انسان اور زمین کی حکومت (قسط 113)

رستم علی خان

ظہور قدسی، چمنستان دہر میں بارہا روح پرور بہاریں آ چکیں ہیں- چرخ نادرہ کار نے بھی سبھی بزم عالم اس سر و سامان سے سجائی کہ نگاہیں خیرہ ہو کر رہ گئی ہیں- لیکن آج کی تاریخ وہ تاریخ ہے جس کے انتظار میں پیر کہن سال دہر نے کروڑوں برس صرف کر دئیے- چارگان فلک اسی دن کے شوق میں  ازل سے چشم براہ تھے- چرخ کہن مدت ہائے دراز سے اسی صبح جان نواز کے لیے لیل و نہار کی کروٹیں بدل رہا تھا- کارکنان قضا و قدر کی بزم آرائیاں، عناصر کی جدت طرازیاں، ماہ خورشید کی فروغ انگیزیاں، ابر و باد کی تروستیاں، عالم قدس کے انفاس پاک، توحید ابراہیم، جمال یوسف، معجز طرازی موسی’، جان نوازی مسیح سب اسی لیے تھے کہ یہ متاع ہائے گراں ارزشاہنشاہ کونین حبیب خدا محمد مصطفی صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے دربار میں کام آئیں گے-

آج کی صبح، وہی صبح جان نواز، وہی ساعت ہمایوں، وہی دور فرخ فال ہے- ارباب سیر اپنے محدود پیرایہ بیان میں لکھتے ہیں کہ، آج کی رات ایوان کسری کے چودہ کنگرے ٹوٹ کر گر گئے، آتش کدہ فارس جو مدتوں سے روشن تھا بجھ گیا، دریائے ساوہ خشک ہو گیا، لیکن سچ یہ ہے کہ صرف ایوان کسری نہیں بلکہ شان عجم، شوکت روم، اوج چین کے قصر ہائے فلک بوس گر پڑے- محض ایک آتش فارس نہیں بلکہ حجیم شر، آتش کدہ کفر، آذر کدہ گمرہی سرد ہو کر رہ گئے- صنم خانوں میں خاک اڑنے لگی، بت کدے خاک میں مل گئے، بڑے بڑے بت منہ کے بل گر کر "ھو اللہ احد” پکارنے لگے، شیرازہ مجوسیت بکھر گیا، نصرانیت کے اوراق خزاں دیدہ ایک ایک کر کے جھڑ گئے-

توحید کا غلغلہ اٹھا، چمنستان دہر میں بہار آ گئی، آفتاب ہدایت کی شعاعیں ہر طرف پھیل گئیں، اخلاق انسانی کا آئینہ پرتو قدس سے چمک اٹھا- یعنی یتیم عبداللہ، جگر گوشہ آمنہ، شاہ حرم، حکمران عرب، فرماروائے عالم، شہنشاہ کونین عالم قدس سے عالم امکان میں تشریف فرما ہوئے عزت و اجلال ہوا- الھم صلی علیہ و علی الہ و اصحابہ وسلم وبارک-

آپ کی تاریخ ولادت کے متعلق اختلاف ہے- بعض کے نزدیک بارہ ربیع الاول ہے بعض نو ربیع الاول مانتے ہیں اور بعض گیارہ- لیکن اس قدر متفق علیہ ہے کہ وہ ربیع الاول کا مہینہ اور سوموار کا دن تھا اور تاریخ آٹھ سے لیکر بارہ تک میں منحصر ہے- اور آپ صلعم کا نام مبارک "محمد” صلی اللہ علیہ والہ وسلم رکھا گیا- اور عام طور پر بیان کیا جاتا ہے کہ آپ کے دادا عبدالمطلب نے یہ نام رکھا-

رضاعت، سب سے پہلے آنحضرت صلعم کو آپ کی والدہ نے اور ان کے بعد "ثوبیہ” نے دودھ پلایا جو ابولہب کی لونڈی تھی- ثوبیہ کے بعد حضرت حلیمہ سعدیہ نے آپ کو دودھ پلایا- اس زمانے میں دستور تھا کہ شہر کے روساء اور شرفاء  اپنے شیرخوار بچوں کو اطراف کے قصبات اور دیہات میں بھیج دیتے تھے- یہ اسی غرض سے تھا کہ بچے بدووں میں پل کر فصاحت کا جوہر پیدا کرتے تھے اور عرب کی خالص خصوصیات محفوظ رہتی تھیں- شرفائے عرب نے مدت تک اس رسم کو محفوظ رکھا- یہاں تک کہ بنو امیہ نے دمشق میں پایہ تخت قائم کیا اور شاہانہ شان و شوکت میں قیصر و کسری کی ہمسری کی- تاہم ان کے بچے صحراوں میں بدووں کے گھر میں پلتے تھے- مروی ہے کہ ولید بن عبدالملک خاص اسباب سے نہ جا سکا اور حرم شاہی میں پلا- اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ خاندان بنو امیہ میں ولید ہی وہ واحد شخص تھا جو عربی صحیح نہیں بول سکتا تھا-

القصہ دستور مذکور کی بنا پر سال میں دو مرتبہ دیہات سے شہر میں عورتیں آیا کرتیں تھیں اور شرفائے شہر اپنے شیرخوار بچوں کو ان کے حوالے کر دیا کرتی تھیں- اسی دستور کے موافق آنحضرت صلعم کی ولادت کے چند روز بعد  قبیلہ ہوازن کی چند عورتیں بچوں کی تلاش میں آئیں ان میں سے حضرت حلیمہ سعدیہ بھی تھیں جو اپنی اونٹنی کی کم رفتاری کے باعث پیچھے رہ گئیں اور اتفاق سے ان کے ہاتھ کوئی بچہ نہ آیا۔

