیا ؟قرآن کریم کی لاتعداد آیتوں اور بے شمار احادیث سے اس کا اندازہ بخوبی لگایا جاسکتا ہے۔ اسلام نے پوری دنیا کے سامنے حقوق نسواں کا ایسا حسین تصور پیش کیا اور عورتوں کے تئیں وہ نظریات اپنائے کہ اپنے تو اپنے غیر بھی اس مثبت ومساوی نظام عمل پر عش عش کراٹھے، اور یہ کہنے پر مجبور ہوگئے کہ اسلام ہی دراصل حقوق نسواں کا علم بردار اور عدل ومساوات کاحقیقی ضامن ہے۔

 آج اگر مغرب اور مغرب پرست اسلام پر نکتہ چینی کرتے ہیں اور اسلام کو حقوق نسواں کی راہ میں رکاوٹ قرار دیتے ہیں ، تو یہ صرف حقائق سے چشم پوشی کرکے اسلام کو بدنام کرنے کی سازش ہے، ؛ کیوں کہ آج بھی بہت سے غیرمسلم مفکرین اور دانایانِ فرنگ اعتراف ِحقیقت کرتے ہوئے اسلام ہی کو صنفِ نازک کا نجات دہندہ اور حقوق نسواں کا پاسدار سمجھتے ہیں ۔آئیے اس اعتراف حقیقیت کی چند جھلکیاں ملاحظہ کریں ۔

پاسباں مل گئے کعبہ کو صنم خانے سے :

 اس بات کو بیان کرتے ہوئے کہ اسلام نے ہی عورت کو تمام معاشی، معاشرتی اور اخلاقی حقوق دیئے ؛جن کا تصور قبل از اسلام ماورائے عقل تھا،”ای بلائڈ ن“ رقمطراز ہیں ”سچا اور اصلی اسلام جو محمد ﷺلے کر آئے، اس نے طبقۂ نسواں کو وہ حقوق عطا کئے جو اس سے پہلے اس طبقہ کو پوری انسانی تاریخ میں نصیب نہیں ہوئے تھے۔ (بہ حوالہ سنت نبوی اور جدید سائنس)”ڈبلوالائٹرر“ لکھتے ہیں : عورت کو جو تکریم اور عزت محمدﷺنے دی وہ مغربی معاشرے اور دوسرے مذاہب اسے کبھی نہ دے سکے “۔ ”ای ڈرمنگھم“ حضورﷺکی تعلیمات کو سراہتے ہوئے اور اسلام کے عورتوں کی زندگی میں صالح انقلاب پیداکرنے کے تعلق سے لکھتے ہیں کہ: ”اس سے کون انکار کرسکتا ہے کہ محمد ﷺکی تعلیمات نے عربوں کی زندگی بدل دی، ان سے پہلے طبقہ نسواں کو کبھی وہ احترام حاصل نہ ہوسکا تھا جو محمدﷺکی تعلیمات سے انہیں حاصل ہوا، جسم فروشی، عارضی شادیاں اور آزادانہ محبت ممنوع قرار دیدی گئیں لونڈیاں اور کنیزیں ؛جنہیں اس سے قبل محض اپنے آقاؤں کی دل بستگی کا سامان سمجھا جاتا تھا وہ بھی حقوق ومراعات سے نوازی گئیں ۔ (دی لائف آف محمد)ڈبلیوڈبلیو کیش کہتے ہیں ”اسلام نے عورتوں کو پہلی بار انسانی حقوق دیئے اور انہیں خلع کا حق دیا“۔

 عورت کی چار حیثیتیں :

 اسلام نے عورت کو جہاں ذلت و رسوائی کے قعرعمیق سے نکال کر اعلیٰ درجے کا مقام عطا کیا، وہیں بہت سے حقوق و فرائض سے بھی نوازا۔ یہاں تک کہ وہی لوگ جو کل تک عورت کو بے حیثیت سمجھتے تھے، اسلام کی آمد کے بعد عورت کے متعلق بات کرتے ہوئے بھی ڈرنے لگے ؛اسی لئے اسلام ہی بجا طور پر اس کا مستحق ہے کہ اسے فطرت انسانیت کاشاہ کار قرار دیاجائے۔

