اف اف گرمی ۔۔۔!

            امسال موسم گرما کے آغاز میں ہی جو گرمی امنڈ آئی ہے وہ قابل تشویش ہے ، دنیا بھر میں گلوبل وارمنگ کی بات کی جارہی ہے اور ہر ایک انسان کا یہ گلہ ہے کہ گرمی روزبروز بڑھ رہی ہے ۔ ہر سال گرمی کی وجہ سے نئے نئے ریکارڈ بن رہے ہیں اور ہم افسوس ہی کررہے ہیں ۔ فضاءمیں مختلف گیسیں موجود ہیں ، ان گیسوں کی زیادتی کی وجہ سے سورج کی کرنیں زمین سے ٹکرانے کے بعد خلاءمیں نہیں جاسکتیں ، اس کی وجہ سے فضاءکا درجہ¿ حرارت بڑھ رہاہے اور نتیجے میں زمین کا درجہ حرارت بھی بڑھ رہاہے ۔ اس عمل کو زمینی تپش یعنی گلوبل وارمنگ کہتے ہیں ۔ ہم انسان اپنے مفادات کی خاطر جب انسان کو ہی نہیں بخش رہاہے تو زمین ، پانی ، جنگلات کو کیسے بخشیں گے ۔ دنیا بھر میں مختلف مقامات پر ترقی کے نام پر مسلسل جنگلات کا صفایا کیا جارہاہے ، جو جنگلات انسانوں کے مددگار تھے انہیں جنگلات کو آج انسان خود اپنے ہاتھوں سے صاف کررہاہے ۔ زمین ، ہوا، پانی اور جنگلات کی حفاظت کرنے کے لئے جہاں سائنس باقاعدہ انسانوں کو ہدایت دیتا ہے اسی طرح سے دین اسلام بھی قدرت کی حفاظت کرنے کا حکم دیتاہے ۔ ہم مسلمانوں میں ماحولیاتی تحفظ اور قدرتی وسائل کی بقاءکے لئے فکر کرنے کا مادہ کچھ کم ہی ہے ۔ حالانکہ پیغمبر اسلام حضرت محمد مصطفی ﷺ نے مسلمانوں کو باقاعدہ ماحول کے حفاظت کرنے ، زمین پر سبزہ اگانے کی ہدایت دی ہے ۔ پیغمبر اسلام رسول عربی ﷺ کے احکامات پر عمل کرنا ہر مسلمان کا فرض ہے اور انکی ہر ادا پر عمل کرنا باعث ثواب ہے ۔ رسول ﷺ نے جن باتوں پر عمل کرنے کا حکم دیاہے اگر ان پر عمل کرلیا جاتاہے تو یہ ہمارے لئے باعث رحمت ہے۔ موجودہ دور میں انسان دولت و آرائش کے نام پر ماحول کو تباہ کرتاجارہاہے اور یہ تباہی خود اپنے ہاتھوں سے انجام دینے کے باوجود قدرت کو ذمہ دار ٹہرا رہاہے ۔ جب کثر ت سے بارش ہوتی ہے تب بھی انسان برداشت نہیں کرسکتا،جب گرمی کا پارہ بڑھتا ہے اسوقت بھی قدرت کو ہی مورد الزام ٹہراتاہے لیکن ماحول کی حفاظت کے لئے خود کیا کررہاہے یہ کبھی نہیں سوچتا۔ ہم اپنے گھر کے سامنے کسی درخت کو پھیلتا ہوا دیکھتے ہیں تو اسے کاٹ دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اسکی وجہ سے کوڑا زیادہ ہورہاہے ۔ اپنے محلوں میں موجود تناور درختوں کو صرف اس وجہ سے کاٹ دیاجاتاہے کیونکہ وہاں چڑیوں کا چہچہانا زیادہ ہوجاتاہے اور صبح کی نیندیں خراب ہوجاتی ہیں ۔ لیکن ہم اپنے مستقبل کے تعلق سے نہیں سوچ رہے ہیں ، اپنی عارضی آسائشوں و آرام کے لئے مستقل نقصان کو اٹھایا جارہاہے ۔ہمارے نبی ﷺ نے فرمایا ہے کہ اگر کوئی مسلمان کوئی پودا لگاتاہے یا بیج بوتا ہے ، اس سے کوئی پرندہ یا انسان یا پھر جانور فائدہ اٹھاتاہے تو وہ عمل بیج بونے والے مسلمان کے لئے ثواب جاریہ اور صدقے کا سبب بن جاتاہے ۔ اسی طرح سے اور ایک حدیث مبارکہ میں آیا ہے کہ حضرت انس ؓ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ اگر قیامت قائم ہوجائے اور تم میں سے کسی کے ہاتھ میں کھجور کا چھوٹا پودا ہو ، اگر وہ قیامت کے قائم ہونے سے پہلے اسے گاڑھ سکتاہو تو اسے گاڑھ دینا چاہئے۔ ان تمام باتوں کو شاید ہم میں سے کچھ لوگ نہیں جانتے لیکن جو علماءو اکابرین جانتے ہیں وہ دوسروں تک نہیں پہنچا رہے ہیں ۔ آج ہمارے پاس خدمت خلق کے لئے مخصوص طریقے ہیں جس میں غریبوں کے لئے کھانا کھلانا ، غریبوں کے لئے وظیفے تقسیم کرنا ، سنت ابراہیمی کروانا ، شادی بیاہ کے لئے رقومات فراہم کرنا اور چند ایک مستحق افراد کی بیماریوں کے علاج کے لئے مالی امداد کرنا ۔ جب کے پیڑ پودے لگانا بھی باعث ثواب ہے ، اس سے ثواب تو ملتاہی ہے ساتھ میں انسانوں کو دنیامیں بھی فائدہ ملتاہے ۔ ہمارے مسجدوں و مدرسوں کے اطراف و اکناف کئی ایکر زمینیں پائی جاتی ہیں اگر ان جگہوں پر سایہ دار درخت لگوائے جاتے ہیں تو اس سے نہ صرف ٹھنڈی ہوا مل سکتی ہے بلکہ ان سے تجارت بھی کی جاسکتی ۔ آم ، ناریل ، نیم ، پھنس ، کاجو، صندل ، شیشم اور ایسے ہی مختلف اقسام کے درخت ہیں جنہیں ہم ماحول کے تحفظ کے علاوہ آمدنی کے ذرائعوں کے طور پر اگاسکتے ہیں ۔ ہم مسلمان ہیں ، جب تک ہم دنیا میں رہیں صرف بھلائی کے کام کرتے رہیں اور ماحول کی حفاظت کرنا بھی ایک بھلائی کا کام ہے ۔ ہم یہ عہد کریں کہ ہر سال ہم اپنے گھر کے پاس ، محلے میں ، گاﺅں میں درختوں کی اگانے کا عمل شروع کرینگے اس سے ہمیں سایہ ہی نہیں ثواب بھی ملے گا اور دوسروں کے پاس بھی یہ پیغام پہنچے گا کہ اسلام نے واقعی میں مسلمانوں کو زندگی کا ہر فرض سکھایا ہے ۔

تبصرے بند ہیں۔