کیا تصورِ خدا فقط انسانی ذہن کا کرشمہ ہے؟ (پارٹ:2)

ادریس آزاد

چونکہ توھّمات انسانی جبلّت کا حصہ ہیں اور ان کے بغیر انسانی وجود کا تصور ممکن نہیں اس لیے انسانوں کو ہمیشہ مذہب کی ضرورت رہتی ہے۔ کیونکہ اعصاب کی کمزوری کے ساتھ ساتھ توھّمات میں اضافہ ہوتاہے ۔ بچے ، عورتیں اور بوڑھے لوگ زیادہ توھّم پرست ہوتےہیں ۔ وجہ یہی ہے کہ اُنکے اعصاب زیادہ کمزور ہوتے ہیں اور اُن کے لیے واقعہ میں زیادہ تکرار کی ضرورت نہیں ہوتی۔ بہت زیادہ کمزور اعصاب کا مالک شخص ایک بار کی ’’ہونی‘‘ کو بھی فطرت کی طرف سے پیغام سمجھ سکتاہے۔

اس لیے مذہب کا وجود ضروری ہوجاتاہے۔ مذہب کی مددسے ہی ایسے لوگوں کو ان کے مفروضہ پیغامات کے معنی ملتے ہیں۔ کوئی مذہب لوگوں کی ذاتی وارداتوں پر کسی سائنسدان کی طرح جِرح کرے اور اُن سے بالکل کسی سائنسدان کی طرح زیادہ سے زیادہ ’’تکرار‘‘ کا مطالبہ کرے تو وہ مذہب توحید کی طرف مائل ہوتاہے۔ کیونکہ تکرار کا اصرار، گویا وارداتِ ذاتی کے وجود سے انکار اور اُسے توھّم ِ محض سمجھنا ہے جیسا کہ ایک سائنسی ذہن سمجھتاہے۔

کوئی مذہب جتنے کم لوگوں کی وارداتوں کو الوہی پیغام سمجھتاہے وہ اتنا ہی توحید پرست ہوتا ہے۔ توحید پرستی کا تعلق نفسیاتی طور پر ایک خدا کو ماننے سے نہیں ہے ، توحید پرستی کا تعلق اپنے توھّمات کے تکرار پر اصرار کو بڑھا دینے اور بایں ہمہ اپنے توھّمات کو کم سے کم کردینے کے ساتھ ہے۔یہ البتہ الگ بات ہے کہ جن معاشروں میں توحید پرست مذاہب پہلے سے رائج ہیں وہاں قدرے کم توھّمات پائے جاتے ہیں، لیکن یہ ضروری بھی نہیں ہے۔ تاہم، ہم اس بات کی تصدیق کے لیے ہندُو اور مسلمان عوام کو ہندوستان اور پاکستان میں دیکھ سکتے ہیں۔

خیر! یہ ثابت ہوجانے سے کہ مذہب معاشروں کے لیے ضروری ہے، یہ ہرگز ثابت نہیں ہوجاتا کہ ’’خداوجود رکھتاہے‘‘۔ فقط یہ ثابت ہوتاہےکہ مذہب ، اور تشکیل ِ جدید (اجتہاد) کے عمل سے گزرتاہوا مذہب کسی بھی معاشرے کے تمام افرادی کی نفسیاتی، جذباتی اور بایں ہمہ روحانی زندگی کی رہنمائی کے لیے ایک ضروری عنصر ہے ، جو اُصولاً کلچر کا ایک بڑا حصہ ہونے کے ناطے اپنے وجود کا نہ صرف خود ذمہ دار ہے بلکہ انسانوں کے توھّم پرست ہونے کی وجہ سے اپنی حفاظت پر بھی خود ہی مامور رہتاہے۔غرض ہم نے جو بات شروع کی تھی کہ جذباتی سطح پر انسان کا مطالعہ ضروری ہے کیونکہ خدا انسان کا جذباتی معاملہ ہے، وہ بات یہی ہے کہ انسان اپنی نفسیاتی زندگی میں مکمل طور پر توھّم پسند اور توھّم پرست ہے، بایں ہمہ اسے خدا کی ضرورت ہے اور رہے گی۔

اچھا! یہ تو معلوم ہوگیا کہ ’’خدا انسان کی ضرورت ہے‘‘ لیکن کیا خدا فی الواقعہ وجود بھی رکھتاہے؟

