کیا واقعہ آدم، شیطان، طوفان نوح اوربپانچ نمازیں بابل سے لی گئی ہیں؟

ڈاکٹر احید حسن

ملحدین کے نزدیک تورات و انجیل اور اسلام کا واقعہ آدم علیہ السلام اور شیطان، طوفان نوح اور پانچ نمازیں ایران اور بابل کی تہذیب سے لی گئی ہیں۔ان کے بقول  قدیم بابل کی  مثنوی گلگامش جو کہ انجیل سے ایک ہزار سال پہلے لکھی گئی میں قدیم سمیرین تہذیب کا ایک تخلیقی واقعہ موجود ہے جسے مورخ تھورکلد جیکبسن نے اریدو جینیسس( Eridu Genesis) کا نام دیا ہے۔یہ کہانی ایک ٹوٹی پھوٹی تختی پہ لکھی ہوئی پائی گئی جو کہ قدیم عراق کے شہر نیپور(Nippur) کی کھدائی سے دریافت کی گئی ہے۔ اس شہر کی بنیاد 5000 قبل مسیح میں رکھی گئی تھی۔ یہ کہانی قدیم سمیرین زبان میں لکھی گئی ہے اور اس کا تعلق 1600 قبل مسیح سے ہے۔ اس دور کی سمیرین تہذیب سے تعلق رکھنے والا دوسرا تخلیقی واقعہ بارٹن سلنڈر( Barton Cylinder) کہلاتا ہے۔ یہ بھی قدیم عراق کے شہر نیپور کی کھدائی سے سے دریافت کیا گیا ہے۔ان واقعات میں  ایک بولنے والے سانپ کی کہانی ہے جس کا تعلق برائی سے ہے اور ایک ایسے انسان کی ہے جسے خدائی طور پہ مٹی سے پیدا کیا گیا ہے جو کہ جانوروں کے درمیان ننگا رہتا ہے۔مثںوی گلگامش میں بیان کیے گئے واقعے کے مطابق، دیوتاؤں کے دیوتا اینو( Anu) نے اس بات پہ اتفاق کیا کہ ان کا کام بہت زیادہ ہے۔لہذا اس بڑے دیوتا کے بیٹے اینکی یا ایرا( Enki or Era) نے اس بات کی تجویز دی کہ محنت مزدوری کے کام کے لیے انسان کو پیدا کیا جائے۔لہذا اس نے اپنی سوتیلی بہن کی مدد سے ایسا کیا۔ایک دیوتا کو مار کر اس کی لاش اور خون کو مٹی سے ملایا گیا اور پھر اس مادے سے پہلے انسان کو پیدا کیا گیا۔اس گلگامش مثنوی یا نظم کے الفاظ درج ذیل ہیں۔

” تم نے ایک خدا کی شخصیت کے ساتھ اس کی قربانی کی ہے

میں نے تمہارا محنت والا کام ہٹا لیا ہے

میں نے تمہارا کام اب انسان پہ ڈال دیا ہے

مٹی میں انسان اور دیوتا مشترک ہوں گے

لہذا آخر کے دنوں میں گوشت اور روح جو ایک دیوتا میں پختگی حاصل کر چکے ہوں گے

یہ روح ایک خونی رشتے میں بندھی ہوگی”

قدیم بابل اور سمیری تہذیب کی اس کہانی کے مطابق پہلا انسان عدن میں پیدا کیا گیا جو کہ قدیم سمیری زبان کا ایک لفظ ہے جس کے معنی ہموار قطعہ زمین کے ہیں۔قدیم بابل کی مثنوی گلگامش میں عدن کو دیوتاؤں کا باغ قرار دیا گیا ہے جو کہ میسوپوٹیمیا یا قدیم عراق میں دریائے دجلہ اور دریائے فرات کے درمیان کہیں پہ واقع ہے۔اس کہانی کے مطابق پہلے انسان بچے پیدا نہیں کر سکتے تھے لیکن دیوتا اینکی اور ننکی( Enki and Ninki) نے انسان میں لازمی تبدیلیاں کیں۔لہذا اداپا ( Adapa) نام کا ایک انسان مکمل فعال اور غیر منحصر صورت میں پیدا کیا گیا۔یہ تبدیلی اینکی دیوتا کے بھائی اینلل( Enlil) کی اجازت کے بغیر کی گئی۔اس لیے اینکی دیوتا کا بھائی اینلل انسان کا دشمن بن گیا۔اس کے بعد قدیم سمیری تختی ہمیں بتاتی ہے کہ اس زمانے میں انسان دیوتاؤں کی خدمت کرتے تھے اور انہیں بہت محنت اور تکلیف سے گزرنا پڑا۔اینکی دیوتا کی مدد سے پہلا فعال انسان اداپا اینو دیوتا کی طرف گیا جہاں وہ ایک ایسے سوال کا جواب دینے میں ناکام رہا جس کا تعلق تناسل اور آب حیات سے تھا۔

  انسان کی پیدائش کی خوشی میں اینکی دیوتا نے باقی دیوتاؤں کے لیے ایک دعوت کا انتظام کیا۔اس ضیافت میں اینکی دیوتا اور ننما دیوتا( Ninmah)  نے کثرت سے شراب پی اور قابو سے باہر ہوگئے۔اس پہ ننیما دیوتا ایک غار کے اوپر سے کچھ مٹی لیتا ہے اور اس سے چھ مختلف قسم کے انسان پیدا کرتا ہے جبکہ اینکی دیوتا ان کی قسمت مقرر کرتا ہے اور انہیں کھانے کے لیے روٹی دیتا ہے۔اس کے بعد کہانی درج ذیل الفاظ میں آگے چلتی ہے

