کیا ہم عبد اللہ ہیں؟

ریاض فردوسی

اور اس شخص کے لئے جو اپنے رب کے سامنے کھڑا ہونے سے ڈرا دو جنتیں ہیں۔ پس تم اپنے رب کی کس کس نعمت کو جھٹلاؤ گے؟(سورہ رحمان۔ آیت۔ 47۔ 46)

اور اللہ کا خوف توحید کی شاخوں میں سے ایک شاخ ہے، (اس لئے) ضروری ہے کہ وہ(خوف) اللہ ہی کے لئے ہو، اور اللہ کے علاوہ کسی اور کا خوف ہونااللہ کے ساتھ شرک کرنے کی اقسام میں سے ایک قسم ہے، اور اللہ تعالی نے اپنے سے ڈرنے کاحکم دیا ہے، اور کسی اور سے ڈرنے سے منع فرمایا ہے۔

اللہ سے اس کے وہی بندے ڈرتے ہیں جو علم رکھتے ہیں۔ (سورہ۔ فاطر۔ 28)

جس نے دنیا میں خدا سے ڈرتے ہوئے زندگی بسر کی، جسے ہمیشہ یہ احساس رہا ہو کہ وہ میں دنیا میں شتر بے مہار بنا کر نہیں چھوڑ دیا گیا ہوں، بلکہ ایک روز مجھے اپنے رب کے سامنے کھڑا ہونا اور اپنے اعمال کا حساب دینا ہے۔ یہ عقیدہ جس شخص کا ہو وہ لامحالہ خواہشات نفس کی بندگی سے بچے گا اندھا دھند ہر راستے پر نہ چل کھڑا ہو گا۔ حق و باطل، ظلم و انصاف، پاک و ناپاک اور حلال و حرام میں تمیز کرے گا۔ اور جان بوجھ کر خدا کے احکام کی پیروی سے منہ نہ موڑے گا۔ وہی اللہ کے نزدیک برگزیدہ ہے۔ وہی لائق بندگی ہے۔

زندگی آمد برائے بندگی

 زندگی بے بندگی شرمندگی

مولانا رومؔ

جو چاہئے سو مانگیے اللہ سے امیرؔ

اس در پہ آبرو نہیں جاتی سوال سے   

 امیر مینائی

سیدنا عمر رضي اللہ عنہ رات کو (معمول کے مطابق)چکر لگارہے تھے، تو انہوں نے ایک شخص کو سورۃ طور پڑھتے ہوئے سنا، آپ رضی اللہ عنہ نے اپنے گھوڑے سے اتر کر دیوار سے ٹیک لگالیا (یعنی وہ سورۃسنتے رہے اور اسمیں غور کرتے رہے)، پھرآپؓ ایک مہینہ تک بیمار رہے، لوگ انکی عیادت کرتے لیکن یہ معلوم نہ ہوتا کہ آپ رضی اللہ عنہ کوبیماری کیا ہے؟ (یعنی آپ رضی اللہ عنہ کی بیماری کی وجہ کوئی ظاہری علامت نہیں بلکہ آپ پر اللہ تعالیٰ کے خوف کااثر طاری ہونا تھا)