صنف نازک کی شخصیت کا تجزیہ کیا جائے تومجموعی طورپر اس کی چار حیثیتیں ابھرکر سامنے آتی ہیں :(۱)ماں (۲) بہن(۳) بیوی (۴)بیٹی۔

اسلام نے ماں کی حیثیت سے عورت کا مقام اس قدر بلند کیا ہے کہ معاویہ بن جاہمہؓ سے روایت ہے کہ رسول اکرمؐ کی خدمت میں میرے والد حاضر ہوئے کہ یا رسول اﷲ !میں چاہتا ہوں کہ جہاد کروں اور آپؐ سے مشورہ کرنے کے لیے حاضر ہوا ہوں ۔ آپؐ نے فرمایا کہ تمھاری ماں زندہ ہے ؟ عرض کیا کہ زندہ ہے، تو آپؐ نے فرمایا کہ تو پھراسی کے ساتھ رہو، اس لیے کہ جنت ماں کے پاؤں کے نیچے ہے۔ (نسائی)

حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ ایک شخص نے رسول اکرمؐ سے دریافت کیا کہ یا رسول اﷲ ﷺمیرے حسن سلوک کاسب سے زیادہ مستحق کون ہے ؟ تو آپ ؐ نے تین مرتبہ فرمایا کہ تیری والدہ اور چوتھی مرتبہ فرمایا کہ تیرے والد۔ (بخاری)

اس روایت سے معلوم ہوا کہ باپ کے مقابلے میں ماں کی حیثیت و مرتبہ استحقاقِ خدمت میں تین گنا زیادہ ہے۔ اگر ماں کافر بھی ہو تو اس کے ساتھ حسنِ سلوک کرنے کا حکم ہے۔ حضر ت اسماءؓ نے دریافت کیا کہ یارسول اﷲ ﷺ میری والدہ اسلام سے نفرت کرتی ہے اب وہ میرے پاس آئی ہے، وہ میرے حسن سلوک کی مستحق ہے یا نہیں ؟ تو آپؐ نے فرمایا کہ اپنی ماں سے حسن سلوک کرو۔ (بخاری) رسول اکرمؐؐ نے ایک صحابیؓ کو والدہ کے بعد خالہ کے ساتھ ماں کے برابر حسن سلوک کی تاکید فرمائی۔ (مسند احمد)

قرآن کریم میں جہاں عورت کے دیگر معاشرتی و سماجی درجات کے حقوق کا تعین کیا گیا وہیں بہ طور بہن بھی اس کے حقوق بیان کئے گئے۔ بہ حیثیت ہمشیرہ، عورت کی وراثت کا حق بڑی ہی تفصیل کے ساتھ قرآن مجید میں اللہ تعالی نے ذکر فرمایا۔علاوہ ازیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جس شخص کے تین بیٹیاں یا تین بہنیں ہوں اور وہ ان کے ساتھ حسنِ سلوک کرتا رہے، وہ جنت کا حق دار ہوگا۔(ترمذی)

 اسلام کی آمد سے پہلے بیٹی کی پیدائش کو ذلت و رسوائی کا سبب قرار دیا جاتا تھا۔ آپؐ نے بیٹی کو احترام و عزت کا مقام عطا کیا۔ اسلام نے نہ صرف معاشرتی و سماجی سطح پر بیٹی کا مقام بلند کیا بل کہ اسے وراثت کا حق د ار بھی ٹھہرایا۔ قرآن کریم میں اﷲ تعالیٰ نے نسل انسانی کے تسلسل و بقا کے لیے ازدواجی زندگی اور خاندانی رشتوں کو اپنی نعمت قرار دیا ہے۔ اس کے ساتھ ہی بیوی کے رشتے کی اہمیت اور اس سے حسن سلوک کی تاکید فرمائی ہے۔ ارشاد ربانی ہے ’’ اور ان سے اچھا برتاؤ کرو پھر اگر وہ تمہیں پسند نہ آئیں تو قریب ہے کوئی چیز تمہیں ناپسند ہو، اور اﷲ نے اس میں تمہارے لیے بہت بھلائی رکھی ہو۔(سورۃ النساء)