” ننیما دیوی نے ایک عورت پیدا کی جو بچے پیدا نہیں کر سکتی تھی

اینکی نے یہ دیکھ کر اس کی قسمت مقرر کی اور اسے خواتین کے گھر میں رکھا

ننیما دیوی نے نہ تو اس کے مردانہ جنسی اعضاء بنائے تھے اور نہ ہی زنانہ جنسی اعضاء۔”

نینما دیوی کے بعد اینکی نے اپنی کچھ تخلیق کی جس کے نتیجے میں پیدا ہونے والی مخلوق ایک ناکام مخلوق ہے جو روح اور جسم دونوں حوالے سے کمزور ہے۔ اب اینکی دیوتا پریشان ہوتا ہے اور نینما دیوی سے درج ذیل انداز میں مدد کی گزارش کرتا ہے

” جو تم نے پیدا کیا اس کی میں نے قسمت مقرر کردی ہے

اسے کھانے پینے کے لیے روٹی دی ہے

کیا اب تم اس کی قسمت مقرر کرو گی جس کو میں نے پیدا کیا

اور اسے کھانے کے لیے روٹی دوگی؟”

نینما دیوی اس نئی پیدا شدہ مخلوق سے بھلائی کرنے کی کوشش کرتی ہے لیکن کوئی فایدہ نہیں ہوتا۔وہ اس سے بات کرتی ہے لیکن وہ جواب نہیں دیتا،وہ اسے کھانے کے لیے روٹی دیتی ہے لیکن وہ نہیں کھا پاتا،نہ وہ بیٹھ سکتا ہے اور نہ کھڑا ہو سکتا ہے۔ اس کے بعد اینکی دیوتا اور نینما دیوی کے درمیان ایک طویل گفتگو ہوتی ہے لیکن اس مقام پہ اس واقعے کی تاریخی تختی اس قدر ٹوٹی پھوٹی ہے کہ کچھ سمجھ نہیں آتا۔حتمی طور پہ نینما دیوی اینکی دیوتا پہ بیمار بیجان مخلوق پیدا کرنے پہ لعنت کرتی ہے۔اس کے علاؤہ انسان کے پیدا کرنے کی وجہ قدیم بابلی اور سمیری ایک اور کہانی میں بیان کی گئی ہے جس کا نام مویشی اور اناج( Cattle and grain) ہے۔اس کے مطابق آسمانی دیوتاؤں یعنی انوناکی ( Anunnaki) کی پیدائش کے بعد لیکن مویشی دیوتا لہار( Lahar)
اور اناج دیوی اشنان( Ashnan) کی پیدائش سے پہلے نہ تو مویشی موجود تھے اور نہ ہی اناج۔لہذا دیوتا نہ ہی کھانا کھانے کے بارے میں کچھ جانتے تھے اور نہ ہی لباس پہننے کے بارے میں۔لہذا مویشی دیوتا لہار اور اناج دیوی  اشنان آسمان کے تخلیقی حصے میں  پیدا کیے گئے لیکن دیوتا پھر بھی مطمئن نہیں تھے۔یہ وہ وقت تھا جب مویشیوں کی بہتری اور دیوتاؤں کی خدمت کے لیے انسان پیدا کیے گئے۔

  مزید یہ کہ اترا ہیسس( Atra-Hasis) یا انتہائی دانشمند  اٹھارہویں صدی قبل مسیح کی ایک عکادی( Akkadin) مثنوی کا کردار ہے جو مٹی کی تختیوں پہ کئی انداز میں لکھی ہوئی دریافت کی گئی ہے۔ان اترا ہیسس کہانیوں میں تخلیق اور سیلاب کا ایک واقعہ دونوں موجود ہیں جو کہ بابل کی سیلاب کے حوالے سے تین محفوظ  کہانیوں میں سے ایک ہے۔ اتراہیسس مثنوی میں انسان کی تخلیق کے بارے میں درج ذیل لکھا گیا ہے

” ویی ایلا( We-ila) ایک دیوتا جو کہ ایک شخصیت کا حامل تھا

اسے دیوتاؤں کی موجودگی میں ذبح کیا گیا

اس کے گوشت اور خون سے ننیتو( Nintu) نے مٹی ملائی۔اس نے آسمانوں کے بڑے دیوتاؤں انوناکی کو حکم دیا
ایگیگی( Igigi) دیوتاؤں نے مٹی پہ بارش کی،میمی( Mami) نے اپنا منہ کھولا اور بڑے دیوتاؤں سے کہا

میں نے وہ کام مکمل کر لیا ہے جس کا تم نے مجھے حکم دیا تھا

تم نے ایک دیوتا کو اس کی شخصیت کے ساتھ ذبح کیا ہے

میں نے تمہارا مشکل کام ہٹا دیا ہے

میں نے تمہارا بوجھ انسان پہ ڈال دیا ہے”

