کیا مودی حکومت کے تین سال بنیں گے تیس سال؟

ڈاکٹر قمر تبریز

مودی حکومت اپنے تین سال پورا ہونے کا جشن منا رہی ہے۔ بی جے پی کی حکومت والی جتنی ریاستیں ہیں ، ان سب کے وزرائے اعلیٰ اشتہار دے کر اپنی اور مرکزی حکومت کی تعریفوں کے پل باندھنے میں لگے ہوئے ہیں ۔ بی جے پی صدر امت شاہ یہ دعویٰ کر رہے ہیں کہ سال 2014 میں جب سے مرکز میں بھارتیہ جنتا پارٹی کی حکومت بنی ہے، تب سے پارٹی کی مقبولیت میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے اور یکے بعد دیگرے وہ ہر جگہ کامیاب ہورہی ہے۔ یہ بات صحیح بھی ہے، کیوں کہ جس طرح ملک میں اپوزیشن پارٹیاں کمزور ہو رہی ہیں ، اس سے تو یہی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ اگر ایسا ہی چلتا رہا، تو مودی حکومت ایک نہ ایک دن اپنا تیسواں جشن بھی منائے گی۔ اب یہی دیکھ لیجئے کہ پرسوں صدارتی عہدہ کے انتخاب کے لیے تمام اپوزیشن پارٹیوں کو کانگریس صدر سونیا گاندھی نے دہلی میں ظہرانہ پر بلایا تھا۔ لیکن، اس میں نہ تو بہار کے وزیر اعلیٰ نتیش کمار نے شرکت کی اور نہ ہی دہلی کے وزیر اعلیٰ اروند کجریوال نے۔ حالانکہ، نتیش کمار کافی پہلے سے ہی پورے ملک میں گھوم کر اپوزیشن پارٹیوں کو متحد کرنے کی کوشش کر رہے ہیں ۔ ایسے میں ، جب سونیا گاندھی نے صدارتی عہدہ کے انتخاب پر غورو فکر کرنے کے لیے تمام اپوزیشن پارٹیوں کو لنچ پر بلایا ہو، اس میں نتیش کا نہ آنا سوال تو کھڑے کرتا ہی ہے۔ انھوں نے بہانہ تو یہی بنایا کہ ان کی پہلے سے کوئی اور مصروفیت طے تھی، جسے وہ آگے پیچھے نہیں کر سکتے تھے، لیکن سونیا کے لنچ کے اگلے ہی دن لنچ پر وزیر اعظم مودی کے یہاں پہنچ جانا، کس بات کی طرف اشارہ کرتا ہے؟

جہاں تک کجریوال کی بات ہے، تو کہا جا رہا ہے کہ کانگریس پارٹی نے انھیں دعوت نامہ ہی نہیں بھیجا تھا۔ جب کہ یہ ایک حقیقت ہے کہ اپوزیشن پارٹیوں میں نتیش کمار اور اروند کجریوال سے زیادہ قد آور لیڈر کوئی دوسرا نظر نہیں آتا۔ یہ دونوں ہی لیڈر اور ان کی پارٹیاں شروع سے ہی بھارتیہ جنتا پارٹی کے نشانے پر رہی ہیں ۔ بہار میں جس طرح سے بی جے پی لیڈر سشیل کمار مودی نے وہاں کی مخلوط حکومت میں شریک کار آر جے ڈی کے سربراہ لالو پرساد یادو اور ان کے پورے خاندان پر حملہ بول دیا ہے اور لالو کے بیٹے بیٹیوں کے خلاف جس طرح سے محکمہ انکم ٹیکس اور انفورسمینٹ ڈائریکٹوریٹ کے چھاپے پڑ رہے ہیں ، اس سے تو یہی لگتا ہے کہ بی جے پی بہار میں تختہ پلٹنا چاہتی ہے۔ دوسری طرف، بہار کے وزیر اعلیٰ نتیش کمار جس قسم کے بیان بازی کرکے بی جے پی کے تئیں نرم رخ اپنا رہے ہیں ، اس سے بھی بعض لوگ یہ قیاس لگانے لگے ہیں کہ آنے والے دنوں میں ہوسکتا ہے کہ جے ڈی یو اور بی جے پی دوبارہ مل جائیں اور بہار میں از سر نو حکومت کی تشکیل کریں ۔ اگر ایسا ہوتا ہے، تو اپوزیشن اور کمزور ہوگا، اور بی جے پی چاہتی بھی یہی ہے۔

