ادب کی پری

شازیب شہاب

ادب کی پری سن،
مجھے اپنا محرم بنا،
شوق کے کس سماں میں،
تخیل کے کس کارواں میں،
تفکر کے کس شوخ وادی میں،
تیرا ٹھکانہ ہے!!
حسرت مجھے ہے،
ترے حسن کی اک جھلک کی،
تری ناز کی بانکپن کی،
کہاں تجھ کو ڈھونڈوں میں،
کس سے پتہ تیرا پوچھوں میں،
آ تو ہی آجا!!
کھڑا ہوں جہاں میں،
عجب بھیڑ ہے،
تیرے عشاق کی،
سب کو ہےتشنگی،
دھوپ چھپتی ہے،
سائے کے پیچھے،
گھٹائیں برستی ہیں بس سنگ پر،
کشتِ زرخیز ہے خشک اور
فصل بے آب و گل،
کونپلیں زرد،
کلیاں فسردہ،
نہ شاخوں میں پتے نہ پھل پھول،
پتے پڑے بادِ صرصر کے رحم و کرم پر،
ادھر سے ادھر کروٹیں پھیرنے میں مگن ہیں
بتا کیا یہ تیرا چمن ہے!!
کہاں ہے تو،
کیا میں تجھے دکھ رہا ہوں،
کہ اس لن ترانی کی وادی میں،
آواز لبیک کی سن رہی ہے تو،
تو تجھ سےاک التجا ہے مری،
مجھ کو پہچاننے سے کبھی،
تو نہ انکار کرنا!!

تبصرے بند ہیں۔