 رسول اکرمؐ نے بھی بیوی سے حسن سلوک کی جابہ جا تلقین فرمائی۔ احادیث مبارکہ کا مطالعہ کیا جائے تو مختلف واقعات سے معلوم ہوتا ہے کہ آپؐ نے اپنی ازواج مطہرات کی عملی طور پر بہت سے مواقع پر دل جوئی فرمائی۔ رسول اکرمؐ حضرت عائشہؓ کے ساتھ کبھی دوڑ لگا رہے ہیں او ر کبھی ان کو حبشیوں کے کھیل (تفریح)سے محظوظ فرما رہے ہیں ۔ حضرت عائشہؓ سے روایت ہے کہ وہ رسول اکرم ؐ کے ساتھ سفر میں تھیں ، فرماتی ہیں کہ میں اور آپؐ دوڑے، تو میں آگے نکل گئی تو پھر دوبارہ جب میں اور آپؐ دوڑے، تو آپؐ آگے نکل گئے۔ تو آپؐ نے فرمایا کہ یہ اس کا بدلہ ہے تُو پہلے آگے نکل گئی تھی اوراب میں !اس طرح ہم دونوں برابر ہوگئے۔ (ابوداؤد)

اگر قرآن و حدیث کا مطالعہ کیا جائے تو یہ بات روزِ روشن کی طرح عیاں نظر آئے گی کہ ان میں خواتین کے انفرادی حقوق، عائلی حقوق، ازدواجی، معاشی اور دیگر حقوق کو بڑی تفصیل کے ساتھ ذکر کیا گیا ہے۔ مختصر یہ کہ اسلام نے عورتوں کو عزت و تکریم عطا کی، عورت کو اپنی پسند سے شادی کرنے کا اختیار دیا،خاندان، خاوند اور دوسرے قریبی رشتے داروں سے وراثت میں حق عطاء کیا،جس طرح مرد کو طلاق دینے کا اختیار ہے اسی طرح عورت کو خلع کے ذریعے نکاح تحلیل کرنے کا پورا اختیار دیا۔

اسلام نے انسان ہونے کی حیثیت سے مرد اور عورت کو برابر کے حقوق دیے، جس طرح مردوں کے حقوق عورتوں پر ہیں اسی طرح عورتوں کے حقوق مردوں پر ہیں ۔ لہٰذا اﷲ تعالیٰ اور رسول اکرمؐ نے خواتین کوجو حقوق عطاء کیے، ان کی پاس داری کرنا ہمارا اولین مذہبی فریضہ ہے۔ حقوق نسواں کے حوالے سے خطبہ حجّۃ الوداع کے موقع پر رسول اکرمؐ نے ارشاد فرمایا ’’خبردار تمہاری عورتوں کے ذمے تمہارا حقوق اور تمہارے ذمے تمہاری عورتوں کے حقوق ہیں ۔ عورتوں کے حقوق یہ ہیں کہ انہیں اچھا لباس پہناؤ اور اچھا کھانا کھلاؤ۔اب ضرورت اس امر کی ہے کہ عورتوں کو جو حقوق اسلام نے دیے ہیں ان کو تسلیم کیا جائے، انہیں نافذکرنے کی کوشش کی جائے،ان پرعمل کرنے والوں کا ساتھ دیا جائے ؛ کیوں کہ تمام ادیان سے بڑھ کر خواتین کے حقوق کی بات اسلام نے کی ہے اور تمام شعبوں میں عورتوں کے تحفظ کی تاکیداسلام نے کی ہے۔

حقوق نسواں کے نام پر حکومت کا فریب:

