کھلا ہے جھوٹ کا بازار، آؤ سچ بولیں!

عبدالرشیدطلحہ نعمانیؔ

مذہب اسلام اپنی ایک مستقل تہذیب اور منفرد شناخت کا حامل ہے؛جس میں امن و امان،شرم وحیاء،صدق و صفا اور اخلاص و وفا کو بنیادی حیثیت حاصل ہے۔اس کے برعکس مغرب اپنا ایک مخصوص کلچراور بےہنگم نظام رکھتا ہے جس کے اہم عناصر میں شر وفساد،ظلم وستم،فحاشی وبےحیائی، کذب بیانی و دروغ گوئی شامل ہے۔

مشرقیت و مغربیت کی یہ کشمکش صدیوں سے جاری ہےاور آئندہ بھی جاری رہے گی ؛لیکن غور و فکر کا مقام ہے کہ زوال وادبار،پستی و انحطاط کی گزشتہ دوصدیوں میں مغربی استعمار نےاپنی طاقت و قوت اور مکاری و چال بازی سے مسلم معاشرے پر اثرانداز ہونے میں بڑی حدتک کامیابی حاصل کرلی اور رفتہ رفتہ مغربی تہذیب کے بہت سے افکار ونظریات مسلم معاشرے میں سرایت کرتےچلےگئے۔‘ اپریل فول ’کی یہ رسم بدبھی اسی فکر گستاخ کی  عکاس ہےجوجھوٹ، دھوکہ، خیانت، دل آزاری اوربےاحترامی پرمشتمل ہے۔مغرب کی اس فکری روش اور نظریاتی راہ کو اختیار کرنے کے حوالے سے عالم اسلام میں تین مختلف مکاتب فکرپائے جاتے ہیں۔

بعض نے مغربی تہذیب کومن و عن طرزِ حیات کے طور پر قبول کرلیا اور اپنی فکر ونظر کا قبلہ سمجھتے ہوئے سرتسلیم خم کردیا، بعض نے درمیانی راہ نکال کر اس سےایک طرزِ مفاہمت پیدا کرلی،اور سچی جھوٹی تاویلوں کے ذریعہ  صلح کرنے کی بھرپور کوشش کی۔صرف چند صاحب کرداراور باحمیت افراد ایسے رہے، جنہوں نے کامل بصیرت اور گہرےادراک کے ساتھ اس تہذیب کاپرزور رد کیا،اور مخالفین کے منہ بند کر دیے۔

اپریل فول کی ابتدا:

اپریل فول کے آغاز وایجاد کے حوالے سے مختلف قسم کے واقعات  تاریخ کی کتابوں میں درج ہیں، ویکیپیڈیا کے حوالے سےچند ایک کو یہاں ذکر کیاجاتاہے۔

اپریل لاطینی زبان کے لفظ Aprilis یا Aprire سے ماخوذ ہے جس کا مطلب ہے پھولوں کا کھلنا،کونپلیں پھوٹنا،قدیم رومی قوم موسم بہار کی آمد پر شراب کے دیوتا کی پرستش کرتی اور اسے خوش کرنے کے لیے لوگ شراب پی کر اوٹ پٹانگ حرکتیں کرنے کے لیے جھوٹ کا سہارا لیتے یہ جھوٹ رفتہ رفتہ اپریل فول کا ایک اہم ؛بلکہ غالب حصہ بن گیا،انسائیکلو پیڈیا انٹرنیشنل کے مطابق مغربی ممالک میں یکم اپریل کو عملی مذاق کا دن قرار دیا جاتا ہے اس دن ہر طرح کی نازیبا حرکات کی چھوٹ ہوتی ہے اور جھوٹے مذاق کا سہارا لے کر لوگوں کو بیوقوف بنایا جاتا ہے۔

انسائیکلو پیڈیا آف برٹانیکا نے اس کی تاریخی حیثیت پر مختلف انداز سے روشنی ڈالی ہے۔ بعض مصنفین کا کہنا ہے کہ فرانس میں سترہویں صدی کا آغاز جنوری کی بجائے اپریل سے ہوا کرتا تھا۔ اس مہینے کو رومی اپنی دیوی وینس کی طرف منسوب کر کے مقدس سمجھا کرتے تھے۔ چونکہ یہ سال کا پہلا دن ہوتا تھا، اس لیے خوشی میں اس دن کو جشن و مسرت کے طور پر منایا کرتے تھے اور اظہار خوشی کے لیے آپس میں استہزاء و مذاق کیا کرتے تھے۔ یہی چیز آگے چل کر اپریل فول کی شکل اختیار کر گئی۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی بیان کی گئی ہے کہ 21 مارچ سے موسم میں تبدیلیاں آنی شروع ہوجاتی ہیں۔ ان تبدیلیوں کو بعض لوگوں نے کچھ اس طرح تعبیر کیا کہ قدرت ہمارے ساتھ مذاق کر کے ہمیں بے وقوف بنا رہی ہے (یعنی کبھی سردی ہوجاتی ہے تو کبھی گرمی بڑھ جاتی ہے، موسم کے اس اتار چڑھاؤ کو قدرت کی طرف سے مذاق پر محمول کیا گیا) لہذا لوگوں نے بھی اس زمانے میں ایک دوسرے کو بے وقوف بناناشروع کیا۔(ویکیپیڈیا)

