کیرالا میں اُردو زبان کی مختصر تاریخ

کے۔ پی۔ شمس الدین ترورکاڈ

کیرالا مغربی ساحل پر واقع ہندوستان کا ایک چھوٹا سا صوبہ ہے جو گنجان آبادی کثرت تعلیم اور دلفریب مناظر جس کو دیکھنے کے بعد شاید ہی کوئی یہاں سے لوٹنے کا ارادہ رکھتا ہو بقول سیّد محمد سرورؔ:

جو کوئی آتا ہے سرورؔ کیرالا میں ایک بار

وہ بھلا سکتا نہیں اس کی فضائے خوشگوار

اس طرح کے کئی وجوہات کے بنا پر یہ سرسبز ریاست ہندو بیرون ہند میں یکساں طور پر مشہور و مقبول ہے یہاں کے ہندو، مسلمان، عیسائی اور دوسرے مذاہب ذات پات کے تمام باشندوں کی مادری زبان ملیالم ہے۔ کیرالا ہی ایک ایسی واحد ریاست ہے جہاں ہر ادنیٰ و اعلیٰ، ہر خاص و عام، ہر برادری کے لوگ پڑھنے لکھنے اور بولنے میں ایک ہی زبان استعمال کرتے ہیں۔ ایسی ایک ریاست میں کوئی دوسری زبان کا ترقی کرنا مشکل ہی نہیں بلکہ ناممکن بھی ہے۔ یہاں مسلمانوں میں ملیالم کے علاوہ کوئی مقبول زبان ہے تو وہ عربی زبان ہے۔ اس کی تاریخی وجہ دور قدیم میں عرب قوم تجارت کی حیثیت سے یہاں آتے تھے۔ حضرت محمد  ﷺ کے دور حیات میں یہاں اسلام برائے راست آیا ہے۔ حضرت سیّدنا مالک بن دینار ؓ اور ساتھیوں کی آمد اور تبلیغ اسلام کے ساتھ ہی یہاں عربی زبان مسلمانوں میں عام ہوگئی۔ وہی مقبولیت آج بھی ہے جس سے ہندوستان کی کئی ریاستیں محروم ہیں۔ ان حالات میں کیرالا جیسی ریاست میں اُردو زبان کا نشونما پانا معجزہ سے کم نہیں ہے۔ کہا جاتا ہے کہ  ’’عشق و مشک چھپائے نہیں چھپتے ‘‘  اسی طرح اُردو زبان بھی اپنی شیرینی و مٹھاس کی خوشبو ہوا میں گھول کر کیرالا کو بھی اپنی طرف راغب کرگئی۔ اس ریاست کے دریچے سے اُردو زبان کی ہوا اندر آگئی۔ اب  لوگ اس کے عاشق دیوانے بن گئے ہیں۔ اس زبان کی سادگی اور شفقت نے یہاں کے ہر خاص و عام کو اپنا دیوانہ بنا دیا۔

کیرالا میں  ’اُردو‘  کی آمد صدیوں پہلے ہوئی ہے۔ یہاں سے اعلیٰ دینی تعلیم حاصل کرنے کے لیے لوگ دوسری ریاستوں میں جایا کرتے تھے۔ جب وہ دینی تعلیم پوری کرکے کیرالا تشریف لاتے تو اُردو بھی ساتھ لاتے۔ اس طرح دینی مدرسوں اور مسجدوں میں عربی کے ساتھ ساتھ اُردو کی بھی تعلیم دینے لگے۔ ان دنوں مسلمانوں کی تعلیم بھی صرف دینی مدارس تک ہی محدود تھی۔ عام لوگ ملیالم زبان میں ضرور گفتگو کرتے تھے۔ لیکن لکھنے پڑھنے سے ناواقف تھے (خصوصاً ملابار کے موپلا قوم کے لوگ) لکھنے پڑھنے میں صرف عربی زبان ہی جانتے تھے۔ بعد میں ملیالم بولی کو عربی رسم الخط میں لکھ کر بولتے تھے۔ اس طرح کی ایک زبان یہاں وجود میں آئی جسے ’عربی ملیالم‘  کہتے ہیں۔

’عربی ملیالم‘  یہاں کے مسلمان اورباہر سے تعلیم حاصل کرکے آنے والے علماء و عرب کی ایجاد تھی۔ اس عربی رسم الخط والی ملیالم زبان میں اُردو حروف بھی استعمال ہونے لگے۔ مثلاً:  ’پ‘،  ’ٹ‘،  ’چ‘،  ’ڈ‘  ان حروف کے استعمال کے ساتھ ساتھ اُردو لفظ بھی ملیالم زبان میں آنے لگے۔ مثلاً: کچہری، شیرینی، بندوبست، خوشی، بازار، بے زار، سامان، ناشتہ، باقی، مٹھائی وغیرہ۔ صدیوں گذر جانے کے باوجود آج بھی ملیالم زبان پر اُردو کا اثر باقی ہے۔ ’انقلاب زندہ باد‘،  ’تحصیل دار‘،  ’دھرنا‘،  ’گھیراؤ‘،  ’منصف‘،  ’حوالہ‘  وغیرہ الفاظ آج بھی ہر خاص و عام ملیالم کے ساتھ استعمال کرتے ہیں۔

ان حالات میں بھٹکل (کرناٹک)، آگرہ (اُتر پردیش)، بمبئی (مہاراشٹرہ) وغیرہ ریاستوں سے تجارت اور سوداگری کے سلسلے میں لوگوں کی آمد و رفت شروع ہوگئی۔ یہاں آنے والوں کی مادری زبان اُردو تھی۔ ان کی صحبت سے کئی مقامات پر اُردو کا چلن شروع ہوا۔ ان میں ضلع ملاپرم کے  ’کوڈور‘  نام کاگاؤں قابل ذکر ہے۔ یہاں بیس سال قبل تک بھی آگرہ سے کدّو کے لیے لوگ آتے تھے۔ جس سے وہاں کی مشہور مٹھائی  ’پیٹھا‘  بنایا جاتا ہے۔ کوڈور میں سبھی لوگ کدّو کی کاشت زیادہ کرتے تھے اور آگرہ میں بھی یہ گاؤں مشہور تھا سبھی یہیں آتے تھے۔ اس طرح کے میل ملاپ سے یہاں کے باشندوں کو اُردو زبان سے واقفیت ہوگئی۔ اب یہاں کے لوگ بھی آپس میں اُردو بولنے لگے۔ اس طرح یہ گاؤں ’اُردو نگر‘  کے نام سے مشہور ہوگیا۔ یہاں کے مقامی اخبارات بھی اس گاؤں کو اُردو نگر کے نام سے لکھنے لگے۔ آج ریاست کیرالا کے سب سے زیادہ اُردو لکھنے پڑھنے اور بولنے والے اسی اُردو نگر سے تعلق رکھتے ہیں۔

ماضی کے جھروکوں سے دیکھا جائے تو سلطنت میسور کے زمانے نے بھی کیرالا میں اُردو کی ترویج ہوتی رہی ہے۔ ٹیپو سلطان کے جو فوجی افسر اور دیگر عہدیداران کیرالا میں آتے جاتے تھے ان کی زبان اُردو تھی۔ کیرالا کے باہر دیگر مقامات پر تلاش معاش کے سلسلے میں جو لوگ جایا کرتے تھے خصوصاً فوج اور پولیس والوں کی بات بھی ایک حد تک اس سلسلے میں غور طلب ہے۔

