جہاد اور روح جہاد

مولانا محمد فاروق خان

مولانا محمد عنایت اللہ اسد سبحانی کی تازہ تصنیف ’جہاد اور روح جہاد‘اپنے موضوع پر ایک اہم تصنیف ہے۔ اس کے مباحث بڑی اہمیت کے حامل ہیں اور وہ ہم سے غوروفکر کا مطالبہ کرتے ہیں۔ بعض جزوی مسائل سے قارئین کو اختلاف ہوسکتا ہے لیکن اپنے موضوع پر یہ ایک قابل قدر تصنیف ہے جس میں موضوع سے متعلق تقریباً سارے ہی مسائل پر اظہار خیال کیا گیا ہے، اور ان کی حیثیت متعین کی گئی ہے۔ یہ محض ایک علمی تصنیف نہیں ہے بلکہ دورِ حاضر میں جو تحریکیں رونما ہوئی ہیں اور اب بھی جہاد اور حریت کے نام پر جو تنظیمیں کام کررہی ہیں ان پر بے لاگ تبصرہ کیا گیا ہے اور ان کے جا وبے جا ہونے پر بغیر کسی تذبذب کے روشنی ڈالی گئی ہے جس سے لوگوں کو ان کے بارے میں رائے قائم کرنے میں آسانی ہوتی ہے اور وہ جوش وجذبات سے ہٹ کرسنجیدگی کے ساتھ ان کی حیثیت متعین کرسکتے ہیں۔

ایسے دانشور بھی پائے جاتے ہیں جو جہاد کی روح اور اس کی اسپرٹ سے بے خبر معلوم ہوتے ہیں ، ان کے خیال میں صلح اور سرجھکانے ہی سے فتح یابی ممکن ہے، اس فکرونظریے کی مصنف نے مدلل تردید کی ہے اور دکھایا ہے کہ یہ نظریہ کتاب وسنت کے بالکل خلاف ہے، خلفائے راشدین کا عمل بھی اس کی تردید کرتا ہے۔

جہاد کے سلسلے میں مختلف نظریات وخیالات جو اصحاب فکر کے درمیان پائے جاتے ہیں ان کا مکمل جائزہ لیا گیا ہے اور اس پر روشنی ڈالی گئی ہے کہ صائب رائے کیا ہوسکتی ہے۔ بحث اور گفتگو کے درمیان جو اشکالات وارد کیے جاسکتے ہیں ان کا بھی جائزہ لیا گیا ہے۔ اور بتایا گیا ہے کہ جہاد کا جو صحیح نقطہ نظر ہے اور اس کا جو مقصود ہے وہ اگر نگاہوں سے اوجھل نہ ہو تو مسئلہ جہاد پر کسی قسم کا اعتراض نہیں کیا جاسکتا۔ جہاد فکرونظریے کے لحاظ سے غلط ٹھہرایا جاسکتا ہے اور نہ عمل کے لحاظ سے اس میں کوئی نقص یا عیب کی گنجائش پائی جاسکتی ہے۔ جس چیز کا مقصد ظلم وزیادتی اور طغیان کا خاتمہ ہووہ خود کیسے ظلم وزیادتی کی شکل میں منظرعام پر آسکتی ہے۔

جہاد کوئی لہولعب نہیں ہے، بلکہ یہ ایک سنجیدہ اقدام ہے۔ اسے دفاعی جنگ بھی نہیں کہا جاسکتا۔ یہ اقدام خیر کے لیے ہے۔ خیر کے حصول کے لیے شر کو ذریعہ نہیں بنایا جاسکتا۔ پاک مقاصد پاک ذرائع سے ہی حاصل ہوتے ہیں۔ جہاد کے لیے کچھ شرائط ہیں۔ اس کتاب میں ان شرائط پر بھی تفصیلی گفتگو کی گئی ہے۔ ان شرائط کا پاس ولحاظ نہ رکھنے کی وجہ سے آپ کا جہاد شروفتنہ بن سکتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس سلسلے میں بے اعتدالیوں کو اختیار کرنے کی وجہ سے پریشانیاں دور نہیں ہوئیں بلکہ خرابیوں کو رونما ہونے کا پورا موقع فراہم ہوگیا۔

