رجوع الی القرآن اور دیگر مضامین

سہیل بشیر کار

ڈاکٹر نجات اللہ صدیقی عالمی شہرت یافتہ شخصیت تھے۔ آپ مفکر تھے؛ اس وجہ سے ان کی ہر تحریر میں منفرد رائے ملتی ہے، آپ نے جہاں عصری علوم کا گہرا مطالعہ کیا تھا وہیں قرآنی علوم کا مطالعہ بھی اپنے وقت کے بہت بڑے علماء سے حاصل کیا تھا۔ 70 صفحات کی زیر تبصرہ کتاب "رجوع الی القرآن اور دیگر مضامین” کی اہمیت اس وجہ سے ہے کیونکہ اس میں مصنف نے سوچنے سمجھنے کی نئی راہیں سجھائی ہیں۔ زیر تبصرہ کتاب میں 11مضامین ہیں؛جن میں اکثر قرآن کریم سے تعلق رکھتی ہیں ، کتاب کی تقدیم میں مصنف لکھتے ہیں: "فقہ مقاصدی ہو یا رجوع الی القرآن ، دونوں کے باب میں میں نے اپنے اساتذہ سے جو سیکھا ہے کچھ اس کا بھی ذکر ملے گا۔ مجھے امید ہے کہ پڑھنے والوں کو اپنے ہر سوال کا جواب نہ بھی ملے تو نئے سوالات کے جواب تلاش کرنے کی ہمت ضرور ہوگی اور اس جرات کے ساتھ حل تلاش کریں گے تو امید کی کرنیں بھی نظر آئیں گی ، ہم سے وعدہ بھی تو یہی ہے: والذين جاهدوا فينا لنهدينهم سبلنا۔ ” (صفحہ4)

کتاب کے دوسرے باب ‘رجوع الی القرآن :اہمیت اور تقاضے’ میں مصنف کا ماننا ہے کہ چونکہ رجوع الی القرآن کی دعوت پرانی ہے تو اس کی تکرار کی وجہ آخر کیا ہے، رب العزت کی کتاب سے رشتہ جوڑنا انسان کی مجبوری ہے پھر بھی ہمیں کیوں یاد دہانی کرنی پڑتی ہے، اس سلسلے میں وہ ہمیں اس راہ کی رکاوٹوں کے بارے میں ہمدردانہ غور و فکر کا مشورہ دیتے ہیں، مصنف کا کہنا ہے کہ چونکہ دنیا کی 95 فیصد آبادی عربی زبان کو نہیں جانتی لہذا یہ سب سے بڑی رکاوٹ ہے، پھر مصنف اس رکاوٹ کو ختم کرنے کی جو کوشش کی گئی ان کا ذکر کرتے ہوئے کہتے ہیں: "پہلا طریقہ مقامی زبان میں قرآن شریف کے ترجمے کا ہے جسے پڑھ کر یا سن کر عام آدمی قرآن کی باتیں جان سکتا ہے، دوسرا طریقہ درس و وعظ کا ہے جسے علما سے سن کر عام لوگ قرآن کی باتیں جان سکتے ہیں۔ ” (صفحہ 5)

اس کے بعد مصنف اس سوچ پر تنقید کرتے ہیں جس کے مطابق عام آدمی کو قرآن کریم کا ترجمہ پڑھنے یا درس دینے سے روکا جاتا ہے؛ لکھتے ہیں:’ بعض لوگ یہ خیال کر سکتے ہیں کہ عام آدمی قرآن کا ترجمہ پڑھے گا یا سنے گا تو بہت سی باتیں اسی کی سمجھ میں نہیں آئیں گی۔ زیادہ محفوظ طریقہ یہ ہے کہ عام مسلمان علما کے وعظ ونصیحت سنیں اور ان ہی سے پوچھیں کہ کرنا کیا ہے۔ یہ خیال درست نہیں ہے، دو وجہوں سے۔ پہلی وجہ یہ ہے کہ سمجھنے میں مشکل صرف بعض ان آیات میں پیش آسکتی ہے جن کا تعلق طلاق ، وراثت وغیرہ امور یا غیب کی باتوں یا تاریخی حکایات سے ہے۔ ترجمے کے ساتھ وضاحتی نوٹ کے اضافے سے اس مشکل کو دور۔کیا جاسکتا ہے۔ دوسری وجہ اس خیال کو رد کرنے کی یہ ہے کہ کوئی بات جب خدا کے حکم کے طور پر سامنے آتی ہے تو اس کا اثر کسی انسان کے وعظ ونصیحت سے کہیں زیادہ ہوتا ہے۔ ‘(صفحہ 6)