سلطنت بیجاپور قطب شاہی اور عادل شاہی کے سپاہیوں اور سپہ سالاروں کو ٹراونکور اور کوچین کے راجاؤں نے بلا لیا تھا ان سپاہیوں اور سپہ سالاروں کے میل ملاپ سے کیرالا کے راجاؤں کی فوج والوں پر بھی اُردو کا اثر پڑا۔ کیرالا اس وقت صوبہ مدراس کا ایک حصّہ تھا اور یہاں تبادلہ خیالات کے لیے حکومت انگریزی اور تامل کے ساتھ ساتھ اُردو بھی استعمال کرتی تھی۔ اسلوکوں کالجوں اور دیگر سرکاری اداروں میں جو افسر اور پروفیسر لوگ آتے تھے وہ بھی یہ زبانیں خصوصاً اُردو جانتے تھے۔ اسی طرح شعبہء عدلیہ اور ریونیو میں بھی اُردو کے اصطلاحی الفاظ در آتے گئے۔ ان سب ذرائع سے کیرالا میں اُردو کی نشونما ہوتی گئی۔

زمانہ گذرتا گیا جانے انجانے طور پر اُردو زبان ترقی کرتی گئی۔ اس طرح کیرالا میں کچھ حد تک اُردو کی جڑیں مضبوط ہو گئیں۔ جو لوگ اُردو لکھنا پڑھنا نہیں جانتے تھے وہ بھی اُردو سمجھنے لگے۔ ’’عمردراز لوگ حج کرکے جب واپس اپنے گاؤں آتے تھے تو یہاں کے مقامی لوگ ان سے پوچھتے تھے کہ حجاز میں لوگ کون سی زبان استعمال کرتے ہیں ؟ تو حاجی جواب دیتے تھے کہ  ’اُردو‘  (لفظ اُردو کو ان دنوں اکثر لوگ غلط تلفظ کے ساتھ ’اُدرو‘ کہتے تھے۔ یہ دور انگریزوں کا تھا ملک بھر میں انگریزوں کے خلاف تحریک جاری تھی۔ پھر  ۱۹۲۰ ؁ء میں عدم تعاون اور خلافت تحریک زور پکڑتی گئی۔ کیرالا کے تقریباً تمام مسلمان خلافت تحریک کے جھنڈے تلے متحد ہوئے ان میں کچھ غیر مسلم بھی تھے۔ ملابار میں خلافت تحریک کے رہنما علی مصلیار تھے جو ایک نامور حاکم و فاضل بھی تھے۔ علی مصلیار ترورنگاڈی کی مسجد میں درس دیتے تھے۔ ان کو اُردو میں بھی اچھی خاصی معلومات تھیں۔ ان کے یہاں بمبئی، دہلی وغیرہ سے اخبارات پوسٹ کے ذریعہ آیاکرتے تھے۔ مورخین کا خیال ہے کہ یہ اخبارات اُردو کے سوا اور کوئی زبان کا نہیں ہو سکتا تھا کیوں کہ وہاں سے عربی اخبارات نہیں شائع ہوتے تھے اور ملیالم اور انگریزی اخبار کا سوال ہی نہیں اٹھتا تھا۔ اس لیے یہ واضح ہے کہ اُردو اخبارات ہی علی مصلیار منگواتے تھے۔ ان کے شاگرد ’وارین کُنتھ کنحی احمد حاجی‘ جنہوں نے اپنے مادر وطن کے لیے اپنی جان نچھاور کر دی تھی۔ احمد حاجی نڈر عظیم مرد مجاہد تھے۔ جنہوں نے انگریزوں کا جینا حرام کر دیا تھا۔ یہ بھی بمبئی میں چندسال رہ کر اُردو سیکھے پھر حجاز گئے۔ سفریں ایک عالم سے اُردو تقریباً سیکھ لی پھر حجاز میں چھ سال گذارے جہاں مکمل طور پر اُردو سیکھ لیے اس کے بعد ملابار میں آکر انگریزوں کے خلاف ہتھیار اٹھائے تھے یہ  ۱۹۱۸ ؁ء اور  ۱۹۲۲ ؁ء کادور تھا۔ جنوری  ۱۹۲۲ ؁ء کو انگریز فوج نے احمد حاجی کو گرفتار کر لی۔ ۱۸؍ جنوری  ۱۹۲۲ ؁ء کو جنگی عدالت میں مقدمہ چلایا گیا۔ یہاں احمد حاجی سے انگریز فوج نے اُردو میں کئی سوالات کیے۔ احمد حاجی ان سب سوالات کا اُردو میں ہی برابر جواب دیے۔ ۲۰؍ جنوری کو ملاپرم کے کوٹاکُنّ کے پہاڑی پر لے جاکر اس عظیم مجاہد کو گولیوں سے بھون دیا گیا۔

مولانا چالی لکت کنحی احمد حاجی ملابار کے نامور دینی عالموں میں سے تھے۔  ۱۹۰۹ ؁ء میں  ’دارالعلوم مدرسہ‘   وازے کاڈ کے صدر مدرس بنے۔ مولانا نے کھر درے  ’عربی ملیالم‘  زبان کی اصلاح کی اور ساتھ ہی دارالعلوم میں اُردو زبان کی تعلیم بھی شروع کی۔ مولانا کو اُردو زبان پر اچھی خاصی عبوریت حاصل تھی۔ دوسری ریاستوں سے جو اُردو اخبارات منگوائے جاتے تھے ان میں مولانا آزاد کا  ’الہلال‘  قابل ذکر ہے۔ مولانا نے مدرسہ کے نصاب میں  ’تصویرالحروف‘  نامی کتاب بھی شامل کی۔ جس میں اُردو حروف کی تعریف و پہچان  ’عربی ملیالم‘  زبان کے ذریعے کرایا تھا۔ مولانا کے شاگردوں میں کے۔ ایم۔ مولوی بھی شامل ہیں۔ جو آگے چل کر خلافت تحریک سے وابستہ ہوئے انہیں بھی اُردو زبان اچھی طرح آتی تھی۔

۱۹۲۱ ؁ء میں تحریک خلافت کے کانگریس کے عظیم رہنماؤں میں سے ایک محمد عبدالرحمن صاحب تھے۔ نو جو ان مسلمان طبقہ میں سب سے اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے والے واحد شخصیت بھی تھے۔ انہوں نے آئی۔ سی۔ ایس۔ کی پڑھائی کے دوران ضمیر کی آواز پر پڑھائی چھوڑ کر انگریزوں کے خلاف کھل کر میدان میں اترے تھے۔ ملابار میں تحریک خلافت اور کانگریس کے سیکریٹری مقرر ہوئے۔ بعد میں انہیں  ’شیر ملابار‘  کا لقب دیا گیا۔ محمد عبدالرحمن صاحب کو اُردو اور انگریزی زبان پر کامل طور پر سبقت حاصل تھی۔ یہی وجہ ہے کہ ریاست کے باہر بمبئی، دہلی، آندھرا پردیش وغیرہ کے عظیم رہنماؤں سے ان کے قریبی تعلقات ہونے کی وجہ سے ملابار کی شورش کے بعد یہاں کے مسلمانوں کے افسوس ناک حالات ملابار کے باہر والوں تک پہنچانے میں ان کا بڑا ہاتھ ہے اس دور کے تمام رہنماؤں کو اُردو سے اچھی خاصی واقفیت تھی چاہے مویدو مولوی ہو یا کٹلاشیری محمد مصلیار۔

