نشورؔ واحدی: ایک شاعر طبیب

حکیم فخرعالم

طب اور شعری ادب کے باہم رشتوں کی تاریخ بڑی پرانی ہیں ۔قدیم ترین تہذیبوں میں طب کی موجودگی کے جو ابتدائی ترین شواہد ہیں ، اُن میں ہومر کی رزمیہ نظم اولیت رکھتی ہے، گویا زمانۂ قدیم میں طب کے وجود کی شہادت فراہم کرنے والے ثبوت کا تعلق شعری ادب سے ہے۔ایسے بکثرت شواہد بھی ہیں ، جو طبیبوں کے شعری ادب سے گہرے رشتوں کا پتہ دیتے ہیں ۔ ابن ابی اصیبعہ نے عیون الانباء فی طبقات الاطباء میں حکماء کے تذکروں کے ذیل میں اُن کی شعری دلچسپی کا بطور خاص ذکر کیا ہے اور اہتمام کے ساتھ اُن کے کلام کا نمونہ پیش کیا ہے۔مغل اور برطانوی عہد تک کے طبیبوں کے یہاں شعری دلچسپی کی مستحکم روایت رہی ہے، مگر دھیرے دھیرے بعد کے زمانہ میں یہ رشتہ کمزور پڑ گیا، اس کی وجہ یہ ہوئی کہ علوم کو اختصاص کے خانوں میں بانٹ دیا گیا، یہ جدید نظامِ تعلیم کی آمد کے بعد ہوا۔ قدیم تعلیمی نظام کی یہ خوبی تھی کہ اُس میں عقائد، مذہبیات، لسانیات و ادبیا ت اور عصریات، تاریخ و فلسفہ اور طب و حکمت، یہ سارے مضامین بقدر ضرورت پڑھا دیے جاتے تھے، ابتدائی تعلیم کا خاکہ کچھ اسی قسم کا تھا۔ثانوی مرحلہ میں طالب علم اپنے ذوق و ذہن کی مناسبت سے مزید مطالعہ اور ماہرین سے استفادہ کے ذریعہ اپنی پسند کے مضمون میں درک و مہارت پیدا کر لیتا تھا۔برطانوی عہد تک کے اطباء اسی نظام کے پروردہ تھے، اس لیے وہ طبیب کے ساتھ عالم اور شاعر و ادیب بھی ہوتے تھے، طب سے پیشہ ورانہ تعلق کے ساتھ انہیں دوسرے علوم سے بھی آگہی ہوتی تھی۔لسانی اور ادبی دلچسپی تو عام بات تھی، جو تقریباً ہر پڑھے لکھے میں ہوتی تھی۔شعر گوئی کا ملکہ تو خیر وہبی ہے، کم از کم شعر فہمی اور شعری دلچسپی تو سبھی میں ہوتی تھی۔نشورؔ واحدی بھی اسی نظامِ تعلیم کے پروردہ تھے۔وہ عالمِ دین بھی تھے اور زبان و ادب کے شناور بھی۔ طب سے بھی ان کا عَلاقہ تھا، مگر ذرا کم کم۔

حفیظ الرحمان متخلص نشور ؔواحدی کی ولادت 15 اپریل 1912کو ان کے نانیہال موضع چندائر ضلع بلیا اتر پردیش میں ہوئی۔ نشورؔواحدی نے ایک علمی، ، ادبی اور مذہبی گھرانے میں آنکھ کھولی تھی۔اُن کا آبائی وطن ضلع بلیا کا موضع شیخ پور تھا، جس کا اصل نام موضع شاہ پھول چک شاہ تھا، جو محرف ہوکر شیخ پور ہو گیا۔نشور ؔواحدی کی شخصیت سازی میں گھر کے ماحول کا جہاں وہ پلے بڑھے اور اُن درس گاہوں کا جہاں انہوں نے تعلیم پائی، واضح اثر ہے۔اُن کے والد جمیل احمد شاعر تھے اور یکتاؔ تخلص رکھتے تھے۔نشورؔ واحدی کے اسلاف صاحبِ طریقت اور صاحبِ سلسلہ رہے ہیں ۔ خواجہ سید کمال الدین علامہ نے حضرت نظام الدین اولیاء اور خواجہ نصیر الدین شاہ دہلوی سے خرقۂ خلافت پائی تھی۔انہیں کے پوتے مخدوم حاجی سید محمد شاہ پھول جون پوری سے نشورؔ واحدی کا خاندانی سلسلہ ملتا ہے۔

