کیا ایک اور گودھرا ہونے کوہے؟

’’کیاایک اورگودھراہونے کوہے ؟‘‘۔’’جی ہاں ‘‘۔’’کیوں ؟‘‘اس لیے کہ مسلمانوں کی سب سے بڑی بیماری یہ ہے کہ یہ کسی حادثے سے کوئی سبق لینانہیں چاہتے ۔یہ نمازپڑھتے ہیں ،روزے  رکھتے ہیں ،زکوٰۃ دیتے ہیں ،حج کرتےہیں اورمطمئن ہوکربیٹھ جاتے ہیں کہ اللہ ہم سے خوش ہےاب جنت توہماری ہی ہے ۔زندگی کے دوسرےمسائل سے یہ اس طرح آنکھیں موندکربیٹھے ہیں جیسے اسلام میں ان کی کوئی اہمیت ہی نہیں ۔

اس سیاق میں آئیے ذرااپنے حالات جائزہ لیں ۔گودھر حادثے کوپندرہ سال بیت چکے مگرحالات میں ذرہ برابربھی فرق نہیں آیا۔ گودھرا کا سانحہ اس لیے پیش آیاتھا کہ مسلمانوں نے اس سے پہلے کے حادثات سے کوئی سبق نہیں سیکھاتھااوراس حادثے سے بھی انہوں نے کوئی سبق ازبرنہیں کیاتوکیا ہمیں ایک اور ’’گودھرا‘‘ کے لیے تیار رہناچا ہیے ۔؟  جب تک طالب علم ہوم ورک نہیں کرتا،سبق یاد نہیں کرتاتواستاذکومجبوراًبچے کے لیےڈنڈااٹھاناہی پڑتاہے ۔سویہ حادثات ’’ڈنڈے‘‘ہیں جواستاذیعنی قدرت کی طرف سے مسلمانوں پربرس رہے ہیں اور اس وقت تک برستے رہیں گے جب تک کہ انہیں ان کابھولاہواسبق ازبرنہیں ہوجاتا۔یہاں سوال یہ ہے کہ مسلمانوں کوکیاہوگیاہے ،وہ اپناسبق یادکیوں نہیں کرتے ۔؟ جواب بالکل آسان اورسادہ ہے۔سبق وہی طالب علم یاد کرتا ہے جسے مستقبل میں کچھ کرنے اورآگے بڑھنے کی خواہش ہوتی ہے اوراگرجسے آگے بڑھنے کی خواہش توہومگروہ سبق یادنہ کرے توپھروہ پوری زندگی لن ترانیاں ،تعلیاں اوربالاخوانیاں ہی کرسکتاہے ،اس کے سواکچھ اورکرہی نہیں سکتا۔

آپ مسلمانوں کے حالات دیکھیں تویہ مثال پوری طرح فٹ نظرآتی ہے۔ہمارے دلوں میں عظمت رفتہ کانشہ چھایا ہوا ہے اورہماری زبانیں ہمیشہ اپنی شوکت ماضیہ پر بڑبڑکرتی رہتی ہیں تواگرہم ان جیسے حادثات سے کچھ نہ سیکھیں توکوئی تعجب کی بات نہیں ۔خیراب شکایات کاپلندہ کھولنے سے کوئی فائدہ نہیں ۔بس کوشش یہ ہے کہ مسلمان گودھراسانحہ کاسبق پھرسے یادکرلیں ،ممکن ہے کہ کسی کی آنکھ نم ہوجائے اوروہ یا اس کے اپنے بچے ،طالب علم اورماتحت کوکسی عملی کام میں لگ جائیں ۔

آج سے ٹھیک پندرہ سال قبل گودھراسانحہ پیش آیاجس کی وجہ سے گجرات میں پانچ ہزاربے قصورمسلمانوں کوموت کے گھاٹ اتاردیاگیا۔حادثے کے بعد مسلمانوں کے خلاف گواہیاں ان لوگوں نے دیں جوجائے حادثہ پرموجودہی نہ تھے۔ان گواہیوں کے نتیجے میں ۴۱مسلمانوں کوجیل کی سلاخوں کے پیچھے ۹سال تک قیدوبندکی صعوبتیں برداشت کرنا پڑیں ۔اِس وقت کے وزیراعظم اوراُس وقت کے گجرات کے وزیراعلیٰ نریندرمودی کی سرپرستی میں ظلم وتشددکاکھیل کھیلاجاتارہامگرمسلمان بے بسی کی تصویربنے رہے۔آئیے جانیں کہ اس دن کیاہوا،کیسے ہوااورکیوں کرہوا۔