انیسوی صدی عیسوی کی مشہور انسائیکلوپیڈیا”لاردس“ نے ایک دوسری ہی وجہ بیان کی ہے او راگر یہ وجہ صحیح ہے تو واقعی یورپ اور باقی دنیا کے عیسائیوں کی عقل پر ماتم کرنے کو جی چاہتا ہے کہ وہ خود ہی اپنے پیغمبر کا مذاق اڑا رہے ہیں۔ ”لاردس“ نے یہودیوں اور عیسائیوں کے مستند حوالوں کی بنیاد پر لکھا ہے کہ یکم اپریل وہ تاریخ ہے جس میں رومیوں اور یہودیوں نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا مذاق اڑایا تھا اور انہیں تکلیف پہنچائی تھی، لوقا کی انجیل میں یہ روایت بیان کی گئی ہے کہ جن لوگوں نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو گرفتار کیا وہ ان کا مذاق اڑاتے، ان کی آنکھیں بند کرکے طمانچے مارتے اور کہتے کہ اب اپنی ”نبوت کے ذریعے بتلا کہ تجھے کس نے مارا ہے؟ “ گرفتاری کے بعد انہیں یہودی علماء کے سامنے پیش کیا گیا، وہاں سے دوسری عدالتوں میں بھیجا گیا۔ ”لاردس“ کا کہنا ہے کہ مختلف عدالتوں میں بھیجنے کا مقصد انہیں تکلیف پہنچانا اوران کا مذاق اڑانا تھا، کیوں کہ وہ واقعہ یکم اپریل کو پیش آیا تھا، اس لیے یہودیوں نے اس دن کو یاد گا ر دن کے طور پر منانے کا فیصلہ کیا۔ ( بحوالہ ذکر وفکر مولانا تقی عثمانی:68-67)

ان کے علاوہ اور بھی پس منظر بیان کیے جاتے ہیں ؛مگر یقینی طور پر نہیں کہاجاسکتا کہ اس قبیح رسم کا موجد کون ہے؟؛البتہ ان کے پس منظر سے اندازہ لگایاجاسکتاہے کہ اختلاف موسم کو قدرت کا مذاق تصورکرنا، دیوی دیوتاؤں کی طرف منسوب کرکے مقدس سمجھنا،ایک اولوالعزم نبی کا استہزاکرنا وغیرہ کس قدر خطرناک نظریات ہیں ؛جو صاحب ایمان کے لیے سم قاتل ہیں۔

ان سب سے صرف نظر اگر صرف جھوٹ کے شیوع اور کذب بیانی کے گناہ کو دیکھاجائے تو بھی اس قبیح رسم سے دور رہنا نہ صرف ایک مسلمان ؛بلکہ ہر انسان کے لیے ضروری ہے؛کیوں کہ جھوٹ، دنیاکے کسی مذہب میں جائز نہیں، دھوکہ، کسی انصاف پسند آدمی کے نزدیک درست نہیں، بدتمیزی و دل آزاری، کی کسی تہذیب میں اجازت نہیں۔

جھوٹ کی قباحت:

خلاف واقعہ بات نقل کرنا جھوٹ کہلاتاہے جو اپریل فول کی اس خطرناک رسم کا قطب الرحی ہے،جھوٹ بولنے سے انسان باطنی طور پر کھوکھلا ہوجاتا ہے اور اس کی شخصیت مجروح ہو جاتی ہے،اعتماد ختم ہوجاتاہے، انسان اپنے کردار کی مضبوطی کھو دیتا ہے، ان کے علاوہ اور بھی بےشمار نقصانات ہیں ؛مگریہاں احادیث مبارکہ کی روشنی میں چندایک پراکتفاکیاجارہاہے۔

ایک موقع پر رسول اللہﷺنے ارشاد فرمایا: ’’شک والی چیز کو چھوڑ کر بےغبار چیزوں کو اختیار کیا کرو‘ سچائی میں اطمینان ہے اور جھوٹ میں شک ہے۔‘‘ (سنن ترمذی و مسند احمد)

اسی طرح سرکاردو عالم صلی الله علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے: سچائی اختیار کرو، اس لیے کہ سچائی نیکی کی طرف لے جاتی ہے او رنیکی جنت کی طرف لے جاتی ہے، آدمی سچ بولتا ہے، اور سچ بولنے میں لگا رہتا ہے، یہاں تک کہ وہ الله کے نزدیک سچا لکھ دیا جاتا ہے، جھوٹ سے بچو، اس لیے کہ جھوٹ برائی کی طرف لے جاتا ہے اور برائی جہنم کی طرف لے جاتی ہے، آدمی جھوٹ بولتا ہے او رجھوٹ میں لگا رہتا ہے یہاں تک کہ الله کے یہاں جھوٹا لکھ دیا جاتا ہے۔ ( بخاری ومسلم)