اپنی بات کی وضاحت کے لیے مصنف 9 آیات کا ترجمہ پیش کرنے کے بعد لکھتے ہیں:” عام مسلمانوں کو ترجموں کے ذریعہ قرآن کی طرف رجوع سے روکنا درست ہی نہیں ناجائز بھی ہے، ایسا کرنا اسلام کی صریح خلاف ورزی ہے۔ ” (صفحہ 9)یہ تو بات ہوئی عوام کی خواص کے بارے میں بھی لکھتے ہیں:’ کہاں آج مسلمان دانشوروں اور علماء نے پیش آمدہ مسائل میں اپنا رہنما فقہ اسلامی کو بنا رکھا ہے، مسئلہ سیاست کا ہو یا معاشرت کا یا معاشی نظام کا اور زر اور مالیات کے مسائل ہوں قرآن میں مشکلات کے حل تلاش کرنے کی جگہ فقہی سرمایہ پر انحصار ہے۔ "(صفحہ 9) مصنف نے اس مختصر باب میں بڑے بڑے نکتے بیان کیے ہیں ایک جگہ لکھتے ہیں:” قرآن ساتویں صدی میں ملک عرب کے ایک علاقے میں ایک مرد پر نازل ہوا تھا جب کہ رجوع الی القرآن کی دعوت ہم اکیسویں صدی میں ساری دنیا کے مردوں اور عورتوں کو دے رہے ہیں۔ زمانے کے ساتھ ٹکنالوجی بدلی ، جگہ کے ساتھ آب و ہوا بدلی؛ نقل و حمل آسان ہوا، اتصالات کی دنیا میں انقلاب آیا ،معلومات بڑھیں ، دنیا کے ہر حصے میں بالخصوص بڑے شہروں میں ملی جلی آبادیاں بسںنے لگیں۔ ان تبدیلیوں کے نتیجے میں لوگوں کے مزاج ، نفسیات اور زندگی سے ان کی توقعات میں بھی تبدیلی آئی۔ نئے مسائل کے حل کے لیے قرآن کی طرف رجوع کے لیے ان تمام باتوں کو سامنے رکھنا ہوگا۔ قرآن کی شرح کے طور پر احادیث کے ذخیرے کو کھنگالنا ہوگا۔ تاریخ کا مطالعہ یہ جاننے کے لیے کرنا ہوگا کہ ہم سے پہلے لوگوں نے بدلتے حالات میں احکام خداوندی کی تعمیل کس طرح کی۔ اگر وہ اپنی کوششوں میں کامیاب رہے تو ان کی کامیابی کا راز کیا تھا ، اگر نا کام رہے تو ناکامی کے اسباب کیا تھے۔ مثال کے طور پر تجارتی لین دین میں عدل وقسط پر قائم رہنے اور رکھنے کے مسئلہ کو لیا جاسکتا ہے اور یہ دیکھا جا سکتا ہے کہ زندگی کے اس دائرے میں مقاصد شریعت کے حاصل کرنے کی تفصیلی تدابیر،  میں قیام حیات کا ذریعہ کامیابی کے ساتھ بنا یا جاسکا یا نہیں۔”(صفحہ 11) اس باب میں ادارہ علوم القرآن علی گڑھ کے ذمہ داران کو قیمتی مشورہ دیتے ہوئے لکھتے ہیں:”اب عمومیات سے آگے بڑھنے کا وقت آ گیا ہے۔ آپ کو چاہیے کہ رجوع الی القرآن کے جدید تقاضے پورا کرنے میں مسلمان علما اور دانشوروں کی مدد کریں۔ محدود اور متعین موضوعات چنے جائیں اور قرآنی افادات کی روشنی میں مسلمانوں کی تاریخ اور ان کی موجودہ حالت کے مطالعہ کی بنیاد پر بتایا جائے کہ کرنا کیا ہے۔ عرصہ ہوا نئے علوم ، اختراع اور انکشافات ہماری جانب سے دنیا کو ملنا بند ہوگئے اور اب تو ہم دوسروں سے سیکھنے میں بھی پچڑے شمار ہوتے ہیں۔ جب ہم آگے تھے تو قرآن کی وجہ سے آگے آۓ تھے آج بھی ایسی ہی توقع رکھنی چاہئے، بشرطیکہ ہم نے تقاضوں کو پہچانیں کہ کتابوں پرانحصار نہ کر کے مشاہد احوال کا چلن عام کیجیے۔معلوم اور صراحت شدہ احکام کے پہلو بہ پہلو تجرباتی طریقوں کی گنجائش نکالیے۔ نئی بات کہنے والوں کی ہمت افزائی کیجیے اگر چہ وہ غلط بھی ہوسکتی ہیں۔ نئے سماجی اور معاشی مسائل کے حل کو صرف مسلمانوں تک محدود نہ رکھئے بلکہ مشتر کہ انسانی مسائل کے حل میں دل و جان سے دوسروں کو بھی شریک کارگر دائے۔ ‘(صفحہ 12)