اپوزیشن پارٹیوں میں دوسرے مقبول لیڈر ہیں اروند کجریوال اور حالیہ دنوں میں کپل مشرا نے جس طرح سے بدعنوانی کے الزامات کجریوال پر لگائے ہیں ، اس سے عام آدمی پارٹی کی شبیہ کافی مسخ ہوئی ہے۔ اینٹی کرپشن بیورو کے چھاپے بھی کجریوال اور ان کے رشتہ داروں کے خلاف لگاتار پڑ رہے ہیں ۔ اس سے پہلے بی جے پی نے سابق لیفٹیننٹ گورنر نجیب جنگ کے ذریعے کجریوال کا جینا محال کر ہی رکھا تھا اور اب بدعنوانی کے اتنے سارے الزامات کجریوال کی پوری محنت اور ایمانداری پر پانی پھیر رہے ہیں ۔ اس طرح دیکھا جائے تو، اپوزیشن کے دو بڑے لیڈروں یا کہیں کہ دو بڑی اپوزیشن پارٹیوں کو ٹھکانہ لگانے میں بھارتیہ جنتا پارٹی فی الحال کامیاب دکھائی دے رہی ہے۔ مودی کو اگر ہندوستان پر اگلے تیس برسوں تک حکومت کرنی ہے، تو اس کے لیے یہ کرنا ضروری بھی ہے۔ بھارتیہ جنتا پارٹی کی پوری کوشش ہے کہ ملک میں اس کے خلاف جتنی بھی پارٹیاں مضبوط دکھائی دے رہی ہیں ، ان سب کو ایک کرکے کمزور کر دیا جائے۔

سماجوادی پارٹی سے بی جے پی نے یوپی کا اقتدار چھین ہی لیا ہے۔ اسی طرح بہوجن سماج پارٹی کا بی جے پی نے آج وہ حال کر دیا ہے کہ اب اسے کھڑا ہونے میں کم از کم پچاس سال تو لگ ہی جائیں گے۔ یہ دو ایسی پارٹیاں تھیں ، جنہوں نے ایک طویل عرصے تک اترپردیش میں حکومت کی ہے۔ ملک کی سب سے بڑی ریاست اترپردیش ان معنوں میں بھی اہم ہے کہ لوک سبھا کی یہاں سے 80 سیٹیں ہیں ۔ اسی لیے یہ کہا جاتا ہے کہ دہلی میں اقتدار کا راستہ یوپی ہوکر ہی جاتا ہے۔ اور اب اس یوپی پر بھارتیہ جنتا پارٹی کا قبضہ ہے۔ وہاں کے نئے وزیر اعلیٰ مسلمانوں کے درمیان بھلے ہی قابل قبول نہ ہوں ، لیکن ہندوؤں میں ان کی زبردست مقبولیت ہے۔ اپنی شاندار حکمت عملی سے بی جے پی نے دلتوں اور اب یادوؤں کو بھی اپنے خیمے میں لانا شروع کر دیا ہے۔ اس طرح نہیں لگتا کہ آئندہ دس بیس برسوں میں اترپردیش میں سماجوادی پارٹی یا بہوجن سماج پارٹی دوبارہ سر اٹھا پانے میں کامیاب ہو پائے گی۔

اب بچیں ممتا بنرجی، تو انھوں نے کمیونسٹ پارٹیوں کے طرز عمل کو اختیار کرتے ہوئے بنگال کی حکومت ان سے چھینی تھی اور وہاں حکومت بنانے کے بعد وہ اب بھی اسی طریقہ کار کو اپنائے ہوئی ہیں ۔ اسی لیے مغربی بنگال سے آئے دن ہمیں تشدد کی خبریں موصول ہوتی رہتی ہیں ۔ بھارتیہ جنتا پارٹی اپنی طرف سے پورا زور لگائے ہوئی ہے کہ وہ کسی طرح مغربی بنگال میں ترنمول کانگریس کو کمزور کرکے وہاں حکومت بنا سکے۔ لیکن، فی الحال ممتا بنرجی اس کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ بنی ہوئی ہیں ۔ اگر بہار اور بنگال بھی بی جے پی کے ہاتھ میں آ گیا، تو پھر مودی کے لیے ہندوستان پر اگلے تیس برسوں تک حکومت کرنا بہت آسان ہو جائے گا۔ بی جے پی، آر ایس ایس اور ان سے وابستہ تمام شدت پسند تنظیمیں اپنی جانب سے دونوں ہی ریاستوں میں بھارتیہ جنتا پارٹی کو مضبوط کرنے کے لیے ہر قسم کا ہتھکنڈہ اپنا رہی ہیں ۔ انھیں کامیابی کب ملے گی، یہ ابھی نہیں کہا جا سکتا۔

