زعمِ ہستی مرے ادراک سے باندھا گیا ہے 

عرفان وحید

زعمِ ہستی مرے ادراک سے باندھا گیا ہے

اور بدن طرہء پیچاک سے باندھا گیا ہے

ایک آنسو تری پوشاک سے باندھا گیا ہے

یا ستارا کوئی افلاک سے باندھا گیا ہے

عشق کو گیسوئے پیچاک سے باندھا گیا ہے

اور پھر گردشِ افلاک سے باندھا گیا ہے

خاک اڑاتا ہوں میں تا عمر نبھانے کے لیے

ایک رشتہ جو مرا خاک سے باندھا گیا ہے

ٹوٹے پڑتے ہیں تماشے کو یہاں پر نخچیر

آج صیاد کو فتراک سے باندھا گیا ہے

کشتِ وحشت ہو جسے دیکھنی آئے دیکھے

ہر بگولہ خس و خاشاک سے باندھا گیا ہے

پھر وہی حرفِ تمنا ہے وہی ساعتِ درد

پھر ہمیں دیدہء نمناک سے باندھا گیا ہے

اب کسی کوزہ گری کی نہیں حاجت کہ مجھے

تا فنا ایک اسی چاک سے باندھا گیا ہے

ہم گنہ گاروں کی ہے آخری امید وہی

عہد اک جو شہِ لولاک سے باندھا گیا ہے

کجا یہ شوخ ادا دنیا، کجا میں عرفان

مردِ سادہ زنِ بیباک سے باندھا گیا ہے

تبصرے بند ہیں۔