 تاریخ کے بہت سارے حادثات اور واقعات ایسے ہیں جن کی وجہ سے مخالفین حق کو یہ موقع ملتا ہے اور وہ اپنا یہ فیصلہ صادر کرتے ہیں کہ اسلام قساوت اور تشدد اور انتہاپسندی کا حامل مذہب ہے۔ ایسے واقعات اور ایسی بہت سی روایات کا مصنف نے تجزیہ کیا ہے اور یہ دکھایا ہے کہ وہ واقعات اپنی کوئی حقیقت بھی رکھتے ہیں یا نہیں۔ ایسا تو نہیں ہے کہ وہ مخالفین حق کی طرف سے محض پروپیگنڈہ ہو اور ہم نے انہیں مان لیا ہو اور اس سلسلے میں ہمیں دوردراز کی تاویلات سے کام لینے پر مجبور ہونا پڑا ہو۔ مثال کے طور پر بنوقریظہ کے سینکڑوں افراد کے قتل کا معاملہ یا کعب بن اشرف کو دھوکہ سے ہلاک کیے جانے کا معاملہ ہے۔ اس طرح کے بہت سارے امور پر محققانہ نظر ڈالی گئی ہے اور یہ دکھایا گیا ہے کہ اسلام کا دامن تشدد اور قساوت قلبی اور ظالمانہ رویوں سے بالکل پاک ہے۔

اسے کوئی پسند نہیں کرسکتا کہ جبرواستبداد اور ظلم وستم کی کسی شکل کو بھی جائز سمجھا جائے۔ جبروظلم تو الگ، کسی قسم کی بے اعتدالی کو بھی اہل فکر گوارا نہیں کرسکتے۔ اسلام تو ایک کامل دین ہے جس نے عالم انسانیت کے تمام ہی مسائل کو اپنے دائرہ فکروعمل میں لے رکھا ہے۔ اس سے کیسے توقع کی جاسکتی ہے کہ وہ اس کو گوارا کرے گا کہ لوگ محض رسمی طور پر ایک خاص طرح کی مذہبیت کا اظہار کریں اور خدا کی زمین مفسد اور سرکشوں کی وجہ سے فتنہ وفساد اور ظلم وستم کی آماجگاہ بن کر رہ جائے۔

’جہاد اور روح جہاد‘ میں اس کا واضح طور سے اظہار کیا گیا ہے کہ جہاد ایک سعی وجہد اور مسلسل کوشش (Struggle) ہے جس کا سلسلہ کبھی ختم ہونے کا نہیں۔ روح جہاد اہل ایمان کی زندگی اور بقا کی علامت ہے۔ اگر اس روح سے ہمارے قلوب خالی ہوں تو صحیح معنی میں ہم کوئی زندہ قوم نہیں ہیں۔ محض سانس لینے کو زندگی نہیں کہتے۔ اسلام اپنے فکرونظر اور طرزحیات کے لحاظ سے دنیائے انسانیت کے لیے سراپا رحمت ہے۔ اسلامی جہاد کا مطلب یہ ہے کہ خدا کی رحمت عام ہو اور خدا کی نوازشوں سے ہر ایک کو استفادے کا موقع فراہم ہوسکے۔ یہ جہاد ہے امن وسلامتی کے قیام کے لیے، یہ جہاد ہے ظلم وستم اور جبرواستبداد کو مٹانے کے لیے، یہ جہاد ہے اس لیے کہ زمین میں ناحق خون نہ بہایا جائے، اور یہ جہاد ہے اس مقصد کے حصول کے لیے کہ مجبوروں و بیکسوں اور مظلوموں کو بے چارگی، بے کسی اور ظلم سے نجات دلائی جائے۔

 اسلام ایک آفاقی دین ہے، وہ زمین کے محض کسی خطے، یامحض کسی قوم کے لیے نہیں اترا ہے، بلکہ اس کے پیش نظر سارے انسانوں کی فلاح وبہبود ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ الدین النصیحۃ، دین خیرخواہی کا نام ہے اور یہ خیرخواہی ساری انسانیت کے لیے ہے، اور اس خیرخواہی کا حق اسی وقت ادا ہوسکتا ہے جبکہ ہمارا رویہ ہر ایک کے ساتھ خیرخواہی کا ہو۔ ہم اپنوں ہی کے نہیں بلکہ برسرپیکار قوموں کے بھی خیرخواہ ہوں۔ اس خیرخواہی کے لیے جو بھی کوشش کی جائے گی وہ جہاد میں شامل ہے۔خواہ یہ کوشش زبان اور قلم سے ہو، یا یہ کوشش صحیح فکر کی اشاعت کے ذریعہ سے ہو، یا یہ کوشش دیگر وسائل کے ذریعہ سے ہو، جو ہمیں حاصل ہوں۔