سیدناعلی رضي اللہ عنہ نے (ایک موقع پر) فجر کی نماز سے سلام پھیرا تو ان پر شدتِ غم کی وجہ سے افسردگی چھائی ہوئی تھی اور وہ اپنے ہاتھ کومل رہے تھے یہ کہتے ہو ئے کہ، میں نے محمدﷺکے صحابہ کو دیکھاہے لیکن آج میں کسی کو نہیں دیکھتا جو اُن (صحابہ رضی اللہ عنہم) کی طرح ہو، (اُن کی صفات یہ تھیں کہ)وہ (دن کا آغازاس حال میں فرماتے)کہ صبح کرتے ہوئے (فکرِ آخرت کی وجہ سے) اُن کے بال بکھرے ہوئے، پیٹ خالی، اور حلیہ انتہائی سادہ ہوتا اور(رات بھرطویل سجدوں کی وجہ سے ایسا محسوس ہوتا کہ)گویا اُنکی آنکھوں کے درمیان (پیشانیوں میں )کوئی سخت ومضبوط چیز جوڑدی گئی ہو، ، جبکہ رات بھروہ سجدے اور قیام میں اللہ کی کتاب کی تلاوت کرتے ہوئے گذار تے، اور سربسجود رہتے، اور جب صبح ہوتی تو اللہ کا ذکر فرماتے اور(ایک طرف اللہ تعالیٰ کے عذاب سے ڈرتے ہوئے اور دوسری طرف اُس سے ثواب و جنت کی امید کرتے ہوئے)وہ ایسے ہوجاتے جیسے سخت تیزآندھی میں درخت کی حالت ہوتی ہے، اُن کی آنکھوں سے (اُسکی محبت میں اور اُس کے خوف سے) آنسو جاری ہوجاتے، یہاں تک کہ (اُن آنسوں سے) اُن کے گریبان بھیگ جاتے۔

سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی روایت ہے کہ، اللہ کے رسول  ﷺنے ارشاد فرمایا، بے شک اللہ تمھاری صورتوں (شکلوں ) اور مالوں کو نہیں دیکھتا، وہ تو تمھارے دلوں اور اعمال کو دیکھتا ہے۔

اغیار سے بالاتر ہو کر، توحید اللہ کے لئے ہو، تعظیم ہو، محبت ہو، خوف اور امیدہو، فرماں برداری سے محبت ہو، نافرمانی سے نفرت ہو۔

تو جسے بھی اپنے پروردگار سے ملنے کی آرزو ہو اسے چاہیے کہ نیک اعمال کرے اور اپنے پروردگار کی عبادت میں کسی کو شریک نہ کرے۔ (سورہ۔ کہف۔ آیت۔ 110)

حضرت شداد بن اوس رضی اللہ تعالیٰ عنہ ایک دن رونے لگے لوگوں نے پوچھا حضرت آپ کیسے رو رہے ہیں فرمانے لگے ایک حدیث یاد آگئی ہے اور اس نے رلا دیا۔ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے مجھے اپنی امت پر سب سے زیادہ ڈر شرک اور پوشیدہ شہوت کا ہے۔ میں نے دریافت کیا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کیا آپ کی امت آپ کے بعد شرک کرے گی؟ آپ نے فرمایا ہاں سنو وہ چاند پتھر بت کو نہ پوجے گی بلکہ اپنے اعمال میں ریا کاری کرے گی۔ پوشیدہ شہوت یہ ہے کہ صبح روزے سے ہے اور کوئی خواہش سامنے آئی روزہ چھوڑ دیا (ابن ماجہ مسند احمد) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے میں تمام شریکوں سے بہتر ہوں۔ میرے ساتھ جو بھی کسی کو ملالے میں اس سے بری ہوں اور اس کا وہ پورا عمل اس غیر کے لئے ہی ہے۔ ایک اور حدیث میں ہے مجھے تمہاری نسبت سب سے زیادہ ڈر چھوٹے شرک کا ہے لوگوں نے پوچھا وہ چھوٹا شرک کیا ہے؟ فرمایا ریاکاری۔ قیامت کے دن ریاکاروں کو جواب ملے گا کہ جاؤ جن کے لئے عمل کئے تھے انہی کے پاس جزا مانگو۔ دیکھو پاتے بھی ہو؟ ابو سعید بن ابو فضالہ انصاری صحابی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے فرماتے ہیں میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا کہ جب اللہ تعالیٰ تمام اگلوں پچھلوں کو جمع کرے گا جس دن کے آنے میں کوئی شک شبہ نہیں اس دن ایک پکارنے والا پکارے گا کہ جس نے اپنے جس عمل میں اللہ کے ساتھ دوسرے کو ملایا ہوا سے چاہئے کہ اپنے اس عمل کا بدلہ اس دوسرے سے مانگ لے کیونکہ اللہ تعالیٰ ساجھے سے بہت ہی بے نیاز ہے۔ ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے ریاکار کو عذاب بھی سب کو دکھا کر ہوگا اور نیک اعمال لوگوں کو سنانے والے کو عذاب بھی سب کو سنا کر ہوگا (مسند احمد) حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے بھی یہ روایت مروی ہے۔ ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے اپنے نیک اعمال اچھا لنے والے کو اللہ تعالیٰ ضرور رسوا کرے گا اس کے اخلاق بگڑ جائیں گے اور وہ لوگوں کی نگاہوں میں حقیر وذلیل ہوگا۔ یہ بیان فرما کر حضرت عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ رونے لگے (مسند احمد)