اگرچہ اس سوال کا جواب عقل سے طلب کرنا منطقی اعتبار سے درست نہیں لیکن چونکہ ہم جانتے ہیں کہ مکان کی بہت سی تہیں اور جہات (ڈائمینشنز) ہیں اور ہرتہہ میں زمانہ الگ الگ، صرف بطور ’’حال‘‘ موجود رہتاہے سو ہم یہ نتیجہ اخذ کرنے میں حق بجانب ہونگے کہ خدا دراصل’’ابدی حال‘‘ ہے جو طبق در طبق بصورتِ ’’زمانہ‘‘ موجود رہتاہے، اور یوں موجود رہتاہے جیسے میں اِس وقت اپنے ساتھ موجود ہوں یا آپ میرے ساتھ ۔ جو زمانہ ہونے کی وجہ سے فعّال بھی ہے اور خلّاق بھی، ذہین بھی اور محیط بھی۔ میں تھوڑا آگے چل کر اِس تصور کو مزید وضاحت سے پیش کرنے کی کوشش کرونگا۔ سردست تو میں یہ کہنے والا تھا کہ اگرچہ اس سوال کا، کہ خدا ہے یا نہیں ہے؟ جواب عقل سے طلب کرنا منطقی اعتبار سے درست نہیں لیکن سوال ذرا تبدیل کرکے کیا جائے تو پھر عقل سے استفسار غیر درست نہ ہوگا۔

یعنی سوال یوں کیا جائے؟ ’’

اگر سچ مُچ خدا ہو تو کیسا ہوگا؟‘‘

یہ سوال ضرور عقل سے پوچھا جاسکتاہے کیونکہ عقل کا کام ہے اپنے مؤقف کے حق میں دلائل ڈھونڈ کر لانا اور اپنی صداقت کا جواز پیش کرنا سو اگر مؤقف ہی یہ ہو کہ ’’خدا ہے‘‘ تو ظاہر ہے دوسری بات فقط یہی ہوسکتی ہے کہ وہ کیسا ہے؟ اور یہ دیکھنے اور جاننے کی کوشش کہ ’’خدا کیسا ہے؟‘‘ خود بخود اُس سوال کو حل کردیتی ہے کہ خدا ہے یا نہیں ہے۔ کیونکہ اس کے لیے تصورِ خدا کی تخلیص کرنا پڑتی ہے جو ہمیشہ نفی، انکار اور ’’لا‘‘ کے طریقہ سے ہی ممکن ہوپاتی ہے۔ مسلسل انکار کرتے ہوئے خود بخود ’’خدا ہے یا نہیں ہے‘‘ کے مراحل بھی بالآخر آہی جاتے ہیں۔

چنانچہ خدا کے وجود پر فلسفیانہ نکتۂ نگاہ سے بات کرنا اسی لیے مفید ہے کہ اِس طرح انسان کے تصورِ خدا کی تخلیص (Purification) ہوتی رہتی ہے۔ عقل کے ذریعے تصورِ خدا کی تخلیص کرتے رہنا بے حد ضروری ہے کیونکہ ایسا وقت کوئی نہیں ہوتا جب ہم کسی بھی خدا کو نہ پُوج رہے ہوں۔ کرسی، عہدہ، دولت، بیٹے، گاڑیاں، بنگلے یہ سب بھی خدا ہی کی شکلیں ہیں جن کی، اگر ہم ایتھسٹ ہیں تو ضرور پوجا کرتے ہیں۔ دنیا سے بے پرواہ اور بے نیاز ایتھسٹ کا وجود زمین پر ممکن نہیں۔ ایسا کوئی بھی شخص جو خدا کے وجود سے انکار کرتاہے اور دنیا سے بے پرواہ اور بے نیاز بھی رہتا ہے، صوفیا کے نزدیک ملحد نہیں ہوتا بلکہ تصوف میں اسے مقام ِ فنا پر فائز سمجھا جاتاہے۔

خیر! تو میں عرض کررہا تھا کہ فلسفیانہ طرز ِ فکر کے مسلسل استعمال سے تصور ِ خدا کی تخلیص ہوتے رہنا ضروری ہے ورنہ معاشرے میں بُری رسمیں رواج پاجاتی ہیں۔اور دلچسپ امر یہ ہے کہ تصورِ خدا کی تخلیص کا کام یاتو صوفیأ اور فلسفی انجام دیتےہیں اور یا یہ کام بہت بڑے پیمانے پر ملحدین سرانجام دیتے ہیں۔وہ خدا کے مختلف منفی ’’کرداروں‘‘ اور ’’عادات‘‘ پر انگلی اُٹھاتے رہتے ہیں۔

ان کے سامنے مذہبی شرمندہ ہوتے ہیں اور اپنے تصورِ خدا کی فوری تخلیص کا سامان کرتے ہیں۔ اس لحاظ سے دیکھاجائے تو’’خدا کاانکار‘‘ بھی نہایت ضروری ہے اور ہرعہد میں الحاد اور دہریت کا وجود بھی ’’وجود ِ خدا میں رُوح‘‘ جیسی اہمیت رکھتاہے۔ اگر ایسا نہ ہو تو خداؤں کا انکار کوئی نہ کرے۔ اور دنیا ، لات و منات و عزیٰ و ہبل سے بھر جائے۔ ہرعہد میں ہمیشہ ایک وقت آتاہے جب ’’انکار کے فرمان‘‘ کا اُترنا لازم ہوجاتاہے۔