ملحدین کے بقول قدیم بابل اور سمیری تہذیب کی اس کہانی میں آدم علیہ السلام کا کردار اینکیدو( Enkidu) نبھا رہا ہے جس میں اینکیدو ایک جنگل میں رہنے والا انسان تھا جو جانوروں کے ساتھ سوتا تھا اور ان کو ایک شکاری گلگامش کے پھندوں سے خبردار رکھتا۔لہذا گلگامش نے اینانا( Inanna) کی ایک پجارن شمہات( Shamhat) اس کے ساتھ سونے کے لیے بھیجی تاکہ اس کو باغ عدن سے نکالا جا سکے۔یہ کام اس نے کامیابی سے مکمل کر لیا۔ملحدین کے بقول اس کہانی میں شمہات حوا کا کردار نبھا رہی ہے۔ملحدین کے بقول اینکی دیوتا اکثر سانپ کی صورت میں سامنے آتا اور قدیم سمیری تہذیب کا حکمت اور ہنرمندی کا دیوتا تھا۔سیب علم کے درخت کا پھل ہے۔ملحدین کے بقول قدیم سمیری اور بابلی تہذیب کی اوپر تفصیل میں مذکور کہانی کا ابراہیمی مذاہب یعنی یہودیت،عیسائیت اور اسلام کی تخلیق آدم و حوا،شیطان اور آدم و حوا علیہا السلام کے جنت سے نکالے جانے کے واقعے سے گہرا تعلق ہے۔ان کے بقول اس واقعے میں آدم علیہ السلام کا ممنوعہ پھل کھانا اور قدیم سمیری تہذیب کی کہانی میں اینکی دیوتا کا ممنوعہ پھل کھانا، اس شخص پہ عتاب نازل ہونا جس نے ممنوعہ پھل کھایا، قدیم سمیری تہذیب کی کہانی میں ایک مرد کی پسلی ٹھیک کرنے کے لیے ایک عورت کا پیدا ہونا اور ابراہیمی مذاہب کے واقعات میں حضرت آدم علیہ السلام کی بائیں پسلی سے حضرت حوا علیہا السلام کا پیدا ہونا، ابراہیمی مذاہب کے واقعات میں تمام مخلوقات پہ حکمرانی کرنے کے لیے انسان کا مٹی سے پیدا کیا جانا اور قدیم بابلی کہانی میں انسان کا مٹی اور دیوتا کے خون اور گوشت سے پیدا کیا جانا، قدیم بابلی کہانی میں انسان کا دیوتاؤں کی خدمت کے لیے پیدا کیا جانا اور ابراہیمی مذاہب کے واقعات میں انسان کا اللہ تعالیٰ کی عبادت کے لیے پیدا کیا جانا وہ مشابہتیں ہیں جو ان دونوں صورتوں میں مشترک ہیں۔مزید برآں ملحدین کے نزدیک انجیل یعنی بائبل اور دیگر ابراہیمی مذاہب میں مذکور حضرت حوا علیہا السلام ایک سمیری لفظ ہے جس کا معنی پسلی یا زندگی ہے۔لہذا قدیم بابلی کہانی میں مذکور نینتی زندگی یا پسلی کی خاتون مذاہب کی حوا ہے۔ملحدین کے مطابق مزاہب کی حضرت آدم علیہ السلام اور حضرت حوا علیہا السلام کے واقعے میں کئی ایسے عناصر ہیں جن میں قدیم عراق کا اثر موجود ہے جس میں مثنوی گلگامش کا کردار اینکیدو آدم علیہ السلام اور معبد کی فاحشہ نعوذباللہ حضرت حوا علیہا السلام سے مشابہت رکھتی ہے جس نے اینکیدو یا آدم علیہ السلام کو حیوانی معصومیت اور جنت سے نکلوا دیا۔ان کے بقول مذاہب کے اس واقعے پہ قدیم مصر کا بھی بہت اثر ہے۔

ملحدین کے نزدیک قدیم مشرق وسطی میں دیوی ماؤں کے ساتھ اکثر ایسے واقعات کی نسبت کی جاتی تھی جن کا تعلق زندگی کے درخت سے ہوتا تھا اور سانپ زمین کی زرخیزی کا ایک لافانی اظہار تھا۔ لہذا ان کے نزدیک ابراہیمی مذاہب  میں موجود حضرت حوا علیہا السلام اور ان کو جنت سے نکالے جانے والے سانپ کی صورت میں سامنے آنے والے شیطان کا واقعہ نعوذ باللہ ان قدیم واقعات سے اخذ کیا گیا ہے۔ملحدین کے نزدیک واقعہ آدم علیہ السلام اور حضرت حوا علیہا السلام کی طرح ہابیل اور قابیل کا واقعہ بھی نعوز باللہ قدیم عراق اور قدیم مصری تہذیب سے اخذ کیا گیا ہے جس میں ایک ایک بڑا بھائی ایک چھوٹے بھائی کو قتل کرتا ہے لیکن ان کہانیوں میں موجود کردار حضرت آدم علیہ السلام کے بیٹے ہابیل اور قابیل نہیں بلکہ دیوتا خود ہیں جیسا کہ قدیم مصری کہانی میں سیت اور اوسیرس دیوتا ہیں۔ملحدین کے نزدیک طوفان نوح کی کہانی بھی نعوز باللہ قدیم عراق کی کہانیوں جیسا کہ اتراہیسس مثنوی سے لی گئی ہے جس میں انسانیت ایک سیلاب میں تقریبا تباہ ہوجاتی ہے اور اس کے بعد بچ جانے والے لوگ اپنی نسل آگے بڑھاتے ہیں۔ان کے بقول اسی طرح ابراہیمی مذاہب کی نمازیں چوری قتل کے احکامات وغیرہ بھی نعوز باللہ قدیم ایران زرتشت اور بابل کی تہذیب سے اخذ کیے گئے ہیں۔

اس صورت میں تین باتیں ممکن ہیں

1: قدیم مصری،ایرانی، سمیری و بابلی تہذیب نے یہ سب واقعات و احکامات ابراہیمی مذاہب یعنی کہ اس وقت کے یہود سے اخذ کیے کیونکہ یہ تعلیمات و احکامات حضرت ابراہیم علیہ السلام کی تھیں اور وہ یہود کے جد امجد ہیں۔

