کہیں صدف کہیں گوہر کی لاش پانی میں
عمران فاروقی
کہیں صدف کہیں گوہر کی لاش پانی میں
چہار سمت ہیں پتھر کی لاش پانی میں
۔
سیاہ رات کے آنچل میں بلبلوں کا ہجوم
ڈبو رہا تھا بونڈر کی لاش پانی میں
۔
یہ سوچ کر کہیں تفتیش میں نہ پھس جاؤں
میں پھینک آیا سمندر کی لاش پانی میں
۔
زمانہ دیکھ رہا تھا کھڈا کنارے سے
ہمارے جلتے ہوے گھر کی لاش پانی میں
۔
خورچ کے آنکھ کی پتلی سے پھینک آیا ہوں
تمہارے شہر کے منظر کی لاش پانی میں۔۔
۔
رواں تھا امن کا دریا جہاں پے اے عمران
وہیں پڑی تھی کبوتر کی لاش پانی میں
تبصرے بند ہیں۔