گھونگے میاں

ڈاکٹر عابد الرحمن

چڑیا کے بچے کی سال گرہ تھی۔ چڑیا نے اس پر ایک تقریب کا انعقاد کیا اور جنگل کے سبھی جانوروں کے ساتھ گھونگے میاں کو بھی اس میں مدعو کیا۔ گھونگے میاں چڑیا کے گھر کے لئے نکلے اور جب پہنچے تو انہیں چڑیا کے گھر جشن کا ماحول دکھائی دیا انہوں نے چڑیا کو بچے کی سال گرہ کی مبارکباد دی تو معلوم ہوا کہ یہ تقریب اس بچے کی سال گرہ کی نہیں بلکہ شادی کی ہے۔ یعنی سال گرہ کے لئے نکلے گھونگے میاں کو مقام تقریب پہنچتے ہوئے اتنا وقت لگ گیا کہ وہ بچہ بڑا ہوکر اس کی شادی کی تقریب منعقد ہو گئی۔ یہ کہانی ہم نے پرائمری پڑھی تھی۔ وطن عزیز میں بھی اسی طرح کا ایک معاملہ ۱۹۵۹ میں پیش آ یا جب نظام عدل میں بابری مسجد ملکیت کا مقدمہ دائر کیا گیا، لیکن اب اس واقعہ کو ۵۸ سال کا لمبا عرصہ گزر جانے کے بعد بھی نظام عدل کے گھونگے میاں قانون وانصاف کے مطابق کسی حتمی فیصلے تک نہیں پہنچ سکے۔

مذکورہ کہانی میں چڑیا کے بچے کی سال گرہ کے لئے نکلے گھونگے میں اس کی سال گرہ میں نہیں تو کم از کم شادی میں تو پہنچ گئے لیکن وطن عزیز کے نظام عدل کے گھونگے میاں حتمی فیصلے تک تو چھوڑئے اس وقت بھی نہیں پہنچے جب مسجد بند کروادی گئی، جب متنازعہ ڈھانچہ قرار دی گئی، جب اس میں رکھی گئی مورتیوں کی پوجا پاٹ کی اجازت دی گئی اور جب اس کی موجودگی میں رام مندر کا شیلا نیاس کروایا گیا اور اس وقت بھی نہیں پہنچے جب انصاف کی دعوت دینے کے ۳۳ سال بعد یعنی ۱۹۹۲ میں بابری مسجدشہید کروادی گئی اور اب بھی نہیں پہنچے جب بابری مسجد کی شہادت کے اس سانحہء دلخراش کو ہوئے بھی پچیس سال کا طویل عرصہ بیت گیا۔ ہاں انہوں نے ۲۰۱۰ میں ایک فیصلہ دیا تھا جو یوں تھا کہ مسجد کی آراضی کو نرموہی اکھاڑا، رام للا کی مورتیاں جو مسجد بھی رکھ دی گئی تھیں اور سنی وف بورڈ تینوں میں تقسیم کردیا جائے۔ یہ فیصلہ تینوں پارٹیوں کو منظور ہونا تھا نہ ہوا سو سپریم کورٹ میں چیلنج کیا گیا اور عزت مآب سپریم کورٹ نے بھی اسے عجیب کہہ کر اس پر روک لگادی۔ اس کے بعد سپریم کورٹ میں بھی یہ معاملہ پینڈنگ رہا اور پچھلے سال فروری تک اس میں کسی پیش رفت کی کوئی خبر نہیں آئی۔ اس ضمن میں گھونگے میاں آگے کے سفر کے لئے اس وقت حرکت میں آئے جب فروری ۲۰۱۶ میں بی جے پی لیڈر اور رکن راجیہ سبھا سبرامنیم سوامی نے سپریم کورٹ میں ایک عرضداشت داخل کی کہ بابری مسجد کی جگہ رام مندر تعمیرکرنے کی اجازت دی جائے۔ کورٹ نے سوامی کی اس عرضداشت پر کوئی فیصلہ تو نہیں کیا لیکن اسکے ذریعہ سوامی کو بابری مسجد ملکیت مقدمہ میں INTERVENER قبول کرلیا۔