ملبار میں دینی اورسیاسی مراکز کہلانے والے ملابار علاقے میں واقع ترورنگاڈی کے مساجد میں دینی درس دیا کرتے تھے۔ مدرسہ کا کوئی الگ انتظام نہیں تھا۔ بعد میں  ۱۹۳۸ ؁ء کو یہاں ’نورالاسلام مدرسہ‘  قائم ہوا۔ جہاں شروع سے عربی کے ساتھ اُردوکی تعلیم بھی دی جاتی تھی۔ یہاں اُردو سکھانے کا کام پی۔ پی۔ عبیداللہ مولوی کے ذمّے تھی جو ان دنوں اُردو کے مشہور عالموں میں شمار کیے جاتے تھے۔ انہوں نے اُردو ملیالم لغات بھی تیار کی تھی۔ معاشی واقتصادی حالات کی وجہ سے وہ لغت شائع نہ ہو سکی۔ جس کا ایک قلمی نسخہ آج بھی یہاں کے ایک مشہور لائبریری میں موجود ہے۔

’نورالاسلام مدرسہ‘  کے بعد آناکّائم (منجیری) میں ایک ادارہ روضۃ العلوم کے نام کا ایک عربی کالج قائم کیا گیا۔ یہاں بھی اُردو تعلیم برابر دی جاتی تھی۔ سی۔ پی۔ محمد مولوی یہاں اُردو کے معلم تھے۔ یہ عربی کالج فرخ کے مقام پر منتقل کیا گیا۔ وہیں پر فاروق کالج بھی قائم کیا گیا۔ فاروق کالج میں ابتدا ہی سے اُردو تعلیم کی سہولت مہیا تھی۔

کیرالا میں اُردو زبان کی ترقی وترویج کے لیے (جے۔ ڈی۔ ٹی۔ آئی۔ ) جمعیتِ دعوتِ تبلیغِ اسلام کا اہم رول رہا ہے۔ یہ ادارہ  ۱۹۲۳ ؁ء میں شمالی ہند پنجاب کے چند دولت مند مسلمانوں نے کالی کٹ میں قائم کیا تھا۔ جن کی مادری زبان اُردو تھی۔ اس ادارے سے وابستہ تمام لوگ اُردو سے واقف تھے۔ بیس سال بعد ترورنگاڈی میں ایک یتیم خانہ قائم کیا گیا۔ یہ ادارہ جے۔ ڈی۔ ٹی۔ آئی۔ کے زیرنگرانی میں تھا۔ اس یتیم خانہ کا افتتاح جمعیتِ دعوتِ تبلیغِ اسلام کے صدر مولانا محی الدین احمد صاحب نے کیا تھا۔ افتتاحی جلسہ کے موقع پر جے۔ ڈی۔ ٹی۔ آئی۔ کے سکریٹری جناب مقبول احمد صاحب ایک نظم لکھ کر سنائے جس کا مصرع یہ تھا:

سارے یتیم مل کر خوش آمدید گائیں

جب محی الدین احمد اپنے وطن میں آئے

آئے ہیں وطن میں دیکھنے کو وہ حال زار

چہرے خوشی سے اپنے کیوں سرخ ہونا پائے

مساجد کے درسوں اور دینی درس گاہوں میں اُردو تعلیم کا جائزہ لیں تو اس کی ایک طویل فہرست بن سکتی ہے۔ اُردو پڑھنے اور پڑھانے والوں کی تعداد میں بھی اضافہ ہوگیا۔ ملاپرم میں کویا کُٹی مصلیار، تلاشیری میں محمد حنیفہ صاحب اور احمد حنیفہ، منّارکاڈ میں پی۔ کے۔ کنحی محمد مصلیار اُردو کی مشہور شخصیتیں ہیں۔

کیرالا میں اُردو کی اشاعت و تبلیغ کے سلسلے میں بابائے اُردو مولوی عبدالحق صاحب یہاں کا دورہ کر چکے تھے۔ ۱۹۴۳ ؁ء میں جب وہ تیسری بار کیرالا تشریف لائے تو کالی لٹ کے ٹاؤن ہال میں  ’ملابار اُردو کانفرنس‘  منعقد کی گئی جس میں جناب سیّد محمد سرورؔ (جو آگے چل کر کیرالا کے واحد اُردو شاعر کی حیثیت سے مشہور ہوئے) نے بابائے اُردو مولوی عبدالحق اور ڈاکٹر عبدالحق کی آمد پر ایک استقبالیہ نظم سنائی تھی۔ کیرالا میں انجمن ترقی اُردو کی بنیاد یہیں سے پڑی۔ کیرالا میں اُردو کی ترقی و ترویج پر غور وخوص کر کے مختلف مقامات کے کلاسس کا دورہ کرکے رپورٹ پیش کرنے کے لیے انجمن نے مقبول احمد صاحب (جے۔ ڈی۔ ٹی۔ آئی۔ کے سکریٹری) کو مقرر کیا گیا۔ چونکہ وہ ملیالم نہیں جانتے تھے۔ اس لیے یہ کام جناب ایس۔ ایم۔ سرورؔ صاحب کو سونپ دیا گیا۔ سرورؔ صاحب نے دورہ کرکے مختلف جگہوں کی اُردو کلاسس کی رپورٹ پیش کی۔ کنّور، تلاشیری، کوژی کوڈ (کالی کٹ)، ملاپرم، کُٹیاڈی، منّارکاڈ وغیرہ مقامات میں اُردو کی کلاسس کامیابی سے چل رہی تھیں۔

انگریزوں کی دورِ حکومت میں یہاں کئی ایک اسکولیں قائم کی گئیں۔ ملابار میں محمد خان صاحب کو بطور نائب اسکول انسپکٹر مقرر کیا گیا تھا۔ پالگھاٹ تا منگلور کے اسکول ان کی نگرانی میں تھے ان کی مادری زبان اُردو تھی۔ ان کی کوششوں سے کئی اسکولوں میں اُردو پڑھائی جانے لگی۔ جن میں اُپلا کا ہندوستانی اسکول (اُردو میڈیم) قابل غور ہے مگر افسوس اب یہ اسکول اُردو میڈیم نہیں رہا۔

کیرالا میں اُردو کی اشاعت چاروں طرف ہو رہی تھی۔ ترورنگاڈی سے  ’اُردو زبان‘  نامی ایک کتاب شائع ہوئی تھی۔ اس کے مصنف بھی حسن مولوی تھے۔ ۱۹۳۸؁ء میں تلاشیری سے ایک اُردو ماہنامہ بھی جاری ہوا کرتا تھا جس کا نام تھا  ’نارجیلستان‘۔ تلاشیری کے ہی ایک نامور عالم محمد مولوی جنہوں نے پانچ ہزار صفحات کی ایک بڑی اُردو ملیالم لغات تیار کی۔ افسوس کہ اس کی اشاعت نہ ہو سکی۔ ۱۹۴۳ ؁ء کرامنا (تروننتاپورم) سے ’اُردو ٹیچر‘  نامی ایک کتاب جناب اے۔ محمد صاحب کی نگرانی میں تیار ہوئی۔ اسی طرح  ولاپٹنم عبداللہ مولوی  ’سلطان اللغات‘  نامی کتاب شائع کیے تھے۔ گویا کہ آزادی سے قبل یہاں اُردو کا بول بالا تھا اور عاشق اُردو بھی تھے۔ آزادی کے بعد (تقسیم ہند کے بعد) کیرالا میں اُردو پر قیامت ٹوٹ پڑی تعصب پسند لوگ اس شیرین زبان کو صرف مسلمانوں کی زبان کہکر فرقہ واریت کی آگ میں جھونکنے کی کوشش کی اس لیے کیرالا میں یہ زبان تقریباً یتیم ہوکر رہ گئی تھی۔