جیسا کہ فیض نے کہا،

پھر دل کو مصفا کرو، اس لوح پہ شاید مابینِ من و تُو، نیا پیماں کوئی اُترے اب رسمِ ستم حکمتِ خاصانِ زمیں ہے تائیدِ ستم مصلحتِ مفتیِ دیں ہے اب صدیوں کے اقرارِ اطاعت کو بدلنے لازم ہے کہ انکار کا فرماں کوئی اُترے
صدیوں کے اقرارِ اطاعت کو بدلنا ضروری ہوتاہے ورنہ معاشرے جمود کا شکار ہوکر مرجاتے ہیں۔

یہ وہ الحاد ہوتاہے جو تصورِ خدا کی تخلیص کے لیے ازبس ضروری ہے۔ اگر یہ نہ ہو تو خدا ، عادات میں انسان سے بھی چھوٹا اور حقیر ہوجاتاہے۔ اور کم تر ہوتے ہوتے جانوروں اور پھر بے جان پتھروں کی سطح پر گرجاتاہے۔ایک زندہ و جاوید ، حیّ و قیوم اور جیتا جاگتا خدا آہستہ آہستہ مرنے لگتاہے اور پھر مرکر فقط اپنی ہی قبر کی لوحِ مزار بن کر رہ جاتاہے جس پر سب آ کر پھول چڑھاتے اور اس کا عُرس مناتے ہیں۔چنانچہ خدا کی زندگی کے لیے باخدا لوگوں سے زیادہ ہمیشہ ملحدین کی ضرورت رہتی ہے جو تصورِ خدا پر کاری ضربیں لگاتے اور ’’لالا‘‘ کی تکرار کرتے ہوئے اپنے وقت میں موجود خدا کے تمام تصورات کو جھٹلاتے چلے جاتے ہیں۔ وہ چونکہ عقل سے جھٹلاتے ہیں اس لیے تصور ِ خدا کی  تخلیص ہوتی چلی جاتی ہے۔

اگر کسی معاشرے میں ملحدین کی تعداد کم سے کم ہوتی چلی جائے تو اس معاشرے میں بُری رسموں کا رواج زیادہ سے زیادہ ہوتا چلا جاتاہے۔میں اکثر کہا کرتاہوں کہ،

’’اجتہاد کے دروازے جتنے زور سے بند کیے جائیں افترا ٔ کے دروازے اُتنے زور سے کھل جاتے ہیں‘‘

یاد رکھنے کی بات یہ ہے کہ اجتہاد صرف سمجھدار لوگ انجام دیتے ہیں۔ افترأ ہرکوئی بلکہ پورا معاشرہ مل کر انجام دیتاہے۔اجتہاد کو نوجوان نسل سے زیادہ اور پرانی نسل سے کم تائید اور قبولیت ملتی ہے۔ افترأ کو پرانی اور نئی ہردوطرح کی نسلوں کی تائید اور حمایت حاصل ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اجتہاد کی نسبت افترأ کسی آکاس بیل کی طرح پھیلتا اور معاشرے کے، بوجہ اعلیٰ اقداروروایات، پھل دار درخت کا خون چُوستا چلا جاتا ہے۔ یہاں تک کہ درخت سُوکھ جاتاہے۔ افترأ کی شدت سے جب کسی معاشرے میں بُری رسمیں بڑھ جاتی ہیں تو اس معاشرے کی زندگی کے لیے لازمی ہوجاتاہے کہ کوئی ریفارمر آئے۔ ریفارمیشن کا عمل ہی کسی معاشرے کو دوبارہ زندہ کرسکتاہے۔ ورنہ تو تہذیبوں کی تہذیبیں زمین بُرد ہوجاتی ہیں اور زمین ڈکار بھی نہیں مارتی۔

کوئی ریفارمر کب اور کیسے آتاہے؟

جیسا کہ میں نے عرض کیا کہ جب کسی معاشرے میں اجتہاد کا عمل رُک جائے تو افترأ کا عمل تیز ترہوجاتاہے۔افترأ کے بڑھ جانے سے بُری رسمیں بڑھ جاتی ہیں۔ بُری رسموں کے بڑھ جانے سےپست طبقات زیادہ مظلوم اور غالب طبقات زیادہ ظالم ہوجاتے ہیں۔اگر اِسی حال میں تین نسلیں اوپر تلے گزر جائیں تو ایک وقت ایسا آتاہے جب تیسری نسل پہلی کی جگہ لے لیتی ہے۔ گویا اب وہ بُری عادات جو افترأ کی وجہ سے رائج ہوئی تھیں بزرگوں کی اقدار کے طور پر نافذ ہوکرمذہبی تقدس حاصل کرلیتی ہیں۔ جیسا رسول اطہر صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت سے پہلے عرب کا حال تھا۔ ابنِ خلدون کے نزدیک کسی بھی معاشرے میں تیسری نسل کے بچے (بڑے ہوکر) ہمیشہ پہلی نسل کے بزرگوں کی اقدار کے پاسدار بنتے ہیں۔

تبصرے بند ہیں۔