کیا کہوں تم نے کیا کہا تھا مجھے

افتخار راغبؔ

 کیا کہوں تم نے کیا کہا تھا مجھے

صرف باتیں تھیں کیا پتا تھا مجھے

۔

کم سمجھتا تو کوئی بات نہ تھی

اس نے کم تر سمجھ لیا تھا مجھے

۔

 کاندھا دینا پڑا ہے خود کو آج

حیف یہ دن بھی دیکھنا تھا مجھے

۔

 اپنے دل سے بھی پوچھ کر دیکھو

کیا کوئی بھی نہ پوچھتا تھا مجھے

۔

جب لگے گی ہوا زمانے کی

رت بدل جائے گی پتا تھا مجھے

۔

 ایسی آواز بن چکا تھا میں

ایک ہی شخص سن رہا تھا مجھے

۔

مہر بندی تھی عہد کی لب پر

اپنے اندر ہی چیخنا تھا مجھے

۔

 آپ کی فوج کے مقابل تھا

آپ ہی خود کو روندنا تھا مجھے

۔

 رکھ کے کاندھوں پہ اعتبار کی لاش

خون آلود لوٹنا تھا مجھے

۔

 آستینوں سے بے خبر راغبؔ

دوست داری کا واہمہ تھا مجھے

تبصرے بند ہیں۔