کیا مسلمان ہونا مصائب وذلت کا سبب ہے!

محمد خان مصباح الدین

آج کل پوری دنیا میں مسلمانوں پر ظلم ہورہا ہے اور یہ ظلم کرنے والے غیر مسلم ہیں تو مسلمانوں پر اللہ تعالیٰ کی مدد کیوں نہیں آتی؟“ یہ سوال آج کل تقریباً ہر دین دار مسلمان کی زبان پر ہے اور اس کے دل و دماغ کو پریشان کئے ہوئے ہے اور اسے سمجھ نہیں آتا کہ اگر مسلمان حق پر ہیں اور یقینا حق پر ہیں، تو ان کی مدد کیوں نہیں کی جاتی اور ان کے اعداء و مخالفین یہود و نصاریٰ اور کفار و مشرکین، جو یقینا باطل پر ہیں، انکے خلاف اللہ تعالیٰ کا جوش انتقام حرکت میں کیوں نہیں آتا؟ اور ان کو تہس نہس کیوں نہیں کردیا جاتا؟ یا کفار و مشرکین اور یہود و نصاریٰ کو مسلمانوں پر فوقیت و برتری کیونکر حاصل ہے؟ اور ان کو اس قدر ڈھیل کیوں دی جارہی ہے؟ اس کے برعکس مسلمانوں کو روز بروز ذلت و ادبار کا سامنا کیونکر ہے؟ یہ سوال معقول اور بجا ہے، کیونکہ اس وقت دنیا بھر میں مسلمانوں پر جس قدر مظالم کے پہاڑ توڑے جارہے ہیں اور مسلمان جس قدر ظلم کی چکی میں پس رہے ہیں، شاید ہی کسی دوسری قوم پر کبھی ایسا وقت آیا ہو؟

اس سب کے باوجود مسلمانوں کے حق میں اللہ کی مدد کا نہ آنا،واقعی قابل تشویش ہے،اور آپ کی طر ح ہر مسلمان اس تشویش میں مبتلا ہے۔بہت سے مسلمانوں کے موجودہ حالات دکھ اور افسوس کا باعث ہیں، اتنا ہی نہیں بلکہ فتنوں اور مصیبتوں نے مسلمانوں کو تباہی و بربادی کے دہانے پر لا کھڑا کر دیا ہے جہاں سے سوائے بربادی کے کوئی دوسرا راستہ نہیں، جس سے ہمارے دین، جان و مال، عزت و آبرو، اور گھر بار سب بری طرح متاثر ہوئے ہیں اور آج بھی یہ سلسلہ جاری ہے، ہم صرف تھوڑی دیر کیلیے افسوس کرتے ہیں پھر سب بھول جاتے ہیں کیا ہمارے ساتھ درپیش مسائل اور مصائب مسلمان ہونے کی وجہ سے ہے؟ یا کلمئہ توحید کا کی شہادت کیوجہ سے ہے؟ پیش آمدہ مسائل، بحران، تکالیف، اور مصیبتوں کا سب سے بڑا سبب تمام تر شعبہ ہائے زندگی میں منہج الہی اور طرزِ نبوی سے دوری ہے، ہماری بے دینی ہے کیا اللہ تعالی نے واضح لفظوں میں نہیں فرمایا تھا اور جسے سمجھنے کی ہر کوئی استطاعت بھی رکھتا ہے

"تم پر جو بھی مصیبت آتی ہے وہ تمہارے ہاتھوں کی کمائی ہے ، اللہ بہت سے گناہوں سے درگزر بھی کر دیتا ہے [الشورى : 30]

کیا رب کریم نے ہمیں یہ تاکید نہیں کی تھی؟:

"بر و بحر میں فساد پھیل گیا ہے جس کی وجہ لوگوں کے اپنے کیے ہوئے اعمال ہیں ؛ تاکہ اللہ تعالیٰ لوگوں کو ان کے کچھ اعمال کا مزا چکھا دے، شاید وہ ایسے کاموں سے باز آ جائیں [الروم : 41]

