کہاں وہ لطفِ پسِ انتشار دیتا ہے
افتخار راغبؔ
کہاں وہ لطفِ پسِ انتشار دیتا ہے
مجھے بکھرنے سے پہلے سنوار دیتا ہے
…
ذرا سا عکسِ تبسّم کی تاب دے کے مجھے
خیال و خواب کے چہرے نکھار دیتا ہے
…
وہ چاہتا ہے کہ وہ بھی اسی کے تابع ہو
وہ جس قدر بھی مجھے اختیار دیتا ہے
…
وہ کون ہے جو چمکتا ہے آس کے مانند
نویدِ آمدِ فصلِ بہار دیتا ہے
…
انوکھی آنچ پہ تپتے ہیں قلب و چشم عجب
عجیب لطف ترا انتظار دیتا ہے
…
نوازتا ہے وہ راغبؔ نرالی خوشیوں سے
وہ غم بھی لائقِ صد افتخار دیتا ہے
Beautiful