کیا خواتین منصب قضاء کی اہل ہیں؟

عبد الجبار طیب ندوی

قضاء کا مفہوم:

لوگوں کے درمیان پیدا شدہ نزاعات واختلافات کو ختم کرنا اور خصومات کو فیصل کرنا قضاء کہلاتا ہے۔ یہ لفظ قرآن کریم میں مختلف معانی میں استعمال ہواہے، ایک جگہ قرآن میں عمل کے معنی میں مستعمل ہے، چنانچہ قرآن کریم میں ہے :’’ اقض ما انت قاض‘‘ اس کا مطلب یہ ہے کہ تمہیں اپنا جو کام کرنا ہے کر گذرو، اور کبھی صناعت وکتابت کے معنی میں استعمال ہواہے، اللہ رب العزت فرماتا ہے : وَقَضٰی رَبُّکَ اَلَّا تَعْبُدُوْٓا اِلَّآ اِیَّاہُ، اسی طرح اللہ تعالی نے فرمایا ’’وقضی نحبہ، ، وقضینا الی بنی اسرائیل فی الکتب‘‘

اسی لفظ کو جب شرعی عدالت وپنچایت کے لئے استعمال کیا گیا تو دو لفظوں سے مرکب ہوکر مستعمل ہوا، اور وہ دو لفظ دار القضاء ہے او ر اس کا معنی ہوتا ہے فیصلہ کا گھر، یعنی ایسی جگہ جہاں مقدمات فیصل ہوتے ہوں، شرعی اصطلاح میں اسے دار القضاء یا پھر محکمہ شرعیہ کہتے ہیں۔

فقہاء کرام نے قاضی بننے کے لئے کچھ شرطیں ذکر کی ہیں، یہ شرطیں جس میں پائی جائیں اس کا قاضی بننا درست ہوگا، ورنہ نہیں اور وہ شرطیں یہ ہیں:

(۱) قاضی مسلمان ہو: اس پر تمام فقہاء کرام کا اتفاق ہے، لہذا کوئی کافر مسلمان کا قاضی نہیں بن سکتا ؛چنانچہ اللہ رب العزت ارشاد فرماتا ہے کہ اللہ نے مسلمانوں پر کافروں کے لئے کوئی سبیل نہیں چھوڑی ہے، ولن یجعل اللہ للکافرین علی المؤمنین سبیلاً(النساء)۔ تاہم امام ابوحنیفہ نے کافرکو اپنے ہم مذہب لوگوں کے حق میں قاضی بننے اور فیصلہ کرنے کی اجازت دی ہے  اور آیت کا مفہوم مخالف اس کی تائید کرتا ہے۔

(۲) قاضی بالغ عاقل ہو: لہذا بچہ اور مجنون کو قاضی نہیں بنایا جاسکتا، بچہ اس لئے قاضی نہیں بن سکتا کہ وہ دوسرے کی ماتحتی میں ہوتا ہے، اور ماتحتی قضاء کے لئے مانع ہے، یعنی اس کو اپنے اوپر ولایت حاصل نہیں ہوتی، اور مجنون عقل کے نقص (نقصان عقل)کی وجہ سے نہیں بن سکتا.

(۳) عیوب سے پاک ہو: یعنی آنکھوں والا ہوکہ وہ مدعی اور مدعی علیہ، اقرار کرنے والے اور جس کے لئے اقرار کررہاہے، اور گواہ، اور جس کے حق میں گواہی دے رہاہے ان کے درمیان تمیز کرسکے۔ اسی طرح قوت سماعت اورنطق صحیح وسلامت ہو، قوت سماعت اس لئے تاکہ وہ فریقین کی باتوں کو سن سکے، قوت نطق بولنے کی صلاحیت اس لئے تاکہ وہ فیصلہ سنا سکے، امام ابوحنیفہ کے نزدیک اطرش یعنی ایسا شخص جو اونچا سنتا ہو، وہ قاضی بن سکتا ہے۔

(۴) قاضی عادل ہو: لہذا فاسق کو قاضی بنانا صحیح نہیں، لیکن امام ابوحنیفہ کے نزدیک عدالت قضاء قاضی کے جائز ہونے کے لئے ضروری نہیں ہے، لہذا اگر کوئی فاسق آدمی قاضی بن جاتا ہے اور حدشرع میں رہتے ہوئے فیصلہ کرتا ہے تو اس کا قاضی بنا یا جانا جائز ہوگا. اور فیصلہ بھی نافذ ہوگا، لیکن فاسق آدمی کو قاضی نہیں بنانا چاہئے؛اس لئے کہ قضاء ایک عظیم امانت ہے، اس امانت کا امین ہی شخص ہو سکتا ہے جس کے اندر تقوی وطہارت مکمل طور پر پائی جاتی ہو، اور فاسق شخص اس سے یکسر خالی ہوتا ہے.

