ہم نے بھی بھینس کے آگے بین بجادی

حفیظ نعمانی

کاس گنج کے شرمناک واقعہ کو 10  دن ہورہے ہیں ہمیں یقین ہے کہ ہمارا کالم شوق سے پڑھنے والے ضرور سوچ رہے ہوں گے کہ ہم اب تک کیوں خاموش ہیں؟ واقعہ یہ ہے کہ ہم نے تو ایسے ہی حالات سے متاثر ہوکر 1962 ء میں ہفت روزہ ندائے ملت نکالا تھا۔ اور برسوں ہم سے جو ہوسکا وہ ہم نے کیا اور جس قدر ہوسکا وہ ملت کے دردمندوں سے لکھوایا۔ لیکن موجودہ حکومت کے مزاج کو دیکھتے ہوئے ہم یہ سوچ کر خاموش ہیں کہ جب اوپر سے نیچے تک سب ایک ہی رنگ میں رنگے ہیں اور سب کچھ ایک سوچی سمجھی حکمت عملی کے تحت ہورہا ہے تو کیا کہیں اور کس سے کہیں؟

ہم ان ہندوئوں سے تو کچھ کہہ نہیں سکتے جو خود اس ذہنیت کا شکار ہیں اور ان ہندوئوں سے کہنے سے کیا فائدہ جو کر ہی اس لئے رہے ہیں کہ ٹکرائو ہو۔ بات کاس گنج کی نہیں ہر جگہ کی ہے کہ پولیس کو حکومت کی طرف سے حکم دے دیا گیا ہے کہ جن کے ہاتھ میں بھگوا جھنڈا ننگی تلوار اور منھ میں ہر ہر مہادیو کا نعرہ ہو اور وہ بائیک پر سوار ہوں تو ان کا راستہ نہ روکا جائے۔ وہ جدھر چاہیں جائیں جس سے چاہیں ٹکرائیں بلکہ ان کی ہر طرح حفاظت کی جائے۔ تو اس کے بعد کون شکایت کرے اور کس سے کرے؟ ہر جگہ کا ایک منصوبہ ہے کہ اگر مسلمان حیثیت والا ہے۔ بڑے کاروبار کا مالک ہے۔ جوان بیٹے ہیں تو انہیں جیسے بھی ہو کمزور کیا جائے۔ کاس گنج نہ ہم نے دیکھا اور اتفاق سے وہاں نہ کوئی جاننے والا ہے۔ لیکن ٹی وی کی بدولت جو دکھایا گیا اور بتایا گیا اس کا حاصل یہ ہے کہ جس چوراہے پر عبدالحمید کی بہادری کے سلسلہ میں پرچم کشائی اور دوسرے پروگرام ہورہے تھے وہاں سے دوسرے کسی جلوس کے گذرنے کی گنجائش نہیں تھی۔ فسادی ٹولی کے ایک ہاتھ میں ترنگا اور دوسرے میں بھگوا پرچم تھا اور کسی کے ہاتھ میں ننگی تلوار اور ریوالور سے ہوائی فائرنگ کرتے اسی چوراہے سے جانے کی ضد کریں تو کیا مسلمانوں سے ہم کہیں کہ شہزادوں کے جلوس کے لئے راستہ چھوڑ دو؟ یہ تو آخری درجہ کی بزدلی ہے اس کا مشورہ تو ہم ہرگز نہیں دیں گے۔ اور اگر راستہ نہیں دیا تو وہ ہوگا جو ہوا اور جو سامنے ایک عالیشان مکان ہے جو بڑے تاجر ہیں اور جن کے تین جوان بیٹے ہیں انہیں تباہ کردیا جائے گا۔

کل راجیہ سبھا میں رام گوپال یادو نے صاف صاف کہا کہ ہندو نے ہندو کو مارا ہے اور مسلمان گرفتار کئے جارہے ہیں۔ کہا جارہاہے کہ سامنے والے مکان سے گولی آئی اور ایک صحتمند خوبرو نوجوان ہندو لڑکے کو کھا گئی۔ ہم نہیں جانتے کہ حقیقت کیا ہے لیکن تینوں بھائی اس واقعہ کے بعد گھر سے ہٹ گئے۔ اور شور یہ ہوا کہ گولی اسی گھر سے آئی تھی۔ پرسوں بڑا لڑکا سلیم پولیس کو مل گیا اس کے بعد سے کم از کم ایک ہزار مرتبہ یہ سنا ہوگا کہ اصل ملزم (eq[; vkjksih) گرفتار ہوگیا یا سلیم کو پولیس نے دھر دبوچا اور دوسرے دو بھائیوں کی تلاش ہے۔ ہم یہ نہ سمجھ سکے کہ جب اصلی مجرم مل گیا تو اب دوسرے بھائیوں کی تلاش کیوں ہے؟ اگر گولی ایک ریوالور سے چلی ہے تو کیا وہ اتنی بھاری توپ تھی کہ اسے دو بھائی اٹھائے ہوئے تھے اور ایک چلا رہا تھا؟ سلیم کی گرفتاری کے بعد کہنا چاہئے تھا کہ اصلی مجرم مل گیا اب ان کی تلاش ہے جنہوں نے دکانیں جلائیں گاڑیوں میں آگ لگائی اور لوٹ مار کی۔