 اسلام نے صنف نازک کو جن حقوق سے نوازا ہے اس کی نظیر دنیا کہ کسی مذہب اور کلچر میں نہیں ملتی،اس کے باوجود اسلام مخالف طاقتوں کا بہت عرصہ سے یہ شیوہ رہا ہے کہ انہوں نے ہمارے ہی کچھ ناواقف لوگوں کو آلہ کار بناکر تحفظ حقوق نسواں کے نام پر بے بنیاد الزامات و اتہامات کا سلسلہ شروع کررکھا ہے۔ افسوس ناک امر یہ ہے کہ غلط بیانی اور انکارحقیقت پرمبنی یہ سلسلہ پہلے نام نہاد مفکرین اور دانشوروں تک محدود تھا ؛لیکن گذشتہ چند سالوں سے حکومت کے گلیاروں میں گھومنے والے کچھ مفادپرست قائدین نے بھی میڈیا کی زبان میں اسلام پر اعتراض کرنا شروع کردیا۔ موجودہ حکومت نے اسلام کے عائلی مسائل کو مسلم خواتین کے لئے شکنجہ بناکر پیش کرنے کی کوشش کی اور انہیں یہ باور کرانا چاہا کہ وہ اپنے مردوں کی غلام ہیں جبکہ طلاق کا نظام عورتوں کو ظلم وجور سے چھٹکارا دلانے اور مزاجوں کے ہم آہنگ نہ ہونے کی صورت میں اذیت وتکلیف سے بچانے کے لئے اسلام میں نافذ کیا گیا ہے۔ ایسے ہی خلع عورتوں کی جانب سے ازدواجی تعلقات کی کشیدگی پر شوہر سے تفریق کا ذریعہ اور بہترین وسیلہ ہے جس کی نظیر کسی دوسرے مذہب میں نہیں ملتی ؛مگر گذشتہ ایک سال سے طلاق ثلاثہ، نکاح و حلالہ اور تعدد ازدواج کا معاملہ حکومت ومیڈیا کے درمیان گرما گرم رہا۔ گویاایسا محسوس ہورہاتھا کہ ہندوستانی خواتین کی ترقی میں یہی چندمسائل سدراہ بنے ہوئے ہیں ۔ اس موقع پر مخدوم گرامی محترم مولانا سیداحمد ومیض ندویؔ مدظلہ کے حکومت ہندسے کیے گئے حقائق پرمبنی چند سوالات ذکر کرنا مناسب سمجھتاہوں ؛جس سے بہ آسانی اندازہ لگایا جاسکتاہے کہ حقوق نسواں کا یہ نعرہ، حقیقت ہے فسانہ؟؟۔ مولانا لکھتے ہیں :

” کیا آپ نے اپنے دور اقتدار میں فی الواقع خواتین کو تحفظ فراہم کیا ہے ؟ کیا آج ہندوستان میں کسی بھی قوم یا مذہب سے تعلق رکھنے والی خواتین محفوظ ہیں ؟ کیا مسلم پرسنل لاء میں مداخلت کے ناپاک ارادوں کے ساتھ مسلم خواتین کو انصاف دلانے کا ڈھونگ رچانے والوں کونہیں معلوم کہ ملک میں یومیہ اوسطاً 100کمسن لڑکیوں اور خواتین کی عصمتیں لوٹی جاتی ہیں ؟کیاو ہ نہیں جانتے کہ اس ملک میں 2سال کی شیرخوار لڑکی سے لے کر 80سال کی بوڑھی خواتین کو تک ہوس کا شکار بنالیا جاتا ہے ؟ حال ہی میں ہریانہ میں ایک غریب دس سالہ لڑکی نے لڑکی کو جنم دیا اس کا چچامسلسل سات ماہ تک اس کے ساتھ منھ کالا کرتا رہا، خواتین ہی کیا ملک میں کسی بھی طبقہ کو تحفظ حاصل نہیں ، صرف دارالحکومت دہلی میں ہر دن کم از کم 20بچوں کا اغوا ہوتا ہے ملک بھر میں ہر سال 40ہزار سے زائد قتل کے واقعات ہوتے ہیں ، جہیز ہراسانی کے معاملات میں ہر سال لاکھوں خواتین گرفتار ہوکر قانون سے بچ جاتی ہیں ، لاکھوں ہندوستانیوں کو دووقت کی روٹی نصیب نہیں ہوتی، کیا ان سب مسائل سے حکومت فراغت پاچکی ہے ؟ پھر سوچنے کی بات یہ ہے کہ سنگھ پریوار اور آرایس ایس کے جولوگ اس وقت مسلم خواتین کے لئے مساویانہ حقوق کا ڈھنڈورا پیٹ رہے ہیں کیا انہوں نے خود اپنی خواتین کو انصاف دلانے کی کبھی کوشش کی ؟کیا ہندوسماج میں خواتین کے حوالہ سے سب کچھ ٹھیک ہے ؟ملک کی مختلف ریاستوں میں 35تا 40لاکھ بیوہ خواتین کس مپرسی کی زندگی گزاررہی ہیں جن کی اکثریت ہندوخواتین پر مشمل ہے، کیا سنگھ پریوار کا یہ فرض منصبی نہیں بنتا کہ وہ ان بیواؤں کی دادرسی کرے ؟ایک سروے کے  مطابق ملک میں 20لاکھ30 ہزار ایسی خواتین ہیں جنھیں ان کے شوہروں نے طلاق کے بغیر ہی چھوڑدیا ہے ان میں ہندوخواتین کی تعداد 20لاکھ ہے، بے بسی کی زندگی گزارنے والی یہ لاکھوں ہندوخواتین کیا اس لائق نہیں کہ انھیں انصاف دلایاجائے ؟”(ماہ نامہ ضیائے علم، ستمبر۱۷ء)