2: یہود و دیگر ابراہیمی مذاہب نے یہ قدیم مصری،ایرانی، سمیری و بابلی تہذیب سے اخذ کیا۔

3: قدیم مصری،ایرانی، سمیری و بابلی تہذیب  اور ابراہیمی مزاہب دونوں کے واقعات اور احکامات ایک مشرک اصل ماخذ سے نکلے ہیں۔

یہ بات تسلیم شدہ ہے کہ قدیم عراق یعنی بابلی و سمیری تہذیب، قدیم ایرانی تہذیب جیسا کہ مانی اور زرتشت ،قدیم مصری کہانیوں اور ابراہیمی مذاہب کے واقعات اور احکامات جیسا کہ نماز  میں کچھ باتیں مشترک ہیں۔لیکن اس پہ سوال یہ اٹھتا ہے کہ آیا یہودیوں اور دیگر ابراہیمی مذاہب نے یہ سب قدیم عراق یعنی بابلی و سمیری تہذیب، قدیم مصری و ایرانی تہذیب سے اخذ کیا یا ان واقعات کا زمانہ قبل از تاریخ کا مشترکہ حوالہ ہے جس سے یہ کہانی، واقعات و احکامات نہ صرف قدیم بابلی و سمیری تہذیب کی طرف پہنچے بلکہ اس زمانے کے یہود اور دیگر ابراہیمی مذاہب جیسا کہ اسلام کی طرف بھی۔ اکثر بے دین محققین مزاہب کے واقعات و احکامات جیسا کہ طوفان نوح کو قدیم تہذیبوں سے اخذ شدہ فرضی واقعات قرار دے کر مسترد کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ان سب الزامات کی حقیقت یہ ہے کہ ابراہیمی مذاہب کا واقعہ آدم علیہ السلام اور حضرت حوا علیہا السلام، واقعہ شیطان ،ہابیل و قابیل ،واقعہ طوفان نوح اور مذہبی احکامات جیسا کہ نماز اور چوری زنا کی سزائیں تمام انسانیت کی مشترک سچائی اور ضابطہ اخلاق ہیں اور یہ نہ صرف بابل و سمیری تہذیب بلکہ اس سے بھی پہلے کے انسانوں میں موجود تھیں۔لہزا یہ نہیں کہا جا سکتا کہ ابراہیمی مذاہب جیسا کہ اسلام نے یہ واقعات و احکامات قدیم بابلی و سمیری،ایرانی اور مصری تہذیب سے اخذ کیے۔

اگرچہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کا اصل زمانہ معلوم نہیں ہے لیکن اکثر محققین کے مطابق وہ 2000 قبل مسیح سے پہلے قدیم عراق یعنی سمیری تہذیب سے گزر چکے تھے اور سمیری تہذیب کا زمانہ 4500 قبل مسیح سے 1900 قبل مسیح کا ہے جب کہ قدیم بابل کا زمانہ 1895 قبل مسیح سے 619ء کا ہے۔اور وہ قدیم سمیری و بابلی تختیاں اور ایرانی تہذیب  جو کہ انسانی تخلیق اور مذہبی احکامات جیسا کہ  نماز ،چوری زنا کی سزاؤں کےوہ واقعات بیان کرتی ہیں جن کی تشبیہ ابراہیمی مزاہب کے واقعہ حضرت آدم علیہ السلام اور حضرت حوا علیہا السلام، طوفان نوح کی طرف کی جاتی ہیں سب کی سب 1900 قبل مسیح کے بعد کی ہیں۔ان میں سے ایک تختی 1900 قبل مسیح کی اور دوسری 1600 قبل مسیح کی ہے۔حقیقت یہ ہے کہ قدیم سمیری و بابلی تہذیب کی ایسی قدیم تختیاں دریافت ہوچکی ہیں جو کہ 3300 قبل مسیح کی ہیں۔یہاں  حیران کن بات یہ ہے کہ 1900 قبل مسیح سے قبل کی کوئی بھی قدیم سمیری و بابلی تہذیب کی قدیم تختی یا قدیم ایران و زرتشت جیسا کہ مانی کی ایک بھی کہانی ایسی نہیں جو 1900 قبل مسیح سے پہلے ہمیں واقعہ آدم علیہ السلام اور حضرت حوا علیہا السلام، واقعہ شیطان، ہابیل و قابیل،واقعہ طوفان نوح،اور مذہبی احکامات جیسا کہ نمازیں اور روزے، چوری زنا کی سزاؤں کا بیان ہمیں دیتی ہو۔اس حوالے سے قدیم بابل و مصراور ایران کی سب تاریخ 1900 قبل مسیح کے بعد کی ہے جب کہ کئی مورخین کے مطابق حضرت یوسف علیہ السلام 1900 قبل مسیح میں گزر چکے تھے اور حضرت یوسف علیہ السلام حضرت یعقوب علیہ السلام کے بیٹے تھے جو کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے پوتے اور حضرت اسحاق علیہ السلام کے بیٹے تھے۔