  نشورؔ واحدی کی تعلیم کا آغاز اُن کے وطن میں ہوااور تکمیل الٰہ آباد کے مدرسہ مصباح العلوم اور مدرسہ سبحانیہ میں ہوئی۔الٰہ آباد ہی میں مولانا خواجہ عبد الشکور چشتی قادری اور مولانا عبد الرؤف سے تصوف اور طریقت کی معرفت پائی۔تعلیم مکمل کرنے کے بعد درس و تدریس کو کسبِ معاش کا وسیلہ بنا لیا۔ابتداً مدرسہ مصباح العلوم اور مدرسہ سبحانیہ میں مدرس تھے۔1930میں مدرسہ ضیاء العلوم کان پور کے منیجر کی دعوت کان پور آگئے۔1940میں گرو نارائن کھتری کالج کان پور میں اردو اور فارسی کے استاذ مقرر ہوئے، پھر 1947میں حلیم مسلم کالج کا ن پور آگئے۔30جون 1972کو یہاں سے سبکدوش ہوئے۔کان پور نشور ؔ واحدی کا وطنِ ثانی بن گیا تھا۔4جنوری 1983کو اِسی شہر میں انہوں نے آخری سانس لی اور اِسی کی مٹی کا حصہ بن گئے۔

   کان پور کے زمانۂ قیام کے ابتدائی دور کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ یہاں آکر اُنہوں نے ذاتی دلچسپی کی بنا پر یونانی طب کی تعلیم حاصل کی تھی، اس سلسلے میں باقاعدہ حکیم سید محمد اصغر عرف پیارے صاحب لکھنوی کے سامنے زانوئے تلمذ تہ کیا تھا، جو اپنے زمانہ کے حاذق طبیب تھے۔پھر باقاعدہ رجسٹریشن کروایا تھا تا کہ مطب و معالجہ کر سکیں ، یہ کچھ دن انہوں نے کیا بھی تھااور کان پور کے گڈریہ محال میں واقع حکیم محمد شفیع کان پوری کے مطب پر بیٹھا کرتے تھے، لیکن یہ سلسلہ زیادہ عرصہ تک نہیں رہا۔حالانکہ مطب و معالجہ سے انہیں خاص دلچسپی تھی، اسی لیے انہوں نے یونانی طب کے ساتھ ہومیو پیتھ بھی سیکھی تھی۔اکثر غریبوں کو وہ ہومیو پیتھ کی دوائیں بھی دیتے تھے۔مطب و معالجہ سے خاص شغف رکھنے کے باوجود تدریسی مشاغل اور شعری و ادبی مصروفیات کے باعث وہ اِسے عملی طور پر زیادہ برت نہیں سکے۔ نشور ؔ واحدی مشاعروں اور شعری نشستوں میں حقے اور سگریٹ پی کر رات رات بھر جگتے رہتے تھے۔اِس کی وجہ سے اکثر انہیں Bronchitisکا عارضہ رہتا تھا۔آخر عمر میں اس کی شدت کچھ زیادہ ہوگئی تھی۔اس کے علاج کے لیے وہ زیادہ تر یونانی دوائیں ہی استعمال کرنا پسند کرتے تھے۔