خدا سے مانگ جو کچھ مانگنا ہے اے اکبرؔ

یہی وہ در ہے کہ ذلت نہیں سوال کے بعد

  اکبر الہ آبادی

 امام غزالی نے مکحول دمشقی سے نقل کیا ہے کہ انہوں نے فرمایا:

جو صرف ڈر سے اللہ کی عبادت کرتا ہے وہ حروری ہے، اور جو صرف امید سے اللہ کی عبادت کرتا ہے وہ مرجء ہے، اور جو صرف محبت سے اللہ کی عبادت کرتا ہے وہ زندیق ہے، اور جو ڈر، امید اور محبت(ان تینوں صفات) کے ساتھ اسکی عبادت کرتا ہے تو وہ توحید والا اور اہل سنت (میں سے) ہے۔

مرے گناہ زیادہ ہیں یا تری رحمت

کریم تو ہی بتا دے حساب کر کے مجھے

  مضطرؔ خیرآبادی

امام ابن قیم کی مدارج السالکین  میں لکھتے ہیں !

اللہ عز وجل کی طرف جانے کے مسئلہ میں دل ایک پرندہ کی مانند ہے: محبت اسکا سَر ہے، خوف اور امید اسکے دو پَر ہیں، اور جب تک سَر اور دونوں پَر سلامت ہیں تب تک پرندہ بہترین پرواز کرسکتا ہے، اور اگر اسکا سَر کاٹ دیا جائے تو وہ مرجاتا ہے، اور اسکے دونوں پَر خراب ہوجائیں تو وہ ہر شکاری اورجان لینے وا لے کا سامان بَن جاتا ہے۔

تو میرے سجدوں کی لاج رکھ لے شعور سجدہ نہیں ہے مجھ کو

یہ سر ترے آستاں سے پہلے کسی کے آگے جھکا نہیں ہے 

رفیق رازؔ

ان کی کروٹیں اپنے بستروں سے الگ رہتی ہیں اپنے رب کو خوف اور امید کے ساتھ پکارتے ہیں اور جو کچھ ہم نے انہیں دے رکھا ہے وہ خرچ کرتے ہیں۔ (سورہ۔ سجدہ۔ آیت۔ 16)

عاشقی سے ملے گا اے زاہد

بندگی سے خدا نہیں ملتا

داغؔ دہلوی

اللہ کے نیک بندے اپنے عزت نفس کی حفاظت اپنے جان و مال سے بڑھ کر کرتے ہیں، اسی کو ہم نے ترک کیا اور مصلحت کو اس قدر فروغ حاصل ہوا کہ ہر شخص اپنے لیئے شریعت اپنے فائدے نقصان کو دیکھتے ہوئے بنا بیٹھا ہے، او ر اسی کی عبادت میں محو ہے۔