یعنی 1900 قبل مسیح میں گزرنے والے حضرت یوسف علیہ السلام حضرت ابراہیم علیہ السلام کے پڑپوتے تھے۔لہذا اگر حضرت یوسف علیہ السلام 1900 قبل مسیح میں گزرے ہیں تو حضرت ابراہیم علیہ السلام 2300 قبل مسیح سے 2000 قبل مسیح کے درمیانی عرصے میں گزرے ہیں جس کا مطلب یہ ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی پیغمبرانہ تعلیمات جیسا کہ واقعہ آدم علیہ السلام اور حضرت حوا علیہا السلام، واقعہ شیطان ،واقعہ ہابیل اور قابیل، نماز ،روزہ اور شرعی سزاؤں کے احکامات قدیم سمیری تہذیب اور کنعان یعنی قدیم فلسطین میں متعارف ہوچکے تھے اور شاید ان کی شہرت قدیم مصر اور قدیم ایران تک ہوچکی تھی۔لہزا واقعہ حضرت آدم علیہ السلام اور حضرت حوا علیہا السلام،واقعہ طوفان نوح،واقعہ شیطان ،واقعہ ہابیل اور قابیل، نماز ،روزہ اور شرعی سزاؤں سے ملتے جلتے احکامات ہمیں قدیم سمیری،بابلی،مصری اور ایرانی تہذیب میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کے بہت بعد یعنی 1900 اور 1600 قبل مسیح اور اس کے بعد ملتے ہیں یعنی لگ بھگ پانچ سو سال سے ایک ہزار سال بعد۔جب کہ قدیم سمیری و بابلی تختیاں و ایرانی تاریخ جو اس وقت سے پہلے کی ہیں ،ان میں ہمیں ابراہیمی مزاہب سے ملتے جلتے یہ واقعات و احکامات کبھی نہیں ملتے جب کہ قدیم سمیری تہذیب میں لکھنے کا عمل 3300 قبل مسیح سے جاری تھا۔کہیں ایسا تو نہیں ہے کہ الٹا قدیم سمیری و بابلی،قدیم مصری اور ایرانی  تہذیب حضرت ابراہیم علیہ السلام اور ان کی عبرانی تعلیمات سے متاثر ہوئی نہ کہ ابراہیمی مذاہب ان سے متاثر ہوئے۔یہ تاریخی طور پہ بہت بڑی حقیقت ہے لیکن بے دین محققین و ملحدین  سراسر اس حقیقت کو نظر انداز کرکے مزہب پہ یہ الزام عاید کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ ابراہیمی مذاہب یعنی یہودیت ،عیسائیت اور اسلام کے مذہبی واقعات و احکامات جیسا کہ نماز روزہ اور شرعی سزائیں نعوز باللہ قدیم سمیری و بابلی،مصری اور ایرانی تہذیب سے اخذ کیے گئے ہیں۔یہ بات عین ممکن ہے کہ ابراہیمی مذاہب کے واقعہ حضرت آدم علیہ السلام اور حضرت حوا علیہا السلام،واقعہ طوفان نوح،واقعہ شیطان ،واقعہ ہابیل اور قابیل، نماز ،روزہ اور شرعی سزاؤں کے  احکامات حضرت ابراہیم علیہ السلام کے ذریعے ان قدیم تہذیبوں میں منتقل ہوچکے تھے جن کو پھر ان قدیم تہذیبوں نے تبدیل کرکے دیوی دیوتاؤں سے منسوب کردیا۔اور یہ بات بھی ذہن میں رکھنی چاہیے کہ تمام تہذیبوں میں اللہ تعالیٰ کے پیغمبر گزر چکے ہیں۔

لہذا اگر ہمیں ان قدیم تہذیبوں جیسا کہ بابل،سمیری،مصری و ایرانی تہذیب سے مذہب سے ملتے جلتے احکامات و واقعات ملتے ہیں تو اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ مذہب نے یہ واقعات و احکامات ان قدیم تہذیبوں سے اخذ کیے بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ ان تہذیبوں نے یہ واقعات مذہب سے لیے اور پھر ان کو تبدیل کر دیا۔جب کہ واقعہ حضرت آدم علیہ السلام اور حضرت حوا علیہا السلام،واقعہ شیطان ،واقعہ طوفان نوح،ہابیل و قابیل تمام انسانیت کی مشترکہ میراث ہے اور یہ بات عین ممکن ہے کہ زمانہ قبل از تاریخ سے یہ واقعات حضرت آدم علیہ السلام کے زمانے سے آج تک کی انسانیت میں زبانی طور پہ چلے آرہے ہیں۔

   یہ بات بھی قابل غور ہے کہ قدیم سمیری و بابلی تہذیب ہو یا مصری تہذیب،ان سب کے واقعات اور ابراہیمی مذاہب کے واقعات کے درمیان بہت سے فرق بھی موجود ہیں جن کو بے دین محققین اور ملحدین ہمیشہ نظر انداز کرنے کی کوشش کرتے ہیں مثلا اتراہیسس مثنوی میں انسان مٹی اور خون و گوشت سے پیدا کیا گیا ہے لیکن اس میں کہیں پہ یہ مذکور نہیں ہے کہ حضرت آدم علیہ السلام کا اللہ تعالیٰ نے پتلا بنا کر اس میں روح پھونکی جیسا کہ ہم ابراہیمی مذاہب یعنی کہ اسلام کے پیروکار کہتے ہیں۔سمیری مثنوی میں مذکور اینکی اور ننہرساگ انسان نہیں ہیں جب کہ ابراہیمی مزاہب کے حضرت آدم علیہ السلام اور حضرت حوا علیہا السلام انسان ہیں۔

