کیا یہ تفریق نہیں ہے؟

حفیظ نعمانی

کافی دنوں سے مولانا کلب جواد صاحب کی طرف سے یہ اعلان ہورہا تھا کہ وہ شیعہ، صوفی کانفرنس بلانے جارہے ہیں۔ اب تک جب کوئی مسلمانوں کی تقسیم کرتا تھا تو سُنی شیعہ یا بریلوی، دیوبندی یا اہل حدیث اور حنفی سے کرتا تھا مولانا کلب جواد صاحب نے صوفی مسلمان عام مسلمانوں سے الگ کرلئے اور انہیں اپنے ساتھ ملا لیا یا ملانا چاہ رہے ہیں۔

ہمارے دادا کا نام احمد حسین تھا ہم نے جب ہوش سنبھالا تو ہر کسی کے منھ سے دادا ابا کو صوفی جی کہتے سنا خاندان کے لوگ تو رشتہ سے مخاطب کرتے تھے یا ذکر کرتے تھے لیکن تمام ملازم اور ملنے والے صوفی جی ہی کہتے تھے۔ دادی صاحبہ سے سنا تھا کہ اوپر جو ایک چھوٹی سی کوٹھری بند رہتی ہے تمہارے دادا ابا اس میں جوانی میں چلہ کھینچتے تھے۔ تفصیل اس کی کبھی نہیں بتائی۔ لیکن ہم سب بچوں سے یہ کہہ دیا گیا تھا کہ اس کوٹھری میں جن رہتے ہیں۔

دادی صاحبہ سے ہی سنا کہ پہلے بہت بڑے بڑے شاہ صاحب آتے تھے ان میں ایسے بھی تھے جو صرف جو کی روٹی اور چٹنی کھاتے تھے۔ ہمارے ہوش میں ایک میاں صاحب جگائی شاہ دادا کی آخر عمر تک آتے رہے۔ وہ جب آتے تھے تو کسی بھی بچہ سے اندر زنان خانہ میں یہ اطلاع بھجوادی جاتی تھی کہ میاں صاحب آئے ہیں۔ جواب میں دادی صاحبہ ایک کٹورہ دودھ کسی کے ہاتھ باہر بھیج دیتی تھیں۔ اور ہم نے ایک بات خاص طور پر دیکھی کہ دادا ابا جب نماز کے لئے مسجد جانے کے لئے اٹھتے تھے تو جو بچہ سامنے ہوتا تھا اس سے کہتے تھے چلو بیٹے نماز پڑھ آئیں۔ لیکن میاں صاحب جگائی شاہ سے کبھی نہیں کہا اور نہ وہ کبھی ساتھ گئے۔ ہم اتنے چھوٹے تھے کہ اس بارے میں دادا ابا سے کبھی معلوم نہیں کیا کہ میاں صاحب سے کیوں نہیں کہتے؟

یہ بات تو اس وقت کی ہے جب ہم خود پریس کا کام دیکھتے تھے اور دادا میاں کی درگاہ لکھنؤ اور رام پور کا سب کام ہمارے پریس میں ہی چھپتا تھا۔ جو حضرات کام چھپوانے آتے تھے ان کا لباس ایسا ہوتا تھا کہ دیکھنے والا انہیں صوفی سمجھتا تھا۔ اور جب کبھی ان کی موجودگی میں عصر یا مغرب کی اذان ہوئی اور ہم نے ان سے اجازت مانگی کہ آپ اس کی صحبت کیجئے ہم نماز پڑھ کر آتے ہیں تو ایک بار ان کے منھ سے یہ بھی سنا کہ– لگتا ہے کہ اب ہمیں بھی نماز پڑھنا پڑے گی۔

ہمیں نہیں معلوم کہ مولانا کلب جواد صاحب کبھی دیویٰ گئے یا نہیں لیکن کنور مسعود علی خاں اور رضی میاں کے زمانہ میں دیویٰ کا سب کام اپنے پریس میں ہی چھپتا تھا۔ اس کے سلسلہ میں جتنے حضرات احرام پوش آئے وہ کبھی کرسی پر نہیں بیٹھے اور نہ کبھی نماز کے لئے مسجد گئے۔ شیعہ صوفی کانفرنس کے داعی مولانا کلب جواد صاحب کی یہ بات ہم نے بار بار نقل کی ہے کہ انہوں نے اعلان کیا تھا کہ ’’جو نماز نہ پڑھتا ہو وہ میری مجلس میں نہ آئے۔‘‘ اور ہم نے مزارات سے وابستہ حضرات کو جنہیں صوفی کہا جاتا ہے نماز پڑھتے ہوئے بس کہیں کہیں دیکھا ہے۔