 اس کے بعد اپریل ۲۰۱۶ میں سوامی نے اس کیس کی فوری سنوائی کر نے کی عرضداشت کی جو خارج کی گئی لیکن اسی سال نومبر میں ان کی اسی طرح کی عرضداشت پر راضی ہوگئی۔ لیکن پھر مارچ ۲۰۱۷ میں انکی اسی طرح کی عرضداشت کو خارج کیا لیکن پھر جولائی میں انکی عرضداشت پر عمل کرتے ہوئے اس کیس کی فوری سنوائی کا فیصلہ لیتے ہوئے اس کیس کو ۵ دسمبرسے شروع کر دیا اور ۵ دسمبر کو اسے ۸ فروری تک کے ملتوی کردیا گیا۔ بابری مسجد کا معاملہ دراصل مذہب اور آستھا سے زیادہ سیاسی ہوگیا ہے بلکہ یہ ایک سیاسی تنور ہے کہ ہر سیاسی پارٹی اس میں اپنی روٹی سینکنتی ہے لیکن ان میں بی جے پی اور سنگھ پریوار سب سے زیادہ کامیاب اور سب سے زیادہ فائدہ میں رہتا ہے۔ اس کیس کی تازہ سنوائی گو کہ کہا جارہا ہے کہ عدالت کی معمول کی کارروائی ہے لیکن اس میں سبرامنیم سوامی کی عرضداشتوں سے ایسا لگتا ہے کہ اب بھی اس معاملہ میں کورٹ کو سنوائی کے لئے مجبور کیا گیا ہے سوامی کہہ رہے ہیں کہ یہ ان کے عبادت کے حق کا معاملہ ہے لیکن وہ بی جے پی کے لیڈر ہیں اور اس میں کوئی شک ہی نہیں ہونا چاہئے کہ اس مقدمہ میں ان کی ساری کوششیں عبادت کے حق سے زیادہ سیاسی ہیں۔

ویسے بھی رام مندر کی تعمیر بی جے پی کے ہر الیکشن مینیفسٹو میں رہا ہے اور اب اس کی حکومت کی پچھلے تین سالوں کی کار کردگی بتاتی ہے کہ وکاس اور گڈ گورننس کے جو پر شوروعدے اور دعوے اس نے کئے تھے وہ چاروں خانے چت ہوگئے ہیں جسکی وجہ سے اگلے الیکشنس کے لئے اس کے پاس رام مندر کے علاوہ اورکوئی اشو نہیں بچا۔ اور سبرامنیم سوامی نے شاید اسی کے لئے اس معاملہ کی جلدی سنوائی کے لئے عرضی پہ عرضی کی ہیں۔ اگر اگلے الیکشنس تک یہ معاملہ فیصل ہو جائے یا کم از کم اس پر بحث ہی ہوتی رہے تو ان کے لئے سیاسی ماحول گرم رکھنے کا سامان پیدا ہو تا جائے گا۔ لیکن یہاں سب سے بڑا سوال وہی ہے جو کپل سبل نے عدالت سے پوچھا ہے کہ کورٹ کو اس معاملے میں جلدی کیوں ہے؟ معزز سپریم کورٹ قابل احترام ہے اور ہم اس کا انتہائی احترام کرتے ہیں اور ہم ہی کیا سب مسلمان اور ہمارے سب نمائندے بار بار یہ اعلان کر رہے ہیں کہ ہمیں عدلیہ پر بھروسہ ہے اور ہم اس کے کسی بھی فیصلے کو قبول کریں گے لیکن اس معاملہ میں یہ سوال بھی بار بار ذہن میں آ رہا ہے کہ کیا ہمارا نظام عدل بھی سیاسی ہوگیا ؟

