گفتگو بند نہ ہو: مراٹھی نظموں کا اردو ترجمہ

وصیل خان

زیرنظر کتاب ’گفتگو بند نہ ہو‘ مراٹھی نظموں کا ترجمہ ہے جسے وقار قادری نے اردو کے قالب میں ڈھالاہے۔ موصوف یہ کام ایک عرصہ ٔ دراز سے کررہے ہیں اور کامیاب بھی ہیں۔ یوں تو وقار کی متعدد کتابیں منظر عام پر آچکی ہیں جن میں ناول بھی شامل ہے لیکن ان کی شناخت مراٹھی تخلیقات کے اردو ترجمے کے حوالے سے زیادہ مستحکم سمجھی جاتی ہے اور یہ استحکام انہیں ترجمے کے ایک خاص زاویئے کے سبب حاصل ہوا ہے۔

 انہوں نے عام روایات سے قدرے ہٹ کر یہ کوشش کی ہے کہ ترجمہ محض برائے ترجمہ نہ رہ جائے یعنی زبان کی اصل ہیئت بھی باقی رہے اور ترجمہ بھی ہو جائے، اس طرح انہوں نے اپنی ایک علیحدہ شناخت قائم کرنے کی کوشش کی ہے،اور قاری کو دوران مطالعہ ایک خوشگوار احساس کا تجربہ ہوتا ہے اور ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ہم بہ یک وقت دوزبانوں کے کلچر، کیفیت اور اس کے فطری رنگ و آہنگ سے واقف ہورہے ہیں۔ ترجمے کی روایت بہت قدیم ہے جس کے ذریعے دوسرے علاقوں کی تخلیقات اور زبان کے اتارچڑھاؤ کا اندازہ ہوتا ہے اسی کے ساتھ ہی دیگر خطوں کی تہذیب و ثقافت کا بھی ادراک ہوتا ہے جس کا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ خود اپنی زبان کا دائرہ وسیع تر ہوتا چلا جاتا ہے اور زبان کی صحت اور وسعت میں اضافہ ہوتا ہے جو کسی بھی زبان اور اس کے کلچر کی زندگی و بقا کیلئے ضمانت بن جاتا ہے۔

وقار قادری اور کچھ دیگر مترجمین ایک تسلسل کے ساتھ اردو قارئین کو مراٹھی ادب سے متعارف کرکے یہی مستحسن کام انجام دے رہے ہیں۔ زیرنظر کتاب میں مختلف مراٹھی شعراء کی نظموں کا ترجمہ انہوں نے نہایت خوش اسلوبی سے کیا ہے۔

 دوران مطالعہ بار بار اس بات کا احساس ہوتا ہے کہ مراٹھی شعراء کے لہجے میں جہاں رومانیت اور کھنک کے ساتھ جرأتمندانہ احتجاج کی تیز رو لہریں ابھرتی اور مچلتی دکھائی دیتی ہیں۔ وہیں اس بات کا بھی ادراک ہوتا ہے کہ ان کے یہاں موضوع کے انتخاب کے ساتھ ساتھ اسلوب اور بیانیئے میں بھی اچھی خاصی اور متنوع پیش رفت ہوئی ہے جو مراٹھی ادب کیلئے ایک صحت مند اشاریہ ہے لیکن وہیں اس بات کا بھی شدت کے ساتھ احساس ہوتا ہے کہ اردو والوں کے یہاں اس طرح کی پیش قدمیاں ماضی کے مقابلے کافی سست اور کمزور ہوچکی ہیں۔

اس اعتبار سے بھی وقار قادری کے اس کام کی اہمیت مزید بڑھ جاتی ہے کہ انہوں نے ترجمے کے ذریعے اردو شعراءکے افکار و خیالات کے بندھے پانی میں کنکر پھینک کر ارتعاش پیدا کرنے کی جوکوشش کی ہے وہ بہر صورت اردو ادب کے لئے مفید ثابت ہوگا جس سے اس کے ذخیرے مزید مالامال ہوسکتے ہیں۔

مجموعی طور پر یہ کتاب ترجمے اوردیگرفوائد کے التزامات کے اعتبار سے اردو ادب کے قارئین کیلئے ایک خوبصورت تحفہ ثابت ہوسکتی ہے بشرطیکہ ان نکات پر سنجیدگی سے غور کیا جائے اپنے اس کام کےذریعے وقارقادری سبھی کے شکریئے کے حقداربن گئے ہیں۔ ہم ایوان ادب میں ان کا خیرم مقدم کرتے ہیں۔

کتاب: گفتگو بند نہ ہو (مراٹھی نظموں کے تراجم)، مترجم:وقارقادری، قیمت: 150/-روپئے۔، صفحات:128، پبلشر : کتاب دار، 108/110جلال منزل، ٹیمکر اسٹریٹ ممبئی ۸، ملنے کے پتے:  کتاب دار، فون نمبر۔ 9869321477    مکتبہ جامعہ لمٹیڈ ممبئی ۳، سیفی بکڈپو، ممبئی ۳   

تبصرے بند ہیں۔