کیک کاٹ کر قربانی کامذاق اڑانے والوں کے نام

عبدالرشید طلحہ نعمانیؔ

ہر سال کی طرح اس سال بھی عالم اسلام سمیت دنیا بھر میں عیدالاضحی پورے جوش وخروش کے ساتھ منائی گئی اور اس مناسبت سے فرزندان توحید نے ذبح عظیم کی یادگار کے طورپر وسعت واستطاعت کے مطابق  قربانی میں حصہ لیااور حضرت ابراہیم خلیل اللہ علیہ السلام کی اس سنت کواداکیا ؛جس کے تعلق سے سرکاردوعالم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایاکہ ”یوم النحر(دسویں ذی الحجہ)میں ابن آدم کا کوئی عمل خدا کے نزدیک خون بہانے (قربانی کرنے)سے زیادہ پیارا نہیں اور وہ جانور قیامت کے دن اپنے سینگ اور بال اور کھروں کے ساتھ آئے گا اور قربانی کا خون زمین پر گرنے سے قبل خدا کی بارگاہ میں شرف قبولیت حاصل کرلیتا ہے لہٰذا اس کو خوش دلی سے کرو۔ ” (جامع ترمذی)

نیز ایک دوسرے مقام پر ارشاد فرمایا”جو مال وثروت کے باوجود قربانی نہ کرے وہ ہماری عیدگاہ کے قریب بھی نہ آئے”(ابن ماجہ)

چناں چہ ایک طرف جذبہ اطاعت و فرماں برداری سے سرشارملت اسلامیہ پورے عالم میں جانورذبح کرکے حکم الہی کےآگے سرتسلیم خم کررہی تھی تو دوسری طرف آر ایس ایس کی نمائندہ تنظیم "مسلم راشٹریہ منچ "تملق وچاپ لوسی،خوشامد و کاسہ لیسی کی ساری حدیں پھلاندتےہوئےبقرعیدکا”کیک "کاٹ کر "اسلام شعار کا مذاق اڑارہی تھی۔

واضح رہے کہ "مسلم راشٹریہ منچ ” آر ایس ایس کی ایک شاخ ہے؛ جس میں زیادہ تر شیعہ ، قادیانی اور کچھ زر خریدنام نہاد مسلم ہیں ؛ جن کا کام مسلم ناموں سے سوشل میڈیا، پرنٹ میڈیا، الیکٹرانک میڈیا اور دیگر ذرائع ابلاغ کےذریعہ اسلام اور مسلمانوں کے تعلق سے نفرت پھیلانا اور اسلام کی پاکیزہ شبیہ کو مسخ کرنا ہے۔

 مسلم راشٹریہ منچ ایک اسلام اور مسلم مخالف تنظیم ہے جو مسلمانوں کے صفوں میں اسلامی نام سے گهس چکی ہے اور بہت ہی تیزی کے ساتھ ان کی تعداد میں اضافہ ہوتاجا رہا ہے۔ ہندوستان کی تاریخ اٹھا کر دیکھ لیں کہ آج تک کھلم کھلا”بقرعید” میں جانوروں کو ذبح کرنے کی  مخالفت "جینی مذہب” کے علاوہ کسی نے نہیں کی؛ لیکن آج یہ کھلم کھلا مخالفت کر رہے ہیں اور بکرے کی شکل کا کیک کاٹ کر شعائراسلام کا استہزاء کررہے ہیں ۔آیئے روشنی کے نام پر تیرگی اور رہنمائی کے عنوان سے گمراہی پھیلانے والے ان عقل پرستوں کے دلائل کا جائزہ لیتے ہیں !

