کیا بھارت کبھی ’ہندو پاکستان‘ بن سکتا ہے؟

اکھلیش شرما

(اکھلیش شرما این ڈی ٹی وی انڈیا کے سیاسی ایڈیٹر ہیں۔)

کانگریس کے سینئر لیڈر ششی تھرور کے ’ہندو پاکستان‘ والے بیان سے اٹھا تنازعہ اب کانگریس کے لیے پریشانی کا سبب بن گیا ہے۔ بی جے پی کا مطالبہ ہے کہ ان کے بیان کے لیے راہل گاندھی معافی مانگیں جبکہ کانگریس نے خود کو تھرور کے بیان سے الگ کر لیا۔ تھرور نے بدھ کو ایک پروگرام میں کہا تھا کہ اگر 2019 میں بی جے پی اپنی موجودہ طاقت کے ساتھ واپس آئی تو وہ آئین بدل کر بھارت کو ’ہندو پاکستان‘ میں بدل دے گی۔ ہنگامہ ہونے کے بعد تھرور نے جمعرات کو اپنی بات دہرائی۔ انہوں نے فیس بک پر لکھا کہ بی جے پی  اور آر ایس ایس کا ہندو راشٹریہ پڑوسی مذہبی ملک پاکستان جیسا ہی ہے۔

تھرور ہندو پاکستان کی بات کر رہے  ہیں یا پھر ہندو راشٹریہ کی۔ ایسا لگتا ہے وہ دونوں کی ہی بات کر رہے ہیں۔ انہیں ڈر ہے کہ اگر 2019 میں بی جے پی پھر جیتی تو بھارت کے آئین کو بدل کر ہندو راشٹریہ قرار دے گی اور بھارت کا وہی حال ہو جائے گا جو آج پاکستان کا ہے۔ 2014 میں بی جے پی کے اپنے دم  پر حکومت میں آنے کے بعد سے سنگھ کے سربراہ موہن بھاگوت کئی بار کہہ چکے ہیں کہ ‘بھارت میں رہنے والے تمام لوگ ہندو ہیں چاہے ان کا کھانا پینا، عبادت کا طریقہ، زبان اور ثقافت مختلف ہو۔’ بھاگوت ہندو کی وضاحت بھی کرتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ’جو بھارت ماتا کو اپنی ماں سمجھتے ہیں وہی سچے ہندو ہیں۔‘ بھاگوت نے یہ باتیں اس سال میرٹھ میں بھی سنگھ کے پروگرام میں کہی تھیں۔ وہیں انتخابات سے پہلے مودی خود کو ہندو قوم پرست بتا چکے ہیں۔ لیکن کیا سب کا ساتھ سب کا وکاس کی بات کرنے والی بی جے پی کا ہندو راشٹریہ، ملک پاکستان جیسا ہے؟ کیا آر ایس ایس کے ہندو راشٹریہ میں اقلیتوں کا دوسرا درجہ ہوگا؟ کیا بھارت کبھی پاکستان جیسا بن سکتا ہے؟ کیا تھرور کی فکر صحیح ہے؟ کیا آئین تبدیل کرنا اتنا آسان ہے؟ آئیے دیکھتے ہیں کہ آئین کیا کہتا ہے۔

بھارت کا آئین سب کو برابری کا حق دیتا ہے۔ آرٹیکل 25 مذہب کو ماننے اور اس پر عمل کی آزادی دیتا ہے۔ آرٹیکل 29 نسل، مذہب، ذات یا زبان کی بنیاد پر مبنی امتیازی سلوک  کو روکتا ہے۔ اگر ایمرجنسی کے 18 ماہ کو چھوڑ دیں تو بھارت میں ہمیشہ جمہوری طور پر منتخب کی  گئی حکومت نے ہی حکومت کی ہے۔ اسی دوران آئین کے دیباچے میں سیکولرازم کو  شامل کر دیا گیا یعنی تمام مذاہب کو آزادی اور برابری کا درجہ۔  یہی نہیں، كیشوناد بھارتی معاملے میں سپریم کورٹ کہہ چکا ہے کہ آئین کے بنیادی ڈھانچے سے چھیڑ چھاڑ نہیں ہو سکتی۔ سیکولر کردار آئین کے اصل فریم کا حصہ ہے۔ ملک کی فوج سیکولر ہے۔ بھارت میں اقلیت سے وابستہ افراد صدر، نائب صدر، وزیر اعظم، سپریم کورٹ کے چیف جسٹس اور آرمی چیف تک رہ چکے ہیں۔

اب پاکستان کی بات کرتے ہیں۔ جو مذہب کی بنیاد پر دو قومی نظریہ سے بنا۔ لیکن بنگلہ دیش بننے کے ساتھ ہی دو قومی نظریہ کی دھجیاں اڑ گئیں۔ جناح نے مسلمانوں کے لیے پاکستان بنایا اور کہنے کو تو سب کی برابری کی بات کی لیکن پہلے وزیر اعظم لیاقت علی خان نے امتیازی سلوک کی بنیاد رکھ دی۔ وہاں آئین کسی بھی اقلیتی کو ملک کا سربراہ بننے کی اجازت نہیں دیتا۔ ہندو، عیسائی، سکھ اور دیگر اقلیتوں پر آخری ستر سال سے ظلم، تشدد اور قتل کا سلسلہ جاری ہے۔ امریکی محکمہ خارجہ پاکستان کو مذہبی آزادی کے سنگین خلاف ورزیوں کی وجہ سے خصوصی واچ لسٹ میں رکھتا ہے۔

اس میں شک نہیں کہ بھارت میں حالیہ چند سالوں میں مسلمانوں پر ظلم کے واقعات میں اضافہ ہوا ہے۔ لَوجہاد، گھر واپسی اور گؤركشا کے نام پر ہوئی گنڈا گردی میں بہت سے مسلمانوں کو نشانہ بنایا گیا ہے اور بنایا جا رہا ہے۔ بھارت میں فرقہ وارانہ تشدد کی تاریخ بھی رہی ہے اور شدید فسادات بھی ہوئے ہیں۔ لیکن سوال یہ ہے کہ کیا ہندوستان کبھی ہندو پاکستان بن سکتا ہے؟ کیا تھرور کا یہ بیان بھگوا دہشت گردی اور ہندو دہشت گردی کی طرح کانگریس پر بھاری تو نہیں پڑے گا؟ شاید کانگریس کو اس کا احساس ہے۔ اسی لیے بغیر تاخیر کے اس نے خود کو تھرور کے بیانات سے الگ کر لیا۔ ساتھ ہی انہیں یہ انتباہ بھی دے دیا کہ وہ بی جے پی کی ‘نفرت کی سیاست’ کا جواب دینے میں احتیاط سے کام لیں۔ لیکن اس بات کا امکان کم ہے کہ بی جے پی اتنی آسانی سے اس مسئلے کو ختم ہونے دے گی۔

مترجم محمد اسعد فلاحی

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