دوسرے باب میں مصنف نے علوم القرآن کی پہنچ اور انداز تحاطب کے تحت علوم القرآن کے ذمہ داران کی توجہ چند اہم باتوں کی طرف مبذول کرائی ہے؛ لکھتے ہیں:”ضرورت ہے علوم القرآن کو ان نئ وسعتوں سے روشناس کرانے کی جو اس ہم کلامی میں قرآنی روح پھونک سکے جس ہم کلامی کی طرف دوسرے اہل مذاہب کی طرح مسلمانان عالم بھی اس لیے اے ہیں کہ پوری دنیا کے ایک بستی میں بدل جانے کے سبب اب ملی جلی آبادیوں میں ہی رہنا ہے، انسانوں کے مشترکہ مفادات و مصالح کا تحفظ اور حصول عقیدہ و مذہب کے اختلاف کے باوجود باہمی تعاون اور اشتراک عمل کا طالب ہے، یہ تعاون نہ فہم قرآن میں مانع ہے نہ قرآن کی تفہیم ہیں، البتہ یہ تحقیقات قرآنی کے لیے ایک نیا پس منظر Perspective ضرور فراہم کرتا ہے، میں دیکھتا ہوں کہ ہمارے حلقوں میں اس نئے پس منظر کو نہ سمجھا گیا ہے نہ قبول کیا گیا ہے اس لیے اسے علیحدہ سے موضوع گفتگو بنانے کی ضرورت ہے۔ "(صفحہ 14)تیسرے باب ‘فہم قرآن میں مقاصد کا حصہ’ میں مصنف کہتے ہیں کہ قرآن کریم سمجھنے کے لیے جہاں عربی زبان و ادب، لغت، اور قواعد کو اہمیت ہے وہی مقاصد شریعت کی بھی اہمیت ہے، اس سلسلے میں وہ ازالہ فقر یا ازالہ غربت اور زکواۃ کی مثال دیتے ہوئے کہتے ہیں:”حق کو حق دار تک پہنچانے کے طریقے زمان و مکان کے ساتھ بدلتے رہتے ہیں۔ ایسی اسکیمیں چلائی جاسکتی ہیں جن کے تحت غریبوں کوتعلیم اور ٹریننگ کے ذریعہ قابل کار بنایا جائے ان کو روزگار ملے اور بالآخر وہ اپنے پیروں پر کھڑے ہو جائیں۔ لیکن بعض علماء کے نزدیک زکوۃ کی مد سے ایسی اسکیمیں نہیں چلائی جاسکتیں کیوں کہ متن میں حرف لام تملیک کے لیے ہیں۔ مستحق زکوۃ کو مال زکوۃ کا مالک بنانا ضروری ہے۔ زکوۃ فنڈ سے چلائی جانے والی رفاہی اسکیموں میں تملیک کی شرط نہیں پوری ہوتی۔ ‘(صفحہ 17)

