کیا مسلمانوں کو کسی قائد یا امام کی تلاش ہے؟

عبدالعزیز

 مسلمانوں کی کوئی مجلس ایسی نہیں ہوتی جس میں مسلمان مسلمانوں کی کمزوریوں اور کوتاہیوں کا ذکر نہ کرتے ہوں مگر بیان کرنے والا اکثر و بیشتر اپنے آپ کو کمزوریوں اور کوتاہیوں سے مبرا یا مستثنیٰ سمجھتا ہے اور ٹانگ اس پر جاکر توڑتا ہے کہ ’’ہمارا کوئی لیڈر یا قاعد نہیں ہے جس کی وجہ سے ہماری یہ حالت ہے‘‘۔ کچھ لوگ جو تھوڑی بہت سوجھ بوجھ رکھتے ہیں وہ قیادت و سیادت سے آگے کی بات بھی کرتے ہیں کہ ’’ہماری کوئی جماعت نہیں ہے‘‘ میرے خیال سے دونوں باتیں ایسے لوگ کرتے ہیں جو اسلام سے ناواقف ہوتے ہیں اور حالات سے بھی ناواقف ہوتے ہیں ، انھیں اس کا علم نہ قرآن سے کبھی حاصل کرنے کی ضرورت پڑی کہ قیادت یا لیڈر شپ کس بلا کا نام ہے اور جماعت کیسے وجود میں آتی ہے؟ حالانکہ وہ روز و شب دیکھتے ہیں کہ کسی نے کوئی جماعت کی تشکیل کی اور اس جماعت کا لیڈر یا قائد جماعت کے ارکان نے اسے منتخب کرلیا یا جماعت کے کسی اور شخص پر نظر انتخاب پڑی ، اسے قیادت و سیادت کیلئے اہل سمجھا اور پھر اسے اپنا قائد چن لیا۔ جماعت کا ایک دستور ہوتا ہے، اس کا نصب العین ہوتا ہے، اس کا طریقہ کار ہوتا ہے اور طریقہ انتخاب بھی ہوتا ہے۔ ارکان (Members) بننے کے شرائط ہوتے ہیں ۔ امامت کے کچھ اوصاف ہوتے ہیں ۔

 مسلمانوں میں نہ جماعت کی کمی ہے اور نہ قائد کی کمی ہے۔ میرے خیال سے اگر کمی ہے تو پیروکار کی کمی ہے۔ علم کی کمی ہے جس طرح مسلمانوں میں نہ مسجد کی کمی ہے نہ امام کی کمی۔ اگر کمی ہے تومبتدی کی کمی ہے اور نظام سمع و اطاعت کی کمی ہے۔ نماز باجماعت کا اہتمام ضروری ہے۔ اگر امام میں کچھ کمیاں اور خرابیاں ہیں جب بھی شیرازہ بندی کیلئے ان کمیوں اور کوتاہیوں کو گوارا کرنے کیلئے کہا گیا ہے جب تک دوسرا امام مشاورت، اتفاق رائے یا کثرت رائے سے منتخب نہ کرلیا جائے۔ مسجد کا تصور بغیر امام اور نماز باجماعت کے نہیں ہے۔ اسی طرح مسلمانوں کے وجود اور اجتماعیت کا تصور بغیر امام اور جماعت کے نہیں ہے۔ آئیے قرآن کے اوراق کھول کر دیکھیں ، اجتماعیت کیلئے کیا حکم دیا گیا ہے۔

’’اے لوگو! جو ایمان لائے ہو اور تم سب مل کر اللہ کی رسی کو مضبوطی سے پکڑلو، الگ الگ نہ رہو‘‘ (سورہ آل عمران)۔ الگ الگ نہ رہو یعنی باہم جڑے رہو اور باہم جڑا رہنا کس طرح اور کس معیار کا ہونا چاہئے اس کی وضاحت کیلئے صاحب قرآن صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات گرامی ملاحظہ فرمائیے:

 ’’جماعت کے دامن کو مضبوطی سے تھامے رہو اور انتشار سے پوری طرح الگ رہو‘‘ (ترمذی، ج2ص41)۔   ’’میں تمہیں پانچ باتوں کا حکم دیتا ہوں ، 1؎ جماعتی زندگی کا، 2؎ سمع (یعنی احکام امیر کے سننے کا)، 3؎طاعت (یعنی احکام کے ماننے کا)، 4؎ہجرت کا، 5؎جہاد فی سبیل اللہ کا‘‘ (احمد ترمذی، بحوالہ مشکوٰۃ، ص331)۔

مذکورہ حدیثوں سے واضح انداز سے معلوم ہوا کہ جس جماعتی یا اجتماعی زندگی کا حکم اسلام نے مسلمانوں کو بسر کرنے کیلئے دیا ہے وہ کوئی ڈھیلی ڈھالی جماعتی زندگی نہیں جس کی شیرازہ بندی صرف اخلاقی رشتوں سے ہوئی ہو بلکہ ایسی متحد، منظم اور منضبط ہے جس کو سمع و طاعت کے آہنی تاروں سے پوری طرح کس دیا گیا ہو۔

 پھر یہی نہیں ہے کہ جماعت کے دامن کو مضبوطی سے تھامے رہنے اور جماعتی زندگی بسر کرنے کا ایک لازمی حکم ہے بلکہ ایسا لازمی حکم ہے جس کی خلاف ورزی میں نہ ایمان کی خیر ہے اور نہ اسلام سے رشتہ برقرار رہ سکتا ہے۔ پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے:

’’جو شخص ’’الجماعت‘‘ سے بالشت بھر بھی الگ ہورہا، کوئی شک نہیں کہ اسلام کا حلقہ اپنی گردن سے نکال پھینکا‘‘ (ایضاً)۔

