کیا ہم زندہ قوم ہیں؟

شیخ فاطمہ بشیر

گذشتہ دنوں آنکھوں نے ایسا واقعہ دیکھا جس نے ضمیر کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا۔ ہوا یوں ایک نوجوان نے ایک کوّے کو پتھروں سے مار کر ہلاک کردیا۔ نتیجتاً پوری برادری نے آواز کے ذریعے علاقے کوسر پر اٹھا ڈالا۔ بے انتہا شور اور کائیں کائیں نے دور دور رشتہ داروں تک اس بات کی خبر پہنچادی۔ اور ہر دیوا ر، منڈیر اور چھتوں پر کوؤں کی فوج نظر آنے لگی۔ایک کوّے کی موت نے ان کی پوری برادری کو اپنی جگہ سے ہلاکر رکھ دیا۔ لیکن ذرا سوچئے۔۔!!ملکِ عزیز میں پونے کے محسن شیخ کے قتل سے لے کر معصوم 16 سالہ حافظ جنید تک کم و بیش 25 سے زائد جانیں ظلم و تشدد اور بربریت کا شکار ہوکر دَم توڑ چکی ہیں ۔ گئو رکھشک گائے کے تقدس میں جانوں کی بے حرمتی کرنے پر ڈٹے ہوئے ہیں ۔ انسانیت پامال ہورہی ہیں ۔ پانی مہنگا اور جانیں سستی ہوگئی ہیں ۔ ہر طرف خوف و ہراس کا ماحول ہے۔

غور طلب بات ہے کہ ان معصوموں کی اموات سے کتنے لوگ فکرمند ہیں ؟ ہم میں کتنے لوگوں نے ان کے لئے دعائیں کیں ؟ ہم میں کتنے  لوگوں نے اپنی ذات کو مقتول اور ان کے وارثین کے مقام پر رکھ کر اس درد کو محسوس کیا؟ درحقیقت ہماری آنکھوں میں ان مظلومین کے لئے آنسو کا ایک قطرہ نہیں ۔ ہمارے دل صرف وقتی طور پر ان کے لئے سوگوار ہوتے ہیں اور پھر زندگی معمول کے مطابق اپنی ڈگر پر رواں دواں ہوجاتی ہے۔ حدیثِ مبارکہ کا مفہوم ہے کہ ’ظلم اور ظالم کی مدد کی جائے۔‘لیکن آج ہم گھروں میں چین کی نیند سوتے ہیں اور انہی اوقات میں ہمارے باپ اور بھائی شہید ہوجاتے ہیں ۔ بہنیں بیوہ اور بچے یتیمی کے دَر پر آکھڑے ہوتے ہیں۔ ہم ان کی تکالیف نظر انداز کرتے ہوئے گھروں میں عیش و عشرت کی زندگی بسر کر رہے ہیں ۔ قدم قدم پر حالات خطرے کا سائرن بجارہے ہیں لیکن ان سے نپٹنا تو درکنار ، ان آوازوں پر ردِّعمل کے لئے بھی ہم تیار نہیں ہیں ۔ہماری غیرت و حمیت کہاں چلی گئی؟ کیا آج ہم منتظر ہیں کہ خدانخواستہ ہمارے ہی گھر کے کسی فرزند کو پیٹ پیٹ کر قتل کردیا جائے یا دروازوں پر اپنوں کی لاشیں ہماری آہ و فغاں اور آنسوؤں کی منتظر ہو؟

لیکن ایک موہوم سی امید ہے اور جسم میں زندگی کی تھوڑی سی رمق باقی ہے، کیونکہ جگہ جگہ اس ظلم کے خلاف ’ناٹ ان مائی نیم‘ کے بینر تلے انصاف کی صدائیں گونج رہی ہیں ۔اسٹاپ لانچنگز کے مطالبات ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا یہ حساسیت آنے والا مستقبل تاریک گھٹاؤں میں لے جائے گی یا ہم روزِ روشن کی تابناک فضاؤں میں سانس لے سکیں گے؟صدائے انصاف کا چراغ تو جل رہا ہے لیکن اگر اس ٹمٹماتے چراغ کو زندگی کی نوید نہ سنائی گئی، عوام و خواص اپنے سروں پر کفن سجائے اس جھنڈے تلے اکھٹا نہ ہوئے اور اتحاد کا مظاہرہ نہ کیا تو ممکن نہیں کہ ہم اس چراغ کو دوبارہ روشنی بخشنے کے قابل ہوسکے۔

دشمن صف بستہ ہے، ہتھیار سدھائے جاچکے ہیں ، منصوبہ بندی ہوچکی ہے اور تاریخ ظلم و بربریت اور تشدد وہلاکت کی دل دہلا دینے والے حقائق تحریر کرنے کے لئے تیار ہے۔ اگر آج ہم نے اس ظالمانہ رویہ کے خلاف اٹھی بازگشت کو اپنی قلمی و تقریری صلاحیتوں ، دلیری و شجاعت کے میناروں ، جرأت و بیباکی کی داستانوں اور جانی و مالی قربانیوں کے ذریعے سینچ لیا اور بنیانٌ مرصوص کی عملی صفات اپنے اندر پروان چڑھالی تو بعید نہیں کہ اس امّت کا ذرّہ ذرّہ ماہتاب بن جائے اور اقبال کے یہ اشعار صداقت کی دلیل بن جائے ؎

  تری دعا سے قضا تو بدل نہیں سکتی

مگر ہے اس سے یہ ممکن کہ تو بدل جائے

  تری خودی میں اگر انقلاب ہو پیدا

عجب نہیں ہے کہ یہ چار سو بدل جائے

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