کہیں چھاؤں مل نہ جائے

وصیل خان

سراج شولاپوری ادب میں طنز و مزاح کے حوالے سے جانے جاتے ہیں لیکن ان کے اندر بلاکی سنجیدگی بھی ہے جس کی بازیافت کچھ عرصہ قبل اس وقت ہوئی جب نظموں پر مشتمل ان کی کتاب ’سیل جنوں‘ منظر عام پر آئی اور اب ان کی تازہ کتاب ’ کہیں چھاؤں مل نہ جائے ‘ کی اشاعت نے ثابت کردیا کہ وہ بیک وقت سنجیدہ اور مزاحیہ دونوں اصناف پر نہ صرف دسترس رکھتے ہیں بلکہ قبول عام کے درجے پر بھی فائز ہیں ۔ اچھی،دوررس اور پراثر شاعری کیلئے جوامتیازات مختص کئے گئے ہیں ان کا استعمال ان کے یہاں جا بجا نظر آتا ہے۔ زندگی مختلف نشیب و فراز کے ساتھ سفر کرتی ہے کاروان رنج و غم کے ساتھ سرورو انبساط کے ڈولے بھی اس کے ہمرکاب ہوتے ہیں زندگی اگر ان دونوں رنگو ں سے مزین نہ ہو تو پھر اس کا لطف ہی کہاں باقی رہتا ہے۔ سراج کی یہی خصوصیت ہے کہ وہ غموں کی آندھیوں کے درمیان بھی حیات نو کا چراغ جلائے رکھنے کا ہنر جانتے ہیں اور زندگی جینے کا سامان فراہم کرلیتے ہیں ۔ ان کا یہ شعرثبوت کے طور پر پیش کیا جاسکتا ہے۔

   اسی دھوپ کے سفر سے مرا حوصلہ ہے قائم

  مجھے ڈر ہے راستے میں کہیں چھاؤں مل نہ جائے

ڈاکٹر انجم بارہ بنکوی نے درست تجزیہ کیا ہے وہ لکھتے ہیں ’’سراج کے کلام میں ایک متوازن شائستگی اپنے پورے جلال و جمال کے ساتھ نظر آتی ہے۔ تجربات او ر مشاہدات کو بڑے سلیقے سے شعری پیراہن عطا ہوا ہے۔ کہیں چھاؤں مل نہ جائے کی بیشتر شاعری براہ راست تجربوں کی مرہون منت ہے۔ سراج نے تجربے کو جدت کے شوق میں فنی لوازمات اور ضابطوں سے منہ نہیں موڑا ہے اور نہ ہی زبان و بیان کی سطح پر کوئی سمجھوتہ کیا ہے۔ ‘‘

سراج کی ایک اور خصوصیت کاذکر یہاں اس لئے ضروری معلوم ہوتا ہے کہ آج کے اس گلوبل ولیج دو ر میں جب کچھ بھی نظروں سے اوجھل نہیں رہ گیا ہے تصنیف و تالیف کے میدان میں سرقہ جیسی بری اور غیر مہذب عادت رواج پاتی جارہی ہے جس کے نتیجے میں تخلیقی قوت بر ی طرح متاثر ہوئی ہےانہوں نے نہ صرف اپنے دامن کو محفوظ رکھا ہے بلکہ اس کے سائے سے بھی بچتے نظرآتے ہیں ان کی احتیاط کا یہ عالم ہے کہ وہ نہ تو پیش روشعراء کی تقلید کرتے دکھائی دیتے ہیں نہ ہی موجودہ شعراءسے مرعوب و متاثر ہوتے ہیں وہ اپنے فکرو فن کو نئے نئے اسالیب و تراکیب سے مزین کرتے ہیں اور یہی ڈگر انہیں شعراء کی بھیڑ میں ممیز و منفرد بنارہی ہے۔ چند اشعار بطور نمونہ پیش ہیں دیکھیں اور خود ہی فیصلہ کریں ۔

تمہارے بعد دیا بھی جلا نہیں گھر میں

  تمہارے بعد ہوا بھی ادھر نہیں آئی

بند کمروں کے دیئے سب روشنی کھوتے گئے

  میری آوارہ مزاجی معتبر ہوتی گئی

بہت اونچی اڑانیں کل تھیں جس کی

 زمیں پر وہ بھی اب اترا ہی ہوگا

اپنے ہونے کا گماں بھی نہیں ہے لوگوں کو

    اپنے ہونے کا یقیں سب کو دلادے کوئی

سر سے خودہی ہٹا کے سائے ہم

  دھوپ جتنی تھی کھینچ لائے ہم

شائقین صاحب کتاب سے اس نمبر پر رابطہ قائم کرسکتے ہیں  08080367827۔ کتاب کے حصول کیلئے  یہ پتے محفوظ کرلیں ۔ کتاب دار ۱۰؍جلال منزل ٹیمکر اسٹریٹ ممبئی ۴۰۰۰۰۸۔فیمس بک سیلر س، بجاپور بیس۔ سولاپور ۴۱۳۰۰۲۔صالحہ بک ٹریڈرس مومن پورہ ناگپور۔

تبصرے بند ہیں۔