اور آپ ﷺ نے بھی ہمیں یہی نصیحت کرتے ہوئے فرمایاتھاکہ: (جب تک مسلم حکمران اللہ کے نازل کردہ احکامات نافذ نہیں کرینگے تو اللہ تعالی انہیں خانہ جنگی میں مبتلا کیے رکھے گا)

چنانچہ گناہ موجودہ نعمتوں کو تو  زائل کرتا ہی ہے اور ساتھ ساتھ آئندہ ملنے والی نعمتوں کیلئے رکاوٹ بھی بن جاتا ہے۔

اور علی رضی اللہ عنہ  ایک بات کہتے ہیں کہ: ” مصیبت صرف گناہوں کی وجہ سے اترتی ہے، اور اس کا ازالہ صرف توبہ سے ہی ممکن ہے”

اسی مفہوم کو ابن قیم رحمة اللہ علیہ مکمل چھان بین کے بعد بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں: "یہ بات قرآن مجید میں ایک ہزار سے زائد بار موجود ہے” لہذا سنگین اور تباہ کن فتنے مسلمانوں کو کتاب و سنت کی مخالفت کی وجہ سے ہی اپنے گھیرے میں لیے ہوئے ہیں۔

ایک دوسری جگہ نبی ﷺ نے فرمایا: (جب میری امت میں گناہ سر عام ہونگے تو اللہ تعالی سب کو عذاب میں مبتلا کر دیگا) یہ حدیث ان لوگوں کے ذہنوں میں نقش ہونی ضروری ہے جو کتاب و سنت سے دور ہیں۔

یہ بات ہمیں ذہن نشین کرنا ہوگی کہ کچھ بنیادی اور انتہائی عظیم اصول ہیں کہ اگر مسلمان ان پر عمل پیرا ہو جائیں،اور انہیں اپنی عملی زندگی میں جگہ دیں تو ہر قسم کے شر، تباہی، اور سنگین فتنوں سے نجات پا سکینگے اور اگر اس کے برعکس ہوا یا ہوتا ہےتو جو نقصانات ہونگے وہ موجودہ حالات سے  کہیں زیادہ گھمبیر اور سنگین ہونگے:

درپیش مسائل سے نجات کے چند اصول!

1: اللہ کیلئے سچی توبہ، اس توبہ میں تمام افراد، حکمران، مفکرین، صحافی، اور امت کا ہر فرد شامل ہونا ضروری ہے، اور اس کیلئے صراط مستقیم ، شریعت الہی، احکامات الہی، اور تعلیمات نبوی کی طرف رجوع کریں۔

توبہ کے ذریعے اصلاح ممکن ہوگی ،چارو طرف خوشگوار زندگی نظر آئیگی اور ایمانی قوت میسر ہوگا  اور دھیرے دھیرے دھیرے ہر طرح کےشر، تکالیف، مصیبتوں اور ہر قسم کے بحران سے نجات ملے گے، اللہ سبحانہ تعالی کا ارشاد ہے:

مؤمنو! تم سب کے سب اللہ کی طرف توبہ کرو؛ تاکہ تم فلاح پاؤ[النور : 31]

نیز اللہ تعالی نے ہود علیہ السلام کے بارے میں فرمایا:

میری قوم ! تم اپنے پروردگار سے توبہ استغفار کرو ، وہ تم پر آسمان سے موسلا دھار بارش نازل کریگا ، اور تمہاری موجودہ قوت میں مزید اضافہ کریگا [هود : 52]

خیر و بھلائی کی تمام تر صورتیں جن کی ہم اپنی زندگی میں تمنا رکھتے ہیں وہ سب کی سب توبہ اور اپنی اصلاح کیساتھ منسلک ہیں، اللہ کے اس فرمان کو ہمیں اپنی زندگی سے وابسطہ رکھنا چاہیئے کہ!

