کیا کہوں کیا نہ کہوں!

ابوفہد

 (نئی دہلی)

مسلم پرسنل لاء بورڈ اور مولانا سلمان الحسینی ندوی صاحب کے مابین پیدا ہونے والے حالیہ قضیے  اور اس کے تصفیے سے ایک بڑافائدہ بھی  ہوااور ایک بڑا نقصان   بھی۔

نقصان یہ ہوا کہ مسلمانوں کے سب سے بڑے متحدہ پلیٹ فارم کی حیثیت عرفی کو زک پہنچا اور اس کے کئی معززممبران کے دامن تارتار  اور دستاریں داغدارہوئیں ۔صدر پرسنل لاء بورڈ جو عالمِ اسلام کی معزز ہستی ہیں اور انہیں باربار بورڈ کی صدارت کے لیے  نامزد کیا جانا خود اس با ت کی دلیل ہے کہ صدر محترم آج بھی امت کے لئے مرجع ہیں ، ان کی اس امیج کو بھی تھوڑا یا بہت نقصان ضرور پہنچا ہے۔ خود مولانا سلمان ندوی صاحب کی شبیہ بھی بہت خراب ہوئی  اور جن لوگوں کو بلکہ میں کہوں گا کہ جن طبقات کو ان سے پہلے سے بعض فقہی اور مسلکی مسائل کو لے کر پرخاش تھی ان کو ایک غیر مترقبہ موقع  ہاتھ لگ گیا  اور انہوں نے اس موقع کو بھنانے کی پوری پوری کوشش کی۔ اس معاملے میں وہ اپنی شرافت کو بھی بھول گئے۔ کوئی بھی شریف آدمی جانتے بوجھتے، برہنہ لفظوں کا استعمال نہیں کرتا حتیٰ کہ دشمن کے لیے بھی  نہیں اور اُس وقت بھی نہیں جب وہ بہت زیادہ غصے میں ہوتا ہے۔ کیوں ؟ کیونکہ اسے اپنی عزت نفس  اور عالمانہ شان کا ہمیشہ خیال رہتا ہے اور وہ جانتے بوجھتے برہنہ لفظوں کے استعمال سے گریز کرتا ہے مگر مولانا کو لعن طعن کرنے کے معاملے میں ، میں کہوں گا کہ ان کے  بدخواہ خود اپنی حیثیت عرفی  کو بھی بھول گئے اور مولانا کے لیے ایسے ایسے جملے اور الفاظ لکھے کہ نہ مجھ میں انہیں لکھنے کی تاب ہے اور نہ ہی آپ کے اندر انہیں سننے کی سکت۔

اور اچھی بات یہ ہوئی کہ مسلمانوں کا ایک متحدہ موقف حکومت، عدالت اور اکثریتی طبقے کے سامنے آ  گیا کہ مسلمان بابری مسجد کے معاملے میں کوئی سمجھوتہ کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں ۔ اور مولانا علی میاں مرحوم کا وہ جواب جوانہوں نے جناب کلب صادق صاحب کو دیا تھا جب انہوں نے مولانا کے آخری ایام میں مسجد سے دستبرداری کی بات کی تھی، ایک بار پھر بورڈ کے پلیٹ فارم سے ملک کے سامنے آگیا ہے۔اس وقت مولانا نے کہا تھا کہ  اگر ایسا ہوگا تو ایک  سیکولرملک میں یہ بری مثال قائم ہو گی اور پھردیگر مساجد اور مذہبی مقامات سے دستبرداری کے لئے قانونی دائرے سے باہر تصفیے کی بنیاد بن جائے گی۔ لیکن عدالت سے فیصلہ ہونے پر، یہ ضمانت رہے گی کہ آئندہ بھی دوسری مساجد کے سلسلے میں عدالت سے رجوع کرنا ہوگا اور قانون سے فیصلہ ہوگا، بھیڑ اور آستھا سے نہیں۔