(۵)  قاضی کامجتہد ہوناضروری ہے: اس رو سے عامی آدمی کو قاضی بنانا درست نہیں ؛کیوں کہ اللہ رب العزت نے جہاں فیصلہ کرنے کا حکم دیا ہے وہیں یہ بھی حکم دیا ہے کہ تمہارا فیصلہ اللہ کے اتارے ہوئے احکام کی روشنی میں ہونا چاہئے، ظاہر ہے کہ اللہ کے احکامات سے عامی آدمی واقف نہیں ہوتا ہے ؛لیکن حنفیہ کے نزدیک قاضی کا مجتہد ہونا شرط نہیں ہے، البتہ مستحب ومندوب ضرور ہے۔

علما ء احنا ف سے قا ضی کے مجتہد نہ ہو نے کی شرط پر اس حدیث سے استدلال کرتے ہیں جس میں آپ ﷺ نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو یمن کا قا ضی بنا کر بھیجاتو حضرت علیؓ اس وقت مجتہد نہ تھے اور ا ن کو علم قضا بھی نہیں تھا، لیکن اللہ کے رسول ﷺ نے کہہ کر بھیجا کہ اللہ تمہا رے قلب کی رہنما ئی کرے گااور تمہا ری زبا ن کو لغزش سے بچا ئے گا، جب تمہا رے پا س دو نوں فریق آجا ئیں تو اس وقت تک فیصلہ نہ کر نا جب تک کہ دوسرے فریق سے بھی بیا ن نہ سن لو جیسا کہ تم نے پہلے فریق سے بیا ن سنا تھا، اس میں زیا دہ آسا نی او رسہو لت ہے تمہا رے لئے کہ تمہا رے سا منے معاملہ واضح اور صا ف ہو جا ئے گا۔

الغر ض قا ضی علم و معا رف کے ایک بڑے حصہ سے وا قف و جا نکا ر ہو، تا کہ وہ اس رو شنی میں احکا ما ت جا ری کر سکے، اور مظلو مین کو انصا ف دلا سکے، مطلق جا ہل کو قا ضی بنا نا کسی بھی شکل میں درست و صحیح نہیں ہے کیوں کہ ایسے جا ہلو ں سے نفع کا امکا ن کم اور ضررزیا دہ ہو تا ہے، اس صورت میں حقوق کی پا ما لی اور مصا لح شرعیہ کے گھو نٹنے کا قوی اندیشہ ہے۔

جہا ں تک عورت کے قاضی بنانے کا مسئلہ ہے تواس سلسلہ میں فقہا ء کرا م کے تین نقا ط نظر ہیں:

(۱)جمہو ر فقہاء کے نزدیک مطلقا عورت کی ولا یت نا جا ئز ہے، اس لئے وہ قاضی نہیں بن سکتی۔ یہی قو ل امام ما لکؒ، امام شا فعیؒ، امام احمد بن حنبلؒ اور حنفیہ میں سے امام زفر ؒ کابھی ہے، ان کے نزدیک اگر عورت کو ولا یت سو نپ دی جا ئے تو ولا یت سو نپنے وا لا گنہگا ر ہو گا، اور اس کی ولا یت با طل ہو گی اور فیصلہ نا فذ العمل نہیں ہوگا؛چنا نچہ’’ القضا ء فی عمر بن الخطا ب‘‘ میں ہے، ’’واذا ولیت یأ ثم المو تی وتکون ولا یتہا با طلۃ وقضا ۂا غیر نا فذ‘‘(القضا ء فی عہدا بن الخطا ب) لہذا جمہورفقہا ء کے نزدیک عورت کو قا ضی بنا نا درست نہیں ہے۔

(۲)دوسرا نقطۂ نظر مطلق جوا ز کا ہے، اس کے قا ئلین امام محمد بن جریر الطبری، اور اما م ابن حزم الظا ہری اور امام حسن بصری ہیں، اس نقطۂ نظر سے عورت کو حدودو قصاص اور دیگر تما م ابوا ب میں فیصلہ کا حق دیا گیا ہے۔