"اگر وہ توبہ کر لیں تو یہ ان کیلئے بہتر ہوگا، اور اگر رو گردانی کریں تو اللہ تعالی انہیں دنیا و آخرت میں درد ناک عذاب دیگا، اور اس روئے زمیں پر ان کا کوئی دوست اور مدد گار نہیں ہوگا۔[التوبہ: 74]

 اس آیت میں ہماری موجودہ صورت حال کا ذکر کیا گیا ہے۔

2: کثرت کیساتھ نیکیاں اور عبادات بجا لائی جائیں، ان کے ذریعے زحمتیں دور اور رحمتیں حاصل ہوتی ہیں، رب کریم کا فرمان ہے:

"اور جو اللہ سے ڈرے تو اللہ تعالی اس کیلئے تنگی سے نکلنے کا راستہ بنا دیتا ہے[2] اور اسے ایسی جگہ سے رزق دیتا ہے جہاں سے کسی کو گمان ہی نہیں ، اور جو بھی اللہ تعالی پر توکل کرے تو اللہ تعالی اس کیلئے کافی ہے۔ [الطلاق :2-3]

ابن قیم رحمہ اللہ کہتے ہیں: "نیکو کار اور سخاوت کرنیوالے شخص کی اپنی دفاعی فوج ہوتی ہے جو نرم و گرم بستر پر نیند میں بھی اس کا دفاع کرتی ہے، جس شخص کی دفاعی فوج نہ ہو تو ایسے شخص پر دشمن کسی بھی وقت یلغار کر سکتا ہے، اور غلبہ پا سکتا ہے، "

اور یہ بات آج ہمارے کچھ مسلم خطوں کیساتھ سچ ہو چکی ہے۔

ایسے اہل ایمان جو اطاعت الہی پر عمل پیرا ہوں، ممنوعات سے دور رہتے ہوں ، ان کی اللہ تعالی کی طرف سے خصوصی نگرانی اور نگہبانی ہوتی ہے، کیونکہ اللہ کا فرمان کبھی غلط نہیں ہو سکتا:

بیشک اللہ تعالی ایمان والوں کا دفاع فرماتا ہے۔[الحج : 38]

اگر پوری امت مسلمہ حکمران اور رعایا سمیت سب اس آیت کو غور و فکر، تدبر، اور سمجھ کر پڑھتے اور اسے اپنی عملی زندگی میں نافذ کر کے اپنی منزل کی طرف قدم بڑھاتے  تو موجودہ ذلت آمیز مقام پر نہ ہوتے بلکہ وہ سر بلند ہوتے۔

3: جس وقت امت پر فتنے سایہ فگن ہوں، اور ٹھاٹھے مارتی لہریں امت کی کشتی کو بھنور میں لے جانے کیلیے آگے بڑھیں تو ایسی وقت میں نجات پانے کیلئے مبیین اور یقینی راستے کی ضرورت ہوتی ہے تاکہ امن و سلامتی کے ساحل تک پہنچنا ممکن ہو، ورنہ چاہے کتنی ہی کوشش اور تگ و دو کر لی جائے قرآن و سنت کی روشنی کے بغیر بالکل بھی ممکن نہیں ہے، یہی وجہ ہے کہ جس وقت امت کے چہرے پر ہر طرف سے گناہوں اور مصیبتوں کی لو برس رہی ہوتی ہو؛ تو باعثِ نجات اور کامیابی اور حقیقی منزل کی  تلاش کتاب و سنت کی روشنی میں ہی ہوگی، فرمانِ باری تعالی ہے:

اللہ تعالی کی رسی کو مضبوطی سے تھام لو اور فرقہ واریت میں مت پڑو[آل عمران : 103]

اسی طرح فرمایا:

یقیناً ہم نے تمہاری طرف کتاب نازل کی اس میں تمہارے لیے ذکر ہے، کیا تم اسے سمجھتے نہیں ہو؟[الأنبياء : 10]

اس آیت کا صحیح ترین مفہوم یہ ہے کہ اسی کتاب میں تمہارے لیے عزت و شرف، رفعت و بلندی، شان و شوکت اور قیادت و سیادت کے راز موجود ہیں۔

امام مالک رحمہ اللہ علیہ نے اپنی مؤطا میں بیان کیا ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا: (تمہارے درمیان دو چیزیں چھوڑے جا رہا ہوں جب تک تم انہیں تھامے رکھو گے کبھی بھی گمراہ نہیں ہو سکتے: کتاب اللہ اور میری سنت)