 سابرمتی ایکسپریس 25 فروری 2002ء کوآیودھیاسے چلی توآرایس ایس کے کچھ کارسیوک اس کی بوگی نمبرایس 6میں سوارہوگئے۔ٹرین جس اسٹیشن پربھی رکتی وہاں وہ اپنی غنڈہ گردی کرتے ، نعرے لگاتے ،چائے والوں سے کھانے پینے کی اشیالے لیتے اورپیسے نہ دیتے ۔ایودھیاسے گودھراتک جے شری رام کے نعرے زوروشورسے لگاتے آرہے تھے ۔بوگی میں چنددوسرے لوگوں کے سوا مسلمان بھی تھے ،انہیں پریشان کرتے، ان سے زبردستی جے شری رام کانعرہ لگواتے اوراگروہ منع کرتے توانہیں مارتے اورانہیں ٹارچرکرتے ۔ٹرین27فروری کو پانچ گھنٹہ تاخیرسے صبح ۷بج کر43منٹ پر گودھراسٹیشن پلیٹ فارم نمبرایک پرآکررکی ۔اس کے پہنچے کاوقت یہاں رات کو2بج کر55منٹ ہے ۔

اسی سابرمتی ایکسپریس میں گووندسنگھ رتناسنگھ پنڈانامی ایک آدمی لکھنوسے سوارہوئے تھے ۔انہوں نے احمدآبادہائی کورٹ کوبتایاتھاکہ ’’ ٹرین کے بوگی نمبرایس ۶میں میری ریزرویشن سیٹ ۹تھی مگر بوگی میں موجودبجرنگ دل کے کارکنان نے مجھے ۳نمبرسیٹ پربٹھادیا۔اس پوری بوگی میں ۲۵۹لوگ تھے ،یہ بجرنک دل کے ممبران تھےاورزیادہ ترلوگوں کے ریزرویشن نہیں تھے ۔ہراسٹیشن پر یہ لوگ اتر جاتے اورجے شری رام کے نعرے لگاتے تھے ۔27فروری کے دن جب جب ٹرین ساڑھے سات بجے گودھرااسٹیشن پہنچی توان لوگوں نے نیچے اترکرنعرے بازی شروع کردی اوراس آوازسے میں اٹھ بیٹھا۔ میرے کوچ سے دس یابارہ لوگ اسٹیشن پراترے اوردیگربوگیوں سے بھی آرایس ایس بجرنگ دل کے ارکان اترآئے اورنعرے بازی کرنے لگے ۔ نعرے بازی سے گودھرااسٹیشن شوروغل میں ڈوب گیا۔تین چارمنٹ کے بعدچندمسافرین بھاگتے ہوئے کوچ کے اندرآئے ،انہوں نے دروازہ بندکرلیااوربتایاکہ پلیٹ فارم پرجھگڑاہوگیاہے اورپتھرپھینکے گئے ہیں ۔ انہوں نے ہرمسافرسے کہاکہ کہ بوگی کی کھڑکیاں بندکرلو۔‘‘

کورٹ میں چندعینی شاہدین نے بتایاتھا کہ گودھرااسٹیشن کے پلیٹ فارم نمبرایک پرچائے بیچنے والے ایک مسلمان اورکارسیوکوں کے درمیان جھگڑاہوگیاتھا۔ایس ۶ہی میں سفر کر رہے ویرچیدی پال نے کورٹ کوبتایاکہ کوچ میں ایک مسلم چائے بیچنے والاآیاتوکارسیوکوں نے اسے ماراپیٹااوراسے کمپارٹ مینٹ کے باہرپھینک دیا۔میڈیارپورٹ کے مطابق کارسیکوں نے کوچ میں بیٹھی ایک مسلم خاتون کا نقاب نوچ ڈالا۔انہوں نے مسلم فیملی سے جے شری رام کے نعرے بلندکرنے پراصرارکیالیکن جب فیملی نے انکارکردیاتوانھیں ایسے وقت جب کہ آدھی رات ہوچکی تھی، ٹرین سے اترجانے کوکہا۔