یوم خواتین منانے والوں کے نام :

جو لوگ آزادیٔ نسواں، مساوات مرد و زن اور خواتین کے حقوق کی بات کرتے ہیں اور صحیح انداز میں عورتوں کو ان کے اسلامی حقوق دلواناچاہتے ہیں تو ان کا فرض صرف اسی پر ختم نہیں ہوجاتا کہ سال بھر میں ایک بار جلسے جلوس کی چہل پہل دکھادیں، چند دانشوروں کو بلاکرکسی بزم میں تقریریں کروادیں، خواتین کے تحفظات پر کوئی لٹریچر شائع کروادیں؛ بل کہ یہ تو ادائے فرض کی صرف تمہید ہے، کتاب کا فقط دیباچہ ہے، عمارت کی محض بنیاد ہے، اصل کام تو ابھی باقی ہے  ؎

ستاروں سے آگے جہاں اور بھی ہیں

خوب ہو؛ جو اس یوم یادگار کو عمل و کردار کا جامہ پہنایا جائے، عملی میدان میں خواتین کو ان کے حقوق فراہم کئے جائیں ، ان پر ہونے والے ظلم و تشدد کا خاتمہ کیا جائے، بڑھتی ہوئی بے راہ روی اورہوس پرستی پر قدغن لگائی جائے، عزت و ناموس کی حفاظت ہو،خلوص ومحبت کی جلوہ ارزائی ہو،تقدس وپاکیزگی کو فروغ ملے پھر سال کاہردن صنف نازک کے حق میں ’’یوم خواتین‘‘بن جائے۔