مقصود قربانی:

اللہ تعالیٰ جو تمام مخلوقات کا خالق برحق ہے اس نے روز اول سے آج تک عبادت کی ایک شکل جانور کی قربانی رکھی ہے۔ اس سلسلے کا پہلا واقعہ آدم ؑ کے بیٹوں کی قربانی میں بیان کیا گیا تو آخری انتہا حضرت ابراہیم ؑاور ان کے بیٹے اسماعیل ؑ کا واقعہ ہے جس میں اللہ کی مرضی اور رضا ہی بنیادی نکتہ ہے۔ قربانی کا مقصد یہ ہے کہ بندہ مومن صرف اور صرف خداوند عالم وحدہ لاشریک کے سامنے سرتسلیم خم کریں اور جو کچھ وہ حکم دے اسی پر عمل کریں دوسرے لفظوں میں یہ کہا جاسکتا ہے کہ قربانی کے قانون کو وضع کرنے کی ایک وجہ عبودیت، ایمان اور اس کے سامنے سر تسلیم خم کرنے کو آزمانا ہے۔ قرآن حکیم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:”ہر امّت کے لیے ہم نے قربانی کا ایک قاعدہ مقرر کر دیا ہے تاکہ اس امّت کے لوگ ان جانوروں پر اللہ کا نام لیں جو اس نے ان کو بخشے ہیں ۔ اِن مختلف طریقوں کے اندر مقصد ایک ہی ہے پس تمہارا خدا ایک ہی خدا ہے اور اسی کے تم مطیعِ فرمان بنو” (سورہ حج : 43)۔

عمل کے نتیجہ میں فائدہ یہ ہوگا کہ خدا کی رحمتیں وسیع تر ہوں گی، نیکی اور احسان کی صفات پیدا ہوں گی اور مغفرت الٰہی نصیب ہوگی۔

قربانی کے بدلے صدقہ کرنا ؟

اگر قربانی کرنے کی بہ نسبت انسانیت کی فلاح وبہبود میں مال خرچ کرنا ہی افضل، موزوں ، مناسب یا ضروری ہوتا توجناب نبی اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں اہلِ ثروت اور صاحب ِ نصاب مسلمانوں پر قربانی کے حکم کے بجائے غریب، سسکتی اور بد حال انسانیت پر مال خرچ کرنا ضروری قرار دیا جاتا؛ جب کہ یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ ہر دور میں غریب اور نادار طبقہ موجود رہا ہے، تو یقینا آپ علیہ الصلاة والسلام کے مبارک دور میں بھی یہ طبقہ موجود تھا؛ بلکہ ایسے ہی افراد کی کثرت تھی؛ لیکن رحمة للعالمین  صلی اللہ علیہ وسلم (جو اپنی امت کے لیے بہت ہی زیادہ شفیق اور مہربان تھے)نے اپنے زمانہ کے اہلِ ثروت اور صاحب ِ نصاب مسلمانوں کو اس (عید الاضحی کے ) موقع پر یہ حکم نہیں دیا کہ وہ اپنا مال رفاہِ عامہ کے مفید کاموں ، ہسپتالوں کی تعمیر اور انسانیت کی فلاح وبہبود کے لیے خرچ کریں ؛ بلکہ یہ حکم فرمایا کہ اس موقع پر اللہ کے حضور جانور کی قربانی پیش کریں ۔

اور خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا دائمی عمل ان دنوں میں قربانی کرنے کا ہی تھا، حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں : ”رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ میں دس سال قیام فرمایا (اس قیام کے دوران) آپ صلی اللہ علیہ وسلم قربانی کرتے رہے۔“ (سنن الترمذي، الأضاحي، باب الدلیل علی أنَّ الأضحیةَ سُنَّةٌ، رقم الحدیث: 1507)

 اور صحابہٴ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کا اس عظیم حکم کو ہمیشہ قائم ودائم رکھنا، اس بات کی دلیل ہے کہ عید الاضحی کے موقع پر قربانی کرنا ہی ضروری ہے۔