چنانچہ پر فتن دور میں کتاب و سنت کو تھام کر رکھنا ، تنازعات اور لڑائی جھگڑے میں کتاب و سنت کو فیصل ماننا، یہی وہ منفرد راستہ ہے جس سے عالم اسلامی میں پائے جانی والی انواع و اقسام کی بے چینی اور غیر یقینی صورت حال کا خاتمہ ہو سکتا ہے، اور اگر اس سے رو گردانی کی گئی تو تباہی و بربادی ہمارا مقدر ہوگی۔

4: امن و امان ہر ملک و قوم کی خواہش ہےاور ضرورت بھی، آپ ﷺ کا فرمان ہے: (جو شخص اپنے گھر میں پر امن صبح کرے، جسمانی طور پر صحیح سلامت ہو اور اس دن کا کھانا بھی اس کے پاس ہو تو گویا اس کے لیے ساری دنیا اکٹھی کر دی گئی) ترمذی اور ابن ماجہ نے اسے حسن سند کیساتھ روایت کیا ہے۔

یہ بات ذہن نشین کر لیں کہ امن کی بنیاد افکار، اقوال و افعال اور رہن سہن ہر اعتبار سے اللہ تعالی پر ایمان لانے میں پنہاں ہے، امن و امان کا بنیادی رکن قرآنی و نبوی تعلیمات سمیت پوری شریعتِ اسلامیہ کو زندگی کے تمام شعبوں میں نافذ کرنے سے حاصل ہوگا، فرمانِ باری تعالی ہے:

جو لوگ ایمان لائیں اور ایمان کیساتھ ظلم [شرک] کی آمیزش نہ کریں تو انہی لوگوں کیلئے امن ہے اور وہی ہدایت یافتہ ہیں۔[الأنعام : 82]،

نیز آیت میں مذکور "امن” کو کسی خاص نوعیت کے امن کیساتھ محدود کرنا کتاب اللہ کے مقاصد سے متصادم تفسیر ہے۔

جب بھی ملکی قوانین شریعت سے متصادم ہونگے ، اور حکمرانوں کے شخصی و سیاسی اصول کار فرما ہونگے تو وہاں ہر اعتبار سے امن و امان کی جگہ خوف، بے چینی، اور دہشت کا راج ہوگا، فرمانِ باری تعالی ہے:

اللہ تعالیٰ ایک بستی کی مثال بیان کرتا ہے جو امن و چین سے رہتی تھی اور ہر طرف سے اس کو کھلا رزق پہنچ رہا تھا، پھر اس نے اللہ کی نعمتوں کی ناشکری کی تو اللہ نے ان کے کرتوتوں کا مزا یہ چکھایا کہ ان پر بھوک اور خوف کو مسلط کر دیا [النحل : 112]

5: نیکی و تقوی کے کاموں میں باہمی تعاون اور خیر کے کاموں میں یکجہتی پوری امت کیلئے قوت کا اہم ترین سبب ہے،جسکے بارے میں رب کریم نے فرمایا :

اللہ تعالی کی رسی کو مضبوطی سے تھام لو ، اور فرقہ واریت میں مت پڑو[آل عمران : 103]

امت اسلامیہ کو جن بڑے بڑے مسائل کا سامنا ہے جن کی وجہ سے امت کی طاقت کو کمزور کیا گیا، اور شان و شوکت کو خاک میں ملایا گیا وہ باہمی اختلاف، فرقہ واریت، داخلی تنازعات، اور انتشار ہیں، انہی کی وجہ سے امت کو ماضی میں بھی نقصانات کا سامنا کرنا پڑا اور آج بھی،اللہ کا فرمان ہے:

"تنازعات میں مت پڑو، ورنہ تم ناکام ہو جاؤ گے، اور تمہاری ہوا تک اکھڑ جائے گی، اس لیے ڈٹے رہو، بیشک اللہ تعالی ڈٹ جانے والوں کیساتھ ہے۔[الأنفال : 46]