پلیٹ فارم پرایک اورواقعہ ہواجس کی طرف میڈیانے بھی زیادہ توجہ نہ دی اوردراصل یہی وہ واقعہ ہے جوبعدمیں اس سانحے اورپھرگجرات میں جگہ جگہ مسلمانوں کے ہولناک قتل عام کاسبب بنا۔یہ دراصل ایک بوڑھے مسلم چائے بیچنے والے کی لڑکی کااغواتھا جس نے بعدمیں پتھربازی اورتشددکی راہ اختیارکرلی تھی ۔انہوں نے ایک دوسری مسلم لڑکی کابھی اغواکرلیاتھا ۔۱۸سال کی صوفیہ بانوشیخ اپنی ما ں اور بہن کے ساتھ اپنے رشتے داروں سے ملنے گودھراآئی تھی اوراب واپس اپنے وطن بڑودہ جارہی تھی ۔صوفیہ نے کورٹ کوبتایاتھا کہ وہ اپنی فیملی کے ساتھ پلیٹ فارم نمبرایک پرکھڑی تھی جب سابرمتی ٹرین پلیٹ فارم پرآکررکی ۔ماتھے پرتلک کانشان لگائے کچھ لوگ پلیٹ فارم پر اترے اورچائے اوراسنیکس تلاشنے لگے ۔وہ جے شری رام کے نعرے لگارہے تھے ۔ان میں سے کچھ لوگ ایک مسلمان کوڈنڈے سے پیٹ رہے تھے اورزورزورسے چلارہے تھے کہ ’’مسلمانوں کومارو‘‘۔اس سے خوف زدہ ہوکرصوفیہ کی فیملی وہاں سے جانے لگی تو چندکارسیوکوں نے پیچھے سے صوفیہ کوپکڑلیا،اس کے منہ پرزورسے ہاتھ رکھ دیاکہ کچھ بول نہ سکے اوراسے گھسیٹتے ہوئے لے گئے ۔اس کی ماں مددکے لیے پکارتی رہی ۔صوفیہ کوبعدمیں بوکنگ کلرک کے دفترمیں پناہ ملی ۔صوفیہ نے مزیدبتایاکہ اسٹیشن پرکارسیوکوں نے ایک اورنقاب پوش خاتون کوبھی اغواکرنے کی کوشش کی تھی لیکن پولیس اس عورت کوپہچان نہیں پائی اس لیے اس کابیان ریکارڈنہیں کرایاجاسکا۔پولیس نے صوفیہ اوراس کی فیملی کابیان اس حادثے سے ایک ماہ بعد28مارچ کو ریکارڈ کیا۔ جب 22مئی 2002ء کواس معاملے کی پہلی چارج شیٹ فائل کی گئی تواس میں صوفیہ کابیان درج ہی نہیں کیاگیا۔یہ چھ ماہ بعدسپلی مینٹری چارج شیٹ میں درج کیاگیا۔

صوفیہ اورایک دوسری خاتون کے اغواکی خبراس تیزی سے پھیلی کہ وہاں بھیڑجمع ہوگئی ۔اسی ٹرین میں سفرکررہے ایک کارسیوک پرشوت بھائی گووردھن بھائی پٹیل نے عینی گواہ کی حیثیت سےکورٹ کو بتایا تھا کہ یہ بھیڑان لڑکیوں کوچھڑانے کے لیے نعرے لگارہی تھی ۔ٹرین کے ڈرائیورراجندررائورگھوناتھ رائوجادھوکے مطابق :’’جب میں نے ۷بج کر۴۵منٹ پرٹرین کاسگنل دیااورٹرین نے رینگنا شروع کردیاتبھی 7بج کر47 منٹ پرچین پولنگ ہوئی اورٹرین رک گئی ۔میرے اسسٹنٹ ڈرائیوراورگارڈنے دیکھاکہ چین پولنگ کوچ کے اندرسے ہوئی ہے اورہم نے اس بارے میں اسٹیشن ماسٹرکومطلع کیا۔‘‘