آزادی کے بعد بڑی مشکل سے اُردو زبان اپنی کمر سیدھی کرنے لگی۔ دینی مدرسوں میں اب بھی اُردوزبان ہی ہے لیکن پہلے کی بہ نسبت بہت کم۔ اب اُردو کو پہلے جیسی حالت میں لانے کے لیے عاشقانِ اُردو کی کوششوں کا سلسلہ جاری رکھا۔ اُردو زبان کو کیرالا میں دوبارہ زندہ کرنے کے لیے تن من دھن کی بازی لگانے والے نامور شاعر ملابار سیّد محمد سرورؔ صاحب تھے۔ جنہوں نے کیرالا میں اُردو زبان کی ترقی کے لیے خود کو ہی بھول گئے تھے۔ اس سرسبز وشاداب ریاست میں اُردو کے پودے کو انہوں نے اپنے خون سے سینچا تھا۔ سرورؔ صاحب کی جی جان کوشش و محنت کے پھل آج اُردو اساتذہ کھا رہے ہیں۔

آزادی کے بعد سرکاری سطح پر ملاپرم ہائی اسکول اور کاسرکوڈ ہائی اسکول میں اُردو پڑھائی جاتی تھی۔ تلاشیری برنن ہائی اسکول، سینٹ جوزف ہائی اسکول، بی۔ ای۔ ایم۔ ہائی اسکول، کنّور میونسپل ہائی اسکول، مٹانچیری میں عیسیٰ موسیٰ ہائی اسکول، ارناکلم کے منوّرالاسلام ہائی اسکول، کالی کٹ کے حمایت الاسلام ہائی اسکول، جے۔ ڈی۔ ٹی۔ اسلام ہائی اسکول میں اُردو میں درس و تدریس ہوتی رہی اور چراغ سے چراغ جلتے رہے، آج اُردو کی ترقی کی صورت حال یہ ہے کہ  ۱۷۰۰؍ سترہ سو سے زائد اسکولوں میں (پرائمری اور ہائی اسکول) اُردو کی تعلیم دی جا رہی ہے۔ اس سلسلے میں یہ پہلے اُردو اساتذہ کا اننجمن کیرالا اُردو پنڈت ایسوسیشن کے نام سے بعد میں یہ کیرالا اُردو ٹیچرس ایسوسیشن کے نام سے اُردو اساتذہ کے لیے ایک مستقل انجمن بن گئی،  کے۔ یو۔ پی۔ اے۔ اور کے۔ یو۔ ٹی۔ اے۔ کی خدمات بہت اہم ہیں۔  اسی حساب سے  ۱۹۷۰ ؁ء سے  ۱۹۸۰ ؁ء تک کا زمانہ کیرالا میں اُردو کی ترقی کا عہد زریں قرار دیا جا سکتا ہے۔

ابتدائی دور میں تلاشیری کے اسکولوں میں اُردو کی تعلیم شروع کرنے میں جناب ایس۔ ایم۔ سرورؔ صاحب کا بہت بڑا ہاتھ تھا۔ انہوں نے مرحوم کے۔ ایم۔ سیتی صاحب سے صلاح و مشورہ کرکے اپنی کوششیں جاری رکھیں۔ ان حضرات کی کوششوں کا نتیجہ یہ تھا کہ سینٹ جوزف اور بی۔ ای۔ ایم۔ ہائی اسکول میں اُردو کی تعلیم شروع ہوئی۔ وہاں سے جناب سرورؔ صاحب ملاپرم آئے تو ان کی اسامی پر انہیں کے ایک شاگرد جناب احمد حنیفہ کو وہاں مقرر کر دیا گیا۔ یہاں اُردو کی اشاعت و ترقی کے لیے مختلف انجمنوں کی جو خدمات ہیں وہ قابلِ تعریف ہیں۔ اس میں انجمن ترقی اُردو کا نمایاں رول ہے۔

اُردو کی حالت زار پر غور و فکر کرنے کے لیے  ۱۹۵۸ ؁ء میں سرورؔ صاحب نے مدرسۃ المحمدیہ میں ایک جلسہ کا انعقاد کیا۔ جس میں اُردو کی صورت حال پر چرچا کیا گیا اور  ’انجمن اشاعت اُردو‘  کے نام سے ایک انجمن قائم کی گئی، خلیفہ عبدالرزاق صاحب کو اس کا پہلا صدر منتخب کیا گیا۔ اس طرح دکنی مسلم جماعت، ملاپرم اُردو ڈولپمنٹ ایسوسیشن، بزم اُردو ملاپرم ہائی اسکول اُردو اسٹوڈنٹس ایسوسیشن، اُردو پرچار سمیتی چینّامنگلور، کے۔ یو۔ پی۔ اے۔،  کے۔ یو۔ ٹی۔ اے۔،  سراج العلوم، اُردو ایسوسیشن، انجمن اصلاح اللسان تلاشیری۔ اُردو ڈولپمنٹ ایسوسیشن کوڈیتور کالی کٹ، ملاپرم اُردو لورس ایسوسیشن، اقبال اکادمی، اُردو پی۔ جی۔ اسٹوڈنٹس ایسوسیشن، بزم ترقی اُردو مرکز الثقافۃ السنیہ کارنتور کالی کٹ جیسے کئی انجمنیں قائم کی گئیں۔

 کیرالا کے مختلف اُردو انجمنوں کے سربراہ سرورؔ صاحب ہی تھے۔ جن میں ملاپرم گورنمنٹ مسلم ہائی اسکول کے  ’بزمِ اُردو‘،  ملاپرم اُردو ڈولپمنٹ ایسوسیشن وغیرہ قابل غور ہیں۔  ’ملاپرم اُردو ڈولپمنٹ ایسوسیشن‘  نے سرورؔ صاحب کی رہنمائی میں ملاپرم میں اُردو کلاس شروع کیا تھا۔ ادب کی ترقی اور ترغیب بھی سرورؔ صاحب کو اسی انجمن سے ملی۔ ملاپرم اور اس کے اردگرد کے مقامات میں اُردو کی جادوئی آواز پہنچانے میں اس انجمن نے قابل تعریف خدمات انجام دیں۔  ۱۹۷۲؁ء میں اس انجمن نے ملاپرم کے قریب مُنڈوپرمبہ میں ایک اُردو کانفرنس منعقد کیا تھا۔ جس میں کئی نامی گرامی حضرات شرکت فرمائے تھے۔

۱۹۷۱ ؁ء میں منّارکاڈ میں بھی اُردو کلاس شروع کیا گیا۔ یہاں اُردو سکھانے کا کام انجام دینے والے کنحو محمد مولوی صاحب تھے۔ کلاس بھی ان ہی کی نگرانی میں ہی تھی۔ اس طرح کالی کٹ کے قریب چینّامنگلور میں بھی اُردو کلاس شروع کیا گیا یہ کلاس جناب کے۔ ٹی۔ سی بیران صاحب نے قائم کیا تھا۔ یہاں اس کے ساتھ ہی اُردو پرچار سمیتی کے نام سے ایک اور انجمن بھی قائم کی گئی۔ جس کے روحِ رواں بھی کے۔ ٹی۔ سی۔ بیران صاحب ہی تھے۔ اس انجمن کی نگرانی میں کوڈیتور، کونڈوٹی، تامرشیری، مُکّم، کوڈولّی، اتّولی وغیرہ جگہوں میں اُردو کلاس شروع کیے گئے۔ جب کیرالا سرکار نے اُردو لوئیر اور ہائیر امتحانات منعقد کرنے کا فیصلہ کیا تو موصوف نے بچوں کو تیار کرانے کے لیے کافی مشقت اٹھائی۔ ۱۹۷۳؁ء میں اُردو کی ترقی و فروغ کے لیے انہوں نے قابلِ تعریف قدم اٹھائے۔ ۱۹۸۲؁ء میں دہلی کے ترقی اُردو بورڈ کے زیر اہتمام پرچار سمیتی نے اُردو کتابت کورس کا آغاز کیا۔ جناب کے۔ ٹی۔ رشید صاحب کی نگرانی میں یہ مرکز بخوبی خدمات انجام دے رہا ہے۔

