متشدد کیوں ہورہے ہیں بچے؟

ڈاکٹر مظفر حسین غزالی

بچوں کی مسکان والدین کی خوشی کا باعث ہوتی ہے۔ ان کی چھوٹی چھوٹی شرارتیں سب کو بسا اوقات بھلی لگتی ہیں۔ انہیں شرارتوں سے ماہر تعلیم کو بچے کی تخلیقی صلاحیت کا اندازہ بھی ہوتا ہے۔ اکثر دیکھا گیا ہے کہ بچے اسکول یا کلاس کے ساتھیوں کو اپنے رشتہ داروں پر فوقیت دیتے ہیں۔ اس کی وجہ دوران تعلیم بننے والی دوستی ہوتی ہے۔ کئی بار یہ دوستی لمبی عمر تک باقی رہتی ہے۔ وقت کے ساتھ ساتھ اسکول کے ساتھی بچھڑ جاتے ہیں لیکن یادوں میں محفوظ رہتے ہیں۔ اسی طرح کئی استادوں کو بھی بچے کبھی نہیں بھلا پاتے۔ ان کی نقل کرتے ہیں اور من ہی من میں ان میں سے کئی کووہ اپنا آدرش ماننے لگتے ہیں۔ کیوں کہ ان سے اپنا پن ملا ہوتا ہے یا پھر پڑھائی کے دوران آئی چھوٹی چھوٹی مشکلیں ان کی رہنمائی سے آسان ہوئی ہوتی ہیں۔

بھارت کی تہذیب میں جن رشتوں کو اہمیت حاصل ہے، استاد شاگرد کا رشتہ ان میں سے ایک ہے۔ کبیر نے استاد کوگووند(خدا) سے پہلے عزت دینے کی بات کہی ہے۔ ان کا ماننا تھاکہ استاد کے بغیر خدا کو پہچاننا، اس کی مرضی کو سمجھنا مشکل ہے۔ اسی طرح ایکلوے نے استاد کے کہنے پر اپنا انگوٹھا کاٹ کر ان کے قدموں میں رکھ دیاتھا۔ کوئی بھی ہنر استاد کے بغیرنہیں سیکھا جاسکتا۔ استاد شاگرد کی روایت ہمارے ملک میں بہت پرانی ہے۔ عملی طورپر بھی یہ رشتہ فطری ہے۔ کیوں کہ یہ مانا جاتا ہے کہ بچے کچی مٹی کی طرح ہوتے ہیں۔ جو بنانا چاہیں، جس طرح ڈھالنا چاہیں، بچپن سے ہی اس کی شروعات ہوتی ہے۔ ہر بچہ الگ مزاج اور صلاحیت لے کر پیدا ہوتا ہے۔ استاد اس کو ذہن میں رکھ کر بچوں کی تعلیم وتربیت اور رہنمائی کرتے ہیں۔

 جدید زمانہ میں تعلیم نے پیشہ کی شکل اختیار کرلی ہے۔ جو بھی اس پیشہ کو اپنانا چاہتے ہیں انہیں ٹیچر ٹریننگ کرنی ہوتی ہے۔ اساتذہ کے تربیتی کورس میں بچوں کی نفسیات، طریقہ تعلیم وغیرہ مضامین شامل رہتے ہیں۔ اتنا ہی نہیں اس کی عملی مشق بھی کرائی جاتی ہے تاکہ پیشہ ورانہ زندگی میں اس کا دھیان رہے اور ان کی کارکردگی بہتر ہو۔

بچوں کے درمیان کہا سنی، لڑائی جھگڑا،نوک جھونک ہونا انسانی فطرت کا حصہ ہے۔ اسکولوں میں طلبہ کے درمیان پہلے بھی جھگڑے ہوتے تھے۔ جنہیں اساتذہ رفع دفع کرکے آپس میں میل ملاپ کرادیا کرتے تھے۔ کچھ باتیں کسی کسی استاد کی پہلے بھی طلبہ کو بری لگتی تھیں لیکن استاکو کچھ کہنے کی بھی طلبہ میں ہمت نہیں ہوتی تھی۔ سوال یہ ہے کہ اب ایسا کیا ہوگیا کہ طلبہ اپنے ساتھی طالب علم یا استاد کی پٹائی اور قاتلانہ حملے سے بھی نہیں ڈرتے۔ ان کے اندر اتنی کڑواہٹ کہا ں سے آگئی کہ وہ اپنی حدیں پار کررہے ہیں۔ یہ انتہائی تشویشناک ہے کہ کہیں طلبہ اپنے استادوں کی بے عزتی کررہے ہیں تو کہیں طلبہ کے ذریعہ اپنے اساتذہ کے ساتھ غیر انسانی رویہ اپنانے یا قاتلا حملہ کرنے کے واقعات سامنے آرہے ہیں۔ اس وقت ملک میں سیکڑوں اساتذہ اس طرح کے واقعات کا دکھ جھیل رہے ہیں۔ یمنا نگر ہریانہ کے تازہ واقعے نے سب کو ہلاکر رکھ دیا ہے۔ بارہویں کے ایک طالب علم نے دن دہاڑے اپنے پرنسپل کے کمرے میں گھس کر پستول سے گولیاں چلاکر پرنسپل کو موت کے گھاٹ اتاردیا۔ قتل کے اس واقعے نے ملک کے ہر شہری کو بے چین کردیا۔ یہ متشدد طالب علم اسکول میں دیر سے آتا تھا۔ پرنسپل نے اسے دس دنوں کیلئے اسکول سے نکال دیاتھا، جس کی وجہ سے اس طالب علم نے اتنا بڑا قدم اٹھالیا۔ ایسے حیرت انگیز واقعات بہت افسوسناک ہیں۔