اس سلسلے میں چندعینی شاہدین کابیان ہے کہ کارسیکوں نے ہی چین پولنگ کی کیوں کہ ان کے ساتھی ٹرین میں چڑھ نہیں سکے تھے لیکن پولیس نے اپنے بیان میں یہ کہاکہ چین پولنگ دومسلم خوانچہ فروشوں الیاس ملااورانورقلندرنے باہرسے کی تھی ۔پھرٹھیک ۸بجے جب ٹرین نے کچھ فاصلہ طے کرلیااوریہ کیبن نمبرایک تک پہنچ گئی توپھرچین پولنگ ہوگئی۔اوربس یہیں سے ہولناک واردات کاآغازہوگیا۔ اس معاملہ کولے کرپارلی مینٹ میں امرسنگھ نے کہاتھا کہ سابرمتی ٹرین کے راستے بھرکارسیوک غنڈہ گردی کرتے رہے ۔وہ خوانچہ فروشوں سے کوئی چیزلیتے توپیسے دینے سے انکارکردیتے تھے ۔وہ ہراسٹیشن پرمسلم مخالف نعرے لگاتے رہے ،مسلمانوں کے مقدس مقامات کی توہین کرتے رہے ۔اس کی وجہ سے اسٹیشنوں پرموجودمسافروں کوپریشانی ہوتی رہی۔‘‘

میڈیائی خبروں کے مطابق کارسیکوں کی بوگی میں پتھراورلاٹھیا ں رکھی ہوئی تھیں ،یہ اس وقت باہرنکل آئیں جب ایک معصوم بچی کوان ظالموں کے چنگل سے چھڑانے کے لیے وہاں بھیڑجمع ہوگئی ۔ در اصل بجرنک دل کےلوگوں نے ایک بوڑھے مسلم چائے بیچنے والے کی لڑکی کوپکڑلیاتھا اوراسے اپنی بوگی میں لے گئے تھے ۔سولہ سالہ یہ معصوم بچی اپنے ابوکے کام کاج میں ہاتھ بٹانےکے لیے ٹھیلے پرتھی ۔ کار سیوک اس کے پاس آئے ،چائے مانگی اوراس بے چارے بوڑھے کومارناشروع کردیا،اس کی داڑھی کھینچنے لگے۔یہ بیٹی کیسے اپنے ابوکی یہ توہین برداشت کرسکتی چنانچہ اس نے منت سماجت شروع کردی ۔ اس نے اپنے ابوکوبچاناشروع کیامگریہ چھوٹی سی بچی ان ظالموں اورناہنجاروں سے کیسے بچاپاتی ،بس اپنی سی کوشش کرتی رہی ۔ جب یہ بچی مزاحم ہوئی توانہوں نے اسی کوپکڑلیااوراپنے ڈبے میں لے جاکر دروازہ بندکرلیا۔جب ٹرین نے حرکت کرناشروع کی تویہ بوڑھاباپ اپنی بیٹی کولینے کے لیے دوڑتاہوابوگی کے دروازے کی طرف لپکا،کارسیوکوں کے ہاتھ جوڑے۔