آگے مولانا امین احسن اصلاحی کے حوالے سے کہتے ہیں کہ حرف لام لازما تملیک کے لیے نہیں آتا ہے اور ان سب معانی کے لیے یہ خود قرآن میں استعمال ہوا ہے، مگر کچھ فقہاء کو تملیک ذاتی پر اصرار ہے۔ مذکورہ بالا اسکیم کے حامی یقین دلاتے ہیں کہ غریبوں کی حاجت روائی، ان کے فقر کے ازالہ اور بالآخر ان کو سماجی امداد ( بشمول زکوۃ) سے مستغنی کرنے کے لیے تملیک ذاتی کے بالمقابل یہ اسکیمیں زیادہ مفید ہیں۔ مگر یہ حضرات نص کی پابندی کا عذر پیش کرتے ہوۓ ان کی بات ماننے سے انکار کر دیتے ہیں۔ اس مختصر نوٹ میں اس مسئلہ کی تنقیح نہیں مقصود۔ ہم صرف یہ کہنا چاہتے ہیں کہ اس اختلاف کو حل کرنے میں ہمیں لغت سے آگے بڑھ کر مقاصد کا سہارا لینا ضروری ہے۔ مقاصد کسی حد تک تو ان کی آیات سے واضح ہوئے جو اوپر نقل کی جا چکی ہیں اور کچھ اس بارے میں آنے والی حدیثوں سے واضح ہوتے ہیں جن میں سے بعض کا ذکر او پر کیا گیا ہے۔ معاش اور مال کے بارے میں قرآن و سنت کے مطالعہ سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ اللہ تعالی نے ان کو قیام حیات کا ذریعہ بنایا ہے اور یہ چاہا ہے کہ جینے کے ذرائع سبھی کو میسر رہیں۔ اہم بات یہ ہے کہ غریب کی زندگی کی گاڑی بھی چلتی رہے۔'(صفحہ 18)

چوتھے باب ‘شان نزول اور فہم قرآن’ میں مصنف شان نزول کی تعریف اور اہمیت واضح کرنے کے بعد مولانا امین احسن اصلاحی، مولانا مودودی، حسن البنا شہید، ڈاکٹر اسرار احمد؛ اقبال اور ڈاکٹر عرفان احمد خان کی رائے پیش کرنے کے بعد ان کا تقابل کرتے ہیں۔ مضمون کے آخر میں لکھتے ہیں: "ہمارے موضوع شان نزول اور فہم قرآن کے دائرہ میں الٰہیات، انسانیت اور وہ تمام علوم آگیے جن کا تعلق کائنات اور اس کے ثوابت و متغیرات سے ہے – پھر بچا کیا؟