برائی اور شر کو مٹانے کے لیے جائز وسائل اور طریقے اختیار کیے جاسکتے ہیں ، جس طرح حق اور عدل وانصاف کی اشاعت کے لیے ہم ان ذرایع ووسائل کو استعمال کرسکتے ہیں جو ہمیں حاصل ہوں۔ اسلام کا مقصود یہ ہے کہ خدا کی زمین اور زمین کا ہر خطہ عدل وانصاف سے بھر جائے، کہیں بھی ظلم وستم اور جبر کو روا نہ رکھا جائے، ہر مظلوم کی فریادرسی ہو، اور اس کی بے چارگی کو دور کیا جائے۔ اور اس کا آئیڈیل نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد ہے کہ اگر کوئی شخص ترکہ میں مال چھوڑتا ہے تو وہ اس کے وارثوں کو ملے گا، اور جو شخص قرض یا چھوٹے بچوں کو چھوڑتا ہے تو قرض کو اداکرنا اور بچوں کی پرورش ہمارے (حکومت) کے ذمہ ہے۔

بہرصورت جہاد کا اصل مقصد زمین سے ظلم وستم اور برائی کا استیصال ہے اور اس کا موقع فراہم کرنا ہے کہ دنیا حق کی دلآویزی اور اس کے حسن وجمال سے آشنا ہوسکے۔ جہاد کا مقصد یہ ہے کہ انسانوں کو اس کا موقع فراہم کیا جائے کہ وہ خود اپنی قدروقیمت سے واقف ہوسکیں اور انہیں اس کی اطلاع ہوسکے کہ وہ جس قدروقیمت کے حامل ہیں اس کا مقابلہ دنیا کی بڑی سے بڑی چیز نہیں کرسکتی۔ انسانوں کو معلوم ہونا چاہیے کہ خدا نے انہیں ایسے بلند مقام پر رکھا ہے کہ سورج اور چاند ان کی خدمت میں مصروف ہیں۔ ان کی گردش انہی کے لیے ہے۔ ہوائیں ان کے لیے چلتی ہیں۔ موسم ان کے لیے بدلتے ہیں۔ رات ودن کی آمدورفت انہی کے لیے ہے۔ پھلوں میں مٹھاس ان کے لیے ہے۔ پھولوں میں رنگت اور خوشبو ان کے لیے رکھی گئی ہے۔ انہیں معلوم ہونا چاہیے کہ کائنات میں معنویت انہی کے دم سے ہے۔ جہانِ دیگر (آخرت) بھی انہی کے لیے ہے۔ لیکن اگر وہ اپنی قدروقیمت اور اپنے منصب ومقام کو نہیں سمجھتے تو ان سے بڑھ کر کوئی احسان فراموش اور مجرم بھی نہیں ہوسکتا۔دنیا کو اس حقیقت سے باخبر کرنے ہی کے لیے قرآن کریم کا نزول ہوا اور پیغمبروں کی آمد کا سلسلہ جاری رہا۔ آپ دیکھیں کائنات میں ایک آفاقی قانون باہمی تعاون اور مطابقت (Law of Co-operation & co-ordination) جاری وساری ہے۔ کائنات کا ہر جزو دوسرے سے تعاون کرتا ہے۔ کائنات کے کسی حصے کا دوسرے حصے سے کوئی ٹکراؤ نہیں پایاجاتا۔ تکوینی طور پر ہم یہ دیکھتے ہیں کہ کوآپریشن کا قانون کائنات کے گوشے گوشے میں نافذ ہے، اور اس کے پیچھے خدائے برتر کا علم، ارادہ اور حکمت پائی جاتی ہے۔ اسلام کا پیغام یہ ہے کہ انسانی معاشرے میں بھی یہی باہمی تعاون اور کوآپریشن کا قانون نافذ ہوسکے اور اس کے پیچھے باہمی محبت، ترحم ، فیاضی اور حق پسندی کا جذبہ کارفرما ہو۔ کائنات کے نظم ونسق میں خدا کا اپنا ارادہ کام کررہا ہے۔ لیکن انسانی معاشرے میں خدا یہ چاہتا ہے کہ انسان برضا ورغبت اس آفاقی قانون کو اختیار کرے۔ انسان انفرادی طور پر بھی اور اجتماعی طور پر بھی، ہر لحاظ سے ایک دوسرے کے معاون ثابت ہوں۔ اسی سے اس کے مسائل بھی حل ہوسکتے ہیں اور وہ بغیرکسی پریشانی اور خرابی کے ترقی کی راہ پر گامزن ہوسکتا ہے۔