پچھلے سال 2017 میں گروگرام کے ریان انٹرنیشنل اسکول میں پردیومن کے قتل کی واردات کو اسی اسکول کے ایک طالب علم نے انجام دیا تھا۔ لکھنؤ میں بھی ایک طالبہ نے سات سال کے بچے پر چاقو سے تابڑ توڑ حملہ کرکے اُسے قتل کردیاتھا۔ اسی لکھنؤ کے علی گنج کے برائیٹ لینڈ اسکول میں ایک لڑکے کو لہولہان کردیاگیا تھا جس کی وقت پر طبی مددمل جانے سے جان بچ گئی۔ دہلی کے ناگلوئی کے سرکاری اسکول کے دو طلبہ نے استاد پر چاقو سے حملہ کرکے مارڈالا تھا۔ دونوں طالب علم نابالغ تھے۔ ٹیچر کا قصور اتنا تھا کہ اس نے ان بچوں کو امتحان میں بیٹھنے نہیں دیاتھا۔ دہلی کے ہی کراول نگر کے جیون جیوتی اسکول میں نویں درجہ کے تشار کو اسی اسکول کے کچھ طلبہ نے اسکول ٹوائلٹ میں بند کرکے اتنا پیٹا کہ اس کی موت ہوگئی۔ اسی طرح طلبہ کے ذریعہ اسی اسکول کے ایک طالب علم کو پیٹے جانے کا سینٹرل اسکول کا ویڈیو بھی وائرل ہوچکا ہے۔

علم کی عبادت گاہوں میں پنپ رہا پرتشدد ماحول مستقبل کیلئے تباہ کن ثابت ہورہا ہے۔ کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ آوارہ کرمنل ذہنیت والے طلبہ کو اسکولوں سے نکال دینا چاہئے۔ تشدد پر آمادہ طلبہ کو سزا ملنی چاہئے۔ سرکار کو اس طرح کے واقعات پر توجہ دینی چاہئے۔ طلبہ کی حرکتوں کو نظرانداز کرنے سے ان کا حوصلہ بڑھ جائے گا۔ سزا دیئے بغیر چھوڑ دیاگیا تو اس طرح کے واقعات وحادثات بڑھ جائیں گے وغیرہ۔ یہ سب باتیں ٹھیک ہوسکتی ہیں لیکن بنیادی سوال پھر وہی ہے کہ آخر طلبہ تشدد پر آمادہ کیوں ہورہے ہیں۔ اس کا جواب تلاش کیاجانا چاہئے۔ آپ پندرہ بیس سال پہلے کے اسکولوں پر غور کیجئے تو معلوم ہوگا کہ اسکولوں میں ایک گھنٹہ جسمانی ٹریننگ(پی ٹی) کیلئے ہوتا تھا۔ جس میں بچوں سے طرح طرح کی ورزشیں کرائی جاتی تھیں۔ اساتذہ بچوں کے ساتھ بدکلامی یا بدزبانی سے بات نہیں کرتے تھے۔ اس بات کا خیال رکھا جاتا تھا کہ کوئی ایسی بات نہ کی جائے جو بچوں کے معصوم ذہن کو پراگندہ کرنے والی ہو، ان کو بے عزت کرنے والی ہو یا ان کو بری لگے۔ پھر اسکول کے باہر بچوں کے اپنے کھیل تھے۔ جس میں گلی ڈنڈہ، کبڈی، گھوڑا کدائی، چھپم چھپائی، رسی کرائی، پہیہ چلانا وغیرہ۔ اسکول میں لانگ جمپ، شارٹ جمپ، رسہ کھینچنا، بالی وال، فٹ بال،بیڈ منٹن وغیرہ کھیل کھلائے جاتے تھے۔ اس سے ایک طرف بچے اپنے جسم پر قابو پانا سیکھ جاتے تھے دوسرے ان کا ذہن بھٹکنے سے بچ جاتا تھا۔ تیسرے یہ سارے کھیل استادوں کی نگرانی میں ہوتے تھے تو استادوں کی عزت وخوف بنا رہتا تھا۔