کتاب کا پانچواں باب علوم القرآن کے حوالے سے منعقدہ ایک سمینار پر موصوف کے تاثرات پر مبنی ہے۔ اس میں وہ کہتے ہیں کہ 11 سمبتر 2001 کو ولڈ ٹریڈ سینٹر پر حملہ کے نتیجے میں لوگوں کے اندر قران کریم کے خریدنے کا رجحان بڑھا ہے، لوگ سمجھتے ہیں کہ قرآن ہی source of inspiration ہے ان واقعات کے لیے۔ نجات صاحب کا ماننا ہے کہ ایسا تعارف بہرحال بدقسمتی ہے، لیکن اس تعارف کے نتیجے میں کچھ مواقع بھی پیدا ہوئے۔ ان تاثرات میں نئے چلیجز کے حوالے سے قیمتی باتیں بیان کی گئی ہے۔

چھٹے باب میں قرآنی عالم دین مولانا امین احسن اصلاحی کے افادات پر بات کی ہے، ادارہ علوم القرآن نے چھ سو صفحات کا ‘امین احسن اصلاحی نمبر’ نکالا۔ یہ اسی سلسلے کا ایک طرح کا تعارف ہے، یہ باب اس لحاظ سے قیمتی ہے کیونکہ مصنف نے اس میں اپنی قیمتی آرا اور تجربات بیان کیے ہیں۔ ساتویں باب سے گیارہویں باب تک قرآن کریم کے علاوہ دیگر مضامین ہیں۔ ساتوے اور آٹھوے باب میں شاہ ولی اللہ محدث دہلوی کے حوالے سے تاریخ، سیرت، اور مقاصد پر بات کی گئی ہے۔ پروفیسر نجات اللہ صدیقی صاحب کا ماننا ہے کہ شاہ ولی اللہ محدث دہلوی کو جو چیز اپنے ہم عصروں بلکہ اگلے پچھلے بہتوں سے ممتاز کرتی ہے وہ ان کا تاریخی شعور ہے، ڈاکٹر نجات اللہ صدیقی صاحب شاہ صاحب کی بہت سی عبارات کو پیش کرنے کے بعد شاہ صاحب کے اقدامات کو یوں بیان کرتے ہیں :”بندگان خدا کو براہ راست کلام الہی کی طرف رجوع کی دعوت اور اس کے لیے قرآن کریم کاایک عوامی زبان میں ترجمہ۔ صرف مسلمانوں کو سامنے رکھنے کی بجائے سارے انسانوں کو سامنے رکھ کر سوچنا، ان کو مخاطب کرنا اور ان کے سامنے مستقبل کا ایک ایسا نقشہ پیش کرنا ( خواہ وہ کتنا ہی دھندلا کیوں نہ ہو ) جس میں سب کی جگہ ہو۔ انہوں نے مسلمانوں کو اصول اور فروع ، اہم اور کم اہم اور دین کی بنیادی باتوں اور جزئیات کے درمیان فرق کرنا سکھایا۔ ہوسکتا ہے کہ اس کے پیچھے ان کی یہ بصیرت رہی ہو کہ فروع اور جزئیات میں زیادہ تر عصر تنزیل میں عربوں کے، ان کے الفاظ میں عادات ، معلومات اور خیالات کی رعایت ملحوظ  رکھی گئی ہے۔” (صفحہ 44)۔ اس کے بعد لکھتے ہیں کہ: "کیا یہ باتیں اس بات کا ثبوت فراہم کرتی ہیں کہ وہ عصر حاضر میں تطبیق میں مخاطب قوموں ‘کے خیالات، معلومات اور عادات’ کی رعایت ملحوظ رکھنا ضروری سمجھتے تھے؟