اور آپ ﷺ کا فرمان ہے: (باہمی بغض اور حسد نہ رکھو، ایک دوسرے سے منہ مت موڑو، اور اللہ کی بندگی کرتے ہوئے بھائی بھائی بن جاؤ، کسی بھی مسلمان کیلئے اپنے بھائی سے تین دن سے زیادہ قطع تعلقی جائز نہیں ہے) لیکن آج کا مسلمان اس فانی دنیا کیلئے ایک دوسرے سے لڑ جھگڑ رہے ہیں ، گروہ بندی میں مبتلاہوکر ایک دوسرے کے دامن پے کیچڑ اچھالنے کی کوشش کر رہے ہیں، بلکہ اس حقیر دنیا کیلئے -نعوذ باللہ-ایک دوسرے کا خون بھی بہا رہے ہیں۔

 آپ ﷺ نے لوگوں کو متوجہ کر کے فرمایا: (لوگو! ملت کا التزام کرو، اور اپنے آپ کو گروہ بندی سے بچاؤ) آپ نے یہ بات تین بار فرمائی، یہ بہت ہی عظیم اور بڑی نصیحت ہے، آپ سے پہلے نہ کسی نے ایسی نصیحت کی اور نہ ہی اس کی کوئی مثال ملتی ہے۔

تاریخی واقعات اس بات پر گواہ ہیں کہ فرقہ پرستی ہلاکت اور گروہ بندی تباہی و بربادی کا باعث ہے۔

اس لیے تمام مسلمانوں کو اپنے دین،جان،اور اپنے ممالک کے بارے میں اللہ سے دعا اور فریاد کرنی چاہیے، چنانچہ تمام مسلمان کتاب اللہ کو اپنے لیے منہج و فیصل مانیں، رسول اللہ ﷺ کی سنت کو مشعل راہ بنائیں، خلفائے راشدین کی سیرت کو اپنے لیے رہبر و رہنما سمجھیں، اگر اس طرز زندگی سے ذرہ برابر بھی ہٹے تو ان کی حالت ایسی ہی ہوگی جیسا کہ آج درپیش ہے بلکہ اس بھی بدتر ہوگی اور پوری دنیا کیلیے نمونئہ عبرت بن کے رہ جائینگے جیسا کہ گزشتہ قوموں کیساتھ ہو چکا ہے_

قارئین کرام!

کیا اب بھی ممکن ہے کہ مسلمان اپنی اس حالت میں تبدیلی لا سکیں اور اپنے حالات کو سنوارنے کیلیے سچے دل کیساتھ سوچیں، اپنا محاسبہ کریں، بطورِ حکمران یا رعایا نہیں بلکہ ایک مسلمان ہونے کے ناطے اپنی حالت پر غور کریں!! لیکن اس کے لیے ضروری ہیکہ اصلی بات سمجھ کر صحیح راستے کی جانب رجوع کریں، اور اس طرح ایک ہی جھنڈے تلے جمع ہو جائیں اور قرآن و سنت ان کا دستور ہو، شریعتِ الہی انکا فیصل ہو !!

6 : کہ تمام لوگ فتنے نمودار ہونے کے وقت شرعی ، قرآنی اور تعلیمات نبوی کو اپنے سامنے رکھیں، فرمانِ باری تعالی ہے:” اور جب ان کے پاس کوئی امن یا جنگ کا معاملہ آتا ہے تو وہ سب کے سامنے اسے پھیلا دیتے ہیں، لیکن اگر وہ اسے رسول یا اپنے ذمہ داران تک پہنچاتے ، تو باریک بین اہل علم اسے سمجھ جاتے[النساء : 83]

اور آپ ﷺ کا فرمان ہے: (فتنوں کے وقت عبادت میری طرف ہجرت کی طرح ہے)

مسلمانوں کو یہ بات بھی ہر وقت اپنے ذہنوں میں تازہ رکھنی چاہیے کہ زبان اور قلم کا معاملہ فتنہ پروری اور شر انگیزی میں بہت ہی اہمیت رکھتا ہے؛ کیونکہ فتنوں کے وقت میں غلطی اور خطا کا اندیشہ زیادہ ہوتا ہے، اللہ کا فرمان ہے:

"جب تم اسے اپنی زبانوں سے پھیلا رہے تھے، اور بغیر علم کے باتیں بنا رہے تھے، نیز اسے معمولی سمجھ رہے تھے، حالانکہ وہ باتیں اللہ کے یہاں بہت گراں تھیں[النور : 15]

علمائے کرام، قوم و مذہب کے ذمہ داران، مفکرین، اور صحافت سے منسلک تمام لوگوں کی ذمہ داری ہے کہ کسی بھی بات کو نشر کرنے سے پہلے اس کی تاکید کر لیں، اور فتنہ پروری کیلئے کسی بھی اقدام سے گریز کریں۔

قارئین کرام!