ایک اور مرتبہ حضوراکرمﷺ نے صحابہٴ کرام سے فرمایا :کیا تمہیں کبیرہ گناہوں میں سے تین زیادہ بڑے گناہ نہ بتلاؤں ؟ صحابہ نے عرض کیا یا رسول الله !ضرور بتلائیں، فرمایا: الله تعالیٰ کے ساتھ کسی کو شریک کرنا، والدین کی نافرمانی کرنا اورکسی انسان کو قتل کرنا، راوی کہتے ہیں کہ جس وقت آپ نے یہ بات ارشاد فرمائی اس وقت آپ ٹیک لگائے تشریف فرما تھے، یہ کہہ کر آپ ( سیدھے ہو کر) بیٹھ گئے اور فرمایا: خبردار! جھوٹی بات او رجھوٹی شہادت ( بھی بڑا گناہ ہے)۔ آپ نے اس جملے کا اس قدر تکرار فرمایا کہ ہم (دل میں ) کہنے لگے کاش !آپ سکوت اختیار فرمالیں (بخاری)

بعض لوگ مذاق میں جھوٹ بولتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ مذاق میں جھوٹ بولنے سے کچھ نہیں ہوتا۔ احادیث مبارکہ میں مذاق میں بھی جھوٹ بولنے سے منع کیا گیا ہے۔ مزاح فی نفسہ جائز ومباح ہے، لیکن اس میں جھوٹ بولنے کی اجازت نہیں۔ بعض لوگ مسکراہٹ کی آڑ میں جھوٹ بولتے ہیں کہ مسکراہٹ ان کے جھوٹ پر پردہ ڈال دے گی، لیکن اللہ تعالیٰ تو جو کچھ سینوں میں ہے، اس کو بھی جاننے والاِ ہے۔ مزاح میں جھوٹ بولنے کے حوالے سے رسول اللہؐ کا یہ فرمان ملاحظہ ہو۔ بہز بن حکیم بواسطہ اپنے والد کے اپنے دادا سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہؐ نے مزاح کے طور پر جھوٹ بولنے والے شخص پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے فرمایا: ’’ہلاکت ہے ایسے شخص کے لیے جو لوگوں کو ہنسانے کے لیے اپنے بیان میں جھوٹ بولے۔ ہلاکت ہے اُس کے لیے، ہلاکت ہے اُس کے لیے!‘‘(سنن ترمذی و ابوداؤد)

سچ انبیاء کرامؑ کا وصف ہے۔ حضرت ابراہیمؑ کے بارے میں ارشادہے: ’’بیشک وہ سچے نبی تھے۔‘‘ (مریم) حضرت اسماعیلؑ کے بارے میں آیاہے: ’’بیشک وہ وعدے کے سچے تھے۔‘‘ (مریم۔۵۴) سیدنا ابوبکرؓ ’’صدیق‘‘ کے لقب سے سرفراز ہوئے۔ صدیقیت ایک اعلیٰ مرتبہ ہے جو ہمیشہ سچ بولنے اور سچ کا ساتھ دینے کی صورت میں نصیب ہوتا ہے۔ ہمیں سچ بولنے میں حضرات انبیاءؑ کی پیروی کرنی چاہیے اور کبھی جھوٹ نہیں بولنا چاہیے۔ کیوں کہ سچ سے تعلقات مضبوط ہوتے ہیں اور جھوٹ سے تعلقات ٹوٹتے ہیں۔

اپریل فول کے نام سے رائج اس رسم بد کا بائیکاٹ مسلمانوں کا دینی واخلاقی فریضہ ہے، ہم خود بھی اپنے طور پر اس سے باز رہیں اور اپنی اولاد کو بھی اس سے دور رکھنے کی کوششش کریں۔ اس سلسلہ میں میڈیا سے وابستہ افراد کی ذمے داری ہے کہ وہ جھوٹ سے قطعا گریز کریں۔ سنی ہوئی بات بغیر تحقیق کے آگے بیان کرنا جھوٹ شمار کیا گیا ہے۔ اسلام میں تحقیق کے لیے کی جانے والی کوشش کو حسن نظر سے دیکھا گیا ہے۔ علما کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس حوالے سے شعور بیداری مہم چلاکر عوام الناس کو آگاہ کریں، سچ کے فوائد بتائیں، جھوٹ کے نقصانات سے واقف کرائیں تب کہیں جاکر مغرب کے گھٹاٹوپ بادل چھٹ سکتے ہیں اور مشرق کی شام، سحر ہوسکتی ہے۔

تبصرے بند ہیں۔