شاہ صاحب کے نزدیک امت مسلمہ کا قرآن کریم سے رشتہ جوڑنا بہت ہی ضروری ہے، مصنف لکھتے ہیں:” یہ کتاب بچپن ہی میں پڑھانی چاہیے تاکہ سب سے پہلے اُن کے ذہن میں جوچیز آئے ،وہ اللہ کی کتاب اوراُس کے مطالب ہوں‘۔(مقدمہ۔ فتح الرحمٰن فی ترجمتہ القرآن)۔ "(صفحہ 44) مولانا عمید الزمان قاسمی کیرانوی کے حوالے سے شاہ صاحب کے عملی اقدام اور اس کے اثرات کے حوالے سے لکھتے ہیں: ”انہیں اس بات کا بخوبی ادراک تھا کہ امت کو جن امراض نے آگھیرا ہے اس کا اولین سبب قرآن سے دوری اور محرومی ہے۔ ۔۔ چنانچہ شاہ صاحب نے فتح الرحمن فی ترجمۃ القرآن کے نام سے قرآن کریم کا فارسی میں ترجمہ کیا۔ شاہ صاحب کا یہ کام کتنا وقیع اور جمود شکن تھا اس کا اندازہ اس واقعہ سے کیا جا سکتا ہے کہ شاہ صاحب کے اس اقدام سے علما اور عوام الناس کے بعض حلقے نہ صرف یہ کہ مشتعل ہوئے بلکہ بازاری غنڈوں کے ذریعہ ان کی مسجد (مسجد فتح پوری جہاں وہ رہتے تھے ) کا گھیراؤ بھی کیا گیا اور ان کی مذمتیں بھی کی گئیں۔ “

آٹھویں باب میں بتایا گیا ہے کہ کس طرح شاہ ولی اللہ محدث دہلوی مقاصد شریعت کے قائل تھے اس باب میں مقاصد کے حوالے سے ان کی تحریروں کو جمع کیا ہے، زکواۃ کے مصالح شاہ صاحب اپنی کتاب حجۃ اللہ البالغہ میں یوں بیان کرتے ہیں: "ایک مصلحت کا تعلق تہذیب نفس سے ہے۔۔۔ اور دوسری مصلحت تمدن اور اجتماعی زندگی سے متعلق ہے۔ ” (صفحہ 48)

کتاب کا نواں باب ایک مختصر تقریر پر مشتمل ہے جس میں انہوں نے اسلام اور جدید چیلنجز بیان کیے ہیں؛ کہتے ہیں: "قرآن کریم کی روشنی میں انسانی دنیا کو بنیادی طور پر دو چیلنج در پیش ہوتے ہیں جن سے کامیابی کے ساتھ عہدہ برآ ہونے میں انسان کا امتحان حیات میں کامیاب ہونا مضمر ہے۔ یوں کہئے کہ دنیا میں انسانی زندگی کی آزمائشی نوعیت جس کا ذکر قرآن کی متعدد آیات میں آیا ہے، مثلا سورہ ملک کی آیت نمبر ۲ میں : الذِى خَلَقَ المَوتَ وَالحَيوةَ لِيَبْلُوَكُمْ أَيُّكُمْ أَحْسَنُ عَمَلاً- اس آزمائش کا تعلق اجتمائی اعتبار سے بنیادی طور پر دو باتوں سے ہے۔ پہلی عدل کا قیام اور ظلم کا ازالہ دوسری فساد کو دور کر کے صلاح بر پا کرنا۔ دونوں دراصل ایک ہی جامع عمل کے دو پہلو ہیں۔”(صفحہ 53) مصنف محترم چونکہ خود اسلامک اسٹڈیز کے ساتھ وابستہ رہے ہیں۔ بقول ان کے اسلامک  اسٹڈیز کے نصاب میں مندرجہ ذیل چار چیزیں ضرور شامل ہونے چاہیے: ١۔ اساسی متون، قرآن و حدیث اور سیرت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کا مطالعہ زمانی اور مکانی سیاق میں

۲۔ اسلامی فکر و ثقافت Islamic Thought & Culture  کے نشو و ارتقاء کی تاریخ اپنے تمام متنوعات (diversities) کے ساتھ  ۳۔ آج کے زمینی حقائق مسلمانوں کی نسبت سے بالخصوص اور سارے انسانوں کی نسبت سے با العموم ، معیشت، سیاست اور تمدن سمیت۔