نشورؔ واحدی بچپن ہی سے شعر کہنے لگے تھے، کسی استاذ کی مدد کے بغیر اُن کا تمام شعری سفر ذوق و ذہن کی رہنمائی میں طے ہواہے۔ اُنہیں عوامی اور علمی دونوں حلقوں میں پذیرائی حاصل تھی، ان کے اشعار نے مشاعروں میں خوب داد اور صاحبانِ نقد و نظرکی بھر پور توجہ پائی ہے۔ کسی شاعرکی کامیابی کے یہی دو میزان ہیں ۔ نشورؔواحدی نے معتدبہ شعری ذخیرہ یاد گار چھوڑا ہے۔طبع آزمائی کی حد تک دوسری شعری اصناف کے نمونے بھی ان کے کلام میں ملتے ہیں ، مگر اصلاً وہ غزلوں کے شاعر تھے، ترنم اور تغزل کے پاسدار اور غزل کی جملہ روایات کے احترام و التزام کرنے والے شاعر۔ اُن کا پہلا مجموعۂ کلام’’صہبائے ہند‘‘1939میں شائع ہوا تھا۔اُس وقت اُن کی عمر محض 27برس تھی۔اُن کے کلام کا دوسرا مجموعہ ’’شور نشور‘‘1942میں ، تیسرا مجموعہ’’آتش و نم‘‘1946میں اور چوتھا مجموعۂ کلام ’’فروغِ جام‘‘کے نام سے 1958میں شائع ہوا ہے۔1964میں نشورؔواحدی کی منتخب غزلوں اور نظموں کا ایک مجموعہ انجمن ترقی اردو، علی گڑھ سے شائع ہوا تھا۔یہ انتخاب خلیل الرحمان اعظمی نے کیا تھا۔اِس کے بعد نشورؔ واحدی کی غزلوں کا ایک انتخاب ’’سواد منزل‘‘ کے نام سے 1968میں شائع ہوا ہے۔، بعد ازاں ایک مختصر مجموعۂ کلام ’’گل افشانی ٔگفتار‘‘1977میں شائع ہوا۔1978میں نشورؔ واحدی کی منتخب غزلوں کا ایک مجموعہ ’’سلکِ شبنم‘‘ کے نام سے شائع ہوا ہے۔ 1992’’پھولوں کی انجمن‘‘ایک مجموعہ شائع ہوا ہے، اس میں بچوں کی نظمیں شامل ہیں ، ادبِ اطفال کے حوالہ سے اِن کا مطالعہ اہم ہے۔1916نشور ؔواحدی کی غزلیات پر مشتمل ایک کلیات شائع ہوئی ہے۔اِسے نیاز واحدی مرحوم اور ڈاکٹر محمد الیاس اعظمی نے مرتب کیا ہے۔

پروفیسر احمر لاری نشورؔ واحدی کی شاعری پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں :

’’نشورؔواحدی نے جس وقت شاعری کے میدان میں قدم رکھااس وقت اقبال کی شہرت اپنے نقطۂ عروج پرتھی۔نشورؔ واحدی اپنی شاعری کے ابتدائی دور میں اقبال سے بے حد متاثر تھے۔’’صہبائے ہند ‘‘اور ’’شورِ نشور ‘‘کی نظمیں طرز ِ فکر، طرز ِاحساس، طرز ِ اداہر لحاظ سے اقبال کی نظموں کی یاد دلاتی ہیں ، لیکن یہ نظمیں صرف اقبال کی نظموں کی باز گشت نہیں ، اِن میں میں نشورؔ کی آواز کی کھنک بھی شامل ہے۔’’صہبائے ہند‘‘  کی غزلوں میں بیشتر عارفانہ رنگ نمایاں ہے، نظموں میں اگر وہ اقبال سے متاثر تھے تو غزلوں میں جگر سے، اپنی ایک فارسی رباعی میں میں انہوں نے اس کا اعتراف بھی کیا ہے۔ان کا تیسرا مجموعہ ’’آتش و نم‘‘ 1946 میں منظرِعام پر آیا۔ یہ مجموعہ ان کے پچھلے مجموعوں سے یکسر مختلف ہے، اِس میں وہ اقبال کے سحر سے آزاد ہوچکے ہیں اور اُن کی انفرادیت پورے طور پر نمایاں ہو گئی ہے۔حقیقت تو یہ ہے کہ ’’آتش و نم‘‘ میں نشور ؔ نے مفکر شاعر کا لبادہ اتار دیا ہے اور وہ ایک نیم رومانی اور نیم حقیقت پسند شاعر کی حیثیت سے ہمارے سامنے آتے ہیں ۔ زبان اور اسلوب کے لحاظ سے یہ مجموعہ پچھلے مجموعوں سے مختلف ہے، اِس کی زبان میں ہندوستانی رنگ نمایاں ہے اور لہجہ نرم و شیریں ہے۔’’آتش و نم‘‘ میں خاصی تعداد میں نظمیں بھی ہیں ، لیکن بعد میں نشورؔ نے غزل ہی کو اپنی شخصیت کے اظہار کا وسیلہ بنایا، اُن کے بعد کے مجموعے ’’فروغِ جام‘‘ 1959 ’’سواد ِ منزل‘‘1968، ’’گل افشانیٔ گفتار‘‘1977بیشتر غزلوں ہی پر مشتمل ہیں ۔ چنانچہ غزل گو ہی کی حیثیت سے نشورؔ کو اردو شاعری میں ایک امتیازی اور منفرد مقام حاصل ہے‘‘۔