سید قاسم رسول الیاس صاحب نے بھی اپنے انٹرویو نما مضمون میں  یہ بات دہرائی ہے کہ اس سارے قضیے سے  بورڈ اکا ایک اہم  اور غیر متزلزل موقف حکومت کے سامنے آگیا ہے۔اور اکثریتی طبقے کے سامنے بھی۔اور یہ بات بڑی حد تک درست بھی ہے اگر اہم بورڈ، بورڈ کے ارکان اورخاص کر مولانا سلمان ندوی صاحب  کے خلاف اپنوں اور غیروں کی طرف سے روا رکھی جانے والی فضیحت کو نظرانداز کرکے سوچیں ۔ مگر اب بورڈ ہی کے بعض ممبران کی جانب سے یہ بات بھی سامنے آرہی ہے کہ بورڈ اپنا مقدمہ صحیح ڈھنگ سے نہیں لڑرہا ہے۔ اگر ایسا ہے تو یہ سلمان ندوی صاحب والے بکھیڑے سے کئی گنا زیادہ  بھیانک اور گمبھیر بات ہے۔

تیسری ایک اہم بات میرے ذہن میں اس وقت آئی جب میں مولانا علی میاں ندوی مرحوم کا ایک خطاب سن رہا تھا۔ جس میں وہ فرمارہے تھے کہ بورڈ مسلمانوں کا سب سے بڑا متحدہ پلیٹ فارم ہے اور اس نے  ابھی تک  خود کوسیاسی  عزائم، سیاسی افراد اور سیاسی جماعتوں کے طریق کار اور خود کو ان کے ہاتھوں یرغمال بنالیے جانے سے بچائے رکھا ہے۔ اُس وقت میرے ذہن میں یہ بات آئی کہ کم از کم اب یہ بات کہنا ممکن نہیں رہا یا پھر یہ کہ اتنے وثوق سے کہنا ممکن نہیں رہا کیونکہ اب بورڈ پر سیاسی اکھاڑہ بازوں کی گرفت مضبوط ہورہی ہے۔ اور یہ تکلیف دہ بات ہے۔سیاسی بازگروں سے رائے اور مدد لینا کچھ غلط نہیں مگر انہیں اپنی صفوں میں گھسانا ضرورمضر ہے اور اگر مضر نہیں ہے تو پھر اکثر مذہبی جماعتوں کو سیاسی عزائم، سیاسی شخصیات اور سیاسی پلیٹ فارمز سے پرہیز کیوں ہوتا ہے۔ خاص کر اسد الدین اویسی صاحب کی رکنیت بورڈ کو سیاسی عزائم، طریق کار اور سیاسی  کرتب بازیوں  سے قریب لے آئی ہے۔ یہ عجیب بات ہے کہ وہ اس پلیٹ فارم کو اپنی اسی طرح کی ’بولی‘ کے لیے استعمال کرنے کے لیے  خود کو آزاد سمجھتے  ہیں جس ’بولی ‘کو وہ اپنے سیاسی  گلیاروں اوراکھاڑوں کے لیے روا رکھتے ہیں اور جس کے لیے وہ خاصے نیک نام بھی ہیں اورشاید  بدنام بھی۔

یہ اچھا ہواکہ مولانا سلمان الحسینی ندوی صاحب نے اپنی موقف سے جزوی طور پر روجوع کرلیا ہے اور یہ اعلان کیا ہے کہ وہ عدالت کے فیصلے کا انتظار کریں گے، بالکل اسی طرح جس طرح بورڈ اور باقی مسلمان عدالتِ عالیہ کے فیصلے کے منتظر ہیں ۔تو اب کم از کم یہ ہونا چاہئے  کہ اس باب کو بند ہونا چاہئے۔