٤۔ مستقبل کے امکانات اور چیلنجز کے پیش نظر اسلام کی ممکنہ دین (contribution)‏۔ "(صفحہ57) ان کا ماننا ہے کہ چوتھے نقطہ پر توجہ  نہیں دی جاتی ہے۔

کتاب کا آخری باب ان کے استاد جو عالم اسلام کے عالم ربانی اور قرآنی علوم کے ماہر مولانا صدر الدین اصلاحی کی زندگی کے مختلف گوشوں کو بیان کرتا ہے؛ پر مبنی ہے۔ اس میں انہوں نے مولانا کے ساتھ اپنے تعلقات کو بیان کیا ہے۔ جب ڈاکٹر نجات اللہ صدیقی صاحب نے انجینئرنگ کی تعلیم ترک کی اور ثانوی درسگاہ میں دین کی بنیادی تعلیمات حاصل کرنے کے لئے طالب علم ہوئے تو مولانا صدر الدین اصلاحی صاحب ان کے استاد مقرر ہوئے۔ اس باب میں انہوں نے مولانا کے طریقہ تدریس پر بھی بات کی ہے، اس باب میں انہوں نے مولانا اصلاحی کی شہکار کتاب ” دین کے قرآنی تصور”اور ” اساس دین کی تعمیر "پر بھی بات کی ہے،۔ دین کا قرآنی تصور کے بارے میں لکھتے ہیں:”دین کا قرآنی تصور ” نامی کتاب کا کلیدی نکتہ یہ ہے کہ انسان کا خدا سے تعلق مشق پر مبنی ہو تو وصال اور فنافی اللہ کی طلب پیدا ہوتی ہے۔ شریعت کی پابندی اور اقامت دین کی جدوجہد ثانوی درجہ پاتی ہیں اور فی الجملہ دنیا اور اس سے وابستہ رشتوں سے منھ موڑنے کا رجحان زور پکڑتا ہے۔ عشق کے جذباتی تعلق کی بجائے قرآن بندے کو خدا سے تعقل اور تدبر پر مبنی اطاعت اور محبت کا رشتہ استوار کرنے کی دعوت دیتا ہے۔ محبت الہی دنیا سے منھ موڑنے کی بجائے اس کی ایسی تعمیر نو پر اکساتی ہے جو اللہ کو پسند ہو۔ یہ کتاب پہلی بار 1935 کے لگ بھگ چھپی جب میں ثانوی کا طالب علم اور مولانا صدر الدین صاحب کا شاگرد تھا۔ اس وقت بھی میرا احساس تھا اور اب بھی میراخیال ہے کہ یہ نکتہ بہت اہم ہے۔ عجمی اثرات سے بھر پور تصوف کے سائے معاصر اسلامی فکر اور برصغیر ہند میں اس کی تعبیرات پر بہت گہرے رہے ہیں جن کے سبب تحریک اسلامی کو بہت سی غلط فہمیوں بلکہ بدگمانیوں سے سابقہ پڑتا رہا ہے۔ اس کا اثر قدرتی طور پر جدید تعلیم یافتہ طبقہ پر بھی پڑا ہے جو روایتی علما اور صوفیا کی سند سے محروم بلکہ ان کی نظر میں مشکوک تحریکیوں کی قیادت قبول کرنے میں ہچکچاہٹ محسوس کرتا رہا۔ نتیجاً کچھ لوگوں نے تبلیغی جماعت کی آغوشِ عافیت میں پناہ لی اور کچھ نے دنیا کے معاملہ میں دنیا داروں کے ساتھ اور دین کے معاملہ میں دین داروں کی بات ماننے کے قدیمی نسخہ پر عمل کیا۔ تحریک اسلامی نے اسلامیان ہند کے افکار بھلے بنیادی طور پر بدل دیئے ہوں لیکن اسے دامے، درمے، قدمے سخنے تعاون صرف ایک محدود طبقہ کا حاصل ہو سکا جس میں نچلے مڈل کلاس کی

