صبر کا مہینہ رمضان!

آسيہ اشفاق

اسلامی تقویم کا مقدس مہینہ رمضان المبارک اپنی تمام تر رعنائیوں کے ساتھ ہم پر سایہ فگن ہو گیا ہے.  یقیناً یہ ایک مسلمان کی خوش بختی ہے کہ وہ ان مبارک ساعات میں سانس لے اور عبادات میں منہمک ہو کر اللہ سبحانہ و تعالٰی کی نوازشات کا مستحق بنے۔

چونکہ یہ مہینہ ہمیں خود احتسابی کی دعوت دیتا ہے اسلئے یہ ضروری ہے کہ ہم اپنے آپ کو پرکھیں کہ ہم مثالی مسلمان کی فہرست میں کہاں کھڑے ہیں . اور اسکے لئے ہمیں اپنے آپ کو اس حدیث مبارکہ کے آئینہ میں دیکھنا ہوگا۔

حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ کی روایت ہے کہ حضور علیہ الصلوۃ و السلام نے شعبان کی آخری تاریخ کو ایک خطبہ دیا جس میں ماہ رمضان کی برکتوں کا ذکر فرماتے ہوئے رمضان المبارک کو صبر کا مہینہ قرار دیا.

شارحین حدیث نے اس مہینے کو صبر کا مہینہ قرار دینے کی وجہ بیان کرتے ہوئے یہ لکھا ہے کہ جو شخص روزہ رکھتا ہے وہ اوامر کو بجالا کر صبر کا مظاہرہ کرتا ہے اور نواہی سے پرہیز کرکے بھرپور قوت برداشت کا مظاہرہ کرتا ہے۔

   "لیکن اہم سوال یہ ہے کہ ماہ مبارک کے ذریعہ صبر کی جو ٹریننگ ہمکو ملتی ہے کیا ہم اس کو دیگر شعبہ ہائے زندگی میں بھی نافذ کر پاتے ہیں ؟؟

اس بات کا جواب صد فیصد اثبات میں دینا یقیناً ناممکن ہے!

کیونکہ آج کی سماجی زندگی میں انتشار و بےچینی صبر کے فقدان کی وجہ سے ہی ہے!!

"شریعت مطہرہ نے ایک مسلمان کے دوسرے مسلمان پر کئی حقوق عائد کئے ہیں اگر ان کے ادا کرنے کی مخلصانہ کوشش کی جائے تو اس میں بھی مشقت کا پہلو موجود ہے جس کے لئے صبر لازمی جزو ہے "

اس تناظر میں اگر عالمی پیمانے پر مسلمانوں کا جائزہ لیا جائے تو ہمارے سامنے یہ منظر ابھر کر آتا ہے کہ آج ہر خطے کا مسلمان دوسرے خطے کے مسلمان کے حقوق سے نابلد ہے.

مثال کے طور پر آج فلسطین و شام کے مسلمان آزاد ہوتے ہوئے بھی قید و بند کی صعوبتوں کا سامنا کر رہے ہیں .  صورتحال یہ ہے کہ چاروں طرف مسلم ممالک موجود ہیں لیکن پھر بھی کسی میں اتنی طاقت نہیں کہ اسرائیل اور ظالم شامی حکمران کے بپا کردہ ظلم کو ختم کرنے میں بےباکی کا مظاہرہ کریں اور اس کے نتیجے میں پیش آنے والی مشکلات کا صبر کے ذریعہ سامنا کریں !

صبر کی جو ٹریننگ ہم کو رمضان میں ملتی ہے اگر ہم اس کو اپنی عملی زندگی میں نافذ کر لیتے تو یقیناً مذکورہ مسائل کا سدباب ہو جاتا!

لیکن افسوس! آج ملت اسلامیہ کی حرماں نصیبی یہ ہے کہ اس ملت کا ہر فرد زندگی کے ہر شعبے میں بے صبری کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنے آپ میں گم ہے. جس ملت کو نسلی و ملکی سرحدوں کی تنگدامنی سے باہر نکال کر ایک جسم قرار دیا گیا تھا آج وہ خود ساختہ سرحدوں کی زنجیروں میں جکڑے ہوئے ہیں …  عالمی پیمانے پر ایک دوسرے کے دکھ درد سمجھنے کی بات تو درکنار ایک خاندان اور ایک گھر میں بھی بے صبری کی وجہ سے افراتفری کا سماں ہے…  جب معاملہ یہاں تک پہنچ جائے تو مشترکہ معاملات کو نقصان پہنچنا تو لازمی امر ہے کیونکہ مشترکہ معاملات کو حل کرنے کے لیے اتحاد کی قوت ناگزیر ہے……. یہ ہے وہ بنیادی کمزوری جس کی وجہ سے دنیا کے ہر خطے میں مسلمان گوناگوں مسائل سے جوجھ رہے ہیں !!

اس مہینے سے ہمیں صبر کی جو ٹریننگ ملتی ہے اس کو زندگی کا جزو لا ینفک بنانے میں اللہ ہماری اعانت فرمائے!

آمین!!!!

تبصرے بند ہیں۔