کہاں وہ لطفِ پسِ انتشار دیتا ہے

افتخار راغبؔ

کہاں وہ لطفِ پسِ انتشار دیتا ہے

مجھے بکھرنے سے پہلے سنوار دیتا ہے

ذرا سا عکسِ تبسّم کی تاب دے کے مجھے

خیال و خواب کے چہرے نکھار دیتا ہے

وہ چاہتا ہے کہ وہ بھی اسی کے تابع ہو

وہ جس قدر بھی مجھے اختیار دیتا ہے

وہ کون ہے جو چمکتا ہے آس کے مانند

نویدِ آمدِ فصلِ بہار دیتا ہے

انوکھی آنچ پہ تپتے ہیں قلب و چشم عجب

عجیب لطف ترا انتظار دیتا ہے

نوازتا ہے وہ راغبؔ نرالی خوشیوں سے

وہ غم بھی لائقِ صد افتخار دیتا ہے

1 تبصرہ
  1. Aafiya کہتے ہیں

    Beautiful

تبصرے بند ہیں۔