اکثریت ہے۔ "(صفحہ 66)مولانا کی شہکار تصنف ” اساس دین کی تعمیر” کے حوالے سے  لکھتے ہیں:”مولانا صدرالدین صاحب کی ایک اور اہم کتاب اساس دین کی تعمیر ہے۔ خوش قسمتی سے جس زمانہ میں مولانا اس کے دوسرے اضافہ شدہ ایڈیشن کے لیے نظر ثانی کر رہے تھے تو میں ان کے بہت قریب تھا۔ وہ چاہتے تھے کہ تحریک میں دین کے روحانی پہلو بالخصوص عبادات کی کیفیت کے بارے میں جو عدم توازن پیدا ہو گیا ہے اور تاریخی اسباب کی بنا پر مولانا مودودی کے فکر میں سیاسی عنصر کو جو مبالغہ آمیز اہمیت حاصل ہو گئی تھی، اس کی تلافی کی جائے۔ چنانچہ اساس دین کی تعمیر نامی کتاب کے نظر ثانی اور اضافہ شدہ ایڈیشن میں اس کوشش کی جھلک صاف دیکھی جاسکتی ہے۔ (مثال کے طور پر اسلامی نظام کا غلبہ ونفاذ کہیں اصلاً اس لیے تو مطلوب نہیں ہے کہ اس سے دنیا کی الجھی ہوئی سیاسی اور معاشی گتھیاں سمجھ جائیں گی یا وقت کے غالب نظاموں میں اس کے آجانے سے ہمارا قومی سر افتخار اونچا ہو جائے گا؟ (اساس دین کی تعمیر ، صفحہ ۱۳۹، دہلی، مرکزی مکتبہ اسلامی پبلشرز، صفحہ 67) اس باب میں مصنف نے انتخابی سیاست اور جماعت اسلامی ہند پر بھی مولانا کی رائے پیش کی ہے۔

الغرض اس مختصر کتاب میں قرآنیات کے حوالے سے نہایت ہی اہم پہلوؤں کو اجاگر کیا گیا ہے۔ کتاب اعلیٰ طباعت پر القلم پبلیکیشنز نے چھاپی ہے۔ قیمت 70 روپے بھی مناسب ہے۔ کتاب فون نمبر 9906653927 سے حاصل کی جا سکتی ہے۔

2 تبصرے
  1. محمد سلمان مکرم کہتے ہیں

    بہت مفید اور فکر انگیز تبصرہ کے لںٔے بہت شکریہ جناب

  2. محمد افضل لون کہتے ہیں

    دل ❤️ کی عمیق گہرائیوں سے مبارکباد ۔ اللّٰہ تعالیٰ آپ محترم کو اور زور قلم عطاء فرمائے آمین ثم آمین یا رب العالمین ۔ آپ محترم کی ذات سے ایسے ہی شاندار اور جاندار تبصرے کی امید تھی ۔ جزاکم اللہ خیرا کثیرا کثیرا ۔ ایک مؤدبانہ اور مخلصانہ گزارش ہے کہ اپنی تحریر کا پروف ریڈنگ پوری دلجمعی سے کریں ، عام لوگوں کے متعلق تو ایسی املا کی غلطیاں برداشت کی جاسکتی ہیں مگر آپ محترم کی ذات کے لیے یہ شایانِ شان نہیں ہے ۔ میری تصحیح فرمائیں کہ کیا مولانا صدر الدین اصلاحی کی کتاب دین کا قرآنی تصور 1935 میں جماعت اسلامی کے وجود میں آنے سے پہلے شائع ہوئی تھی ؟
    مرحبا آپ محترم کے قلم اور احساسات پر ، واقعی اس پر رشک کیا جاسکتا ہے ۔ اللّٰہ تعالیٰ آپ محترم کو سلامت رکھے آمین ثم آمین یا رب العالمین

تبصرے بند ہیں۔