زمانے کی تبدیلی کے ساتھ بچوں کے کھیل بدل گئے۔ کیرم، لوڈو، سانپ سیڑھی، کرکٹ وغیرہ ہو گئے۔ دوسرے بچوں کے کھیلنے کیلئے جگہ بھی نہیں بچی۔ جو میدان ہیں یا پارک وہاں انہیں کھیلنے نہیں دیا جاتا۔ پھر موبائل کے آنے کے بعد موبائل پر گیم کھیلنے لگے۔ موبائل پر مار دھاڑ اور ہورر گیم موجود ہیں جن میں بچے دلچسپی لیتے ہیں۔ ان سے ان کے اندر شکتی مان بننے یا موبائل گیم کے کسی کردار کو اپنانے کا شوق پیدا ہوتا ہے۔ جسمانی محنت والے کھیل نہ کھیلنے سے ان کا پسینہ نہیں بہہ پاتا اوراندر ہی اندر ان کی طاقت غصہ میں تبدیل ہوجاتی ہے۔ پھر نیا خون گرم ہوتا ہے اورماحول میں طرح طرح کی آلودگی موجود ہے جس کی وجہ سے پہلے ہی انسانی جسم تنائو میں ہے۔ بس ذرا سی مزاج کے خلاف بات بھی بری لگ جاتی ہے۔ اس پر طرہ یہ کہ ٹیچر بچوں سے ابے تبے سے بات کرتے ہیں۔ کئی سرکاری اسکولوں میں توٹیچروں کے ذریعہ بچوں کو گالی تک دیتے دیکھا گیا ہے۔ ایسے میں بھلا کیسے بچے ان کی عزت کریں۔ پھر عجیب بات یہ ہے کہ اساتذہ پڑھانے پر کم ٹیوشن کے ذریعہ پیسے بنانے پر زیادہ توجہ دیتے ہیں۔ اسکولوں میں یہ بھی عام ہوتا ہے کہ فلاں سے ٹیوشن پڑھیں گے تو نمبراچھے آئیں گے۔

بچوں پر امتحان میں اچھے نمبر لانے کا دبائو بھی برابر رہتا ہے۔ یہ دبائو صرف اسکول کا ہی نہیں ہوتا بلکہ والدین کا بھی ہوتا ہے۔ والدین یا اساتذہ اس بات پرغور نہیں کرتے کہ اگر کوئی بچہ سائنس یا ریاضی میں اچھے نمبر نہیں لایا تو اس کی دلچسپی کس مضمون میں ہے۔ ہوسکتا ہے کہ اس بچہ کو لٹریچر میں کمال کرنا ہوگا، صحافی بننا ہو، کھلاڑی بننے میں اس کی دلچسپی ہو، فوٹوگرافی میں وہ اپنا مستقبل بناناچاہتا ہو یا پھر آرٹسٹ۔ اس لئے ہر بچے سے یہ توقع نہیں کرنی چاہئے کہ وہ 90 فیصد نمبر لائے گا۔

اسکولوں میں بڑھ رہے تشدد کے واقعات پر توبات ہورہی ہے لیکن تعلیمی نظام کو بہتر بنانے پر بات نہیں ہوتی۔ تعلیمی نظام میں تبدیلی کے ضمن میں کسی خاص نظریہ کے فروغ پر زور دیا جاتا ہے۔ اس پر نہیں کہ اس تعلیم کے ذریعہ ہم اپنے بچوں کو کیا دے رہیں ؟ کیا حاصل کرنا چاہتے ہیں؟ اسکولوں میں رونما ہونے والے واقعات یقینا افسوسناک ہیں لیکن ان کو روکنے کیلئے سزا کے بجائے طلبہ واساتذہ کی اصلاح پر زوردینا ہوگا۔ دنیا مان چکی ہے کہ سزا کسی مسئلہ کا حل نہیں ہے۔ اسی کے ساتھ ملک کے حالات کو بھی بچوں کیلئے معاون بنانے ہوں گے۔ سماج میں مجرموں اور دبنگوں کو عزت ومنصب دیئے جائیں گے توبچے ویسے ہی بننے کی کوشش کریں گے۔

تبصرے بند ہیں۔