ایک سوچنے والی بات یہ بھی ہے کہ مولانا نے جو کچھ بھی کیا اس میں کچھ بھی انوکھا یا عجوبے جیسا نہیں تھا۔نمبر ایک: انہوں نے مسجد کی جگہ مندرکو دینے کی بات کی اور آپ جانتے ہیں  کہ ایسا بہت سارے لوگ کرچکے ہیں اور کرتے رہے ہیں ، بلکہ کررہے ہیں ۔ان میں سے کئی لوگوں نے اپنی رائے سے رجوع کرلیا، رسماً ہی سہی مگر کرلیا، جیسے کلب صادق صاحب۔نمبر دو: انہوں نے شری شری روی شنکر سے بات کی۔اور ایسا کرنے میں بھی وہ تنہا نہیں ہیں ، بورڈ کے اور بھی کئی ممبران ان سے یا دیگر سرورآوردہ شخصیات  سےپہلے بھی مل چکے ہیں ۔نمبر تین: انہوں  نے مسجد کی منتقلی کے لئےفقہی حوالے بھی دئے اور شاید آپ کو یہ بات حیرت میں ڈال دے کہ ایسا بھی کئی لوگ کرچکے ہیں ۔ گزشتہ دنوں میں  نے ماہنامہ’ اللہ کی پکار‘ دہلی کا ایک اداریہ بھی پیش کیا تھا۔ جس میں انہوں نے فقہی دلائل دئےہیں  کہ مسلمان مسجد سے دستبردار ہوسکتے ہیں ۔اور اس میں کوئی شرعی برائی نہیں ہے۔

مولانا سلمان  الحسینی صاحب کے  موقف کے بہت زیادہ واضح بلکہ جارح انداز میں سامنے آنے سے یہ بات بھی سامنے آئی کہ ملک میں اور بھی بہت سارے افراد ہیں جو یہی موقف رکھتے ہیں مگر چونکہ مسجد سے غیر عدالتی دستبرداری   کے خلاف امت اب تک متحد چلی آئی ہے اس لیے انہوں نے اپنے اس موقف کا کھلے بندوں اظہارکرنے سے گریز کیا۔

یہاں سوال یہ بھی سامنے آتا ہے کہ آخر مولانا سلمان صاحب کو یہ موقف سر بازا رکھنے کے لیے کس چیز نے اکسایا۔ آخروہ محرکات کیا ہیں جو اس موقف کے اظہار کا باعث بنے۔ کیونکہ ایسا بھی نہیں ہے کہ مولانا کو یہ خیال اچانک سوجھ گیا، بیٹھے بٹھائے فقہی حوالے یاد آگئے، کورٹ پر عدم اعتماد کا گراف اچانک بہت اوپر چلا گیا اور اچانک ہی مولانا کو مسلم نسل کشی کا درد ستانے لگا۔ کیونکہ ان میں سے کوئی بھی معاملہ یا قضیہ اتفاقی اور وقتی نہیں ہے۔ لہذا ان کی فکر بھی اتفاقی اور وقتی نہیں ہوسکتی۔ اس لیے یہ  کہنا غلط نہ ہوگا کہ مولانا کو اس حد تک اکسانے والے داعیات اور محرکات کچھ اور ہی ہیں ۔ اور امت جو کچھ سن اور دیکھ رہی ہے وہ الگ اور بہت مختلف کوئی چیز ہے۔

 میں دو چیزوں کو نام دوں گا۔ ایک بورڈ کے بعض ممبران  کی ایک دوسرے کے لیے  عدم تعاون  کی روش اور غیر کے مقابل اپنا قد بڑاکرنے کی حد سے بڑھی ہوئی فعالیت اور دوسرے خود مولانا  کی مضطرب اور انفعالی طبیعت۔ اور اس طبیعت کو سہارا دیتی ہے ان کے اندر بہتات کے ساتھ موجود  اظہار کی جرأت۔ آپ جانتے ہیں کہ مولانا نے اور بھی کئی قدم بے باکانہ اٹھائے ہیں ۔ اور اپنے سرپرستوں کی موجودگی میں اٹھا ئے ہیں ۔ اور یہ جانتے بوجھتے بلکہ دیکھتے  اور تجربہ کرتے ہوئے اٹھائے ہیں کہ سب کو ساتھ لے کر چلنے کی پالیسی، فقہی اور مسلکی اختلافات کے تعلق سے آخری حد تک برداشت بلکہ رواداری ہی ان کا منہج اور طریقہ رہا ہے۔ انہوں نے جلد بازی اوربیان بازی پر ہمیشہ ہی غوروفکر اور تحمل ورواداری کو ترجیح دی۔خاص کر مولانا علی میاں ندویؒ کا دور جو دارالعلوم ندوۃ العلماء کا سب سے روشن دور بھی رہا ہے کم از کم اسی فکر ومنہج کی غمازی کرتا نظر آتا ہے۔