ان نام نہاد دانشوروں سے میں پوچھنا چاہتاہوں جنہیں قربانی کے جانوروں کےذبح میں تو اسراف نظرآتاہے؛مگر ان کھربوں روپے کا ضیاع دکھائی نہیں دیتا جو ہر روز امیر لوگ پیزوں اور برگروں پر اڑا دیتے ہیں ،ان کھربوں ڈالرز کے ضیاع پر کبھی انگلی نہیں اٹھائی جاتی جو یورپ اور امریکہ میں پیٹس (pets) کے کھلونے بنانے میں خرچ ہوتے ہیں ،ان کھربوں ڈالر کے ضیاع پر کسی کو تکلیف نہیں ہوتی جو ہر سال کاسمیٹکس انڈسٹری (cosmetics industry) میں جھونک دئیے جاتے ہیں اور جن کا مقصد اس کے سواء اور کچھ نہیں کہ میں زیادہ طویل دنوں تک جوان نظرآوں ؎

”برایں عقل و دانش بباید گریست“

 کیا قربانی جانور کی نسل کشی ہے؟

بعض روشن خیال حضرات اس موقع پر یہ شوشہ بھی چھوڑتے ہیں کہ قربانی دراصل معصوم وبےزبان جانوروں کی نسل کشی ہے؛اس لیے جب اس کےمتبادل(کیک وغیرہ) سے کام چل سکتا ہے تو کیوں خوہ مخواہ اس طرح جانوروں کو ظلماََ ذبح کیاجائے؟

اس سلسلہ میں حضرت مولانا مفتی محمدشفیع صاحب رحمہ اللہ کا یہ چشم کشا اقتباس ہدیہ قارئین کیاجارہاہے۔

حضرت مفتی صاحب قرآن پاک کی آیت” وَمَا اَنْفَقْتُمْ مِنْ شَیْءٍ فَھُوَ یُخْلِفُہ "کی تفسیر میں لکھتے ہیں: ” اس آیت کے لفظی معنی یہ ہیں کہ تم جو چیز بھی خرچ کرتے ہو اللہ تعالیٰ اپنے خزانہٴ غیب سے تمہیں اس کا بدل دے دیتے ہیں، کبھی دنیا میں اور کبھی آخرت میں اور کبھی دونوں میں ، کائنات ِ عالَم کی تمام چیزوں میں اس کا مشاہدہ ہوتا ہے کہ آسمان سے پانی نازل ہوتا ہے، انسان اور جانور اس کو بے دھڑک خرچ کرتے ہیں، کھیتوں اور درختوں کو سیراب کرتے ہیں، وہ پانی ختم نہیں ہوتا کہ دوسرا اس کی جگہ اور نازل ہو جاتا ہے، اسی طرح زمین سے کنواں کھود کر جو پانی نکالا جاتا ہے، اس کو جتنا نکال کر خرچ کرتے ہیں اس کی جگہ دوسرا پانی قدرت کی طرف سے جمع ہو جاتا ہے، انسان غذا کھا کر بظاہر ختم کر لیتا ہے؛ مگر اللہ تعالیٰ اس کی جگہ دوسری غذا مہیا کر دیتے ہیں ، بدن کی نقل وحرکت اور محنت سے جو اجزاء تحلیل ہو جاتے ہیں، ان کی جگہ دوسرے اجزاء بدل بن جاتے ہیں ، غرض انسان دنیا میں جو چیز خرچ کرتا ہے، اللہ تعالیٰ کی عام عادت یہ ہے کہ اس کے قائم مقام اس جیسی دوسری چیز دے دیتے ہیں ، کبھی سزا دینے کے لیے یا کسی دوسری تکوینی مصلحت سے اس کے خلاف ہو جانا اس ضابطہٴ الٰہیہ کے منافی نہیں.

