کیا ٹیپو کے مجسمے کی ضرورت ہے؟

مدثراحمد

پچھلے دنوں کرناٹک کے سابق ریاستی وزیر اور رکن اسمبلی تنویر سیٹھ نے ٹیپو سلطان کے نام پر منعقدہ ایک تقریب کے دوران اس بات کااظہارکیاہے کہ جلدہی میسورومیں ٹیپوسلطان کا 100 فٹ اونچا مجسمہ بنایاجائیگا اور اس مجسمے کو میسورومیں ہی بنایاجائیگا۔ ان کے اس اعلان کے بعد جہاں سنگھ پریوارکے لوگ چراغ پا ہیں، وہیں اس بات کو سمجھنے کی ضرورت ہے کہ حضرت ٹیپوسلطان شہیدؒ کی شخصیت کو100 فٹ اونچے مجسمے تک محدود کرنے کے بجائے ٹیپوسلطان کی زندگی کے پیغام کو عام کرنے کی ضرورت ہے۔ بعض ناقدین کا کہناہے کہ انتخابات قریب ہیںاس وجہ سے یہ اعلان کیاگیاہے، ماضی میں بھی ٹیپوسلطان شہیدؒ کے نام سے یونیورسٹی بنانے کا اعلان کیا گیا تھا، اس کےعلاوہ بنگلوروائیرپورٹ کا نام ٹیپوسلطان سے منسلک کرنے کے مطالبات بھی ہوتے رہے ہیں، لیکن یہ تمام مطالبات پورے نہیں ہوسکے،  کیونکہ اس وقت ٹیپوسلطان کے تعلق سے ہر کوئی سیاست کرنا چاہ رہاہے اور سیاست ہورہی ہے۔

مسلمانوں کے حالات کو دیکھیں تو یہ بات محسوس کی جاسکتی ہے کہ اس وقت مسلمانوں کو مجسموں یعنی مورتیوں کی ضرورت نہیں بلکہ انہیں تعلیم، روزگار، سماجی انصاف اور تحفظ کی ضرورت ہے۔ ٹیپوسلطان شہید ؒ کی زندگی کا جائزہ لیاجائے تو انہوں نے خوداپنی زندگی میں مورتیوں کی سیاست نہیں کی تھی اور نہ ہی انہوں نے اپنے سکوں میں اپنی تصویرلگاکر شہرت حاصل کرنے کی کوشش کی تھی، بلکہ انہوں نے اپنی رعایا کو خوش رکھنے کیلئے مختلف ترقیاتی منصوبوں کو رائج کیا، تعلیم کو اہمیت دی، اپنی فوجوں کوطاقتور بنایا، سماجی انصاف کا پیغام عام کرتے ہوئے جہاں مسجدیں بنائی وہیں مندروں کیلئے بطور حکمران مالی امداد فراہم کی۔ شجاعت اور بہادری کی مثالیں پیش کی،  یہی وجہ ہے کہ حضرت ٹیپوسلطان کو شیرمیسورکہاجاتاہے، لیکن اسی شیر میسوروکے نام پر ان کے سلیف ڈکلیر چاہنے والے کبھی یونیورسٹی کے قیام کی ادھوری بات کررہے ہیں تو کبھی ان کے نام سے جینتی منانے کیلئے سیاسی کھیل کھیل رہے ہیں، اب مجسمے بنانے کا اعلان کرتے ہوئے مزید حالات کو بگاڑنے کی کوشش شروع ہوچکی ہے۔

اس وقت مسلمانوں کو مجسموں کی نہیں تعلیم کی ضرورت ہے، روزگارکی ضرورت ہے۔ لیکن اس سمت میں ٹیپوکے چاہنے والوں نے کبھی اقدامات اٹھانا ضروری نہیں سمجھا، اگر واقعی ٹیپوسلطان شہیدؒ کو خراجِ عقیدت پیش کرنا چاہتے ہیں اور ٹیپوسلطان کا نام روشن کرنا چاہتے ہیں تو ان کے چاہنے والوں کو چاہیے کہ وہ ٹیپوسلطان کے نام پر تعلیمی ادارے قائم کریں، صنعتیں فراہم کریں، نوجوانوں کو ان کے نام سے ایوارڈ دیں، طلباء میں ٹیپوسلطان کی شان کو اجاگرکرنے اور ان میں ٹیپوکے پیغام کو عام کرنے کیلئے تحریریں لکھوائیں، تقریریں کروائیں۔ ٹیپوسلطان کے نام سے اسکالرشپس جاری کروائیں۔ ان تمام کاموں کیلئے حکومت کی مددنہ صحیح اپنے طورپر کیوں نہیں کیاجاسکتا؟

ہر سال سو دوسو غیر مسلم طلباء کو ٹیپوسلطان کے تعلق سے مضمون نویسی کے مقابلوں میں شامل کروایاجائے اور انہیں اچھے انعامات دئیے جائیں تو کیوں نہیں یہ طلباء مضمون نویسی کے مقابلوں میں شرکت کرینگے اور انعام حاصل کرنے کیلئے ٹیپوسلطان کی تاریخ کو پڑھیں گےاور سمجھیں گے۔ پچھلے دنوں کرناٹکاکی ٹیپوایکسپریس ریل گاڑی کا نام بدلاگیاہے، اس نام کی بحالی کیلئے کسی بھی سیاستدان کی جانب سے قانونی جنگ تو نہیں لڑی گئی لیکن مجسمے کا قیام کرنے کا اعلان ضرور کیاگیا۔ جو مٹ رہاہے اُسے بچانے کے بجائے جو نہیں ہے اُسے لاکر بچانے کی باتیں کی جارہی ہیں، یہ کونسی حکمت عملی ہے۔ حقیقت میں لوگوں نے ٹیپوسلطان کو نہیں سمجھا اور نہ ہی اُن کی زندگی کے پیغام کو سمجھنے کی کوشش کی ہے۔ یہاں تک کہ آج ٹیپوسلطان کی یوم پیدائش جو لوگ منارہے ہیں اُنہیں خودہی اس بات کی اطلاع نہیں ہے کہ ٹیپوسلطان کی یوم پیدائش آخر کونسی تاریخ کو ہے؟ ٹیپوسلطان سیاست کیلئے نہیں بلکہ خودی کے پیغام کو عام کرنے والے حکمران تھے جسے پوری اُمت مسلمہ محض شوق، تفریح اور سیاست کیلئے استعمال کررہی ہے۔ جو لوگ ٹیپوجینتی شان وشوکت کے ساتھ منانے کی بات کررہے ہیں اُنہیں اس بات کا بھی علم نہیں ہے کہ ٹیپوسلطان کاحقیقی نام کیاتھا اور اُن کاطریقہ کار کیسا تھا۔ بس باگھ کی کھال کی طرح رنگے ہوئے کپڑوں کو پہن کر ٹوپیاں پہن کر ڈرامے تو کرسکتے ہیں لیکن اُن کے پیغام کو عام نہیں کرسکتے۔ آج ٹیپوجینتی یا ٹیپوکے مجسمے کی ضرورت نہیں بلکہ ٹیپوسلطان کے پیغام کوعام کرنے کی ضرورت ہے اور ان کا پیغام یہی ہے کہ حکمت، شجاعت،  سیاست،  شریعت اور سماجی انصاف کو عام کرناہے۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