ایک بات ہم نے اس سال دیکھی کہ حضرت حاجی وارث علی شاہؒ کے مزار کے احاطہ میں ہولی کھیلنے والوں میں حاجی صاحبؒ کے احرام پوش باقاعدہ شریک تھے اور ٹی وی کے رپورٹر بتارہے تھے کہ یہاں ہر سال ہولی باقاعدہ کھیلی جاتی ہے۔ دیویٰ کے بارے میں یہ تو معلوم تھا کہ ہندو اتنے ہی آتے ہیں جتنے مسلمان آتے ہیں۔ یہ تو اس عقیدہ کی بات ہے کہ مسجدوں کے دروازوں پر بھی نہ جانے کتنی ہندو عورتیں بیمار بچوں کو لئے کھڑی رہتی ہیں کہ نماز پڑھ کر آنے والے پھونک چھوڑ دیں۔ وہ جانتی ہیں کہ یہ مسجد میں اچھا کام کرکے آرہے ہیں۔ عقیدہ الگ چیز ہے اور اس میں شرکت الگ چیز ہے۔ ہولی کے دن اپنے ہندو دوستوں کو مبارکباد دینا ایسا ہی ہے جیسے وہ ہمیں عید کی مبارکباد دیں لیکن ہولی کھیلنے کی اجازت انہیں حاجی صاحب نے دی ہو اسے دل قبول نہیں کرتا۔

اس کانفرنس کے بارے میں بتایا گیا کہ اس میں مولانا کلب صادق صاحب بھی موجود تھے لیکن طبیعت ناساز ہونے کی وجہ سے تقریر نہیں کی۔ کانفرنس میں دہشت گردی کا بار بار ذکر آیا ہم نہیں سمجھ سکے کہ اس کا کیا مقصد ہے؟ اور کیا صرف شیعہ یا مزارات سے وابستہ نماز نہ پڑھنے والوں کو دہشت گردی سے الگ کیا ہے اور باقی سب مسلمان دہشت گرد ہیں؟ کوئی عالم دین جس نے دینی علم حاصل کیا ہو کیا وہ دہشت گرد ہوسکتا ہے؟ اسی شہر میں دارالعلوم ندوۃ العلماء نام کا ایک ادارہ ہے جہاں ہزاروں لڑکے عالم اور فاضل بن رہے ہیں جہاں حدیث کی وہ مستند چھ کتابیں جنہیں سب صحیح مانتے ہیں پڑھائی جاتی ہیں کیا بے نمازی صوفیوں سے ان کا مقابلہ کیا جاسکتا ہے؟ حضرت خواجہ معین الدین چشتیؒ کے مزار کے کیسے کیسے مجاور ہیں اور درگاہ کمیٹی کے کیسے کیسے ممبر بنائے جاتے ہیں اگر ان کی تفصیل بیان کردی جائے تو شرم سے گردن جھک جائے گی۔

جہاں تک اہل بیت اطہار کا تعلق ہے تو ہمارے دادا صوفی احمد حسین تایا غلام امام چھوٹے تایا محمد حسن چچا محمود حسین چھوٹے چچا محمد احسن اور تایا زاد بھائی اصغر امام کے ناموں سے اندازہ ہوسکتا ہے۔ اور خود میں حضرت مولانا زکریا شیخ الحدیث کی خدمت میں اس وقت حاضر ہوا جب وہ آخری بار سہارن پور تشریف لائے تھے۔ میں نے رخصت ہوتے وقت دعا کی درخواست کی اور عرض کیا کہ کاروبار کے سلسلہ میں آجکل پریشان ہوں۔ حضرت شیخ نے فرمایا کہ درود شریف پڑھا کرو میں نے عرض کیا کہ حضرت بہت پریشان ہوں تو فرمایا کہ تو پھر بہت زیادہ درود شریف پڑھا کرو۔ واضح رہے کہ وہ دیوبندی مسلک کے سب سے بڑے عالم مانے جاتے تھے۔ کیا اس کے بعد بھی ضرورت ہے کہ علماء اور صوفیوں میں تفریق کی جائے؟

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