سر میں جتنی تھی سمائی سر گرانی ہو چکی
عرفان وحید
سر میں جتنی تھی سمائی سر گرانی ہو چکی
ختم میری داستاں اے یارِ جانی ہو چکی
.
آج پھر طوفاں مچلتے ہیں سرِ مژگاں بہت
آج پھر اُس مہرباں کی مہربانی ہو چکی
.
سننے والوں میں نہیں باقی رہے دو چار بھی
جائیے بھی آپ کی جادو بیانی ہو چکی
.
جب در و دیوارِ ہستی ہی شکستہ ہوں تمام
ہوچکی پھر ایسے گھر کی پاسبانی ہو چکی
.
بن گیا اندوہِ معنی تھا جو اک حرفِ نشاط
قصۂ کوتاہ، پوری یہ کہانی ہو چکی
.
ایک ندّی ہے بدن صحرا میں سرگشتہ ہنوز
ریگ زارِ روح میں اک پیاس پانی ہو چکی
.
رقص باقی ہے اجل کا، ہو چکا جشنِ حیات
اک کہانی ہو رہے گی، اک کہانی ہو چکی
.
اب کہاں رہتا ہے کوئی مجھ میں اک مدت ہوئی
سنتے ہیں عـــــرؔفان کی نقلِ مکانی ہو چکی
تبصرے بند ہیں۔