خدا کی مرضی یہی ہے کہ اس کی رضا اور پسند ہی ہمارا مقصد ہو اور اس کی متعین کی ہوئی راہ ہی ہماری راہ ہو اور اس نے جو بلند مرتبہ ہمیں عطا کیا ہے اس پر ہم ا س کے شکرگزار اور اس کے آگے سجدہ ریز ہوں۔ اس منصوبے پر عمل کرنے کے لیے عملِ جہاد راہ ہموار کرتا ہے۔ جہاد کا مقصد دنیا کو مشکلات میں ڈالنا ہرگز نہیں ہے۔ جہاد کا مقصد دراصل یہ ہے کہ دلوں کو آرام ملے، اور روحوں کو ان کی اپنی غذا حاصل ہو۔ اس سلسلے میں جو بھی رکاوٹیں ہوں ان کے دور ہونے کی خواہش فطری ہے۔ رکاوٹوں کو دور کرنے کے لیے اگر طاقت اور قوت حاصل ہے تو ضرورت پڑنے پر اسے بھی اختیار کیا جاسکتا ہے۔

ظلم وجبر کا استیصال ہی جہاد کا اصل مقصد اور ا س کی روح ہے۔ جہاد کا اصل مقصد کشورکشائی نہیں بلکہ حق کے قیام کے لیے راہیں ہموار کرنا اور موجود رکاوٹوں کو دور کرناہے۔ اگر کوئی قوم حق اور نظام عدل کو اختیار کرتی ہے تو نظام مملکت سے دستبردار ہونا اس کے لیے ضروری نہیں۔ نظام عدل کے قیام کا اصل مقصد یہ ہے کہ معروفات کو فروغ حاصل ہو اور منکرات کا خاتمہ ہو، اور کسی کے لیے حق کے اختیار کرنے کے سلسلے میں کوئی رکاوٹ اور دیوار حائل نہ ہو۔

 دین وایمان کے سلسلے میں کوئی زبردستی نہیں ہے، اس لیے کہ اس کا تعلق آدمی کے ارادے اور اس کے قلب سے ہے، چنانچہ فرمایا بھی گیا ہے کہ لا اکراہ فی الدین، دین کے معاملہ میں کوئی زورزبردستی نہیں ہے۔ اس لحاظ سے کوئی شخص اپنے کسی خاص مذہب کا پیرو ہوسکتا ہے لیکن اسے اس کی اجازت نہیں دی جاسکتی کہ وہ کسی پر ظلم کرے یا زمین میں فساد برپا کرے یا امن وامان میں خلل انداز ہو۔ کسی کے مال پر غاصبانہ قبضہ کرلے یا ناحق خون بہائے۔ وہ بتوں کی پوجا تو کرسکتا ہے لیکن کسی کو ستانے کا اختیار اسے نہیں دیا جاسکتا۔

جہاد کا مقصد کتنا اعلی وبرتر ہے، اور اس کے پیچھے یہ جذبہ کارفرما ہے کہ ہماری یہ زمین اخروی زندگی کا اور جنت کا ایک نمونہ بن جائے اور ہم دوسروں کی مسرتوں کو اپنی مسرت سمجھیں اور دوسروں کی پریشانی اور غم کو اپنی پریشانی اور غم تصور کریں۔ کوئی غیر نہ ہو، دوسرے کی خوشحالی اور ثروت اپنی خوشحالی اور ثروت ہو، اور اگر کسی کو جمال وکمال حاصل ہے تو ہم اسے خود اپنا سرمایہ سمجھیں۔ ایسی یگانگت اختیار کرنے میں جو سرور اور نشاط حاصل ہوتا ہے وہ کہیں اور سے حاصل نہیں کیا جاسکتا۔ اس سے ہماری عظمت میں اضافہ ہوتا ہے، حسد ، خودغرضی، تنگ نظری جیسے رذائل سے ہم نجات پاجاتے ہیں۔ یہ وہ زاویہ نظر ہے جس سے ’جہاد اور روح جہاد‘ کے مطالعہ سے آپ آشنا ہوں گے۔ قارئین سے ہماری گزارش ہے کہ اس کتاب کا غوروفکر اور سنجیدگی کے ساتھ مطالعہ کریں اور اگر کہیں کوئی چیز سمجھ میں نہ آئے یا کہیں کوئی اشکال پیدا ہوتا ہو تو بے تکلف مصنف کو اس سے آگاہ کریں۔

جہاد اور روح جہاد، مصنف: مولانا محمد عنایت اللہ اسد سبحانی، صفحات: 384؍، قیمت: 300؍روپے، اشاعت: 2017ء، ناشر: ہدایت پبلشرز اینڈ ڈسٹری بیوٹرس، نئی دہلی۔ ۲۵۔ موبائیل نمبر: 09891051676، ای میل: [email protected]، تبصرہ: مولانا محمد فاروق خان، مترجم قرآن بزبان ہندی واردو

تبصرے بند ہیں۔