(۳)تیسرا نقطۂ نظر احنا ف کا ہے، ان کے نزدیک اگر عورت کو قا ضی بنا دیا گیا، تو اس کا فیصلہ نا فذہو گالیکن عورت کو قا ضی بنا نے وا لا شخص گنہگا ر ہو گا، سا تھ ہی یہ بھی وا ضح رہے کہ عورت کا فیصلہ اموا ل او ر احوا ل شخصیہ میں ہی معتبر ہے، حدو داو رقصاص میں عورت کا فیصلہ معتبرنہیں ہے، کیو ں کہ علما ء احنا ف کے نزدیک قا ضی کی اہلیت اس کی شہا دت پر مو قوف ہے، جن امو ر میں عورت کی شہا دت معتبر ہو گی ان ہی امو ر میں وہ فیصلہ بھی کر سکتی ہے، چونکہ عو رت کی شہادت و گوا ہی حدود وقصاص میں غیر معتبر ہے، اس لئے اس با ب میں اس کا فیصلہ بھی غیر معتبر ہو گا، اور حدود وقصا ص کے علا وہ ابواب میں چونکہ اس کی شہادت کا اعتبا رہے، اس لئے اس میں عورتو ں کو فیصلہ کاحق اور اختیا ر دیا گیا۔
جولوگ عورت کے قاضی نہ بننے کے قائل ہیں، انہوں نے مختلف دلائل سے استدلال کیا، یہاں ان کی چند دلیلوں پر ایک طائرانہ نظر ڈالی جاتی ہے:

(۱)اللہ کا قو ل’’ اَنْ تَضِلَّ اِحْدٰءھُمَا فَتُذَکِّرَ اِحْدٰءھُمَا الْاُخْرٰی(البقرۃ:۲۸۳)سے عورت کے قا ضی بننے کے عدم جوا ز پر استدلال کیا ہے، غور کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے اس آیت کریمہ میں عورت کے اس کے بھو لنے اور نسیا ن متعلق جو با تیں ہیں وہ خا ص شہا دت کے سلسلہ میں کہی گئی ہیں، نہ کہ قضا ء کے سلسلہ میں، قضا ء میں کسی امرکے بھو لنے کا کو ئی اندیشہ ہی نہیں ہو تا کیو ں کہ کسی بھی مقدمہ کی سما عت یا فیصلہ کر نے سے پہلے اس مقدمہ سے متعلق سا ری با تیں پڑھی جا تی ہیں، اس کے بعد ہی کو ئی کا روا ئی ہو تی ہے، لہذا قضاء کا یہ عمل سہو اور نسیان کے لئے ما نع ہے۔

(۲)اللہ تعا لیٰ کا قول’’الرجا ل قوا مو ن علی النساء‘‘سے استدلال کیا ہے کہ مرد عور ت کے مقا بلہ میں زیا دہ اہلیت وصلا حیت کا حا مل ہے، اس لئے یہاں مرد کو مقدم ذکر کیا گیا ہے، یہ استدلال بھی محل نظر ہے، اس لئے کہ عورت کی ایک بڑی تعداد ایسی ہے جو مردو ں سے زیا دہ صلا حیت اور اہلیت کی حا مل ہے، او ران عورتوں نے اپنی عملی زندگی میں اپنی صلا حیت و اہمیت اور اہلیت ثا بت بھی کر دیا ہے۔

(۳)اللہ کے بنی ﷺ کا قو ل ’’لن یفلح قوم وا لو ا أمرہم امرأۃ‘‘سے استدلا ل کیا ہے کہ وہ قو م ہرگز کا میا ب او ربا مرا د نہیں سو سکتی جس نے اپنا معا ملہ کسی عو رت کے سپرد کر دیاہو، اکثر اہل علم کا خیا ل ہے کہ یہ حدیث ولا یت عا مہ اور امامت عظمیٰ سے متعلق ہے، اس کے تو سبھی قا ئل ہیں کہ اگر عور ت میں سے کسی کو خلیفہ بنایا جا تا تو وہ حضرت عا ئشہ رضی اللہ عنہا ہو تیں، جیسا کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کا قو ل ہے’’عن علی بن أبی طا لب أنہ قا ل:لو کانت امرأۃ تکو ن خلیفۃ لکا نت عا ئشۃ خلیفۃ(الترا تیب الادا ریۃللکتا نی)

غرضیکہ جمہورکے نزدیک مطلق عورت کو قا ضی بنانا جا ئز نہیں، امام طبرا نی اور ابن حزم اور حسن بصری ؒ کے نزدیک مطلق عورت کو قا ضی بنا نا جا ئز ہے، علماء احنا ف کے یہاں بھی عورت کوقاضی بنانا درست نہیں ہے؛ لیکن وہ اگرکسی طرح بن جا تی ہے تواس کا فیصلہ نا فذ ہو گا۔

تبصرے بند ہیں۔