یہ دلیل کہ اگر دو واقعات و احکامات میں مشابہت ہے تو اس کا مطلب ہے کہ دوسرا واقعہ بعد کے واقعے سے اخذ کیا گیا ہے خود غلط ہے اور یہ وہ دلیل ہے جو بے دین محققین اور ملحدین نے کئی سالوں سے اپنا رکھی ہے۔جب کہ دو واقعات میں مشابہت کا لازمی مطلب یہ ہے ہی نہیں کہ ایک واقعہ لازمی طور پہ دوسرے سے اخذ کیا گیا۔اس کی دوسری وضاحتیں بھی ہیں مثلا یہ بات عین ممکن ہے کہ دونوں واقعے اور احکامات ایک ہی ذریعے سے اخذ کیے گئے یا ان واقعات و احکامات کی ایک عالمگیر یادداشت سے۔لیکن بے دین محققین اور ملحدین باقی سب ممکنات کو نظر انداز کرکے یہ ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ ابراہیمی مذاہب کے واقعات اور احکامات دوسری تہذیبوں سے اخذ کیے گئے ہیں۔یہ انتہائی بیوقوفانہ ،غیر حقیقی اور جانبدارانہ رویہ ہے کیونکہ اگر بے دین محققین اور ملحدین باقی سب ممکنات کو غلط ثابت نہیں کر سکتے تو وہ کس طرح ثابت کرسکتے ہیں کہ لازمی طور پر مذہبی احکامات و واقعات نعوذ باللہ دیگر قدیم تہذیبوں جیسا کہ قدیم مصری، ایرانی، سمیری و بابلی تہذیب سے چوری کیے گئے۔کیا ملحدین و بے دین محققین اس بات کا کوئی ثبوت دیں گے باقی سب ممکنات غلط ثابت کر کے؟

عہدنامہ عتیق کے محقق جان کورڈ ( John Corrid) نے اس بات کی اچھی وضاحت کی ہے۔ان کے مطابق

” اگر بائبل( اور اس سے مشترک دیگر ابراہیمی مذاہب جیسا کہ اسلام) کے واقعات سچے ہیں تو آپ کو اس بات پہ حیران نہیں ہونا چاہیے کہ آپ کو ان کا حوالہ دیگر تہذیبوں میں بھی ملے گا( یعنی اگر یہ جھوٹے ہیں تو ان کا تذکرہ باقی کسی تہذیب میں نہیں ہوگا کیونکہ اس صورت میں یہ عالمگیر حقیقت نہیں ہوں گے) اور حقیقت میں ہم قدیم مشرق وسطی کے ادب  میں ان واقعات کی تاریخی سچائی پاتے ہیں۔لیکن ان تہذیبوں کے مظاہر اور بت پرست مصنفین نے ان سچائیوں کو بدل دیا،حقائق کو مسخ کردیا اور ان واقعات میں بت پرستی، جادو، شدت پسندی اور مظاہر پرستی کی آمیزش کردی اور حقائق کو فرضی کہانیاں بنا ڈالا۔اس صورت میں( مذہبی واقعات و احکامات کا) مشترکہ حوالہ ان کی سچائی کو ثابت کرتا ہے نہ کہ ان کی تردید کرتا ہے۔”

عہدنامہ عتیق کے ایک اور محقق جیفری نیہاس( Niehaus) کے مطابق بھی یہ واقعات و احکامات عہدنامہ عتیق ( اور دیگر ابراہیمی مذاہب جیسا کہ اسلام) میں پیش کیے گئے وہ حقائق ہیں جن کو قدیم مشرق وسطی کی تہذیبوں نے مسخ کر ڈالا تھا۔

مزید برآں انسانی تخلیق اور ایک عظیم طوفان جیسا کہ طوفان نوح کا تذکرہ صرف قدیم ایرانی ،مصری، سمیری و بابلی تہذیب ہی نہیں  بلکہ دنیا کی کئی تہذیبوں میں ملتا ہے۔جان اوسوالٹ اپنی کتاب The Bible Among the Myths میں لکھتے ہیں کہ قدیم  مشرق وسطی کی تحریریں وہ عالمگیر نقطہ نظر بیان کرتی ہیں جس کے کئی بنیادی مشترک عناصر ہیں جن میں سے کچھ بت پرستی، دیوتاؤں اور انسانیت  کی کم حیثیت، اخلاقیات کا کوئی ایک معیار نہ ہونا ہیں لیکن یہ بنیادی غلط  اجزاء ابراہیمی مذاہب جیسا کہ اسلام میں بالکل نہیں ہیں جس کا مطلب یہ ہے کہ ابراہیمی مذاہب جیسا کہ اسلام کا ان واقعات و احکامات کا بیان صرف تھوڑا ہی نہیں بلکہ بہت زیادہ ان قدیم تہذیبوں سے مختلف ہے۔ بت پرستی، کائناتی جنگیں اور جادو قدیم مشرق وسطی کی تحریروں کا بنیادی موضوع ہیں لیکن یہ ابراہیمی مذاہب جیسا کہ اسلام کے بیان کردہ واقعات و احکامات میں بالکل نہیں ہیں۔ان کے مقابلے میں وحی ایک سچا تاریخی اور تاریخ وار بیان دیتی ہے۔انجیل یعنی بائبل کے محققین جیسا کہ لیموریئکس( Lamoureux) اور لانگ مین انجیل ( اور اس طرح دیگر ابراہیمی مذاہب جیسا کہ اسلام) کو قدیم مشرق وسطی کی تحریروں کی روشنی میں پڑھنے پہ شرمندہ ہیں۔

کچھ مذہب دشمن محققین دعوی کرتے ہیں کہ واقعہ حضرت آدم علیہ السلام اور حضرت حوا علیہا السلام نعوذ باللہ قدیم ہندوستان کے
ابنشد ۔ فلسفیانہ تصنیف جو ویدوں کے تیسرے حِصّے میں ہے،کے ایک استعارے سے اخذکیا گیا ہے۔لیکن یہ دعویٰ بھی بالکل غلط ہے۔کیرن آرم سٹرانگ کے مطابق

