کیا عجب تھا کہ کوئی اور تماشہ کرتے

 منصور عالم قاسمی

ہندوستا ن کی موجودہ سیاست ایک ایسی طوائف بن گئی ہے جو تھوڑی سی منفعت اورر وپئے کے لئے انسان تو کجا، حیوانوں کے ساتھ بھی سیکس کرنے کو تیار ہے۔ آپ نظر اٹھا کر دیکھیں تو ہر شہر، ہر گلی اورہر نکڑ پر یہ گھناؤنا کھیل کھیلا جا رہا ہے، طرفہ تماشہ یہ ہے کہ اس کھیل کے کھلاڑی فخر سے اپنا سر بلند کر کے اکڑ اکڑ کر چل بھی رہے ہیں۔

بلا شبہ طلاق ثلاثہ ایک ایسا قبیح عمل ہے جس کو اللہ کے رسول ﷺ سے لے کر عہد حاضر کے علماء، فقہاء اور دانشوران ملت نے ناپسند فرمایا ہے۔  قرن اولیٰ سے آج تک یہ موضوع بحث بنی ہوئی ہے اور یہ ایک خالص مذہبی معاملہ تھا اور ہے، تاہم حکومت ہند نے جس طرح طلاق ثلاثہ کو سیاسی حربہ بنایا ہے اس سے مسلمان، جمہوریت اور آئین ہند سب کے سب زخمی ہیں۔ یاد ہوگا ! سال گذشتہ ۲۲ ؍اگست کو سپریم کورٹ نے بیک وقت تین طلاق کو کالعدم قرار تھا اور حکومت سے قانون بنانے کو کہاتھا، ۔ بی جے پی حکومت نے پارلیمنٹ میں اکثریت کی طاقت سے اس بل کو تو پاس کرا لیاتھا لیکن راجیہ سبھا میں وہ ناکام ہو گیا۔ اس بل کے خلاف مسلم پرسنل لاء بورڈ کے تحت خواتین کشمیر سے کنیا کماری تک سڑکوں پر اتر آئیں اور اپنا احتجاج درج کراتے ہو ئے حکومت سے مطالبہ کیا کہ اس کالے بل کو واپس لیا جائے مگر حکومت خاموش رہی اور ہمیشہ گھڑیالی آنسو بہا بہا کر کہتی رہی کہ مسلم بہنوں کو انصاف دلائیں گے، یہ مظلوم ہیں۔ سوال یہ ہے کہ تین طلاق سے متاثرہ مسلم عورتیں ہی حکومت کو کیوں نظر آرہی ہے ؟ترک کالمعلقہ ہندو عورتیں تو اس سے زیادہ قابل رحم اور ستم زدہ ہیں ان کی فکر کیوں حکومت کو نہیں ہو رہی ہے ؟ مختلف مذاہب میں طلاق کے رجحان پر تحقیق کی گئی اور آٹھ اضلاع کی عدالتوں سے گزشتہ پانچ سالوں کے دوران جوڑوں کی علیحدگی کے کیسیز جب سامنے آئے تو وہ حیران کن تھا:۱۶ ہزار ہندو، ۴۸۰۰ مسیحی اور ۱۳۰۷ مسلم جوڑوں نے علیحدگی اختیار کی تھی، مطلب علیحدگی اختیار کرنے والے سب سے کم مسلم جوڑے ہیں، مگر ان ہی کے لئے انصاف اور قانون و مساوات کی باتیں سرکار کر رہی ہے۔  آپ کریں مگر بلا تفریق ساری مظلوم عورتوں کی بات کریں، سب کو انصاف دلائیں، عورتیں سب برابر ہیں خواہ عشرت جہاں ہو یا جسودا بین یا موئلی۔