’انجمن اساتذہ اُردو کیرالا‘  یہ انجمن کیرالا کے اُردو اساتذہ کی انجمن ہے۔ اُردو کی ترقی و نشونما میں اس انجمن کا نام سنہرے حروف میں لکھا جائے گا۔ اس انجمن نے گنتی کے اُردو اساتذہ کو آج ہزاروں کی تعداد میں بڑھانے کی قابل تعریف کوشش انجام دی ہے۔ مختلف مقامات میں اُردو کی تبلیغ و اشاعت اُردو اساتذہ اور طلبہ کے مسائل ان کی بہبودی اور منصوبے زبان اُردو کے مسائل اور ان کا حل وغیرہ کے۔ یو۔ ٹی۔ اے۔ کے دائرہ عمل میں آتے رہے ہیں۔ اُردو اساتذہ میں  ۴۰؍ فی صد غیر مسلم اُردو اساتذہ ہیں۔ سبھی حضرات بلا کسی تفریق کے اُردو کی ترقی اور اسکولوں کی مختلف سرگرمیوں میں مخلصانہ طور پر ذمہ داریاں نبھا رہے ہیں۔ انجمن اساتذہ اُردو کا کسی بھی سیاسی جماعت سے تعلق نہیں ہے۔

انجمن اساتذہ اُردو کیرالا کی نگرانی اور سرپرستی میں مختلف کانفرنسیں،  سیمنار اور بچوں کے اُردو فیسٹول وغیرہ منعقد کیے جاتے ہیں۔  فروری  ۱۹۹۱؁ء میں کالی کٹ میں منعقدہ اقبال سیمنار بہت اہم ہے۔ ہر دو سال میں کے۔ یو۔ ٹی۔ اے۔ ریاستی جلسہ کا انعقاد کرتی ہے۔ اس میں وزراء سماجی اور سیاسی قائدین مختلف ٹیچرس ایسوسیشن کے مندوبین کو مدعو کیا جاتا ہے۔

گذشتہ دس سال سے جناب پی۔ محی الدین کُٹی صاحب اور پی۔ اے۔ کریم صاحب کی رہنمائی میں یہ انجمن کامیابی کے ساتھ اپنی ذمہ داریاں نبھارہی ہے۔ جناب کے۔ شوکت علی، کلاتھل احمد کُٹی، محی الدین کُٹی این، عبد الرحمن کنّور، ٹی۔ محمد صاحب ترشور، کے۔ محمد،  خالد پالگھاٹ، وی۔ عبد الرحمن کنّور، رویندرن تلاشیری، بخاری وائناڈ وغیرہ اس انجمن کے مشہور اراکین ہیں۔

کیرالا میں کالجوں کی سطح پر سب سے پہلے تلاشیری کے برنن کالج میں اُردو تعلیم کی سہولت مہیا ہوئی۔ یہاں جناب اسمٰعیل صاحب، شاکر صاحب، میر احمد علی صاحب، اسّو صاحب، غوث محی الدین صاحب، ای۔ محمد صاحب جیسے قابل اساتذہ  خدمات انجام دے رہے ہیں۔

ابتدائی زمانے میں اُردو کی رہنمائی اور امتحانات کے منعقد کرانے میں شاکر صاحب کی خدمات اہم ہیں۔ یہاں بی۔ اے۔ اُردو تک تعلیم ہوتی ہے۔ شیخ غوث محی الدین صاحب، قاسم صاحب اور محمد صاحب آج کل یہاں ہر اُردو کی درس و تدریس میں سرگرم عمل ہیں۔

اسی طرح فاروق کالج میں بھی طویل مدّت سے اُردو کی پڑھائی جاری ہے۔ یہاں ایک مدّت تک عبدالرّب صاحب اُردو پڑھاتے رہے۔ بعد میں ابراہیم صاحب، فوزیہ بیگم، نثار احمد صاحب نے تدریس کی خدمات انجام دیں۔ اُردو کے خدمات میں ان لوگوں کا حصّہ قابلِ تعریف ہے۔ پھر  ۱۹۷۰ ؁ء میں جناب سیّد قدرت اللہ باقوی صاحب نے فاروق کالج میں لکچرر بن کے آئے جس سے یہاں کی اُردو میں نئی جان پیدا ہوگئی۔ کالج اور کالج کے باہر قدرت اللہ صاحب کی وجہ سے اُردو کا بازار گرم ہوگیا۔ کیرالا کے گوشے گوشے میں اُنہوں نے اُردو کی آواز پہنچائی۔

کے۔ یو۔ ٹی۔ اے۔ اور دیگر اُردو انجمنوں کی آپ رہنمائی کرتے رہے۔ غرض کہ کیرالا میں اُردو کی ترقی و ترویج کے سلسلے میں پروفیسر موصوف کا بڑا اہم رول رہا ہے۔ تقریباً  ۱۹؍ سال تک آپ فاروق کالج میں خدمات انجام دیتے رہے۔ آج بہت سے محبان اُردو ان کی خدمات اور فرض شناسی کو نمونہ بنا کر میدانِ عمل میں سرگرم ہیں۔

سرکاری کالج ملاپرم میں اُردو کی تعلیم  ۱۹۷۳ ؁ء کے بعد شروع ہوئی۔ اس سلسلے میں جناب پی۔ محی الدین کُٹی صاحب صدر انجمن اُردو اساتذہ کیرالا کی کوشش قابل ذکر ہے۔ پہلے جناب اسّو صاحب بعد میں کنحی محمد صاحب، جناب محمد قاسم صاحب اور مرحوم شیخ عبدالرحمن ثاقب کی خدمات بھی قابل تعریف ہیں۔ ڈاکٹر ثاقب آندھراپردیش کے رہنے والے تھے۔ انہوں نے  ملاپرم کالج میں کل ہند اساتذہ اُردو جامعات ہند کا عظیم سیمنار منعقد کرایا جس میں ہندوستان کے مشہور ادیب اور شاعر حاضر ہوئے تھے۔

دو سال قبل یہاں اُردو بی۔ اے۔ کی سہولت مہیا کی گئی۔ ساتھ ہی اُردو ایم۔ اے۔ کے لیے سنسکرت یونیورسٹی کے کوئی لانڈی ریجنل سینٹر میں سہولت مہیا کی گئی۔ اُردو کی ترقی کا جیتا جاگتا ثبوت اس سے زیادہ اور کیا ہو سکتا ہے۔ ملاپرم کے سرکاری کالج میں اس وقت پی۔ عبدالغفار صاحب، ڈاکٹر شہزادی بیگم صاحبہ، اور پی۔ کے۔ ابوبکر صاحب جیسے اُردو کے ماہرین خدمات انجام دے رہے ہیں۔

        جب کیرالا سرکار نے اُردو ہائیر امتحان کا سلسلہ شروع کیا تو مختلف مقامات پر نجی طور پر اُردو کالج قائم ہونا شروع ہوگئے۔ ملاپرم میں جناب سرورؔ صاحب اور پی۔ محی الدین کُٹی صاحب، کالی کٹ میں اُردو پرچار سمیتی کے تحت جناب کے۔ ٹی۔ سی۔ بیران صاحب، تلاشیری میں اسحق فقیر صاحب کی نگرانی میں انجمن اصلاح اللسان وغیرہ نے کالج قائم ہوئے۔