آج کا مسلمان چیختا اور چلاتا ہیکہ آج سیاست کے میدان میں ہماری کوئی جگہ نہیں, ہم اس اعتبار سے محروم ہیں, سیاست کی کرسی حاصل کرنے سے رہے,لیکن وہی مسلمان یہ بات بھول جاتا ہیکہ اسکی وہ کرسی جس کو حاصل کرنے سے اسکی دنیا اور آخرت دونوں سنور جائیگی وہ سیٹ اسکی مسجد میں خالی رہتی ہے مگر وہ بد نصیب یہ بھی بھول جاتا ہیکہ اس کی مسجد والی سیٹ پہلے سے اس کے نام ہے اور اسکی منتظر ہے اگر وہ اپنی جگہ پر کر لیگا تو اسکا مقام اوج ثریا پر ہوگا اور پھر سیاست کی کرسی ہی کیا ہر کرسی وہ اپنے نام کر سکتا ہے کیوں کہ اس پر اللہ کی مدد شامل ہوگی,

اس وقت تقریباً مسلمانوں کو دین، مذہب، ایمان، عقیدہ سے زیادہ اپنی، اپنی اولاد اور اپنے خاندان کی دنیاوی راحت و آرام کی فکر ہے۔

آج کامسلمان موت، مابعد الموت، قبر، حشر، آخرت، جہنم اور جنت کی فکر و احساس سے بے نیاز ہوچکا ہے اور اس نے کافر اقوام کی طرح اپنی کامیابی و ناکامی کا مدار دنیا اور دنیاوی اسباب و ذرائع کو بنالیا ہے، اس لئے تقریباََ سب ہی اس کے حصول و تحصیل کے لئے دیوانہ وار دوڑ رہے ہیں۔اس وقت کا مسلمان اللہ تعالیٰ کی ذات پر اعتماد، بھروسہ اور توکل نہیں رکھتا، اس لئے وہ دنیا اور دنیاوی اسباب و وسائل کو سب کچھ سمجھتا ہے,جس طرح کفر و شرک کے معاشرہ اور باطل قوموں میں بدکرداری، بدکاری، چوری، ڈکیتی، شراب نوشی، حرام کاری ، حرام خوری، جبر ، تشدد، ظلم وستم کا دور دورہ ہے، ٹھیک اسی طرح نام نہاد مسلمان بھی ان برائیوں کی دلدل میں سرتاپا غرق ہیں۔ سچی بات یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ موجودہ صورت حال میں جہاں اہل ِ ایمان کو مصائب و آلام سے دوچار کرکے ان کے درجات بلند کرنا چاہتا ہے، وہیں ان بدباطن کفار و مشرکین اور نام نہاد مسلمانوں پر اتمام حجت کرنا چاہتا ہے، تاکہ کل قیامت کے دن وہ یہ نہ کہہ سکیں کہ ہمیں غوروفکر کی مہلت اور صحیح صورتِ حال کا اندازہ نہیں ہوسکا تھا۔

الغرض موجودہ صورت حال سے جہاں نیک صالح لوگوں اور مقربین الٰہی کے درجات بلند ہورہے ہیں، وہاں ان بدباطنوں کو ڈھیل دی جارہی ہے، چنانچہ ارشاد الٰہی ہے: ”واملی لہم ان کیدی متین“ (القلم:45) ” اور میں ان کو ڈھیل دیتا ہوں مگر میری تدبیر غالب ہے”، اسی طرح: ”وانتظروا انا منتظرون“ (ھود:122)” تم بھی انتظار کرو اور ہم بھی انتظار کررہے ہیں”

مرنے کے بعد معلوم ہوگا کہ کون فائدہ میں تھا اور کون نقصان میں؟؟

اللہ ہم سب کو باعمل مسلمان بنائے آمین

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