کیانگر تھا، جوتیرے ہاتھوں اجڑ گیا 

 مولاناقاضی محمد اسرائیل گڑنگی

اللہ والوں کی صحبت میں بیٹھنا اللہ پاک کی بہت بڑی نعمت ہے وہاں سے بہت کچھ ملتاہے، اہل دنیاکے درد کوانسان اپنادرد بنالیتاہے دوسروں کے غموں کواپناغم بنالیتاہے۔ پھر ایسی فکر ہمیشہ رہتی ہے کہ کیسے کسی کی خدمت کی جائے۔ میں نے ایک اللہ والے کایہ جملہ پڑھااور سوچوں میں گُم ہوگیادوچیزیں انسان کے پاس بہت بڑی اللہ کی نعمت ہیں:

1۔ وقت

2۔ والدین

وقت بھی گزر جاتاہے تودوبارہ ہاتھ نہیں آتا۔والدین بھی جب چلے جاتے ہیں توواپس نہیں آتے۔

مثلاً کسی کے بچپن کاوقت گزر گیا وہ اس کے بچپن کا وقت تھااب موت توآسکتی ہے وہ وقت اور لمحات دوبارہ نہیں آسکتے جس کے ماں باپ چلے گئے اب دوبارہ کسی صورت میں نہیں مل سکتے ان دونوں چیزوں کی قدر کرو!

اس سے پہلے پہلے کہ یہ اعلان ہوناشروع ہوجائے کہ فلاں بن فلاں مر گیا۔ پھر کچھ نہیں بن سکتا۔ہماری زندگی میں بھی عجیب وغریب واقعات پیش آئے ہیں۔ حدیث پاک میں آتاہے کہ جب کسی سے دوستی کروتو اس کانام خاندان اور رہائش وغیرہ معلوم کر لیں،۔ اللہ کے فضل وکرم سے ہم اس پر عمل کرتے ہیں، گزشتہ دنوں  جب ایک ٹیکسی ڈرائیور کے ساتھ سوار ہوئے تو اس سے علیک سلیک کے بعد معلومات حاصل کرنے لگے تواس کی آنکھوں میں آنسوئوں کی لڑی بن گئی وہ باربار آنکھوں سے آنسو صاف کر رہاتھامگر کچھ اندر کادرد ایساتھا کہ آنسورکنے کانام ہی  نہیں لے رہے تھے ہم نے اور تجسس کیااور حالِ دل کریدا تو اس نے کہا:حضرت جی مجھ پر رب کابہت بڑافضل تھا۔ 5حج کیے اور عمرے لاتعداد۔ ۔۔اللہ پاک نے احسان کیاکہ ایک وقت ایسا بھی آیاکہ روضہ رسول ﷺ کے اندر بھی گیا،حالات کے بدلنے میں وقت نہیں لگا کرتاسب کچھ اللہ کے حوالے ہوگیا۔۔5بچیاں ہیں اور کرایہ کامکان، کسی کی ٹیکسی چلاکر وقت گزار رہاہوں۔

اتوار والے دن بچی کی رخصتی ہے مگر اللہ کی شان بازار سے ایک جوڑاکپڑوں کااور بچی کے لیے نئے جوتے بھی میسر نہیں۔ بس رب کاحکم ہے اس پہ راضی ہوناہی پڑے گا،یہ واقعہ جمعرات کے دن کاہے ہم نے عرض کیاکہ ہفتہ والے دن عصر کی نماز میں ملاقات کرناان شاء اللہ جو ہوسکا آپ کی بچی کے ساتھ تعاون کیاجائے گا۔۔۔

جمعہ کے دن سفید پوشی کی چادر ڈالتے ہوئے خاص حضرات کواس طرف توجہ دلائی ماشاء اللہ۔ احباب نے تعاون کیا ہفتے کے دن عصر کی نماز میں آں محترم ملے جوہوسکاان کے ہاتھ میں نقد رقم دیتے ہوئے رب کاشکر اداکیااور اللہ کا شکر اداکرتے ہوئے جب اس کی آنکھوں پہ نظر پڑی تواس کی آنکھوں سے بھی آنسو جاری ہوچکے تھے، ہمارے خیال میں وہ خوشی کے آنسو تھے اور زبان حال سے یہ کہہ رہے تھے

  ؎شکر ہے تیراخدایامیں تواس قابل نہ تھا

ایک اور منظر بھی سامنے لایاجارہاہے ایک یتیم بچی کی رخصتی کاوقت آیاتواس کی والدہ کے پاس سوائے اللہ کے نام کے کچھ بھی نہیں تھا۔ اہل خیر کوتوجہ دلائی تواللہ پاک نے آسانی کر دی۔ ۔۔سامانِ فاطمی رضی اللہ عنھا بن ہی گیا۔اللہ پاک کاشکر ہے کہ سفید پوشوں کے حالات خیال میں آجاتے ہیں،۔ سادات خاندا ن کی دو یتیم بچیاں اسی سفید پوشی کے حال میں تھیں کہ اہل دل کوفکر دلوائی اللہ پاک نے مدد فرمائی کچھ آسانی ہوگئی۔