 ’’جو کوئی امام المسلمین کی اطاعت سے کنارہ کشی اختیار کرلے گا اور جماعت المسلمین سے الگ ہورہے گا اور اسی حال میں مر جائے گا تو اس کی موت جاہلیت کی موت ہوگی‘‘ (مسلم، ج 3، ص127)۔

 جس طرح مسلمانوں کی ’’الجماعۃ‘‘ سے اپنا جڑا ہوا رشتہ کاٹ لینا ایمان کے منافی ہے، اسی طرح نظم جماعت سے وابستہ نہ ہونا بھی دینی حیثیت سے انتہائی خطرناک ہے۔

 ’’جو شخص اس حال میں مر جائے کہ اس کی گردن میں (امام المسلمین کی) بیعت (کا قلادہ) نہ ہواس کی موت جاہلیت کی موت ہوگی‘‘(مسلم، ج 2، ص127)۔

  جس الجماعۃ کی حیثیت یہ ہو اور جس نظم اجتماعی سے علاحدگی بے تعلقی ایک مسلمان کو جاہلیت کی حالت میں پہنچا دیتی ہو، کوئی وجہ نہیں کہ اس کے اندر رخنہ ڈالنے کی کسی جسارت کو ایک لمحہ کیلئے بھی برداشت کرلیا جائے، چنانچہ اس بارے میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ہدایت کس قدر سخت ہے۔ ذیل کی حدیث سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔

’’جو شخص اس جماعۃ کو جبکہ وہ متحد ہو پراگندہ کرنا چاہے اسے (بدرجہ آخر) تلوار پر رکھ لو خواہ وہ کوئی بھی ہو‘‘ (مسلم، ج 2، ص128)۔

دوسری طرف قدرتی طور پر ان لوگوں کا اجر اور مرتبہ قابل رشک حد تک عظیم قرار دیا گیا ہے جو اس نظم اجتماعی کی عملی شکل کی حفاظت کیلئے جاں بازیاں دکھائیں (بحوالہ:ترمذی، جلد اول، ص210)۔

اس طرح اس نظم کی اطاعت کو ایمان کی ایک ضروری علامت بتایا گیا ہے اور اصحاب امر کی فرماں برداری کو اللہ اور سولؐ کی فرماں برداری قرار دیا گیا ہے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ ’’جس نے امیر کی فرماں برداری کی اس نے میری فرماں برداری کی جس نے امیر کی نافرمانی کی اس نے میری نافرمانی کی، (مسلم، ج 2، ص124)۔

 مختصراً جو بات کہی جاسکتی ہے وہ یہ ہے کہ اگر امام المسلمین کی اطاعت اللہ اور رسولؐ کی اطاعت ہے۔ اگر جماعت المسلمین سے بالشت بھر کی علاحدگی بھی مومن کی گردن کو اسلام کے حلقے سے محروم کر دیتی ہے۔ اگر امام کی بیعت سے بے نیاز مرجانا جاہلیت کی موت مرنا ہے۔ اگر الجماعۃ کے اتحاد میں رخنے ڈالنے کے خون کی کوئی قیمت نہیں اور اگر ملت کے اجتماعی نظام کی حفاظت سے بڑھ کر کوئی عبادت نہیں تو سوچنے اور سمجھنے کا مقام ہے کہ اسلام میں اجتماعیت یا جماعتی زندگی کے بغیر جینا یا زندگی بسر کرنا ایساہی ہے جیسے ماہی بے آب۔

  یہ تو ہوا جماعتی اور اجتماعی زندگی کی اہمیت اور ضرورت کا حال۔ اب ہم ارد گرد دیکھیں کہ کتنی جماعتیں ہیں جو کام کر رہی ہیں ۔ ان میں سے جو اسلام کے پیمانے پر کھری اترتی ہیں اس میں شامل ہونا چاہئے۔ اگر کوئی عذر ہو کہ وہ اسلام اور شریعت کے مطابق نہیں ہیں تو خود آگے بڑھ کر جماعت کی تشکیل کرنا چاہئے۔ اس طرح جماعتی زندگی نہ بسر کرنے کا کوئی معقول عذر ہو نہیں سکتا ہے تو حیلے بہانے کرکے زندگی کو انفرادی حیثیت سے گزار دینا چاہتے ہیں ۔ ان کو اپنی موت کا جاہلیت کی موت کا پورے طور پر یقین ہوجانا چاہئے کیونکہ اسلام میں اجتماعی یا جماعتی زندگی کے بغیر اسلامی زندگی کا کوئی تصور نہیں ہے۔ حضرت عمرؓ نے فرماتے ہیں ’’کوئی اسلام نہیں بغیر جماعت کے کوئی جماعت نہیں ۔ بغیر امیر کے کوئی امیر نہیں ، بغیر پیروکار کے‘‘ (بحوالہ: جامع بیان العلم، ابدال البار)۔

 میرے خیال سے جو لوگ کسی امام یا امام مہدی کے انتظار میں ہیں وہ خام خیالی کے شکار ہیں ۔ انھیں نہ کسی بہتر جماعت کی تلاش ہے اور نہ ہی کسی امام یا قائد کا انتظار ہے۔ وہ محض تضیع اوقات کیلئے بحث برائے بحث کرتے ہیں ،جس کا کوئی حاصل نہیں ہوتا۔

سبق پڑھ پھر صداقت کا، عدالت کا، شجاعت کا … لیا جائے گا تجھ سے کام دنیا کی امامت کا   (علامہ اقبالؒ)

تبصرے بند ہیں۔