اس وقت دواورخوانچہ فروش جلدی سے ٹرین میں چڑھ گئے اورچین پولنگ کردی تاکہ بچی کوان ظالموں کے چنگل سے چھڑایاجاسکے ۔اس وقت ٹرین اسٹیشن سے ایک کلومیٹردورجاچکی تھی ۔یہ دونوں خوانچہ فروش بوگی نمبرایس ۶میں آئے اورکارسیوکوں سے منت سماجت کی کہ بچی کوواپس کردو۔معاملہ بہت بڑھ چکاتھا ۔شورشرابے کی آوازسن کرٹریک کے قریب کی بستی کے لوگ جمع ہوگئے ۔بستی کی عورتیں بوگی کے پاس بچی کوواپس کرنے کے لیے احتجاج کرنے لگیں مگر ان سب کے باوجودان لوگوں نے بوگی کادروازہ بندکرلیا۔نتیجہ یہ ہواکہ بھیڑنے بوگی پرپتھرمارناشروع کردیے ۔ایس ۶کے کمپارٹ مینٹ کے دونوں سیکشن وی ایچ پی کے کارکنان سے بھرے تھے انہوں نے اس بھیڑپرحملہ کردیا۔بڑی بڑی لاٹھیاں بوگی کے اندرسے نکال لائے ۔بس پھرکیاتھا ۔تشددشروع ہوگیا۔اس بھیڑنے قریب کھڑے ٹرک اوررکشہ کاپٹرول اورڈیزل نکال نکال کربوگی کوجلاناشروع کر دیا۔ پھراس کے بعدجوہواوہ تاریخ کاسیاہ باب ہے ۔گجرات میں جگہ جگہ فسادات بھڑک اٹھے اوران مرے ہوئے ہندئوں کابدلہ لینے کے لیے گجرات کاہندو’’بیدار‘‘ہوگیا۔

جب یہ معاملہ کورٹ پہنچاتوجھوٹے گواہوں کے بیانات کی بنیادپرکورٹ نے۴۱بے قصورمسلمانوں کوجیل کی سلاخوں کے پیچھے پہنچادیامگر۲۰۰۷میں تہلکہ نےاسٹنگ آپریشن کرکے ایک سنسنی خیز انکشاف کیاکہ شدت پسند ہندئوں نے یہ دہشت گردی ہندتوا کے تحفظ کے لیے کی تھی اورپولیس نے باقاعدہ طورپرجھوٹے گواہوں کواس کے لیے تیارکیاتھاتاکہ اصل مجرم تک کوئی نہ پہنچ سکے ۔جن پانچ گواہیوں کی بنیادپران بے گناہ مسلمانوں کو کی اپنی ناکردنی کی سزاملی اورجوبعدمیں جھوٹی ثابت ہوئی ،مندرجہ ذیل ہے:

(1)یہ 9جھوٹے گواہ تھے جوبی جے پی کے ارکان تھے۔ان کادعویٰ تھا کہ وہ اس وقت جائے حادثہ پرموجودتھےمگرتہلکہ کے خفیہ کیمرے کے سامنے انہوں نے بیان دیاکہ وہ اس دن اوراس وقت اپنے گھرمیں تھے ۔گجرات پولیس نے انہیں جھوٹے بیانات دینے کے لیے تیارکیاتھا۔(2)اجے باریانامی ایک ہندوخوانچہ فروش کوزبردستی گواہی کے لیے تیارکیاگیا ۔تہلکہ کے سامنے اس کی ماں نے بتایاکہ پولیس نے زبردستی اس کوپولیس گواہ بننے پرمجبورکیااورپولیس نے لگاتاراس پرنگاہ رکھی ۔ احمدآبادہائی کورٹ کوباریاکی گواہی سے شک ہوااوراس نے سوال اٹھایاکہ آخرسازش کرنے والے مسلمان آخری وقت میں پٹرول پمپ سے ٹرین کوجلانے کے لیے کیسے پٹرول لے سکتے ہیں ۔(3)دوپٹرول پمپ مالکان کادعویٰ تھا کہ انہوں نے 26فروری کوکچھ مسلمانوں کے ہاتھوں 140؍ لیٹر پٹرول بیچاتھالیکن جب تہلکہ نے انکشاف کیاتوپتہ چلاکہ ان دونوں مالکان رنجی سنگھ اورپرتاپ سنگھ پٹیل نے پہلے پولیس کویہ بتایا کہ انہوں نے اس دن کسی کوبھی پٹرول نہیں بیچاتھا لیکن چھ ماہ بعداچانک اپنابیان بدل دیااورتہلکہ کے کیمرے کے سامنے رنجی سنگھ نے یہ اعتراف کرلیاکہ ایک پولیس افسرنیول پرمارنے پرتاب سنگھ کوبیان بدلنے کے لیے پچاس ہزارروپے کی رشوت دی تھی اوراسے اس بات پربھی مجبور کیا  تھاکہ وہ کورٹ کے سامنے ان مسلم ’’خریداروں ‘‘کی شناخت کرے ۔(4)جابربہیریانام کاچھوٹاموٹاکرمنل جس نے پہلے تومولوی عمرجی اس معاملے میں کا ماسٹرمائنڈبتایاکہ بوگی نمبرایس ۶کوٹارگیٹ کیا تھا لیکن بعدمیں اس نے کہاکہ عمرجی کسی بھی سازش میں ملوث نہیں ہے۔(5)سکندرصدیقی نام کے دوسرے کرمنل نے کہاکہ ٹرین جب دوسری مرتبہ رکی تھی تواسی نے چین پولنگ کی تھی ۔اس نے کہاتھا کہ مولوی پنجابی نے بھیڑکوبھڑکایاتھا مگربعدمیں پتہ چلاکہ اس دن مولوی پنجابی توملک سے ہی باہرتھا ۔