یہ بھی اپنے آپ میں خاصی تعجب خیز بات ہے کہ مولانا سلمان صاحب بورڈ کے موجودہ صدر کو اپنا سرپرست بھی تسلیم کرتے ہیں اور ان کی اجازت اور مشوروں کے بغیر اتنے بڑے فیصلے بھی لے لیتے ہیں ۔ اورجب انہوں نے بوڑد کو نشانہ بنایا اور یہ کہا کہ بورڈ کو تحلیل کردینا چاہئے اور نیا بورڈ تشکیل دینا چاہئے تو کیا  یہ اپنے سرپرست کے خلاف بیان دینا نہیں ہوا۔بالکل ہوا کیونکہ ا ن الزامات کی سب سے زیادہ زد تو بورڈ کے صدر پر ہی پڑتی ہے۔

مجھے تو ایسا لگتا ہے کہ بورڈ مولانا سے جو اس قدر نالاں ہوا کہ ان کی رکنیت ہی  ختم کردی، یہاں تک کہ انہیں سمجھانے اور منانے کی بھی کوئی کوشش نہیں کی اور نہ ہی بورڈ کے بعض ممبران ایسا چاہتے ہیں ، جیسا کہ خود سید قاسم رسول الیاس صاحب کے مضمون سے ظاہر ہے۔ ان کا ماننا ہے کہ مولانا بہت آگے نکل گئے اور اب بورڈ کے دروازے ان کے لیے شاید ہی کھل سکیں ۔تو میرے خیال میں  یہ محض اس حالیہ قضیے کی وجہ سے نہیں ہوا ہے بلکہ بورڈ کے کئی افراد ان سے پہلے ہی سے نالاں تھے۔ وجوہات کئی ساری ہوسکتی ہیں اور ظاہر سی بات ہے کہ وہ ان وجوہات کو سربازار رکھنا نہیں چاہیں گے، تاہم اس حالیہ قضیے نے انہیں ایک موقع فراہم کردیا کہ وہ اپنے ذاتی عزائم اور پرخاش کو راہ دینے کے لیے مولانا کے خلاف سخت ایکشن لیں ۔ اور انہوں نے یہ ایکشن لے لیا۔ اسد الدین اویسی  صاحب شاید ان سے پہلے سے بھی ناراض تھے۔ یاد ہوگا کہ انہوں نے  جے پور میں مسلم پرسنل لا ء بورڈ کی میٹنگ میں ظفر سریش والا   کی آمد کے خلاف ہنگامہ کیا تھا اور  پہلی صف سے کھڑے ہوکر اسٹیج پر موجود افراد سے  پوچھا تھا کہ ایسےآدمی کو اندر کس نے آنے دیا۔ اوریہ  صفائی دینے اور خلاصہ کرنے کے باوجود بھی کہ انہیں  بورڈ کی طرف سے مدعو نہیں کیا گیاتھا  اویسی صاحب دیر تک چلاچلا کر بولتے رہے۔بعد میں ایک نیوز چینل کو انٹر ویو دیتے ہوئے خود سریش والا نے خلاصہ کیا تھا کہ وہ  سلمان الحسینی ندوی  سے ملاقات کے لیے پانچ منٹ کے لیے میٹنگ میں آئے تھے۔کوئی وجہ نہیں ہے کہ یہ تسلیم کرلیا جائے کہ یہ ایک سادہ سا واقعہ اور معمولی سی بات تھی بلکہ اس سے پتہ چلتا ہے کہ بورڈ میں کھل بلی پہلے سے ہی مچی ہوئی ہے۔

