کیا اسلام تلوار کے زورسے پھیلا؟

محمدجمیل اخترجلیلی ندوی

دیدہ ریزی کے ساتھ تاریخ کے خزاں دیدہ اوراق کا مطالعہ کرجایئے، عرق ریزی کے ساتھ تاریخ کے پھیلے ہوئے صفحات کو پڑھ جایئے، آپ دیکھیں گے کہ اس گار گہِ ِعالم میں دلیری، بہادری، جنگجوئی اور سپہ سالاری کے عظیم الشان کارناموں کی کمی نہیں ہے، تاریخ کے مختلف ادوار میں کرّہ ٔ ارضی کے مختلف حصوں سے ایسی زلزلہ بردوش ہستیاں اُٹھتی رہی ہیں، جنھوں نے اپنی تلواروں کی نوکوں پردُنیا کے طبقے اُلٹ دئے ہیں، اپنی نیزوں کی اَنیوں سے انسانی کھوپڑیوں کے قلعے تعمیر کئے ہیں، وہ آندھیوں کی طرح عالم ِانسانی میں آئے اور ہنگامۂ محشر برپا کرکے بگولوں کی طرح چلے گئے، برق ِآسمانی بن کر لپکے اورخرمن ِانسانیت کو خاکستر کرگئے، تاریخ کے صفحات میں ہٹلر وچنگیز کے نام جلی حرفوں میں لکھے ہوئے ہیں، جنھوں نے ایسی فتنہ خیز شورشیں برپاکیں کہ چشم ِآسمان بھی آنسو بہائے بغیر نہ رہ سکا؛ لیکن کیا کبھی اُن کی فتح ونُصرت کی بازگشت روح ِانسانی کے نہاخانوں میں بھی سنی گئی؟کیا اُن کی تلواریں اوہام وخرافات کی بیڑیاں کاٹ کر تہذیب و معاشرت کا کوئی نیا خاکہ بھی پیش کرسکی ہیں ؟ اور کیا کبھی کسی سکندر، چنگیز یا نپولین کی قوت ِ بازو کے صدقے میں انسانیت کو اس کے قلب وروح کی ناپاکی اورزنگ آلودگی سے نجات مل سکی ہے؟ ____ہماراہی نہیں، پوری انسانیت کا جواب نہیں اور صرف نہیں میں ہوگا !!

  آج کے اس میڈیائی دور میں چہار سمت ایک ہی بول اور ایک ہی صداہے کہ اسلام بزورِشمشیر وسناں اور تیر وتیغِ رواں سے پھیلاہے؛ چنانچہ The New Educator Encyclopaediaجیسی اہم اور مستند کتاب بھی اس بے بنیاد بیان کی حامل ہے کہ’’ جب محمدﷺ کے پیروکاروں کی تعدادمیں روزافزوں اضافہ ہوتا گیاتواُنھوں نے اپنے عقائد بزور شمشیر منوانے کی ٹھانی اور جنگوں کا ایک طویل سلسلہ شروع ہوگیا، بالآخر اُنھوں نے پورا عرب فتح کرڈالا‘‘، اس کا غلط نتیجہ یہ نکلاکہ جب بھی اسلام یا مسلمانوں کانام آتاہے، انسانی ذہنوں میں یہ نقشہ اُبھر آتاہے کہ اہل ِاسلام ہروقت ننگی تلوار لئے، چہروں پرداڑھیاں رکھے اللہ اکبر کا نعرہ لگاتے ہوئے آگے بڑھ رہے ہیں اور کسی غیر مسلم کی گردن پر تلوار رکھ کرکہ رہے ہیں کہ لاالٰہ الااللہ پڑھو ورنہ سر تن سے جداکردیاجائے گا۔

