کلیوں کا قتل عام نہ خونِ صبا کرے

شازیب شہاب

 کلیوں کا قتل عام نہ خونِ صبا کرے
گلشن پہ ظلم کی نہ وہ یوں انتہا کرے

بے گھر ہو عندلیب نہ ہجرت زدہ نسیم
زخمی ہو شاخِ گل نہ نشیمن جلا کرے

دیر وحرم کے لوگ رہیں پیار سے سدا
سرحد بنائے وہ نہ دلوں کو جدا کرے

غربت کا بوجھ اور حکومت کی بے رخی
اک نوجوان ایسا کرے بھی تو کیا کرے

اے عشق نازِ حسن اٹھا شوق سے سدا
،ایسا کبھی نہ ہو کہ وہ ترکِ وفا کرے،

دل زخم زخم اور  ہیں آنکھیں لہو لہو
یوں میری زیست کو نہ کوئی کربلا  کرے

روحِ  یقیں شہابؔ! کبھی ہو نہ خوں چکاں
داغِ گماں کا دل نہ کسی سے گلہ کرے

تبصرے بند ہیں۔