تہلکہ کے انکشاف کے بعداحمدآبادہائی کورٹ کوحقائق کاعلم ہوااورپھراس نے بےقصورمسلمانوں کی رہائی کے احکامات صادرکیے ۔اس پورے معاملے میں تہلکہ کی سینئرایڈیٹررعناایوب کی کوششوں کا بھی بڑادخل ہے ۔انہوں نے میتھی تیاگی بن کردوسال تک گجرات کے بڑے بڑے افسران سے ملاقات کرکے اسٹنگ آپریشن کیا اور ’’گجرات فائلس‘‘کتاب لکھی جس کااردومیں بھی ترجمہ ہوچکاہے ۔ کتاب کامطالعہ بتاتاہےکہ کس طرح مودی اورامت شاہ نےریاست کے بڑے بڑے افسران کواس پورے حادثے کے لیے تیارکیاتھا اور مسلمانوں کومارنے کے لیے کیسی کھلی چھوٹ دے رکھی تھی ۔

سوال یہ ہے کہ کیاہندوستان کے مسلمان یوں ہی مرتے کٹتے رہیں گے ؟کب وہ وقت آئے گاجب انہیں انصاف ملے گااوروہ برادران وطن کے ساتھ شانہ بشانہ ہنسی خوشی زندگی گزاریں گے ؟ ہم کب اپنی حیثیت منوائیں گے ،کب ہماری طاقت بنے گی ؟ہزاروں آفتیں سرسے گزرچکی ہیں کیااب بھی ان سے ہوش کے ناخن لینے کی ضرورت نہیں ۔؟کیاابھی بھی اتحادکی کوئی صورت نہیں ا؟کیاابھی بھی مسلکی جھگڑوں میں وقت ضائع کیاجاتارہے گا؟کیاایسانہیں ہو گا کہ مسلمان اپنے اپنے مسلک پرقائم رہتے ہوئے قومی یک جہتی کاثبوت پیش کریں ؟میرے کانو ں میں کوئی سرگوشی کررہاہے کہ میاں !ہم نہیں سدھریں گے ،شایدکوئی عذاب ہی ہمیں سدھارے۔جب تک عالم نمالوگوں پرلیڈربننے کاشوق سواررہے گا،جب تک نام نہادمسلم لیڈران ضمیرفروش بنے رہیں گے اورجب تک ہم اپنے ووٹ پیسے لےکربیچتے رہیں گے تب تک کچھ بھی ہونے والانہیں ۔آزادی کے سترسال گزر چکے مگرہم اب تک وہیں کھڑے ہیں ۔ہم صرف اسی کے پیچھے بھاگتے رہے جسے اچھاسمجھتے رہے مگرہم جسے اپنامسیحاسمجھتے رہے وہ توصرف اپنی روٹی سینکتارہااورہم مرتے رہے۔کبھی رات کو اٹھ کرخداسے پوچھیں کہ’’ مولیٰ!تیری مرضی کیاہے ،ہماری اصلاح کیسے ہوگی ۔توہمیں ان حالات سے نکال دے ۔‘‘اگرایسانہیں کرسکتے تونہ کریں ، بس انتظارکریں کہ اگلاگودھراکب ،کہاں ،کس وقت اورکس کے ساتھ ہونے والاہے۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