گزریں گے ایک روز یقینا ادھر سے ہم

غزل
دانش اثری، مئو
گزریں گے ایک روز یقینا ادھر سے ہم
اب تک گریز پا رہے جس رہ گزر سے ہم
حیراں ہمارے پاؤں کے سب آبلے رہے
تھکتے نہیں کبھی بھی، کسی بھی سفر سے ہم
ہم جانتے ہیں آپ کی نفرت ہے ظاہری
اترے نہیں ہیں آپ کی اب تک نظر سے ہم
صحرا میں آکے وحشتیں سب شاداب ہوگئیں
لائے نہ تھے سکون کوئی اپنے گھر سے ہم
افسوس یہ ہے وصل کی شب بھی گزرگئی
کرتے نہیں ہیں شکوہ کوئی بھی سحر سے ہم
تو خود ملے تو دل کو ترے سامنے رکھیں
کچھ بھی نہیں کہیں گے ترے نامہ بر سے ہم
اللہ کرے نہ کوئی ہو محروم اس طرح
جس طرح تیری دید کو اب تک ہیں ترسے ہم
دانش سے پھیر لی جو نظر آنجناب نے
چپ چاپ اٹھ کے چلتے بنے ان کے در سے ہم

تبصرے بند ہیں۔