1 تبصرہ
  1. آصف علی کہتے ہیں

    دانا لوگ یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ عورت کو سمجھنا مشکل ہی نہیں نا ممکن ہے-اور کم سمجھ لوگ عورت کو سمجھنے کےلیے کتابیں لکھتے ہیں۔لیکن اب تک کوئی ایسا دعوے دار نہیں ملا جو یہ کہہ سکے کہ میں سمجھ گیا ہوں عورت کو۔
    عورت اپنے آپ میں ایک پیچیدہ مسئلہ ہے,ایک نازک مر حلہ ہے, ایک نیا رنگ ہے-ایک سنگین غلطی ہے- ایک خوب صورت لمحہ ہے, ایک معمولی بےوقوفی ہے-یا پھر ایک مثالی سمجھ داری ہے–عورت ایک وجود میں بہترین تضاد کا نام ہے,عورت مختلف جذبوں کے مرکب کا نام ہے, عورت کا ہر روپ انیک ہے-وہ ماں ہے تو اولاد کی جنت ہے,وہ بہن ہے تو بھائیوں کی عزت ہے—وہ بیٹی ہے تو باپ کے لئے راحت ہے رحمت ہے- وہ بیوی ہے تو اطاعت و فرماں برداری کا سرچشمہ ہے
    عورت کے یہی روپ نہیں ہیں بلکہ اگر یہ صنف نازک اپنے ہی جیسی کسی نازک ہستی کے مدمقابل آ جائے تو تمام تر نازکیوں کو بالائے طاق رکھتے ہوئے میدان کو اکھاڑے میں بدل سکتی ہے- یہی صنف نازک ظالم ساس کا روپ دھار لیتی ہے یا پھر چالاک بہو بن جاتی ہے- اگر حالات سگین ہوں تو ایک عورت خوب صورت چڑیل یعنی سوکن بھی بن سکتی ہے- ان سب باتوں سے بالاتر بد قسمتی سے ہم اس دنیا کے با شندے ہیں جہاں عورت کو عورت تو کیا انسان بھی نہیں سمجھا جاتا- اسے گلیوں میں گھسیٹا جاتا ہے-بازاروں میں رسوا کیا جا تاہے- تیزاب سے اس کے چہرے کو جھلسا دیا جاتاہے- اس کے نرم و نازک جسم کو مسل مسل کر کوڑے کے ڈھیروں میں پھینک دیا جاتا ہے– اور ذرا ذرا سی بات پر اس کو لہو لہان کر دیا جاتا ہے, اگر یہ نہ ہو تو کبھی کم صورتی پر٫کبھی بے اولادی پر٫کبھی جنسی بنیاد پر امتیازی سلوک کی وجہ سے تو کبھی دقیا نوسی منحوسیت کا ٹیگ لگا کر اس کی شخصیت کو تار تار کر دیا جاتاہے۔
    ایسا نہیں ہے کہ عورتوں کے حقوق کے لئے کوئی آواز نہیں اٹھاتا- ہمارے جیسے معاشروں میں بہتری کےلیے این جی اوز حقوق نسواں پر کام کر تی ہیں۔لمبے لمبے سمینارز منعقد کروائے جاتے ہیں, دھواں دھار تقریریں کی جا تی ہیں۔ان کی انتھک محنت کے بعد مظلوم خواتین کو انصاف ملے یا نہ ملے لیکن این جی او زکی اچھی خاصی تشہیر ضرور ہو جا تی ہے-ایک عورت جس کے حوصلے بہت بلند ہیں اس کے ارادے پکے ہیں- اس کے خواب اونچے ہیں۔وہ کسی سے کم تر نہیں, کسی سے پیچھے نہیں۔وہ اوسطا ایک مرد سے زیادہ محنتی٫ جفاکش اور وفا شعار ہے ٫وہ آپ کے معاشرے کی اکثریت ہے ۔عورت جہاں بھی ہو٫جیسی بھی ہووہ عزت چاہتی ہے- وہ محبت چاہتی ہے-عورت کوئی معمہ نہیں کوئی پہیلی نہیں۔ ایک انسان ہے- آپ نہ سمجھئے اسے عورت٫ اسے مرد بھی نہ سمجھئے- بس اسے انسان ہی سمجھ لیجئے۔ اسے انسانی بنیادوں پر پرکھیں۔اسے انسانوں جتنی برابری ہی دے دیں
    ہو سکے تو اسے وہ مقام دے دیجیئے جو آج سے 14 سو سال پہلے محمد عربی صلى اللہ عليہ و سلم نے دیا تھا- بس اتنا ہی چاہتی ہے ایک عورت- تمہیں خدا کا واسطہ اسے اپنی حوس کا نشانہ مت بناو- اس کے جسم کو داغ داغ مت کرو- اس کی ردا کو اپنے پاؤں تلے مت مسلو- عورت تم سے امن کی بھیک مانگتی ہے- لوٹا دو اس کو اس کا مقام بس یہی چاہتی ہے حوا کی یہ مظلوم بیٹی.

تبصرے بند ہیں۔