” ہر ثقافت میں ہمیں ایک گمشدہ جنت کی کہانی ملتی ہے جس میں انسان خدا کے روزانہ کی بنیاد پہ بہت قریبی تعلق میں رہتے تھے۔وہ لافانی تھے اور ایک دوسرے،فطرت اور جانوروں کے ساتھ بہت اتفاق سے رہتے تھے۔دنیا کے مرکز میں ایک درخت، ایک پہاڑ،ایک قطب تھاجو آسمانوں کا تعلق زمین سے قائم کرتا تھا جس سے لوگ چڑھ کر خداؤں سے بات کرنے جایا کرتے تھے۔پھر ایک تباہی آئی۔وہ پہاڑ ٹوٹ گیا، اور درخت کاٹ دیا گیا لوگوں کے لیے آسمان تک رسائی مشکل ہوگئی، دنیا کے اکثر مذاہب اور قدیم انسانی معاشروں میں ایک گمشدہ جنت کو دوبارہ پانے کی شدید خواہش آج بھی موجود ہے۔”

براعظم امریکہ کی قدیم  مایا یا مایان تہزیب میں بھی انسانی تخلیق کی ایک کہانی موجود ہے جو ہمیں بنانے والے تیپیو( Tepeu) ، اور پروں والی روح یعنی گوکوماتز( Gucumatz) کی کہانی بتاتی ہے جس میں پہلے ان دونوں نے پرندوں، سانپوں اور ہرنوں اور تیندوے جیسے جانور پیدا کیے لیکن پھر انہیں خیال آیا کہ یہ مخلوق ان کی تعریف نہیں کر سکتی۔لہذا انہوں نے ایک ایسی مخلوق پیدا کی جو ان کی عبادت کر سکے۔ اس پہ پہلے انہوں نے گیلی مٹی سے انسان کو پیدا کیا لیکن جیسے ہی وہ بولنے لگا وہ ریزہ ریزہ ہو گیا۔ دوسری کوشش میں انہوں نے انسان کو لکڑی سے پیدا کیا اور وہ چل سکتا تھا لیکن خالی دماغ اور دل کا حامل تھا اور ایسے الفاظ بولتا تھا جن کا کوئی معنی نہیں تھا۔ تیسری کوشش میں انہوں نے چار انسانوں کو سفید اور پیلی  ( مکئی)سے پیدا کیا جو کہ محبت اور عزت کے الفاظ بول سکتا تھا۔اس پہ وہ مطمئن ہوگئے۔ انسانی نسل جاری رکھنے کے لیے انہوں نے عورتوں کو ان انسانوں کے ساتھی کے طور پہ پیدا کیا اور اس طرح انسانیت باقی رہی۔”

چین کی ایک کہانی کے مطابق ایک دیوی نووا( Nuwa)  نے سیلاب روک کر انسانوں کو مٹی سے پیدا کیا۔

