کھڑکیاں

نظر عرفان

کھڑکیوں کے سہارے جو میں نے تجھے دیکھا اجنبی بن کر

 تجھے یہ بھی خبر نہیں ترےگھر کے ساۓ ترا یار چھپا ہے

—-

اور جو میں نے دیکھی تری عبادت نماز کھڑکيوں سے

کاش! تری اس عبادت میں مری چاہت کی دعا  ہو

—-

کھڑکیاں کھلی چھوڑ کر تم مجھ  پہ  یہ ظلم  نہ کرو

اب تم سےبس یہی التجا ہے کہ پردہ گرا کر  رکھنا

—–

اے جھروکہ ترا نام بہت سنا ہےعشق کی داستانوں میں

جانو تو، ان کھڑکیوں نےتم ہی سےسیکھا ہے جھروکھا درشن

مرے اس فرسودہ قلم سے تری  ان حسیں اداؤں  کی  تعریف

 حسینائیں اور بھی امید میں کہ مرے لیےبھی کچھ لکھا جاۓ

تبصرے بند ہیں۔