مولانا نے  اپنے موقف کے تعلق جو دلائل دئے ہیں انہیں بھی بالکلیہ نَکارنا مشکل ہے۔ ان کے دلائل میں واقعیت موجود ہے اور کئی بار تو مجھے بھی ایسا محسوس ہوا جیسے معاملہ بین بین ہے، بابری مسجد کے معاملے میں  عدالت کے باہر تصفیے  کی بات بھی ایک بار درست لگتی ہے بطور خاص اس وقت جب ہم مولانا ندوی  کے دلائل، خاص کر حالیہ نشریات کے حوالے سے ان کے دلائل سنتے ہیں ۔ اورعدالت پر اعتماد کرنے والی بات بھی درست معلوم ہوتی ہے کیونکہ  اس میں  امکان کی ایک دنیا کم از کم آباد تو ہے۔ امید کی ایک کرن تو ہے کہ کیا پتہ مسجد مل ہی جائے، اسی جگہ مل جائے اور پوری کی پوری مل جائے، آخر انصاف تو عدالتوں سے پہلے بھی مل چکا ہے۔ گرچہ ناانصافیاں بھی ملی ہیں جیسے الٰہ آباد کی ہائی کی طرف سے جو کچھ ملا، اسے لوگوں نے ناانصافی کی ہی ایک شکل قرار دیا اور اسی لیے  اس کے فیصلے کو سپرم کورٹ میں چیلنج کیا گیا ہے۔تو  کچھ نہ کچھ مضرتیں اور  کچھ نہ کچھ فوائد دونوں  صورتوں میں  موجود ہیں ۔

مگر عدالت سے باہر تصفیے  کے تعلق سے ایک سوال کا جواب مجھے ابھی تک کسی بھی تحریر یا تقریر میں نہیں ملا ہے، یہاں تک کہ خود مولانا ندوی صاحب کے کسی بیان یا تقریر میں بھی نہیں ۔ یہ سوال میں نے اپنی دوسری تحریروں میں بھی اٹھایا تھا ۔ دوسرے اور بھی کئی لکھنے والوں نے یہ سوال اٹھایا ہے۔ سوال یہ ہے کہ آخر ملک کے اکثریتی طبقے  کو کس بات نے مجبور کیا کہ عدالت کے باہر فیصلہ کر لیا جائے۔ اور وہ ایسے وقت میں جب مندر کی تعمیر کا سوال اٹھانے والوں کو حکومت  کا بھی بھر پور تعاون حاصل ہے۔ کیا اس بات نے مجبور کیا ہے کہ وہ  مندر بھی بنانا چاہتے ہیں اور مسجد کی شہادت کا داغ بھی دھونا چاہتے ہیں ۔ یا اس بات نے کہ انہیں یقین ہے کہ عدالت کا فیصلہ ان کے حق میں آنے والا نہیں ہے۔ اور ایسی صورت میں مندر کی تعمیر مشکل میں پڑجائے گی۔ آخر موجودہ سرکاراور ہندتوا کے سامنے ایسی کونسی بڑی مجبوری ہے کہ جس طرح دھونس دھاندلی کے ساتھ مسجد شہید کی گئی اسی طرح دھونس دھاندلی کے ساتھ مندر کی تعمیر نہیں کی جاسکتی۔کیا وہ اس فارمولے پر عمل کرنا چاہتے ہیں کہ سانپ بھی مرجائے اور لاٹھی بھی نہ ٹوٹے۔اب اس کے ساتھ کورٹ کے اس بیان کو بھی یاد کریں جس میں کہا گیا ہے کہ بابری مسجد کا تصفیہ کورٹ سے باہر کرلیا جائے تو بہتر ہوگا۔عمومی طورپر کورٹ ایسا کوئی بیان جاری نہیں کرتا، کیونکہ کورٹ میں مسئلے اسی  وقت  لائے جاتے ہیں جب باہر ان کا تصفیہ ناممکن ہوجاتا ہے۔اب سے سات آٹھ سال پہلے تک تو یہ تدبیر سمجھ میں آتی تھی مگر اب جب ہندتوا بہت زیادہ طاقتور ہوگیا ہے اور اس کی پشت پر پوری حکومت کھڑی ہوئی ہے، ایسے وقت میں عدالت کے باہر باہم گفت وشنید کے ساتھ کسی تصفیے کی تدبیر سمجھ سے باہر ہے۔