نمونۂ کلام   ؎

ہمیں تم ہیں رموزِ  بزمِ ہستی

زمانہ ایک اندازِ بیاں ہے

———

بتاؤں کیا تجھے حاصل فریبِ  زندگانی کا

جو پایا تھا وہ کھو آئے، جو جیتا تھا وہ ہار آئے

———

دونوں جانب ہیں تکلف کے گھروندے آباد

دورتک عشق و محبت کی گلی جا تی   ہے

———

پھر حقیقت کی اُسی جنت کی جانب لوٹ کر

بندگی کو لغزشِ آدم بنا سکتا ہوں  میں

———

یہاں سجدہ، وہاں سجدہ، معاذ اللہ دیوانہ

نہ کعبہ دیکھتا ہے اپنے عالَم میں ، نہ بت خانہ

———

میری دنیا میں نہ کعبہ ہے، نہ بت خانہ نشورؔ

دل کے گوشے میں مگر دَیرِ مغاں رکھتا ہوں

نشور ؔواحدی کے قلمی آثار میں نثری نمونے بھی ملتے ہیں ، جوزیادہ تر مذہبیات اور تصوف سے متعلق ہیں ۔ عمر کے آخری دنوں میں وہ تصوف اور مذہب کی طرف شدت سے مائل ہوگئے تھے، غالباً یہ ُان کے تعلیمی اور خاندانی پسِ منظر کا اثر تھا۔تصوف اور طریقت کے موضوع پر اُن کی ایک کتاب’’دانشِ آخر الزماں ‘‘1966میں شائع ہوئی ہے۔ ’’تاریخ فلسفۂ خودی ایشیا‘‘اور’’ ہندوستا ن میں فلسفۂ خودی کا ارتقا‘‘اس سلسلے کی دو مزید یادگاریں ہیں ۔ موخر الذکر ان کی وفات کے بعد 1993میں شائع ہوئی ہے۔نشورؔ واحدی کے نثری کاموں میں ’’تواریخ بنگالہ‘‘ مؤلفہ ابو المعالی محمد عبد الرؤف متخلص وحیدؔ بنگالی کا اردو ترجمہ اور تنقیدی و تاثراتی مضامین کا مجموعہ ’’رمز معانی‘‘بھی ہے۔

اردو شعراء میں طب سے عَلاقہ رکھنے والوں میں نشورؔواحدی ایک اہم نام ہے۔مگر وہ شاعری کے حوالہ سے جتنے مشہور ہیں طب اور طبابت کے معاملے میں اُتنے ہی گم نام ہیں ، اس کی وجہ طب سے اُن کی کم تعلقی ہے۔انہیں طبیب شاعر کے بجائے شاعر طبیب کہنا زیادہ مناسب ہے۔

یونانی طب اور اردو زبان کے باہم رشتوں کا زمانہ تقریباً ڈھائی سو برس کے عرصہ پرمحیط ہے۔اِس رشتے کا تاریخی مطالعہ اہلِ اردو اور حاملینِ طب دونوں کے لیے اہم ہے، مگر اب تک خاطر خواہ انداز میں اِس پرکام نہیں ہوسکا ہے۔ دونوں کو اِس تشنۂ تحقیق پہلو پر توجہ دینے کی ضرورت ہے، تاکہ اِس رشتے کو مزیدفروغ دیاجاسکے۔

تبصرے بند ہیں۔