بابری مسجد کا دوسرا مقدمہ اس کی شہادت کا ہے جس میں کارسیوکوں کے علاوہ ان لوگوں کے خلاف بھی الزام درج کیا گیاتھا جنہوں نے ان کارسیوکوں کو اکسایا تھا حالانکہ بابری مسجد مسماری کے بعد چانچ سال کے عرصہ میں ہی یہ مقدمہ فرد جرم عائد (Charge frame) کر نے تک پہنچ گیا تھا جس میں لکھنؤ سیشن کورٹ نے صاف طور پر کہا تھا کہ ’ رام جنم بھومی بابری مسجد کے متنازعہ ڈھانچے کی مسماری کے ضمن یہ بالکل واضح ہے کہ ملزمین کچھ حرکات و افعال میں جی بھر کے ملوث (indulge (تھے۔ ‘ اگر اس آرڈر کے مطابق چارج فریم ہوتے اور ملزمین پر مقدمہ چلایا جاتا تو ابھی تک کچھ نہ کچھ نتیجہ ضرور نکل گیا ہوتا لیکن ملک کے اقتدار پر قابض لوگ ایسا بالکل نہیں چاہتے تھے اور ایسا نہ ہو سکے انہوں نے اس کی تیاری پہلے ہی سے کر رکھی تھی۔اس کیس میں ابتداء ہی سے ایک ایسی قانونی خامی رکھی گئی جس نے اس کیس کو قانونی تکنیکی طور پر متنازعہ بنا دیا جس کی وجہ سے آج تک یہ مقدمہ جہاں کا تہاں پڑا ہوا ہے۔

اسی سال مئی میں یعنی بابری مسجد مسماری کے ۲۵، سال بعدیہ طے ہوپایا ہے کہ اس معاملہ میں کچھ خاص الخاص مانے جانے والے افراد پر مجرمانہ سازش رچنے کا مقدمہ قائم کیا جائے جس میں نہ صرف مذکورہ تمام ملزمین کے خلاف مسجد مسماری کی مجرمانہ سازش رچنے کے الزامات کے تحت مقدمہ چلانے کا حکم دیا گیاہے بلکہ ٹرائیل کورٹ کو اس کیس کی مسلسل روز سنوائی کر کے دو سال کے عرصہ میں فیصلہ کر نے کا حکم بھی دیا گیاہے یعنی پچھلے پچیس سالوں میں ہمارے نظام عدل کے گھونگے میاں وہیں پہنچ پائے ہیں جہاں سے بات شروع ہونی تھی یعنی انصاف کی دعوت کے سفر کا آغاز ہونا تھا۔ اس کے بعد ابھی یہ معاملہ ٹرائیل کورٹ میں ہے جس کا فیصلہ آخری نہیں ہوتا یعنی اعلیٰ عدالتوں میں چیلنج کیا جاسکتا ہے یعنی نظام عدل کے یہ گھونگے میاں کسی حتمی فیصلہ تک پہنچیں اس وقت تک شاید بابری مسماری کے تمام سازشی ملزمین اپنی زندگی پورے عیش و آرام کے ساتھ مکمل کر جائیں۔ ہمارا نظام عدل ہر معاملہ میں بالکل گھونگے میاں کی طرح ہی سست ہے اور ان معاملات میں تو مزید سست ہو جاتا ہے جو خاص ہوتے ہیں جن میں سیاسی افراد ملزم ہوتے ہیں اور اس کی وجہ دراصل سیاسی نظام کی چاپلوسی اور عیاری ہے جو نظام عدل کو ضروری افرادی قوت اور سہولیات فراہم نہیں کرتا۔

اس سے پہلے ملک کے معزز چیف جسٹس نے رو رو کر حکومت سے یہ کمی پوری کر نے کی گہار لگائی تھی لیکن اس پر کیا عمل ہوا کوئی خبر نہیں آئی۔ لیکن بابری مسجد کے دونوں مقدمات سے یہ بات اچھی طرح کھل کر سامنے آ جاتی ہے سیاسی ملزمین جہاں اس نظام عدل کوچکر پہ چکر دے کر، مختلف اسباب و وجوہات گڑھ کر اس کی آنکھوں میں دھول جھونک کر گھونگے میاں سے بھی زیادہ سست کر دیتے ہیں وہیں سبرامنیم سوامی کی طرح عرضی پہ عرضی کر کے اس گھونگے میاں کو تیز رفتار چلنے کے لئے مجبور بھی کر سکتے ہیں۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