اس سلسلے میں چینّامنگلورکے اورینٹل اُردو کالج، ملاپرم کے ایلائٹ اُردو کالج، پرنتھلمنّا کے الٰہیہ اُردو کالج، کوڈیتور کے اُردو کالج وغیرہ مشہور ہیں۔ ضلع ملاپرم، کالی کٹ، وائناڈ، کنّور، پالگھاٹ، ترشور کے مختلف مقامات میں کالج قائم کیے گئے۔ ان کالجوں سے جو لوگ پڑھ کر باہر آئے وہی آج کیرالا کے اساتذہ ہیں۔

ان کالجوں کو کسی بھی انجمن یا ادارے سے کسی طرح کی کوئی مالی امداد نہیں ملتی ہے۔ بچوں سے فیس وصول کرکے خرچ اٹھاتے تھے۔ ان کالجوں میں آج صرف گنتی کے کالجوں میں کورسس جاری ہیں۔ ان میں ملاپرم ایلائٹ اُردو کالج قابلِ ذکر ہے جو  ۲۵؍ سال سے بلا ناغہ برابر چلتے آ رہا ہے۔ ریاست کیرالا میں مسلسل جاری رہنے والا  ۲۵؍ سال کا کامیاب تجربہ حاصل کرنے والا واحد کالج ہے ایلائٹ اُردو کالج جو کہ  ۱۹۷۱؁ء میں پی۔ محی الدین کُٹی صاحب کی زیر نگرانی میں شروع ہوا تھا۔ دو سال بعد اس کی باگ ڈور این۔ محی الدین کُٹی صاحب (سیکریٹری انجمن ترقی اُردو ملاپرم) ہاتھوں میں آئی۔ یہاں سے اب تک تقریباً دو ہزار طلباء اُردو سے فارغ ہوچکے ہیں۔ امتحانات میں سب سے زیادہ اوّل نمبر حاصل کرنے والے طلباء بھی اسی کالج سے ہیں۔ کیرالا کی اُردو تاریخ میں اس کالج کا نام سُنہرے حرفوں میں لکھا جائیگا۔

نئے اُردو کالجوں میں ترورکاڈ کے آزاد رسی ڈنشیل اُردو کالج نہایت ہی قابل تعریف ہے۔ اُردو کے لڑکھڑاتے قدموں کو سیدھا کرنے کے لیے نصرت الاسلام ٹرسٹ کے چیرمان جناب این۔ شریف مولوی صاحب کے ذاتی کوششوں کانتیجہ ہے۔ ۳۰؍ سال کا قدیم ادارہ الٰہیہ عربی کالج ترورکاڈ میں اُردو کالج قائم کرکے شریف مولوی صاحب نے عاشقان اُردو کو روحانی سکون بخشا ہے۔ یہاں اس سال سے اُردو کورس کا آغاز ہوا۔ اُردو معلم کی حیثیت سے این۔ صمد صاحب خدمت انجام دے رہے ہیں۔

ملاپرم کے ایلائٹ اُردوکالج کے شروع ہونے سے قبل  قریب کے قریہ کوڈور میں اُردو کی تعلیم دی جاتی تھی۔ شام میں اُردو گفتگو سیکھنے کے لیے ایک خاص کلاس  ’کہکشاں ‘  کے نام سے بھی چلائی جاتی تھی۔ یہ کلاس کوڈور کے عاشقانِ اُردو  ’اُردو ڈولپمنٹ ایسوسیشن کوڈور‘  نامی انجمن قائم کرکے اس کی نگرانی میں چلاتے تھے۔ یہی انجمن بعد میں ملاپرم ایلائٹ اُردو کالج کی باگ ڈور سنبھالی۔ اس طرح کہکشاں کلاس کی اہمیت کم ہوگئی۔

انجمن اشاعت اُردو کوڈیتور کے سرگرم ارکان اور منتظمیں میں جناب کے عبدالغفور صاحب، پی۔ پی۔ عبدالرحمن کے نام قابل ذکر ہیں۔ انجمن نے اپنا ایک کتب خانہ قائم کیا۔ مختلف مقامات میں اُردو کلاس شروع کیے گئے جلسے منعقد کیے گئے نتیجتاً کوڈیتور میں آج تقریباً سو سے زیادہ اساتذہ اُردو ہیں۔  اس کے علاوہ   ۱۹۹۱ ؁ء میں قائم شدہ بزم ترقی اُردو (مرکز الثقافت السنّیہ کارنتور) کی خدمت بھی قابلِ تعریف ہے۔

انجمن ترقی اُردو ریاست کیرالا شاخ کے صدر اور رکن پالیمنٹ جناب عبدالصمد صمدانی کا شمار کیرالا کے مشہور و معروف مقرروں میں ہوتاہے۔ صمدانی صاحب اپنی ہر تقریر میں علامہ اقبالؒ کے اشعار درمیاں میں استعمال کرتے ہیں اُردو زبان و ادب کا تعارف جس طرح سے کیرالا کے عوام کے سامنے کرتے ہیں کسی اور نے نہیں کیا ہے۔ کیرالا کے اُردو دوستوں کو اُردو کی اہمیت جتانے میں صمدانی کی تقریریں بہت ہی اہمیت کے حامل ہیں۔ صمدانی صاحب کا شاید ہی ایسی کوئی تقریر ہو جس میں اُردو اشعار کا استعمال نہ کیا گیا ہو۔ ملابار سے  پارلیمنٹ میں پہنچنے والے اس محب اُردونے اُردو میں حلف اٹھایا پھر علامہ اقبال کا یہ شعر پڑھا۔

اے اہل نظر ذوق نظر خوب ہے لیکن

جو شئے کی حقیقت کو نہ دیکھے وہ نظر کیا

مقصود ہُنر سوز حیات ابدی ہے

یہ ایک نفس یا دو نفس مثل شرر کیا

جس سے دل دریا متلاطم نہیں ہوتا

اے قطرئہ نیساں وہ صدف کیا وہ گہر کیا

شاعر کی نوا ہو کہ مغنی کا نفس ہو

جس سے چمن افسردہ ہو وہ باد سحر کیا

بے معجزہ دنیا میں ابھرتی نہیں قومیں

جو ضرب کلیمی نہیں رکھتا وہ ہنر کیا

راقم الحروف ذاتی تجربے کی بنا پر یہ کہنا مناسب سمجھتا ہے کہ کیرالا کے عوام کو اُردو کی اہمیت اور قومی یکجہتی میں اُردو کے رول کو سمجھانے میں صمدانی صاحب کی کوشش اُردو کی ترقی اور ترویج میں بڑی اہمیت رکھتی ہے۔