 لیکن تاریخ شاہد ہے کہ اسلام ہی وہ مذہب ہے، جس نے پامال شُدہ انسانی قدروں کوبحال کیااور ارضی خداو ٔں کی جبیں نیازی سے آزاد کرکے ایک خدا کی بارگاہ میں سجدہ ریز کیا، مصر کے نامور ادیب سید قطب لکھتے ہیں : ان ہذا الدین اعلان عام لتحریر الانسان فی الأرض من کل سلطان غیر سلطان اللہ باعلان ألوہیۃاللہ وحدہ وربوبیتہ للعالمین۔ (فی ظلال القرآن: ۳/۴۰۱)،’’دین اسلام روئے زمین پر اللہ کے غلبہ اورتسلط کے علاوہ ہر غلبہ اور تسلط سے انسانوں کے لئے عام آزادی کا اعلان ہے، اور اس بات کا بھی اعلان ہے کہ اللہ ہی معبود اورسارے جہان کاپالنہار ہے‘‘، اسلام ہی وہ مذہب ہے،جس نے میدانِ کشت وخون میں لتھڑے ہوئے انسانوں کوانسانیت کے صحیح مقام پر لاکھڑا کیا، معمولی معمولی بات پر پیداہونے والی خون آشام جنگوں سے عربوں کے رشتۂ ازلی کوتوڑا اوریہ تصور دیاکہ سخت ناگزیر حالت ہی میں تلوار اُٹھائی جاسکتی ہے، حدیث پاک میں کہ ایک شخص نے آپﷺ سے پوچھا: أرأیت رجلاً یقاتل شجاعۃً، ویقاتل حمیۃً، ویقاتل ریاء ً، أیّ ذٰلک فی سبیل اللہ؟ فقال: من قاتل لتکون کلمۃ اللہ ھی العلیا، فہو فی سبیل اللہ۔ (مسلم، حدیث نمبر:3525)، ’’ آپ ﷺکا ایسے شخص کے بارے میں کیا خیال ہے، جو بہادری، حمیت یاریاکے لئے جنگ کرے، کیا ایسے شخص کے جنگ کو اللہ کی میں راہ میں سمجھاجاسکتاہے؟ آپ ﷺنے فرمایا: جو شخص صرف اللہ کے کلمہ کی بلندی کے لئے جنگ کرے، وہ خداکی راہ میں (جنگ کرنا)ہے‘‘۔

 ذرا غور کیجئے! کیا ایسی تعلیم دینے والے مذہب کوہزاروں اورلاکھوں جانوں کوتہ ِتیغ کرکے عام کیاجاسکتاہے؟دراصل دشمنانِ اسلام نے لفظ ِجہاد کا غلط مفہوم عوام الناس کے سامنے لاکریہ باور کرانے کی کوشش کی ہے کہ اسلام ایک خونخوار مذہب ہے، جہاں مارنے اور کاٹنے کی بات کی جاتی ہے، یہ توسچ ہے کہ اسلام کا اہم ترین جزء ’جہاد فی سبیل اللہ‘ بھی ہے؛ لیکن کیا جہاد کامقصد انسانی جانوں سے قلعے تعمیر کرناہے؟ کیا اس کا مقصد صرف مال ِغنیمت کا حصول اور انسانوں پر حکومت کرناہے یا کچھ اور ؟حسن البنّاء شہید ؒ اپنے ایک مضمون’’الجہاد فی الاسلام‘‘ میں لکھتے ہیں :فرض اللہ الجہاد علیٰ المسلمین لا أداۃً للعدوان، ولا وسیلۃً لمطامع الشخصیۃ؛ ولٰکن حمایۃ للدعوۃ وضماناً للسلم، وأداء ً للرسالۃالکبریٰ التی حمل علیہا المسلمون، رسالۃ ھدایۃ الناس الی الحق والعدل۔ ’’اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں پر جہاد اس لئے فر ض نہیں کیاہے کہ کوئی اس کو اپنی دشمنی (نکالنے)کاذریعہ اور ذاتی خواہشوں کی(تکمیل) کا سبب بنالے؛ بل کہ اس لئے فرض کیا ہے کہ وہ دعوت ِدین کی حفاظت اور امن وشانتی کی ضمانت بن سکے، اور اس کے ذریعہ سے حق وعدل کا وہ پیغام لوگوں تک پہنچ سکے، جو مسلمانوں کے کاندھوں پر ہے‘‘۔

 اسی طرح جب حضرت ربعی بن عامرؓ ایرانی سپہ سالار رستم کے دربار میں حاضر ہوئے اور اس نے سوال کیا: ماجاء بکم؟ انھوں نے جواب میں فرمایا:

اللہ ابتعثنا لنخرج من شاء من عبادۃ العباد الی عبادۃ اللہ وحدہ، ومن ضیق الدنیا الی سعتہا، ومن جور الأدیان الی عد ل الاسلام، فأرسلنا بدینہ الی خلقہ، لندعوہم الیہ، فمن قبل ذلک قبلنامنہ، ورجعنا عنہ، ومن أبیٰ قاتلناہ أبداً؛ حتی نفضی الی موعود اللہ، قالوا: وماموعود اللہ؟ قال: الجنۃ لمن مات علیٰ قتال من أبی، والظفر لمن بقیٰ۔ (البدایہ والنہایہ: ۷/۴۳۹)،