چنانچہ حضرت حلیمہ سعدیہؓ بوجہ مجبوری سب سے آخر میں مکہ پنہچیں تب تک دائیاں تمام بچوں کو لیکر چلی گئیں اور حضرت حلیمہ کو کوئی بچہ نہ ملا- ادھر حضور اقدسﷺ کو یتیم ہونے کے سبب کوئی دائی نہ لیکر گئی-  تب آنحضرتﷺ کی والدہ نے حضرت حلیمہؓ کو مقرر کرنا چاہا تو انہیں بھی یہی خیال آیا کہ یتیم بچے کو لیکر کیا کروں گی- لیکن خالی ہاتھ بھی نہ جا سکتی تھیں اس لیے حضرت آمنہؓ کی درخواست قبول کی اور آنحضرتﷺ کو ساتھ لیکر گئیں- آپ صلی علیہ والہ وسلم کی برکت سے اللہ تعالی نے حضرت سعدیہؓ پر اپنی رحمتوں کے دروازے کھول دئیے- سیرت کی کتابوں میں بہت سے واقعات درج ہیں-

القصہ حضرت حلیمہؓ کی ایک صاحبزادی تھیں، جن کا نام "شیما” تھا اور اسے آپﷺ سے بہت انس تھا- وہی آپ کے کھانے پینے کا اور تمام ضرورتوں کا خیال رکھتی- دو سال بعد حضرت حلیمہؓ آپ کو مکہ لائیں اور آپ کی والدہ کے سپرد کیا- چونکہ اس زمانہ میں مکہ میں وبا پھیلی ہوئی تھی- اس لیے آپ کی والدہ نے فرمایا کہ واپس لے جاو- چنانچہ حضرت حلیمہؓ آپ کو واپس اپنے ساتھ گھر لے آئیں- اس میں اختلاف ہے کہ آپﷺ حضرت حلیمہؓ کے گھر کتنا عرصہ تک رہے- ابن اسحاقؒ نے وثوق کے ساتھ چھ برس لکھا ہے-

ہوازن کا قبیلہ فصاحت و بلاغت میں مشہور ہے- ابن سعدؓ نے طبقات میں روایت کی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم فرمایا کرتے تھے کہ، "میں تم سب میں فصیح تر ہوں، کیونکہ میں قریش کے خاندان سے ہوں اور میری زبان بنی سعد کی زبان ہے- بنی سعد ہوازن ہی کے قبیلہ کو کہتے ہیں- حضرت حلیمہؓ کے ساتھ آنحضرتﷺ کو بےانتہا محبت تھی- عہد نبوت میں وہ جب آپﷺ کے پاس آئیں تو آپﷺ "میری ماں، میری ماں” کہتے ہوئے لپٹ گئے- یہ دلچسپ واقعات آگے آئیں گے-

ابن کثیرؒ نے لکھا ہے کہ حضرت حلیمہؓ آنحضرتﷺ کی نبوت سے پہلے وفات پا گئیں- لیکن یہ صحیح نہیں ہے- ابن ابی خثیمہؒ نے تاریخ میں، منذریؒ نے مختصر سنن ابی داود میں، ابن حجرؒ نے اصابہ میں ان کے ایمان لانے کی تصریح بیان کی ہے- حضرت حلیمہؓ کے شوہر یعنی آپ کے رضاعی باپ کا نام حارثؓ بن عبدالعزی ہے وہ آنحضرتﷺ کی بعثت کے بعد مکہ میں آئے اور اسلام قبول کیا- مروی ہے کہ حارثؓ آنحضرتﷺ کے پاس اور کہا کہ یہ تم کیا کہتے ہو- آپﷺ نے فرمایا ہاں وہ دن آئے گا کہ میں آپ کو دکھا دوں گا کہ میں سچ کہتا تھا- حارثؓ مسلمان ہو گئے- اس کے علاوہ آنحضرتﷺ کے چار رضاعی بھائی بہن تھے جن کے نام "عبداللہ، انیسہ، حدیقہ اور عذافہ” جو شیما کے لقب سے مشہور تھیں- ان میں سے عبداللہ اور شیما کا اسلام لانا ثابت ہے باقیوں کا حال معلوم نہیں-

آنحضرتﷺ کی عمر جب چھ برس کی ہوئی تو آپ کی والدہ آپﷺ کو لیکر مدینہ گئیں- چونکہ آنحضرتﷺ کی والدہ کی ننھال خاندان نجار میں تھیں وہیں ٹھہریں- اس سفر میں ام ایمنؓ بھی آپ کے ساتھ تھیں جو آنحضرتﷺ کی دایہ تھیں- مورخین نے لکھا ہے کہ آپﷺ کی والدہ اس ننھیالی رشتے کی وجہ سے مدینہ گئیں، لیکن یہ تعلق دور کا رشتہ تھا- قیاس میں نہیں آتا کہ صرف اتنے سے رشتے سے اتنا لمبا سفر کیا جائے- میرے نزدیک بعض مورخین کا یہ بیان صحیح ہے کہ حضرت آمنہؓ اپنے شوہر کی قبر کی زیارت کے لیے گئیں تھیں جو مدینہ میں مدفون تھے- بہرحال ایک مہینہ تک مدینہ میں مقیم رہیں- واپس آتے ہوئے مقام "ابوا” میں پنہچیں تو ان کا انتقال ہو گیا- ِانَّ اِللہِ وَاِنِّا اِلَیہٖ رَاجِعُون○ ابوا ایک گاوں ہے جو مدینہ سے تیس میل پر واقع ہے- تب حضرت ام ایمنؓ آپﷺ کو ساتھ لیکر مکہ آئیں۔

تبصرے بند ہیں۔