کیرالا میں زبان اُردو کی ترقی اور ترویج کی تاریخ میں یہ بہت اہمیت رکھنے والا واقعہ ہے کہ مختلف عربی کالجوں نے اپنی توجہ زبان اُردو کی ترقی و ترویج کی طرف دلائی اس عالمگیری زبان کو سرزمین کیرالا میں تعارف کرانے میں دینی درس گاہوں کا بڑا ہاتھ تھا۔ آج بھی اس زبان کو پروان چڑھانے میں انہی درس گاہوں کا ہاتھ ہے۔ بے شک اُردو کے حق میں یہ بہت بڑی خدمت ہے۔ ان میں مجلس تعلیم الاسلام، دعوہ کالج کالی کٹ، الٰہیہ کالج ترورکاڈ، شانتاپورم کالج پٹی کاڈ، جامعہ نوریہ پٹی کاڈ، رحمٰنیہ کالج وڈگرا، کوٹملا ابوبکر مصلیار کالج ملاپرم، چماڈ عربی کالج، مرکز الثقافت السنّیہ کارنتور کالی کٹ، نندی عربی کالج کوئی لانڈی، جامعہ ندویہ ایڈونّا وغیرہ قابل ذکر ہیں۔ جنہوں نے عربی زبان کے ساتھ اپنی درس گاہوں میں اُردو زبان سکھانے کی سہولت مہیا کی۔

یہاں کے دینی تنظیموں نے بھی اُردو کی ترقی کے لیے کافی خدمات انجام دے رہے ہیں۔ سنّی تنظیم ہو یا جماعت اسلامی چاہے مجاہد (اصلاحی) تنظیم ہو ہر کسی نے اُردو کی ترقی کے لیے کوشش کی ہے۔ اس میں جماعت اسلامی قابل تعریف ہے۔ کیرالا میں اُردو کی ترقی وترویج کئی وجوہات میں کیرالا میں جماعتِ اسلامی کی آمد بھی ایک وجہ ہے۔ جماعتِ اسلامی کے قائم کردہ رہنما محترم ابوالاعلیٰ مودودی کی مادری زبان اُردو تھی۔ انہوں نے بے شمار کتابیں اُردو میں لکھیں۔ قرآن شریف کا اعلی ترجمہ اور تفسیر بھی کیے جس کو دنیا نے تسلیم کیا۔ ان کی کتابوں اور فکر کو سمجھنے کے لیے اُردو زبان کا سیکھنا ضروری تھا۔ یہی وجہ ہے کہ جماعت اسلامی کے بارہ عربی کالجوں میں اُردو کی تعلیم بھی دی جاتی ہے۔ جماعت اسلامی کے تقریباً تمام کارکنوں کو اُردو سے اچھی واقفیت بھی ہے۔ اُردو کی بے شمار کتابیں ملیالم میں ترجمہ کرکے شائع بھی کئے ہیں۔

کیرالا کے ہائی اسکولوں میں اُردو شروع ہونے کے بعد اُردو اساتذہ کی بے حد کمی ایک نگین مسئلہ تھا جس کو دور کرنے کے لیے کے۔ یو۔ ٹی۔ اے۔ اور دیگر اُردو انجمنوں کی کوششوں سے اُردو کے لیے پہلا سینٹر کرناٹک اور کیرالا کے سر حدی مقام مائی پاڈی میں شروع کیا گیا، بعد میں یہ ملاپرم منتقل کرایا گیا۔ اس کے بعد کالی کٹ میں بھی ایک سینٹرشروع کیا گیا۔ تقریباً  ۱۴؍ سال سے کل ملاکر ملاپرم اور کالی کٹ سے چھ سو سے زائد تربیت یافتہ اساتذہ فارغ ہوکر نکلے ہیں۔ آج بھی کالی کٹ اور ملاپرم میں یہ کورس جاری ہے۔

آزادی کے بعد محبان اُردو میں کچھ ایسی شخصیتیں آج بھی موجود ہیں جنہوں نے اُردو کی ترقی کے لیے ذوق وشوق سے کام کرنے کے باوجود بھی مشہور نہ ہو سکے۔ آزادی کے بعد کیرالا میں اُردو کی ترقی وترویج کے لیے سب سے زیادہ محنت کرنے والی شخصیت ایس۔ ایم۔ سرورؔ صاحب کی تھی۔ وہ کیرالا کے واحد اُردو شاعر و ادیب بھی تھے۔ انہوں نے دو شعری مجموعہ شائع کیے،  ’ارمغانِ کیرالا‘  اور  ’نوائے سرورؔ‘۔ ارمغانِ کیرالا ہندوستان کے کئی ادبا وعلماء کے ہاتھ لگے۔ سید ابوالحسن ندوی، عبدالماجد دریابادی، ڈاکٹر صفدر آہ، محمود سعیدی، ڈاکٹر شمیم حنفی، ساغر مہدی جیسی شخصیتوں نے ان مجموعوں کی بے حد ستائش کی۔ سید محمد سرورؔ صاحب اُردو کے لیے اپنا سب کچھ قربان کر دیے تھے۔ وہ کیرالا کے لیے قابل فخر سپوت ہیں۔ جن کی مادری زبان ملیالم ہوتے ہوئے بھی اُردو میں شاعری کرنے لگے۔

عبدالحمید مولوی حیدری یہ ایک ایسی شخصیت ہیں جن کو بہت کم لوگ جانتے ہیں ان کو اُردو پر مکمّل عبوریت حاصل تھی۔ وہ عاشق اقبالؔ بھی تھے۔ مولوی صاحب مفت میں کئی مدرسوں میں جاکر اُردو کی تعلیم دیتے تھے۔ ملابار کے مشہور کڈلُنڈی ندی کے کنارے ایک مسجد میں بیٹھ کر انہوں نے قرآن شریف کا اُردو میں ترجمہ کرنا شروع کیا۔ اللہ کی مرضی کے آگے کس کی چلی ہے؟ آخرکار یہ نیک کام مکمّل ہونے سے پہلے وہ انتقال کرگئے، عبدالحمید مولوی سابق ایم۔ پی۔ انجمن ترقی اُردو کیرالا کے صدر نشین جناب عبدالصمد صمدانی کے والدِ محترم تھے۔

اسی طرح ایم۔ این۔ ستھیارتھی ایک مشہور شخصیت ہیں جو مجاہد آزادی بھی ہیں۔ ستھیارتھی پاکستان میں پڑھائی پوری کیے اور انڈین نیشنل آرمی میں شامل ہوئے۔ ’زمین دار‘  اخبار میں ہمیشہ اُردو میں مضامین شائع کیا کرتے تھے۔ کئی سال کلکتہ میں رہنے کے بعد آزاد ہندوستان میں اپنے وطن کیرالا (کارنتور، کالی کٹ) میں پہنچے، اُردوکے ساتھ ساتھ بنگالی زبان سے بھی اچھی طرح واقف تھے۔ انہوں نے بہت سی اُردو کتابوں کا ملیالم میں ترجمہ کرکے شائع کرایا ہے۔

مولانا ابوالاعلیٰ مودودی صاحب کے تفہیم القرآن اور تفسیر القرآن اُردو زبان سے ملیالم زبان میں ترجمہ کرکے شائع کرنے والے مشہور شخصیت کا نام ٹی۔ کے۔ عبید ہے۔ جنہوں نے شاندار طریقہ سے ملیالم زبان میں کئی اُردو کتابوں کا ترجمہ کیا۔ اس طرح ٹی۔ عبید صاحب بھی کئی اُردو مضامین و کتب اُردو سے ملیالم میں ترجمہ کئے ہیں۔ اس میں علامہ اقبالؒ کے  ’شکوہ جواب شکوہ‘  کا ملیالم میں ترجمہ قابل تعریف ہے۔ خالد اُردو کی چھوٹی چھوٹی کہانیاں (مِنی افسانہ) ملیالم میں ترجمہ کرکے شائع کرنے والی شخصیت تھی، جن کو بعد میں کیرالا ساہتیہ اکادمی کا ایوارڈ بھی حاصل ہوا۔ اسی طرح مرزا غالبؔ کی سوا نح حیات ملیالم میں ترجمہ کرکے ولاپٹنم عبداللہ نے شائع کیا۔