 اے چشم اشک بار ذرا دیکھ تو لے

 یہ گھر جو بہ رہا ہے کہیں تیرا گھر نہ ہو

زندگی کہتے ہیں جس کو چار دن کی بات ہے

بس ہمیشہ رہنے والی اک خدا کی ذات ہے    

ایک مرتبہ امام بخاری رحمہ اللہ دریائی سفر کررہے تھے کہ ایک ہزار اشرفیاں ان کے ساتھ تھیں۔ ایک شخص نے کمال نیاز مندی کا طریقہ اختیار کیا اور امام بخاری رحمہ اللہ کو اس پر اعتماد ہوگیا۔ اپنے احوال سے اس کو مطلع کیا۔ یہ بھی بتادیا کہ میرے پاس ایک ہزار اشرفیاں ہیں۔ ایک صبح کو جب وہ شخص اٹھا تو اس نے چیخنا شروع کیا اور کہنے لگا کہ میری ایک ہزار اشرفی کی تھیلی غائب ہے چنانچہ جہاز والوں کی تلاشی شروع ہوئی۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے موقع پاکر چپکے سے وہ تھیلی دریا میں ڈال دی۔ تلاشی کے باوجود وہ تھیلی دستیاب نہ ہوسکی تو لوگوں نے اسی کو ملامت کی۔ سفر کے اختتام پر وہ شخص امام بخاری رحمہ اللہ سے پوچھتا ہے کہ آپ کی وہ اشرفیاں کہاں گئیں ؟ امام صاحب نے فرمایا: میں نے ان کو دریا میں ڈال دیا۔ کہنے لگا اتنی بڑی رقم کو آپ نے ضائع کردی؟ فرمایا کہ میری زندگی کی اصل کمائی تو ثقاہت کی دولت ہے چند اشرفیوں کے عوض میں اس کو کیسے تباہ کرسکتا تھا(مقدمہ کشف الباری، بحوالہ آفتاب بخارا)۔

نہ صرف دیر و حرم بلکہ چڑھ کے دار پہ بھی

ترے پکارنے والے تجھے پکار گئے

محرم لکھنویؔ

فضیل بن عیاضؒ اپنے وقت کے بہت بڑے ڈاکو تھے اور ان کے بارے میں یہ بات مشہور تھی کہ مائیں اپنے بچوں کو فضیل کے نام سے ڈرایا کرتی تھیں کہ سوجائو، ورنہ فضیل آجائے گا۔ اپنی عادت کے مطابق ایک دن کسی گھر ڈاکہ مارنے پہنچے، رات کا آخری حصہ تھا، جیسے ہی دیوار پر چھرے ویسے ہی ان کے کانوں میں قرآن کریم کے الفاظ گونجے،

کیا ایمان والوں کے لئے ابھی بھی وہ وقت نہیں آپہنچا کہ ان کے دل اللہ کے خوف سے ڈر جائیں اور جو حق نازل ہوا ہے اس کے آگے سر تسلیم خم کر دیں ؟‘‘۔ (سورہ حدید۔ 16)   کان میں اس آیت کا پڑنا ہی تھا، بس اسی لمحہ دل کی دنیا بدل گئی، ڈاکہ چھوڑا، بلند آواز میں فرمایا، ’’ہاں اے میرے رب! اب وہ وقت آہی گیا ہے‘‘۔ اُسی وقت سچی توبہ کی پھر چند سالوں میں ہی امام فضیل بن ایاز بن گئے۔

  جگ میں آ کر ادھر ادھر دیکھا

  تو ہی آیا نظر جدھر دیکھا

خواجہ میر دردؔ

’’اے ایمان والو! آجائوتوبہ کی طرف اور سچے صاف دل سے توبہ کرلو، امید ہے تمہارا رب تمہارے گناہوں کو مٹا کر تمہیں بہتی نہروں والی جنّت میں داخل کرے گا‘‘(سورہ۔ تحریم۔ آیت۔ 8)۔ اس رحیم رب سے مانگے تو سہی، وہ کیسے عطا کرتا ہے! یہ وہ بادشاہ ہے جو مانگنے والے سے خوش اور نہ مانگنے والے سے ناراض ہوتا ہے۔ جب سب در بند ہو جاتے ہیں، تب اس کا در ہمیشہ کھلا ہوتا ہے۔ لیکن توبہ شرط ہے۔