ہم نے ایسے بہت سے مقام دیکھے ہیں جہاں یہی کہانی بنائی گئی تھی اور تھانے میں بیٹھ کر کسی زہر بھرے وکیل کو بلاکر اس سے ایف آئی آر لکھوائی گئی تھی جس میں شہر کے تمام بڑے دولتمند اور کاروباری مسلمانوں کے جوان لڑکوں کو ملزم بنایا گیا تھا جن کے نام معلوم تھے ان کے نام لکھ دیئے تھے اور جن کے نام معلوم نہیں تھے ان کے بارے میں لکھ دیا تھا کہ فلاں کے دو لڑکے نام معلوم نہیں دیکھوں تو پہچان لوں گا۔ اور ایسی رپورٹوں میں گواہ بھی وہ بنائے جاتے تھے جو پولیس کے پیشہ ور گواہ ہوتے تھے اور جن کو اس کے معاوضہ کے طور پر افیم، گانجہ اور چرس کا گندہ کاروبار کرنے کی چھوٹ ہوتی تھی۔ ایسی رپورٹوں کا مقصد کسی کو سزا دلانا نہیں ہوتا بلکہ یہ ہوتا ہے کہ گرفتاری کے خوف سے وہ لڑکے فرار ہوجاتے تھے اور ان کی فکر اور مقدمہ کی پیروی میں ان کے بوڑھے باپ مصروف ہوجاتے تھے اور ان کا کاروبار برباد ہوجاتا تھا جو فسادیوں کا مقصد تھا۔ کاس گنج کی کہانی بھی ایسی ہی ہے یا اس سے ملتی جلتی ہے کی تینوں بھائیوں کو نامزد کردیا ہے اور وہی تینوں اصل ملزم ہیں جن میں دو فرار ہیں۔

صورت حال کو سمجھنے کی کوشش کی جائے تو سب سے پہلا سوال یہ ہے کہ جب 1965  ء کی جنگ میں پاکستان کے پٹن ٹینک تباہ کرنے والے عبدالحمید کی یاد میں اور انہیں نذرانۂ عقیدت پیش کرنے کے لئے ہر سال ایک تقریب ہوتی ہے جو تھانہ کے رجسٹر میں بھی درج ہوگی اور جہاں چند ہی سہی پولیس والے بھی ہوتے ہوں گے وہاں آنے والے بائک جلوس کو پولیس نے کیوں نہیں روکا؟ اور اگر اس کے باوجود وہ نہیں رُکے تو  فساد کا اصلی ملزم ان کو کیوں نہیں بنایا؟ اور ویڈیو میں جو ننگی تلواریں اور ہوائی فائرنگ کرتے ہوئے دیسی یا ولایتی ریوالور نظر آرہے ہیں کیا وہ سب ایسے ہیں جن کے لائسنس لئے گئے ہیں۔ آخر ایک بھی ایف آئی آر ان میں سے کسی ایک کے خلاف نہ لکھوانا اور 130  گرفتار کئے جانے والے رام گوپال یادو کے بقول صرف مسلمان ہونا جو بیان کرتا ہے اسے سب سمجھ سکتے ہیں۔ ایسے میں اگر ہم بھی بھینس کے آگے بین بجائیں تو اپنے کو احمقوں کی فہرست میں شامل کرنے سے زیادہ کیا ہوگا؟

یہ صرف ہمارے اعمال کی سزا ہے ۔ ہم پروردگار کی رحمت کے طلبگار ہیں جو آئے گی اور ضرور آئے گی اور اگر غور سے دیکھا جائے تو آتی ہوئی نظر بھی آجائے گی۔ کاش ہم دعا کی طاقت کو سمجھیں اور عمل کریں۔ آپ بھی دعا کیجئے اور ہم بھی دعا کرتے ہیں کہ اگر واقعی اس گھر کے کسی فرد کی گولی سے وہ بچہ مرا ہے تو مارنے والے کو ضرور سزا ملے اور اگر صرف اس خاندان کو تباہ کرنے کے لئے یہ سب کیا گیا ہے تو سازش کرنے والے نیست و نابود ہوجائیں۔ آمین۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