کیرالا کے مشہور مورخیں میں کے۔ کے۔ محمد عبدالکریم، محمد نظامی، سی حمزہ صاحب وغیرہ کے نام کافی اہم ہیں۔ انہوں نے خاص طور پر کیرالا کے مسلمانوں کی تاریخ پر کتابیں لکھی ہیں۔ جن لوگوں کو اُردو میں اچھی خاصی معلومات حاصل تھیں۔ ان میں کے۔ کے۔ عبدالکریم کا نام قابل تعریف ہے۔ انہوں نے بھی بے شمار اُردو کتابوں کا ملیالم میں ترجمہ کیا ہے۔ شبلی اکیڈمی، ندوۃ العلماء سکی کئی کتابوں کا ملیالم میں  ترجمہ کیا ہے۔ ان میں سلیمان ندوی صاحب کی  ’عربوں کی جہاز رانی‘،  ’عرب ہند کے تعلقات‘  وغیرہ قابل ذکر ہیں۔  سی۔ حمزہ صاحب کو اُردو اور فارسی پر یکساں طور پر عبوریت حاصل تھی۔ انجمن ترقی اُردو کیرالا کے صدر اور رکن پارلیمنٹ جناب عبدالصمد صمدانی صاحب نے بھی اُردو کتابوں کا ملیالم میں ترجمہ کرکے شائع کرانے کا کام انجام دیا ہے۔ آپ نے مولانا ابوالحسن ندوی کی لکھی ہوئی کتاب نقوش اقبال، مضامین اقبال وغیرہ اُردو سے ملیالم میں ترجمہ کیا ہے۔ حال ہی میں شائع ہونے والی کتاب ’مضامین گجرال‘ اُردو سے ملیالم میں صمدانی صاحب ترجمہ کر رہے ہیں اور بھی کئی شخصیتیں ہیں جن کے متعلق یہاں لکھنا شروع کریں تو کئی صفحات درکار ہوں گے۔

 ترورکاڈ کا اُردو زبان کے متعلق تحقیقات کی جائیں تو بہت کچھ لکھا جا سکتا ہے۔ مقالہ مختصر کرتے ہوئے کچھ خاص تفصیلات ہی یہاں قلمبند کیے جا رہے ہیں۔ ترورکاڈ کے قدیم باشندوں کو کچھ حد تک اُردو میں گفتگو کرنا آتی تھی۔ کئی لوگ تلاش معاش کے سلسلے میں کولار، بمبئی، گجرات، بنگلور وغیرہ جایا کرتے تھے۔ انہیں کی وجہ سے  یہاں اُردو کی آمد ہوئی۔ زیادہ تر لوگ کولار میں کام کرتے تھے جن میں مشہور خاندان کُریکل (امبلاکتھ) کے لوگ تھے۔

یہاں اُردو لکھنے پڑھنے کا نظام تقریباً  ۱۹۴۰ ؁ء سے شروع ہوتا ہے۔ الٰہیہ مدرسہ میں عربی درس کے ساتھ ساتھ اُردو بھی سکھائی جاتی تھی۔ کاڈیری محمد مصلیار یہاں کے اُردو اُستاد تھے۔ ان کے یہاں کئی لوگ اُردو سیکھتے تھے۔ ترورکاڈ کے عمردراز لوگ جو آج بھی با حیات ہیں زیادہ تر رہے اُردو سے واقفیت رکھتے ہیں۔ آزادی کے بعد بھی اس مدرسہ میں اُردو پڑھائی جاتی تھی۔ بعد میں الٰہیہ مدرسہ عربی کالج بن گیا تو اس میں بھی اُردو پڑھائی جانے لگی۔

۱۹۷۰ ؁ء میں یہاں ایک اور دینی مدرسہ اور یتیم خانہ  ’انوار الاسلام‘  کے نام سے قائم کیا گیا یہاں بھی اُردو کی تعلیم دی جاتی تھی۔ ۱۹۷۲ ؁ء سے  ۱۹۷۴ ؁ء تک دو سال کے عرصہ میں انجمن ترقی اُردو کیرالا کے صدر عبدالصمد صمدانی کے والد محترم جناب عبدالحمید حیدری مولوی اُردو سکھاتے تھے۔ قرآن کا بھی درس دیتے تھے۔ یہ وہی عبدالحمید مولوی تھے جنہوں نے قرآن شریف کا اُردو میں ترجمہ کیا تھا، ترورکاڈ کے لیے ایک قابل فخر کارنامہ ہے۔ ترورکاڈ میں جماعت اسلامی کا تعارف کرانے والے اور جماعت اسلامی قائم کرنے والے ایم۔ علوی کُٹی مولوی مرحوم تھے۔ ان کو بھی اُردو زبان پر مہارت حاصل تھی۔

ترورکاڈ میں اُردو کے سب سے بڑے عالم و فاضل جناب ایم۔ علی مولوی صاحب تھے۔ وہ ایس۔ ایم۔ سرورؔ صاحب کے شاگرد تھے۔ ان کو مکمّل طور پر اُردو زبان پر مہارت حاصل تھی۔ لکھنؤ، حیدرآباد وغیرہ جگہوں پر اُردو میں درس بھی دیا کرتے تھے۔ ان کے برادر نسبتی جناب ایم۔ عثمان حاجی اور پروفیسر ایم۔ عمر صاحب دونوں کو یکساں طور پر اُردو زبان پر عبوریت حاصل تھی۔ پروفسیر عمر صاحب اُردو میں شاعری بھی کرتے تھے اور شوقاً اشعار بھی لکھتے رہتے تھے۔ ان لوگوں کے علاوہ آج بھی اُردو پڑھے لکھے لوگ ترورکاڈ میں موجود ہیں۔ ریاست کیرالا لے مشہور پروفیسر کے۔ علی کُٹی مصلیار (وقف بورڑ رکن) ان کو بھی اچھی طرح اُردو میں معلومات حاصل ہیں۔ ان کے گھر میں کئی اُردو کتابیں ہیں۔ راقم الحروف سے ہمیشہ اُردو میں ہی مخاطب ہوتے ہیں۔

آج ان لوگوں کے علاوہ اُردو پر مکمّل مہارت حاصل کرنے والی شخصیت این۔ شریف مولوی ہے۔ جن کی محنتوں اور کاوشوں کا نتیجہ ہے کہ آج ترورکاڈ میں آزاد ریسی ڈنشل اُردو کالج قائم ہے۔ شریف مولوی صاحب کو اُردو پر اچھی گرفت حاصل ہے۔ تقریروں اور خطبوں میں اُردو اشعار کہتے ہیں۔ مولوی صاحب عاشقِ اقبال بھی ہیں۔ ایسے لوگوں کی خدمت ہی کی وجہ سے آج اُردو زندہ ہے۔ نصرت الاسلام ٹرسٹ ترورکاڈ کی زیر نگرانی میں کئی ادارے چل رہے ہیں۔ شریف مولوی جیسی قابل شخصیت اس ٹرسٹ کے چیرمین ہے۔ راقم الحروف کا ان سے گذشتہ ایک سال سے تعلق ہے۔ آج تک ملیالم زبان استعمال نہیں کیے ہمیشہ اُردو زبان میں ہی مخاطب ہوتے ہیں۔ انہیں کے زیرِ نگرانی میں الٰہیہ عربی کالج ترورکاڈ ہے۔ جس میں اُردو بھی سکھائی جاتی ہے۔ اسی ادارے کے تیس سالہ جشن کے موقع پریہ مقالہ پیش کر رہا ہوں۔

٭٭٭

تبصرے بند ہیں۔