اس آیت کے اشارہ سے یہ بھی معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ نے جو اشیاء صرف انسان اور حیوانات کے لیے پیدا فرمائی ہیں ، جب تک وہ خرچ ہوتی رہتی ہیں ، ان کا بدل منجانب اللہ پیدا ہوتا رہتا ہے، جس چیز کا خرچ زیادہ ہوتا ہے، اللہ تعالیٰ اس کی پیداوار بھی بڑھا دیتے ہیں ، جانوروں میں بکرے اور گائے کا سب سے زیادہ خرچ ہوتا ہے کہ ان کو ذبح کر کے گوشت کھایا جاتا ہے اور شرعی قربانیوں اور کفارات وجنایات میں ان کو ذبح کیا جاتا ہے، وہ جتنے زیادہ کام آتے ہیں ، اللہ تعالیٰ اتنی ہی زیادہ اس کی پیداوار بڑھا دیتے ہیں ، جس کا ہر جگہ مشاہدہ ہوتا ہے کہ بکروں کی تعداد ہر وقت چھری کے نیچے رہنے کے باوجود دنیا میں زیادہ ہے،کتے بلی کی تعداد اتنی نہیں ؛ حالانکہ کتے بلی کی نسل بظاہر زیادہ ہونی چاہیے کہ وہ ایک ہی پیٹ سے چار پانچ بچے تک پیدا کرتے ہیں ، گائے بکری زیادہ سے زیادہ دو بچے دیتی ہے، گائے بکری ہر وقت ذبح ہوتی ہے، کتے بلی کو کوئی ہاتھ نہیں لگاتا؛ مگر پھر بھی یہ مشاہدہ ناقابلِ انکار ہے کہ دنیا میں گائے اور بکروں کی تعداد بہ نسبت کتے بلی کے زیادہ ہے، جب سے ہندوستان میں گائے کے ذبیحہ پر پابندی لگی ہے، اس وقت سے وہاں گائے کی پیداوارگھٹ گئی ہے، ورنہ ہر بستی اور ہر گھر گایوں سے بھرا ہوتا جو ذبح نہ ہونے کے سبب بچی رہیں ۔

عرب سے جب سے سواری اور باربرداری میں اونٹوں سے کام لینا کم کر دیا، وہاں اونٹوں کی پیداوار بھی گھٹ گئی، اس سے اس ملحدانہ شبہ کا ازالہ ہو گیا، جو احکامِ قربانی کے مقابلہ میں اقتصادی اور معاشی تنگی کا اندیشہ پیش کر کے کیا جاتا ہے۔“

(معارف القرآن، سورة السباء:39، 7/303)

اخیر میں ان کم عقلوں ، ظاہربینوں اورموقع پرستوں کےنام  جناب منور بدایونی کےیہ اشعارــــجو حالی مرحوم کےمعروف کلام پر تضمین ہےـــکررہاہوں جو دین ومذہب کے نام پرسیاست کرتےہیں اورشعائراسلام کا مذاق اڑانے سے بھی دریغ نہیں کرتے۔

چھائی ہوئی عالم پہ قیامت کی گھٹا ہے

بدلی ہوئی دنیا میں زمانے کی ہوا ہے

گردش میں مسلماں ہیں فلک کانپ رہا ہے

غیروں کی شکایت نہیں اپنی ہی خطا ہے

اسلام پہ پھر دشمنِ دیں ٹوٹ پڑے ہیں

غارت گرِ ایمان تباہی پہ اڑے ہیں

جھنڈے ترے ہر سمت خدائی میں گڑے ہیں

جب چاہا ہے کفار کا رخ موڑ دیا ہے

’’اے خاصہِ خاصانِ رسل وقتِ دعا ہے

اُمّت پہ تری آکے عجب وقت پڑا ہے‘‘

1 تبصرہ
  1. برہان بن غفران فتح محمد کہتے ہیں

    عمدہ تحریر جزاکم اللہ خیرا
    محترم یہ دنیا آج بہت زیادہ مادہ پرست ہوگئ اسلئے جواب دیا جا سکتا ہے کہ آپ لوگ کسانوں اور غریبوں اور دیہات میں مقیم افراد کے خلاف کب تک سازشیں کرو گے قربانی کا مارکیٹ کسانوں اور دیہی علاقوں کے ہاتھ میں ہے بیچنے والے وہی افراد ہوتے ہیں معاشی فائدہ زیادہ ان ہی کو جاتا ہے اسلئے ان غریبوں کے خلاف اپنی سازش بن کرو کیک کمپنیوں کو پرموٹ کرنا بند کرو ۔۔۔۔۔
    ان کے پاس کوئ جواب بھی نہیں رہے گا اور دوسرے موضوعات چھڑجائین گے ۔۔

تبصرے بند ہیں۔