مہاراشٹر اور جموں و کشمیر میں بی جے پی وہاں کی علاقائی پارٹیوں کے ساتھ مل کر پہلے سے ہی اقتدار میں بنی ہوئی ہے۔ کیرالہ میں بھی اس نے پورا زور لگا رکھا ہے کہ کسی طرح وہاں سے کمیونسٹوں اور مسلم لیگ کے اتحاد کو توڑ کر اپنے لیے راستہ صاف کر سکے۔ وہاں بھی آر ایس ایس اور کمیونسٹوں کے قتل کی خبریں آئے دن ملتی رہتی ہیں ۔ اسی طرح تمل ناڈو میں جے للتا کی موت او رپھر ششی کلا کو جیل کی سزا سنائے جانے کے بعد امید کی ایک کرن دکھائی دے رہی ہے۔ ادھر اڑیسہ میں اس کی مقبولیت میں اضافہ ہو ہی رہا ہے اور وہاں کے وزیر اعلیٰ نوین پٹنائک کو اب یہ خطرہ صاف دکھائی دینے لگا ہے کہ آنے والے دن بیجو جنتا دَل کے لیے چیلنج بھرے ہوں گے، کیوں کہ امت شاہ وہاں کا لگاتار دورہ کر رہے ہیں ۔

گجرات میں ہاردک پٹیل نے جس طرح سر اٹھانے کی ہمت کی تھی، اسے بی جے پی قیادت نے پھلنے پھولنے سے پہلے ہی کچل دیا۔ کانگریس اس پوزیشن میں ہے نہیں کہ وہ اگلے اسمبلی انتخابات میں وہاں بی جے پی کے سامنے کوئی بڑا چیلنج پیش کر سکے۔ چھتیس گڑھ، مدھیہ پردیش، راجستھان اور ہریانہ میں بھگوا جنڈا پہلے سے ہی لہرا رہا ہے اور اب اتراکھنڈ کو بھی بی جے پی نے کانگریس سے چھین لیا ہے۔ ان تمام ریاستوں کے وزرائے اعلیٰ عوام کے درمیان مقبول ہیں اور کام کر رہے ہیں ۔ اس لیے ان تمام جگہوں پر کانگریس فی الحال ایسی پوزیشن میں دکھائی نہیں دے رہی ہے کہ وہ انھیں کوئی بڑا چیلنج دے سکے اور وہاں کی بی جے پی حکومتوں کو پریشانی میں ڈال سکے۔

ہندوستان میں جتنی بھی اپوزیشن جماعتیں ہیں ، انھیں اس بات کا احساس تو ہے کہ بی جے پی دنوں دن مضبوط ہوتی جا رہی ہے اور اگر اس کی بڑھتی مقبولیت کو ابھی چیک نہیں کیا گیا، تو جتنی بھی بڑی علاقائی پارٹیاں ہیں ، ایک ایک کرکے ختم ہوتی چلی جائیں گی، ٹھیک اسی طرح جیسے بی ایس پی اور سماجوادی پارٹی۔ اسی فکر کے تحت کوئی نہ کوئی بہانہ کرکے اپوزیشن پارٹیاں ایک جگہ جمع ہونے اور آپس میں اتفاق رائے بنانے کی کوشش کر رہی ہیں ۔ لیکن، جیسا کہ پہلے ملائم سنگھ یادو کیا کرتے تھے، اب نتیش کمار بھی اسی ڈھرے پر چلتے ہوئے اپوزیشن پارٹیوں کے اتحاد کو کمزور کرتے ہوئے دکھائی دے رہے ہیں ۔

امت شاہ بھلے ہی یہ دعویٰ کریں کہ ان تین سالوں میں اپوزیشن پارٹیوں کے پاس بھی بی جے پی پر لگانے کے لیے کوئی بڑا الزام نہیں ہے، لیکن سچائی یہ ہے کہ جب ملک میں لوک پال ہی نہیں ہے، تو پھر بی جے پی حکومت کی بدعنوانی کو پکڑے گا کون؟ تقریباً 80 فیصد میڈیا پر بی جے پی کا کنٹرول ہے، اور چاہے وہ ٹی وی والے ہوں یا پھر اخبار والے، یہ وہی دکھا یا پڑھوا رہے ہیں ، جیسا دکھانا یا پڑھوانا بی جے پی حکومت چاہتی ہے۔ جتنے بھی سرکاری افسران ہیں ، وہ سب ڈرے ہوئے ہیں کہ کہیں ان کے خلاف کوئی کارروائی نہ ہو جائے۔ ایسے میں سچائی کا باہر نکل کر آنا بہت مشکل ہے۔ عوام اور سرکاری افسروں کے درمیان اپوزیشن پارٹیوں کی اتنی پہنچ نہیں ہے کہ وہ بدعنوانی پر سے پردہ اٹھا سکیں ۔ بہر حال، اگر ایسا ہی چلتا رہا، تو اپنے دعویٰ کے مطابق نریندر مودی ایک نہ ایک دن اپنی سرکار کے تیس سال پورا ہونے کا بھی جشن منائیں گے، جیسا کہ ابھی وہ تین سال کا منا رہے ہیں ۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