کھودُو

 زندگی کے آخری لمحات کتنے سخت گیر ہوتے ہیں، کھودُو نے ضرور محسوس کیا ہوگا۔ بس ذرا سی چوک ہوگئی۔ دانہءگندم کی لالچ میں انجام کی پرواہ نہ کی۔ کھودُو انجام کی پرواہ ہی کب کرتا تھا! تنک مزاجی ایسی کہ ذرا بھی کوئی بات مزاج کے خلاف سرزد ہوگئی تو لڑنے بھڑنے پر آمادہ ہوجاتا۔ مگر اس بار اس کی لڑائی براہ راست ایک انسان سے تھی اور ” انسان فطرتاََ تمام جانداروں میں ضدی جو واقع ہوا ہے، یہاں تک کہ خودکھودُو سے بھی“ شاید کھودُو علی الصباح گھر سے نکلتے وقت یہی سوچ رہا ہوگا۔ کھودُو کو زمین کھودنے میں بہت دلچسپی تھی۔ یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ دنیا میں اس کے لیے محبوب ترین مشغلہ مٹی کھودنا تھا۔ شاید اسی وجہ سے اس کی مالکن نے اسے کھودُو کے نام سے ہی موسوم کردیاتھا۔ کھودُو کی مالکن کی عمر 50 سے کم نہ رہی ہوگی لیکن چستی پھرتی غضب کی تھی۔ ناشتہ کھانا تووقت پر ملتاہی تھا، ساتھ ہی ایک ماں کا پیار بھی۔ ناشتے سے فارغ ہوتے ہی کھودُو روزآنہ سیر کے لیے نکل جاتا اور یہ وہی وقت ہوتا  جب گلی کی عورتیں اور بچے اس کاکرتب دیکھنے کے لیے بے صبری سے انتظار کرتے رہتے۔ اول ِدن سے ہی وہ قلابازی دکھانے کا عادی تھا۔ وہ اکثرو بیشتر زمین پر چلنے کے بجائے ایک ماہر قلاباز کی طرح، روشن دان سے لٹکتی ہوئی رسی پر چلنا پسند کرتا اور پھر زور سے آواز آتی ”کھودُو، کھودُو“ اوروہ بچوں کی طرح شرماتا ہوا ، تیزی سے ہمسایے کے گھر میں گھس جاتا۔دوچار گھنٹے اِدھر اُدھر ٹہلتا گھومتا ، جائزہ لیتا،کبھی دل میں آتا تو مٹی کھودنے لگتا ، نہیں تو پھر اسی راستے سے واپس آجاتا؛ لیکن گلی کے لوگ اس کی واپسی کا انتظار نہیں کرتے، کیونکہ وہ لوگ اس کے لااُبالی پن سے اچھی طرح واقف تھے۔ کبھی کبھار تو وہ پورا دن ہمسایے کے گھر میں ہی گزار دیتا۔ اس کی یہی حرکت ہمسایہ کے لیے باعث تشویش تھی۔ خواہ مخواہ سامان سے چھیڑخوانی کرنا، گندگی پھیلانا اسے قطعا ًپسند نہ تھا۔ پہلے ہی دن جب اس نے اپنے گھر کی ابتر حالت دیکھی تو بہت گندی گندی گالیاں دیں اور چونکہ کھودُو اس وقت کمرے میں موجود تھا تو وہ گالیاں بھی اس کے بھی پردہءسماعت سے ٹکرائی تھیں؛ مگر اس میں اتنی جسارت کہاں تھی کہ وہ اس کا سامنا کرتا۔ وہ بہت دیر تک ایک گوشے میں چھپا ہوا اپنی عدم موجودگی کا ثبوت دیتا رہا۔ اس کی یہ طویل غیر حاضری اس کے مکان مالک اور مالکن کے لیے باعث ِتشویش تھی۔ کھانے کی پلیٹ سامنے رکھ کر دونوں کھودُو کا انتظار کررہے تھے۔ چہروں پر افسردگی خیمہ زن تھی ۔ مالکن بہت دیر تک پلیٹ کو گھورتی رہی پھر اپنے شوہر سے گویا ہوئی: ”صبح سے کھودُو کا کچھ پتہ نہیں ہے۔ “   ”چھوڑو، تم کھالو“ شوہر نے جواب دیا”تم کب تک انتظار کروگی! جانتی ہو وہ جوان ہوگیا ہے۔ تمہارے لیے بہو تلاش کرنے گیا ہوگا۔ آخر۔۔۔ آخر کب تک اکیلے زندگی گزارے گا!“  ”خیر اس کام میں تو ہم لوگ اس کا ہاتھ نہیں بٹا سکتے۔ یہ مسئلہ تو اسے خود حل کرنا ہوگا۔“ مالکن بھی بڑبڑا کر خاموش ہوگئی۔ اس کی نظریں اب بھی کھودُو کی پلیٹ پر جمی ہوئی تھیں۔ پھر اچانک گویا ہوئی، ”ایسا نہ ہوکہ۔۔۔میرا مطلب ہے کہ وہ بہو کے ساتھ ہی نہ چلا جائے“  ”چلا بھی جائے گا توہم کیا کرلیں گے؟“ شوہر نے دبے لہجے میں کہا اور دونوں کے چہرے پر غم کے آثار نمایاں ہوگئے اور تھوڑی دیر کے لیے ایک گہری خاموشی چھاگئی۔ ایک لمبے وقت کے بعد کھودُو ہمسایے سے نظریں بچاکر نکلنے میں کامیاب ہوگیا اور گھر میں پہونچتے ہی سیدھا کھانے پر ٹوٹ پڑا۔ ”اچھا ہوا تم آگئے“ مالکن کھودُو سے مخاطب تھی ”تم سچ مچ مجھے پریشان کر ڈالتے ہو۔ تم ہر دن نئی نئی عادتیں سیکھتے ہو“ کھودُو کئی دنوں کے بھوکے کی طرح تیزی سے منہ چلاتا رہا اورمالکن بڑبڑاتی نیند کی آغوش میں سوگئی۔   جوانی کی دہلیز پر قدم رکھتے ہی کھودُو کے پر نکل آئے تھے۔ اب وہ کسی حد تک آزاد اور خودمختار ہو گیا تھا۔ بچپن کی بہ نسبت عمر میں زیادتی کے ساتھ اس کی ضد بھی بڑھ گئی تھی۔ حسب عادت وہ اگلی صبح بھی ناشتے سے فارغ ہوتے ہی اپنی مہم پر روانہ ہوگیا۔ ہمسایہ گھر میں موجود نہیں تھا۔ موقع کا فائدہ اٹھاتے ہوئے کھودُو نے اپنا کام شروع کردیا۔ زمین کھودنے کے لیے آج بھی اس نے پہلی ہی جگہ کا انتخاب کیا تھا، جو آج روز کے مقابلے کافی صاف ستھری نظر آرہی تھی۔ اچانک دروازہ کھلا اور کھودُو نے دوڑ کر دوسرے دروازے کی اوٹ میں پناہ لینے کی کوشش کی، مگر ہمسایے نے بھانپ لیا اور تعاقب کرنا شروع کردیا۔ اسی درمیان اس نے ایک پتھر اٹھایا اور چلادیا۔ پتھر کھودُو کے جسم کو چھوتا ہوا باہر نکل گیا۔ کھودُو کے جسم پر زخم تو ضرور آیا تھا مگر بہت گہرا نہیں تھا۔ زخم نے اس کا حوصلہ تو پست نہیں کیا، ہاں اس کے غصے میں اضافے کا سبب ضرور بن گیا۔ وہ ایک بھی قدم آگے بڑھائے بغیر خاموشی سے اسی جگہ بیٹھ گیا۔ مکان مالک کو لگاکہ شایدپتھر کے سا تھ و ہ بھی باہر نکل گیا؛ مگر کھودُو اسی جگہ بیٹھا اپنے اگلے قدم کے متعلق ہر زاویے سے سوچ رہاتھا۔ وہ بہت جلد کوئی لائحہءعمل تیار کرلینا چاہتاتھا ۔ ظاہر سی بات ہے وہ اب عہدِشباب کو پہونچ چکا تھا اور پھرمالکن کے لاڈ پیار نے اسے پہلے سے زیادہ ضدی بھی بنا دیا تھا۔ اس نے پہلی ہی فرصت میں ہمسایہ کو مزہ چکھانے کا فیصلہ کرلیا۔ اب وہ اسے نقصان پہونچائے بغیر مالکن کو اپنا منہ دکھانا نہیں چاہتا تھا۔ کافی غور و فکر کے بعد پہلے تو اس نے اس کا بیگ کاٹا، پھر اس میں موجود سارے کپڑے ایک ایک کرکے کاٹ ڈالے اور چلتا بنا۔ جاتے وقت اس نے اگلا ہفتہ اپنے گھر مٰیں ہی گزارنے کا فیصلہ کرلیا۔ ادھر اس کے ہمسایے کو بھی اپنے نقصان کا علم ہوگیا تھا، اس لیے وہ کھودُو کو سبق سکھانے کے لیے بے تاب تھا؛ لیکن کوئی مناسب موقع ہاتھ نہیں آرہا تھا۔ کھودُو بھی کافی ہوشیار تھا۔ انجام تو اسے پتہ ہی تھا۔ اس لیے اب وہ مسلسل مالکن کے گھر میں ہی رہتاتھا۔ ناشتہ، کھانا سب کچھ وقت پر نوش کرلیتا۔ بوڑھی مالکن گو حقیقت سے بے خبر تھی لیکن کھودُو کی موجودگی سے بہت خوش رہتی۔ اولاد سے اس کی گود ہمیشہ سے محروم تھی اور شوہر تو صبح سویرے ہی کا م پر نکل جاتا؛ ایسی صورت میں کھودُو کی موجودگی اس کے لیے سکون کا باعث رہتی۔ پورا ہفتہ گھر میں گزارنے کے بعد کھودُو نے ایک بار پھر ہمسایے کے گھر جانے کا فیصلہ کرلیا۔ نہ جانے اس کے گھر کی مٹی میں کتنی مٹھاس تھی کہ اس کا خیال آتے ہی کھودُو کے منہ میں پانی آجاتااور وہ اسے کھودنے کے لیے دیوانہ وار پھرنے لگتا۔ آج وہ چپکے سے علی الصباح ہی روانہ ہوگیااور دیر رات تک واپس نہیں لوٹا۔ بوڑھی مالکن دیر رات تک کھانا سامنے رکھ کر اس کا انتظارکرتی رہی، پھر پریشان ہوکر بستر پر چلی گئی۔ ”لگ رہا ہے کہ آپ کی بات سہی ہوجائے گی“ مالکن شوہر سے مخاطب تھی۔  ”کیا۔۔۔!“   ”شاید اسے کوئی مل گئی ہے  اور اسی کے ہمراہ وہ بھی چلا گیا ہے ۔ اسی وجہ سے اتنے دنوں سے مسلسل گھر میں ہی رہتا تھا۔ شاید اس کی مسلسل موجودگی اس کے عدم موجودگی کی طرف ایک اشارہ تھا۔۔۔۔! “  ”جو بھی آتا ہے جانے کے لیے ہی آتا ہے۔ اب سوجاؤ۔ صبح دیکھتے ہیں۔“ شوہر بدبدایا ۔ آواز سے ایسا محسوس ہورہا تھا کہ وہ نیم بے ہوشی میں ہے۔ بوڑھی مالکن کو نیند کہاں آرہی تھی۔ جیسے تیسے رات گزاری اور سحر سے ہی کھودُو کا راستہ دیکھنے لگی۔ اب تک اس کا کوئی اتا پتا  نہ تھا۔ شام ہونے والی تھی۔ سورج کی لالی املی کے درخت پر ہلکی ہلکی نظر آنے لگی تھی۔ گلی میں عورتوں ، بچوں کا ہجوم تھا۔ چہ میگوئیاں شباب پر تھیں۔ کھودُوکا ہمسایہ گھر میں داخل ہوا اور کھودو کو دیوار کے پاس دبکا دیکھ کر ٹھٹھک گیا۔ اس نے لپک کر ایک ڈنڈا اٹھایا  لیکن کھودُو کو خون میں لت پت اور بے حس و حرکت دیکھ کر اس نے ڈنڈا زمین پر پھینک دیا اور بغور حالات کا جائزہ لینے لگا۔ اس کے چہرے پر ایک فاتحانہ مسکراہٹ طاری ہوئی؛ ”بیٹا ”بوتوُ“ سے پَنگا لینے چلے تھے! آگئے نہ اوقات میں !!“ اتنا کہہ کر وہ مسکراتا ہوا باہر نکل گیا۔ ایسا لگ رہا تھا کہ وہ کسی کو خوش خبری سنانے جارہا ہے۔ مگر کھودُو بے حس و حرکت پڑا رہا۔ اصول اور انانیت کا ٹکراؤ ایسا ہی ہوتا ہے۔ کبھی کسی کارنج و الم کسی کے لیے باعث ِمسرت بن جاتا ہے، کسی کی رسوائی کسی کے لیے باعثِ افتخار بن جاتی ہے۔کبھی کسی کا عدم کسی کے لیے وجودثابت ہوتا ہے۔ ابھی بہ مشکل پانچ منٹ گزرے ہوں گے  کہ بوتوُ دوبارہ اندار داخل ہوا۔ اس بار اس کے ہمراہ ایک آدمی بھی تھا۔ ”یہیں تھا، وہ یہیں تھا۔۔۔قسم سے یہیں بے سُدھ پڑا ہوا تھا۔“ بوتُو اِدھر اُدھر نظر دوڑاتا ہوا زور سے چیخا اور دونوں نے کھودُو کوتلاش کرنا شروع کردیا؛ ساری محنت لاحاصل تھی۔ کافی دیر بعد اس نے ٹیبل کا سہارا  لیااور اس پر چڑھ کرروشن دان کی طرف دیکھنے لگا۔ کیونکہ دیوار کے پاس باہر نکلنے کا بس ایک ہی راستہ تھا ۔ بوتُو کے لیے سب سے حیرت انگیز بات ،کھودُوکا خون میں لت پت ہونے کے باوجود موقعے سے فرار ہوجانا تھا۔ روشن دان پر کچھ خون کے دھبے نظر آئے، جو کسی حد تک ایک خط کی شکل اختیار کرگئے تھے۔ خون دیکھ کربوتُو کو یقین آگیا کہ کھودُو خود کو بچانے میں کامیاب ہوگیا۔ وہ مایوسی کے عالم میں ٹیبل سے نیچے اتر آیا،پسینے کی ایک بوند پیشانی سے نیچے ڈھلکی ”گیا ۔۔۔ چلاگیا۔“اس نے ہانپتے ہوئے کہا۔ اترتے وقت وہ ہلکا سا لڑکھڑایا بھی اور ایسا لگا کہ اسے غشی آرہی ہو لیکن دوسرے ہی لمحے میں اس نے خود کو سنبھال لیا۔ شاید وہ کھودُو کے اگلے قدم کے متعلق فکر مند تھا۔ اس کے عزم اور حوصلے کے متعلق سوچ رہاتھا۔ ”آخرکیا وجہ ہے کہ ننھی سی ایک جان ایک توانا شخص کو تھکا ڈالتی ہے؛اس کی آنکھوں میں دھول جھونک کر راہ فرار اختیار کرلیتی ہے.“ وہ یہی سوچتا ہوا اپنے دوست کے ساتھ باہر نکل گیا۔ اسی درمیان گلی سے ایک آواز اٹھی ”کھودُو، کھودُو“اور پھر وہ آواز ہنگامے کی شکل اختیار کرگئی۔ سارے لوگ ”کھودُو، کھودُو“ کہنے لگے ، یوں محسوس ہوا کہ کھودُونہیں کسی اکھاڑے میں کوئی ہیرو کسی جانبازسے نبردآزما ہونے جارہا ہے۔ مگر آج کھودُو کے لیے وہ رسّی صرف رسّی نہیں، پل صراط ہوگئی تھی، جسے پار کرنے کے لیے نہ تو اس کے پاس روحانی طاقت تھی نہ جسمانی۔ وہ آج شوروغل سن کر ،روز کی طرح، رسی پر سرکس دکھاتا ہوا ، ہوا کی رفتار سے نہیں گزر سکا۔ آخر وہ گزرتا بھی تو کیسے ! وہ تو زندگی اور موت کی کشمکش سے دوچار تھا؛ مگر اس کا حوصلہ پست نہیں ہوا تھا۔اس نے رسی سے گزرنے کی آخری کوشش کی، مگر بیچ رسی میں ہی اس کی گرفت کمزور پڑگئی اور وہ زمین پر آرہا۔ ”وہ دیکھ۔۔۔وہ دیکھ کھودُو گر گیا۔“ ایک عورت یہ کہتی ہوئی تیزی سے دوڑی۔ شاید گرتے وقت وہ یہی سوچ رہا تھا کہ ”انسان کا جسم جتنا ہی بڑا ہوتا ہے اس کے دل و دماغ اتنے ہی چھوٹے ہوتے ہیں۔ ورنہ تو ایک قابلِ معافی خطا کی اتنی بڑی سزا کیوں دیتا!“ وہ عورت کھودُو کو غور سے دیکھتی رہی پھر گویا ہوئی: ”آہ!کسی نے اسے زہر دے دیا ہے۔ ۔۔چوہوں کی زندگی ایسی ہی ہوتی ہے!!“ کھودُو کے جسم میں کوئی حرکت نہیں تھی۔ ارد گرد بہت ساری عورتیں جمع ہوگئیں اورکھودُو کے متعلق اپنی اپنی آراءکا اظہار کرنے لگیں۔ کھودُو کا تذکرہ سن کر اس کی مالکن بھی دوڑتی آگئی۔ وہ اپنا ایک ہاتھ کلیجے پر رکھ کر اسے ایک ٹک دیکھتی رہی ؛اس کی آنکھیں خاموشی سے آنسو بہاتی رہیں۔ ”کھودُو۔۔۔بہت برا ہوا۔۔۔بہت برا ہوا تیرے ساتھ۔۔۔“بے خودی میں وہ بس اتنا ہی کہہ سکی اور پھر بھیڑ کی آواز میں اس کی آواز کھوگئی۔

تبصرے بند ہیں۔