بس جان گیا میں تری پہچان یہی ہے

تو دل میں تو آتا ہے سمجھ میں نہیں آتا

اکبر الہ آبادیؔ

مولانا  روم ؒ فرماتے ہیں کہ توبہ جوانی کی عمر میں کر لینے کا نام ہے۔ بڑھاپے کی عمر میں توبہ کرنا کمال نہیں ہے، ترجمہ۔ ’’بڑھاپے میں تو ظالم بھیڑیا بھی متقی اور پرہیز گار بن جاتا ہے، جوانی میں توبہ کرو، کیونکہ جوانی میں توبہ کرنا پیغمبروں کا شیوہ ہے‘‘

گناہ گن کے میں کیوں اپنے دل کو چھوٹا کروں

سنا ہے تیرے کرم کا کوئی حساب نہیں

یگانہ چنگیزیؔ

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:تین چیزیں نجات دلانے والی ہیں، اور تین چیزیں ہلاک کردینے والی ہیں۔ پس نجات دلانے والی تین چیزیں یہ ہیں، ایک اللہ کا خوف خلوت میں اور جلوت میں، دوسرے حق بات کہنا خوشی میں اور غصہ میں۔ تیسرے میانہ روی خوشحالی میں اور تنگدستی میں۔ اور ہلاک کرنے والی تین چیزیں یہ ہیں : ایک وہ خواہش نفس جس کی

پیروی کی جائے۔ دوسرے بخل جس کی اطاعت کی جائے۔ تیسرے آدمی کی خودپسندی کی عادت، اور یہ ان میں سب سے زیادہ سخت ہے۔ (البیہقی)۔ مسلم معاشرے کا عجیب و غریب معاملہ ہے، مزاروں کو

 شرک کرنے کا ذریعہ قرار دیا گیا، اگرچہ وہاں صرف مجاور اپنی کمائی کے لیے لوگوں کو صاحب مزار کے آگے جکھاتے ہیں، منتیں منگواتے ہیں، اور طرح طرح کے غیر اسلامی رسومات ادا کرواتے ہیں۔ عوام الناس بیچارے عقیدت اور محبت میں یہ کام کرتی ہیں، اللہ ان کی اصلاح کرے۔ لیکن جو کام سالوں سے آل سعود کے سرکاری علماء کر رہے ہیں، اور لوگوں سے کروا رہیں ہیں۔ ان کی بازگشت کوئی نہیں کرتا، ؟سرکاری نمازیں ہوتی ہیں، سرکاری عبادتیں ہوتی ہیں، وغیرہ۔ لیکن ان کی پکڑ کیوں نہیں ؟ان کی تبلیغ کیوں نہیں ؟کیا فرق ہے، حرمین شریفین کے خادموں اور مجاوروں میں، یہ ایمان کو نیلام کرتے ہیں، روزانہ اسے فروخت کیا جاتا ہے۔ اور یہ مجاور یقین کو فروخت کرتے ہیں۔ لوگوں کے احساسات، ان کے جزبات کو صاحب مزار کے طئی سپرد کرتے ہیں۔ جس طرح عیسی علیہ السلام ان جھوٹے عیسائیوں سے حشر میں الگ ہو جائیں گے، اور ان کی گمراہی سے بیذاری کا اعلان کریں گے۔ اللہ نے چاہا تو صاحب مزار بھی ان غیر شرعی رسومات ادا کرنے والوں اور کروانے والوں سے منہ موڑ لیں گے۔ اور جب تک یہ دونوں فریقین تائب نہ ہو جائے ان کا ٹھکانہ جہنم ہوگا۔ (انشا ء اللہ آمین )

تبصرے بند ہیں۔