دیکھ کر ان شوخ آنکھوں میں سنورنے کا خیال

افتخار راغبؔ

 دیکھ کر ان شوخ آنکھوں میں سنورنے کا خیال

ہے خیالِ زندگی راغبؔ کہ مرنے کا خیال

۔

 اف کبھی تم نے کہا تھا تم ہو کم زوری مری

ہائے اب کم زوریوں کے دور کرنے کا خیال

۔

 میری آہِ آتشیں سے ڈر ہے جل جائیں نہ لوگ

آہ کب نکلے یہ دل سے آہ بھرنے کا خیال

۔

 اک طرف ہیں مصلحت، عقل و خرد کی بیڑیاں

اک طرف وحشت، جنوں، حد سے گزرنے کا خیال

۔

 پہلے تیرے قرب کی تھی آرزو اے رشکِ گل

ٹوٹ کر اب لمس سے تیرے بکھرنے کا خیال

۔

 کس قدر حیرت زدہ حیرت ہوئی مت پوچھیے

جب کبھی آیا انھیں حیران کرنے کا خیال

۔

 اس نے جب پوچھا کہ کیا میرے لیے بے تاب ہو

آگیا بے ساختہ راغبؔ مکرنے کا خیال

تبصرے بند ہیں۔