ناروے کی ایک کہانی میں آدم و حوا علیہا السلام کو اسک اور ایمبلا( Ask and Embla) کا نام دیا گیا تھا۔ منگولوں کی ایک کہانی کے مطابق پہلا انسانی جوڑا مٹی سے پیدا کیا گیا تھا۔نواجو کی ایک کہانی کے مطابق پہلا انسانی جوڑا مکئی سے پیدا کیا گیا تھا۔ویب سائٹ Native American Myths Of Creation قدیم امریکی باشندوں کے ایک گروہ لکوتا قبیلے ( Lakota tribes) بیان کرتی ہے جس کے مطابق اب سے پہلے کی زمین کے لوگ اچھا سلوک نہیں رکھتے تھے۔ اس لیے تخلیقی قوت یعنی خدا نے پوری زمین کو ایک سیلاب میں غرق کر دیا جس سے ایک کوے کانگی کے سوا سب لوگ اور جانور مر گئے اور کوے کے لیے خدا نے ایک نئی دنیا پیدا کی۔ مزید برآں اس کہانی کے مطابق اس تخلیقی قوت یعنی خدا نے انسان کو سرخ، سفید ،سیاہ اور پیلی مٹی سے پیدا کیا اور اس نے انسانوں کو اپنی مقدس مٹی سے بنی بانسری دی اور انہیں اچھے کام کرنے کا حکم کیا اور پہلے لوگوں کے انجام سے خبردار کیا۔
ان ساری باتوں کا مطلب یہ ہے کہ طوفان نوح جیسے ایک عظیم سیلاب کی کہانی اور انسانیت کی تخلیق کا واقعہ صرف قدیم سمیری و بابلی، ایرانی و مصری تہذیب میں ہی نہیں بلکہ دنیا کی کئی دور دراز کی ثقافتوں جیسا کہ قدیم امریکیوں میں موجود ہے۔ایک عظیم سیلاب کی کہانی قدیم یونانی تاریخ میں بھی موجود ہے۔اگر ابراہیمی مذاہب نے نعوذ باللہ انسان کی تخلیق اور ایک عظیم سیلاب یعنی طوفان نوح کا واقعہ نعوذ باللہ اگر قدیم سمیری و بابلی تہذیب سے اخذ کیا ہے تو پھر دنیا کی دوسری دوردراز تہذیبوں نے کہاں سے اخذ کیا۔ کیا مذہب دشمن محققین اور ملحدین اس کی وضاحت پیش کریں گے؟ حقیقت یہ ہے کہ یہ سب واقعات آپس میں ملتے جلتے ہیں لہزا یہ سب واقعات ایک ہی ذریعے سے اخذ کیے گئے ہیں جو کہ یا وحی ہے یا نسل درنسل انسانوں میں زبانی اس حقیقی واقعے کی منتقلی ہے جو انسانیت کے جد امجد کے ساتھ پیش آیا تھا۔لہزا یہ واقعہ ، واقعہ شیطان ،ہابیل و قابیل اور واقعہ طوفان نوح من گھڑت اور فرضی واقعہ نہیں بلکہ تاریخی حقائق ہیں جن کا تذکرہ دنیا کے کئی معاشروں میں موجود ہے اور یہ ثابت کرتا ہے کہ ہابیل و قابیل کے واقعات اور طوفان نوح حقیقی ہیں اور کئی ماہرِ آشوریات یعنی قدیم مشرق وسطی کی تہذیب اب طوفان نوح کو زمانہ قبل از تاریخ کے ایک حقیقی اور تباہ کن سیلاب کی صورت میں قبول کرنے پہ رضامند ہیں۔لہذا واقعہ آدم علیہ السلام اور حضرت حوا علیہا السلام، واقعہ شیطان، واقعہ ہابیل اور قابیل، واقعہ طوفان نوح کا تذکرہ دنیا کی کئی تہذیبوں میں موجود ہے جو کہ ظاہر کرتا ہے کہ مذاہب کا ان واقعات کا بیان قدیم مصری، ایرانی، سمیری و بابلی تہذیب سے نقل نہیں بلکہ اس حقیقت کا بیان ہے جو مختلف تبدیل شکلوں میں آج بھی دنیا کے کئی علاقوں میں موجود ہے اور جن کو مشرق وسطی میں گزرنے والے انبیاء جیسا کہ حضرت نوح علیہ السلام، حضرت ادریس علیہ السلام، حضرت ابراہیم اور دیگر انبیاء نے بیان کیا اور جن کو بعد میں آنے والی تہذیبوں جیسا کہ قدیم  مصری، ایرانی،سمیری و بابلی تہذیبوں نے تبدیل کر دیا اور یہی وجہ ہے کہ نہ صرف دنیا کی کئی قدیم تہذیبوں میں ان واقعات کا تبدیل شدہ شکل میں بیان موجود ہے بلکہ حضرت ابراہیم علیہ السلام سے ایک ہزار سال بعد آنے والے زرتشت اور مانی جیسے لوگ جو وحی،پیغمبری، نمازوں اور شریعت کے احکامات کی دعوت دیتے تھے ،وہ بھی براہ راست حضرت ابراہیم علیہ السلام اور قدیم یہودیوں کی تعلیمات سے متاثر تھے نہ کہ ابراہیمی مذاہب ان قدیم تہذیبوں سے۔مزید یہ کہ آج جدید سائنسی علم وراثت یا جینیٹکس بھی ثابت کر چکا ہے کہ تمام انسانوں کا ڈی این اے ایک مرد اور ایک عورت تک پہنچتا ہے جو اس بات کی دلیل ہے کہ مذاہب کی طرف سے بیان کردہ حضرت آدم علیہ السلام اور حضرت حوا علیہا السلام اور ان کے بیٹے ہابیل و قابیل تاریخ کی فرضی شخصیت نہیں بلکہ حقیقی شخصیت تھے اور ان سے منسوب واقعات بالکل درست ہیں۔

ھذا ما عندی۔ واللہ اعلم باالصواب۔ الحمدللہ

حوالہ جات:

"Native American Myths of Creation”. Native American Myths of Creation. Biblioteca Pleyades. Retrieved 9 February2017.
Srimannarayana V Kandukuri (శ్రీమన్నారాయణ)’s answer to Is Eve’s sin considered worse? Why?
http://nationalpost.com/holy-post/the-roots-of-the-creation-story-an-atheists-take-on-the-bible
http://www.cracked.com/article_18649_5-ridiculous-ancient-beliefs-that-turned-out-to-be-true.html
This introduction reads as follows:
http://www.sacred-texts.com/ane/sum/sum07.htm
http://channel.nationalgeographic.com/the-story-of-god-with-morgan-freeman/articles/creation-myths-from-around-the-world/
Jeffrey J. Niehaus, Ancient Near Eastern Themes in Biblical Theology (Grand Rapids, MI: Kregel Publications, 2008), 21–23.
Mathews, Genesis 1–11:26, 87.
John Currid, Ancient Egypt and the Old Testament (Grand Rapids, MI: Baker, 1997), 32
Jeffrey J. Niehaus, Ancient Near Eastern Themes in Biblical Theology, 178.
Niehaus states, “Passages such as Deuteronomy 32:16–19; 1 Corinthians 10:20; and 1 Timothy 4:1 tell us clearly enough that demonic powers and intelligences are behind false religion, and even behind false theology in the church.” Niehaus, Ancient Near Eastern Themes in Biblical Theology, 179.
Oswalt, The Bible Among the Myths, 57–62, 99.
https://answersingenesis.org/genesis/creation-adam-unique-revelation-or-ancient-myth/
"A Short History of Myth: Volume 1-4” by Karen Armstrong (2005
As quoted in Victor P. Hamilton, The Book of Genesis Chapters 1–17: The New International Commentary on the Old Testament (Grand Rapids, MI: Eerdmans Publishing, 1990), 157–158.
Tremper Longman III, How to Read Genesis (Downers Grove, IL: InterVarsity Press, 2005), 78
John Currid, Against the Gods: The Polemical Theology of the Old Testament (Wheaton, IL: Crossway, 2013), 44.
Alexander Heidel, The Gilgamesh Epic and Old Testament Parallels (Chicago: University of Chicago Press, 1949), 260.

تبصرے بند ہیں۔