’’اللہ تعالی نے اس دنیا میں ہمیں اس لئے برپا کیاہے؛ تاکہ ہم اللہ کے ان بندوں کو ارضی خداؤں کی غلامی سے نکال کر حقیقی معبودکے سامنے سجدہ ریز کریں، جن کے لئے اللہ تعالیٰ نے ہدایت کا فیصلہ فرمادیا ہے، اسی طرح دنیا کی تنگی سے کشادگی اور باطل مذاہب کے ظلم سے اسلام کے عدل کی طرف لائیں، چنانچہ اللہ نے اپنا دین دے کر ہمیں اپنی مخلوق کے پاس بلانے کے لئے بھیجا، اب جو اس دعوت کوقبول کرے گا، ہم اس کو قبول کریں گے اور اس سے دور رہیں گے؛ لیکن جو نہیں قبول کرے گا، ہم اس سے جنگ کرتے رہیں گے؛ یہا ں تک کہ اس کے کئے ہوئے وعدہ کو پالیں، ان لوگوں نے پوچھا: وہ وعدہ کیا ہے؟  منکرین کے ساتھ جنگ کرتے ہوئے شہید ہونے پر جنت یابچ جانے پر اخروی کامیابی‘‘۔

 یہ ہیں مقاصد ِجہاد؛ لیکن کیاجائے مغربی میڈیاکو، جس نے لفظ ِجہاد کوجس انداز میں پردۂ سیمیں پرپیش کیاہے، اس کا نقشہ مولاناسید ابوالاعلیٰ مودودی ؒنے اپنے رسالہ’’حقیقت ِجہاد‘‘ میں یوں کھینچاہے: ’’عموماً لفظ جہاد کومذہبی جنگ کہہ کر غلط روشنی میں پیش کیاجاتاہے اور اس کی تفسیر وتشریح مدتہائے دراز سے اس اندازمیں کی جاتی ہے کہ اب یہ لفظ ’جوش ِجنوں ‘‘ کے ہم معنیٰ ہوکر رہ گیاہے، اس کوسنتے ہی آدمی کے سامنے ننگی تلواریں لئے ہوئے، داڑھیاں رکھے ہوئے گروہ کی تصویر آجاتی ہے، جو کسی کافر کی گردن پر تلوار رکھ کرکہتاہے کہ بول لاالٰہ الااللہ، ورنہ سر تن سے جداکردیاجائے گا، ماہرین نے بڑی قلمکاریوں کے ساتھ ہماری یہ تصویر بنائی ہے اور اس کے نیچے موٹے حروف میں لکھ دیا ہے’’بوئے خوں آتی ہے اس قوم کے افسانوں سے‘‘؛ حالاں کہ جہاد کا مفہوم اس کے بالکل برعکس ہے، علامہ سید سلیمان ندوی ؒ لکھتے ہیں : ’’حق کی بلندی واشاعت اورحفاظت کے لئے ہر قسم کی جد وجہد، قربانی وایثار گواراکرنااور تمام جسمانی، مالی ودماغی قوتوں کو، جواللہ تعالیٰ کی طرف سے بندوں کوملی ہیں، اس راہ میں صرف کرنا؛ یہاں تک کہ اس کے لئے اپنے عزیزوقریب کی، اہل وعیال کی، خاندان وقوم کی جان تک کوقربان کردینااورحق کے مخالفوں اوردشمنوں کی کوشش کوتوڑنا، اُن کی تدبیروں کورائیگاں کرنا، اُن کے حملوں کوروکنا اور اس کے لئے میدان ِجنگ میں اگر اُن سے لڑنا پڑے تو اس کے لئے بھی پوری طرح تیار رہنا ہے‘‘، (سیرۃ النبی: ۵/۳۹۶)۔

 اب غور کیا جائے کہ جس جہاد کا مقصد ہی انسانی جانوں کی حفاظت، ارضی خداؤں جبیں سائی آزاد کرکے ایک خدا کے دربار میں سجدہ ریز کرنااور شخصی حکومتوں کے بجائے حقیقی مالک کی حکومت قائم کرناہو، کیااسے تلوار کے ذریعہ عام کرنے کی ضرورت ہے؟ہر گز نہیں ! یہ عنوان تو بس عوام کو اسلام سے برگشتہ کرنے کی ایک سازش ہے؛ لیکن اللہ کا بھی وعدہ ہے: لیحق الحق، ویبطل الباطل، ولو کرہ المشرکون۔

تبصرے بند ہیں۔