سفید پوش وہ لوگ ہیں جن کے احوال اور ان کے دل کے ارمان سوائے اللہ پاک کے کوئی نہیں جانتااپنے ارمان مار کرکیسے دن رات بسر کرتے ہیں یہ ہم قلم نے نہیں لکھ سکتے اور کسی کے سامنے زبان سے بیان بھی نہیں کر سکتے ہمارے مال اور ہماری خوشیاں کس کام کی۔۔آئو کچھ کام کر جائیں اور سفید پوشوں کے دکھوں میں شامل ہوجائیں،

ایک بچی جب اپنے والد کے گھر سے دوسرے کے گھر میں روانہ ہوتی ہے تو سوائے رب کے نام وحکم (نکاح) کے اور کوئی اس کاسہارانہیں ہوتا۔ ہمارے بزرگ ہندکووگوجری میں کہاکرتے تھے

’’یہ زندہ جنازہ ہے اس کے دکھ میں ضرور شریک ہونا‘‘انجام کاکوئی علم نہیں بس ایک ہی سہارا اس کے ساتھ نظر آتاہے وہ ہے اس کاضرورت کاسامان۔ ۔۔

محسن دلِ غریب کی ویرانیاں تودیکھ

کیانگرتھاجوتیرے ہاتھوں اجڑگیا

اہل خیر اور اہل دل اپنامال دل کھول کر لگائیں۔ ہم ہمیشہ یہ اعلان کیا کرتے ہیں ’’جو دے گیا وہ لے گیا،جوکھاگیاوہ گُما گیا،جوجوڑ گیاوہ چھوڑ گیا‘‘

آئو کچھ کام کر جائیں کہ اس سے پہلے کہ یہ اعلان ہوکہ آج فلاں مر گیا۔جونہی رب کے حکم کی تلوار وجود پہ چلے گی حضرت عزرائیل ؑ موت کاپیغام لے کر آئیں گے طاقت والی گردن کوتوڑ مروڑ کر رکھ دیاجائے گاپھر اپنے ہی اٹھاکر بھاری پتھروں تلے اور منوں مٹی تلے دفناکر واپس آجائیں گے تو پھر چند دنوں کے بعد بھول بھلیاں ہوجائیں گے۔ بس اللہ رب العزت کانام ہی باقی رہ جائے گا،۔ ہے کوئی عبرت حاصل کرنے والا۔ ہے کوئی قبر کی تیاری کرنے والا۔ہے کوئی اپنامحل جنت میں بنانے والا۔

بس کر خدمت فقیروں کی۔ سفید پوش ایک اعلیٰ فقراء کاطبقہ ہوتاہے جو اپنادکھ دردرب کے سواکسی کے سامنے نہیں رکھتاان کاحال جاننے کے لیے ان کے دکھ درد میں خود شریک ہوناپڑتاہے بس ایک حال میں اللہ پاک کی ذات ہے اور رہے گی باقی سب کے حالات بدل جاتے ہیں،۔ حضرت والد محترم ؒ فرمایاکرتے تھے دولت ہاتھ کی میل ہے جب ہاتھ دھویاجائے گاتومیل اتر جائے گی یہی حال دولت کاہواکرتاہے

2005؁ء کے زلزلہ نے تودنیاکوبڑاسبق دیاہے عقلمندوں کے لیے عبرت کامقام ہے جو لاکھوں روپیے زکوٰۃ کے نکالاکرتے تھے وہ خود زکوٰ ۃ کے مستحق بن گئے جوکروڑپتی تھی وہ ماچس کی ڈبیہ تک کے لیے محتاج ہوگئے، جومحلات میں رہتے تھے انہیں کھلے میدان میں خیمے لگاکر راتیں کاٹنی پڑیں۔ اے اللہ ایسے دکھ میں کسی کوپھر مبتلانہ کرناہاں یہ اور بات ہے کہ جس نے دکھ دیکھااور عبر ت حاصل نہیں کی یاسکھ دیکھ کر دکھوں ہی کوبھول گیا اس کاکوئی علاج نہیں یہ لاعلاج بیماری میں مبتلاہوگیا۔اچھاکردار اور اچھاکام انسان کوہمیشہ زندہ رکھتاہے روشنیاں بانٹنااور بکھیرنایہی انسان کاکردار ہے

  وہ چال چل کہ عمر خوشی سے کٹے تیری

وہ کام کرکہ یاد تجھے سب کیاکریں

جو لوگ کسی کاسہارا بناکرتے ہیں وہ کبھی بے سہارانہیں ہواکرتے ان حضرات کے لیے حضرت والد محترم نے ایک جامع جملہ یوں ارشاد فرمایاتھا

’’کچھ لوگ توخود توجہ مبذول کراتے ہیں اور کچھ وہ ہوتے ہیں جن کے چہرے سبق دلاتے ہیں آپ کے تعاون توجہ اور امداد کے مستحق ہیں وہ لوگ جن کاچہرہ سوال ہوتاہے اور زبان بے سوال ہوتی ہے‘‘

آئو سب مل کر ایک یہ کام بھی کر جائیں کہ دائیں ہاتھ سے خرچ کریں اور بائیں ہاتھ کوپتہ بھی نہ چلے اصل نیکی یہی ہے اور قیامت کے دن یہ نیکی عرشِ الٰہی کاسایہ نصیب کرے گا مزید تفصیل کے لیے ہماری کتاب ’’آئو عرش کے سائے تلے ‘‘ملاحظہ فرمائیں

اللہ پاک ہمیں بے سہاروں کاسہارابننے کی توفیق عطا فرمائے (آمین)

تبصرے بند ہیں۔