حکومتی اعداد و شمار کے مطابق ۲۔ ۱۷ کروڑ مسلم آبادی ہے، مجموعی علیٰحدگی  یا قانونی طلاق کے مقابلے طلاق ثلاثہ سے ۰۰۲:۰%فیصدیعنی تقریبا ۲۹۰۰ عورتیں متاثر ہیں، اس معمولی فیصد کے لئے حکومت گھڑیالی آنسو بہا رہی ہے اور انصاف و مساوات کی دہائی دے رہی ہے جبکہ مسلمانوں میں ہی ۲ لاکھ ۸۰ ہزار عورتیں بغیر طلاق کے چھوڑ دی گئی ہیں ا س پر انصاف، قانون اور مساوات کی بات نہیں کر رہی ہے۔ ۲۰۱۱ نیشنل سروے میں ہی کہا گیا ہے کہ بھگوان بھروسے چھوڑ دی جانے والی ہندو عورتوں کی تعدا د لگ بھگ تئیس لا کھ ہیں، ، ان میں سے ایک ہمارے ۵۶ انچ  سینے والے وزایر اعظم کی اردھاگنی جسودا بین بھی ہیں لیکن بی جے پی حکومت اور نہ ہی مودی جی ان کے لئے قانون بنا رہے ہیں اور نہ ہی انصاف دلا رہے ہیں۔ وزیر قانون روی شنکر پرساد کے دل میں نہ ان خواتین کے لئے احترا م جاگتا ہے اور نہ ہی مساوات اور انصاف کی ہوک اٹھتی ہے۔ در اصل بی جے پی حکومت کو عورتوں کی فلاح و بہبود سے کوئی سروکار ہے ہی نہیں، ورنہ ۲۰۰۸ میں خواتین کے لئے پارلیمنٹ اور ریاستی اسمبلیوں میں ۳۳ فیصد ریزرویشن کا منصوبہ جو یو پی اے حکومت لے کر آئی تھی اسے وہ پاس کرا تی چونکہ بی جے پی کے پاس اکثریت ہے جبکہ کانگریس کے پاس اس وقت اکثریت نہیں تھی، یا پھر اس کے لئے آرڈیننس لاتی، لیکن مودی حکومت کا مقصدہی فقط مسلمانوں کو پریشان کرنا اور پولرائزیشن پھیلانا ہے ورنہ کیا وجہ ہے کہ ترک تعلق کی ایک شکل طلاق اگر مسلمان دے تو اس کے لئے تین سال کی قید بامشقت اور ترک تعلق کی ایک دوسری شکل طلاق کے بغیر چھوڑ دینے پر اسے سزا نہیں، بلکہ وزیر اعظم تک بن سکتے ہیں ؟

    دستور ہند میں دئیے گئے حقوق کے تحت مسلمانوں کے مذہبی اور عائلی معاملات میں عدالت یا پارلیمنٹ کو مداخلت کا ہرگز حق نہیں ہے، مگر مودی سرکار نے چور دروازے سے جس طرح طلاق ثلاثہ  جیسے حساس معاملے کو راجیہ سبھا کا انتظار کئے بغیرآرڈیننس لا کر صدر جمہوریہ سے دستخط بھی کرا لیا اس سے اس کی ڈکٹیٹر شپ عیاں ہورہی ہے۔ نہ تو اس نے مذہب اسلام کے عمائدین کی سنی، نہ مسلم پرسنل لاء کی بات مانی، نہ لاکھوں عورتوں کے احتجاج کو خاطر میں لایا اور نہ ہی کانگریس، سی پی ایم  اور اپنی حلیف پارٹی جدیو کی سنی۔ نیز ممکن ہے کہ اس قدم کو بی جے پی حکو مت نے بوکھلاہٹ اور مایوسی میں بھی اٹھایا ہو، کیونکہ آئندہ ۵ ریاستوں میں اسمبلی الیکشن ہے، اورپبلک کے پاس جانے کے لئے بی جے پی کے پاس کوئی ایشو نہیں ہے۔ معاشی حالت بگڑ چکی ہے، مہنگائی ڈائن نہیں، چڑیل بن گئی ہے، پٹرول ڈیزل کی قیمتیں آسمان چھو رہی ہیں، ڈالر کے مقابلے روپیہ مسلسل گر رہا ہے، رافیل ڈیل میں بھی پھنس چکی ہے، وجے مالیا کے بیان نے کہیں کا نہیں چھوڑا ہے، ماب لنچنگ اور خواتین کی آبرو ریزی پر دل دہلا دینے والے سانحات پر تنقید ہو رہی ہے۔

ماہ دسمبر میں راجستھان، مدھیہ پردیش اور چھتیس گڑھ میں ہونے والے الیکشن میں شکست کا خوف بھی ستا رہا ہے اور اگر ان تین صوبوں میں  بی جے پی کی شکست ہو جاتی ہے تو ۲۰۱۹ میں پارلیامنٹ فتح کرنا ناممکن ہوگاا س لئے یہ آرڈیننس لاکر بھکتوں کو خوشی کا موقع فراہم کر دیا ہے تاکہ ان کو لگے مودی حکومت کچھ کرے یا نہ کرے مسلمانوں کو تو پریشان کر رہی ہے اس لئے مودی اور بی جے پی کو ہی ووٹ دو، ۔ یہی وجہ ہے کہ ایک غیر اہم اور نان ایشو کو مودی نے اہم ایشو بنا کر پیش کرڈالا۔  حالانکہ سرکار یہ بھول رہی ہے کہ اس کا یہ طرز عمل پارلیامنٹری پروسیس کی تذلیل ہے، جمہویت، رائے عامہ اور انصاف کو طاقت اور ہٹ دھرمی سے اپنے پیروں سے کچل رہی ہے اس کا یہ اقدام دستور ہند کی روح کے منافی ہے، اگر یوں ہی فیصلے لیتی رہی اور ایک خاص مذہب کو ٹارگیٹ کر کے جمہوریت کے سینے پر چڑھ کر آرڈیننس لاتی رہی تو سب سے بڑاجمہوری ملک کہلانے والا ہندوستان، ہندوستان نہیں رہے گا۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