گیا وقت پھر ہاتھ آتا نہیں

حفیظ نعمانی

یہ اپنی اپنی سوچ ہے کہ کس کام کو کوئی بہت اہم سمجھے اور اسی کام کو دوسرا غیراہم۔ وزیراعظم نریندر مودی نے 26 تاریخ کو نامزدگی کرائی اس سے ایک دن پہلے کروڑوں روپئے خرچ کرکے روڈشو کیا اور نامزدگی کی تیاری کو مذہبی رنگ میں رنگنے کے لئے وہ اہتمام کیا جو اس سے پہلے 71 برس میں کسی نے نہیں کیا تھا اور یہ تب ہے جب ان کا مقابلہ کرنے سے ہر پارٹی نے کنارہ کرلیا اور ایسا اُمیدوار اتار دیا جسے ملنے والے ووٹوں میں زیادہ وہ ہوں گے جو غلطی سے پڑجائیں گے۔ پھر جب نامزدگی کرانے کیلئے گئے تو پورے ملک میں جو اُن کے اہم ساتھی تھے جیسے اودھو ٹھاکرے، نتیش کمار، رام ولاس پاسوان، پرکاش سنگھ بادل اور دوسرے این ڈی اے کے ساتھی۔ اور ان کے علاوہ مودی کابینہ کے وزیر اور بنارس کے دھرم گرو۔

نامزدگی کی ہی تقریب وہ بھی تھی جس کے لئے کانگریس کے صدر راہل گاندھی کیرالہ کے ایک پسماندہ علاقہ میں گئے۔ اور مقامی لوگوں میں ان کے ساتھ جو بھی ہو باہر سے صرف ان کی بہن پرینکا گاندھی تھیں جنہوں نے نامزدگی کے بعد روڈشو بھی کیا اور میڈیا کے رپورٹروں کا کہنا تھا کہ اتنا مجمع آج تک کسی کے آنے پر نہیں ہوا انتہا یہ ہے کہ وہ صحافی بھیڑ سے دب کر زخمی بھی ہوگئے۔ لیکن یہ واضح رہے کہ نہ کانگریس کے ممتاز لوگ اس تقریب میں موجود تھے اور نہ یوپی اے کے صوبائی وزیر اعلیٰ۔ اب اسے بے نیازی کہا جائے یا یہی روایت ہے کہ پارٹی کے صدر یا وزیراعظم جب نامزدگی کرائیں تو اسے ایک قانونی کارروائی سے زیادہ نہ سمجھا جائے۔ راہل گاندھی نے جب امیٹھی میں نامزدگی کرائی تب بھی بس پرینکا کے دونوں بچے ساتھ آئے تھے اور اماں بھی ساتھ تھیں۔

یہ بات بار بار سامنے آچکی ہے کہ نریندر مودی پارٹی کے لیڈر تو اچھے ہیں وزیراعظم نہیں جو وزیراعظم چار دن نامزدگی کا ماحول بنانے جیتی ہوئی نظر آنے والی بازی کو جیتنے کے لئے دو دن پوجا پاٹ میں لگادے اور ہر کام ایسے کرے جیسے ہار جیت اس پر ہے اسے ذمہ دار وزیراعظم کیسے کہا جائے گا؟ کیا پنڈت نہرو اور اندرا گاندھی ہر پانچ سال کے بعد نامزدگی نہیں کراتے تھے۔ ہمیں یاد نہیں کہ آدھا دن بھی انہوں نے برباد کیا ہو؟ بہرحال وہ جو دل چاہے وہ کریں۔ یہ حقیقت ہے کہ ان کے کان پاس سے گولی نکل گئی۔ اگر راہل گاندھی نے مایاوتی اور دوسرے علاقائی لیڈروں کو حقارت سے نہ ٹھکرایا ہوتا تو سب کی مشترکہ امیدوار پرینکا ہوتیں اور پھر جو ہوتا وہ ہمیں تو نظر آرہا ہے۔

راہل گاندھی کے بارے میں کجریوال نے ٹھیک کہا ہے کہ اگر مودی اور امت شاہ کی جوڑی دوبارہ برسراقتدار آئی تو اس کے ذمہ دار صرف راہل گاندھی ہوں گے۔ اور یہ بات سب سے پہلے ہم نے لکھی تھی کہ راہل اترپردیش اور بنگال میں ٹانگ اَڑاکر مودی کا راستہ صاف کررہے ہیں۔ راہل گاندھی کو یہ سمجھنا چاہئے کہ گذشتہ پانچ سال میں مودی جی نے نوٹ بندی اور جی ایس ٹی جیسی غلطیاں کی ہیں ان کے بارے میں سوچنا کہ وہ اب اور زیادہ بڑی غلطی کریں گے کم عقلی ہے۔ مودی اپنی مرضی سے وزیراعظم نہیں ہیں جس تنظیم نے انہیں بنایا ہے وہ اگر پارٹی جیت گئی تو دوسرے کو بنائے گی اور اس نے اگر ملک کو سنوارنے کا کام کیا یا صرف ہندوئوں پر بھروسہ کرنے کے بجائے واقعی سب کا وکاس کا رویہ اپنایا تو کون ان کی مقبولیت کو روک سکتا ہے۔ یہ سال بہترین سال تھا فصل پک کر تیار تھی پرینکا جیسا ہیرا مقابلہ پر موجود تھا اگر وہ سب کی مشترکہ امیدوار ہوتیں تو سب کی حسرت پوری ہوجاتی۔ مودی جی نے سب کا ساتھ سب کا وکاس کا منتر تین برس پڑھا اور یہ کسی نے نہیں دیکھا کہ جب انہوں نے اس منتر کا جاپ بند کیا تو ملک کے ہر بڑے شہر میں بی جے پی کا ایک آفس پانچ ستارہ ہوٹل کے معیار کا کھڑا کردیا۔ کسی کے منھ سے نہیں سن رہے کہ اترپردیش میں ایسے 50  آفس بن چکے ہیں اور ہر آفس میں دو کروڑ روپئے یا کچھ کم خرچ ہوئے ہیں۔ آج کے بعد ہر آفس مین ایسے کارکن بیٹھے ملیں گے جن کو نہ کوئی وزیر کے پاس جانے سے روک سکتا ہے نہ کسی افسر کے پاس جانے سے۔ اب جس معمولی آدمی کو کوئی کام ہوگا وہ اپنے ضلع کے دفتر میں جائے گا اور اس کا کام ہوجائے گا۔

یہ کام اور ایسے ہی دوسرے کام ہر جگہ کئے جارہے ہیں مقصد صرف یہ ہے کہ کوئی ضرورتمند پریشان نہ ہو اور وہ صرف ووٹر نہیں کارکن بن جائے۔ راہل گاندھی نے اپنا آفس بھی نہیں بنایا اور جو صوبائی آفس بنے ہوئے ہیں وہ بھٹیاروں کی سرائے جیسے ہیں جبکہ بی جے پی کا ہر آفس اور اس کی ہر چیز پانچ ستارہ ہوٹل کو سامنے رکھ کر بنائی گئی ہے۔ راہل گاندھی نے یہ سال گذارکر اپنے پائوں پر کلہاڑی ماری ہے اب وہ زندگی بھر انتظار کریں اور ہوسکتا ہے انتظار کے قابل بھی نہ رہ پائیں۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