اس معاملے کاعدالت سے باہر تصفیے کا  صحیح وقت وہی تھا جب مولانا علی میاں مرحوم نے تصفیےکی  ایک راہ نکالی تھی اور درست بات تو یہ بھی ہے کہ تصفیے کا ماڈل بھی وہی درست تھا۔کیونکہ  اس میں مسجد بھی اپنی جگہ قائم رہ سکتی تھی اور  مندر کے لیے جگہ دے کر برادران وطن کے جوش و خروش کو بھی کسی نہ کسی حدتک ٹھنڈا کیا جاسکتا تھا۔

ملک کی موجودہ سرکار کو جتنا فائدہ اس  قضیے سے  ملاہےشاید اتنا فائدہ اسے کسی اورقضیے سے نہیں مل سکتا تھا۔ یہ کہنا شاید غلط نہ ہو کہ ایک اکیلے اسی مسئلے نے ایک معمولی پارٹی کو ملک کی سب سے بڑی اور مضبوط پارٹی بناکر کھڑا کردیا۔ ہندوتوا کی علمبراد تنظیموں کے لیے یہ قضیہ ایسے ہی ہے جیسے جسم وجان کے لیے خون۔ملک میں آزادی کے بعد ہونے والے دنگے فساد کی جو ایک طویل اور بھیانک تاریخ ہے ایسا نہیں ہے کہ اس کے تار کسی نہ کسی طورپر ملک کے اِ س سب سے زیادہ حساس مسئلے سے نہیں ملتے۔ اور ایک موجودہ سرکار ہی کی کیا تخصیص ہے، ہر سیاسی پارٹی اور ہر سیاسی آدمی نے اب چاہے وہ مسلمان ہو یا غیر مسلم ، سرراہ جلتے الاؤ میں اپنی اپنی روٹیاں ضرور سیکی ہیں ۔بابری مسجد کے اس قضیے نے خدا جانے کتنے سیاسی  ومذہبی لیڈر پیدا کئے۔ جو چھوٹے تھے ان کا قد کاٹھ بڑا کیا اور جو بڑے تھے انہیں دیوتا بنادیا۔ حالانکہ یہ بھی درست ہے کہ کتنے برباد بھی ہوئے۔

مگر اب عدالت کے باہر جس تصفیے کی بات چل رہی ہے یا دوسرا فریق جس قسم کا تصفیہ چاہتا ہے وہ دراصل تصفیہ نہیں بلکہ وہ ہر حال میں رام مندرکی تعمیر کو لے کراقلیتی طبقے کو رام کرنا یا اسے آمادہ کرنا ہے۔ تاکہ 2019میں یکبارگی دوجشن منائے جاسکیں ۔ ایک مندر کی تعمیر کا جشن اور دوسرا سرکار بنانے کا جشن ۔ کیونکہ آج اگر سرکاری طورپر مندر بنانے کاکام شروع ہوگیا تو  ظاہر سی بات ہے کہ حکومت موجودہ سرکار ہی  کی بنے گی۔ جب محض وعدے پر سرکار بن سکتی ہے تو وعدہ نبھادینے کی صورت میں تو بدرجۂ اولیٰ بن سکتی ہے۔

پہلے وقتوں میں بڑے اپنے چھوٹوں کو سمجھایا کرتے تھے’’ جب پوری جاتی دیکھ تو آدھی کرلے بانٹ‘‘ یعنی پوری  روٹی / جائدادجانے دینے سے تو یہی بہتر ہے کہ آدھی چلی جائے اور آدھی رہ جائے اور بیشک عدالت سے باہر تصفیے کی اس صورت میں جو مولانا علی میاں مرحوم نے پیش کیا تھا آدھی سے بھی زیادہ مل رہی تھی۔ یہ کتنی عجیب بات ہے کہ  ہم اس وقت آدھی بچانے پر راضی نہ ہوئے اور شایدیہ  اسی کا نتیجہ ہے کہ ہم میں سے بہت سارے لوگ آج پوری جانے دینے پر راضی ہورہے ہیں ۔اور ابھی کل کس نے دیکھا ہے۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