گیا وقت پھر ہاتھ آتا نہیں!

شیخ فاطمہ بشیر

 حضرات! ہم دیکھتے ہیں کہ سال میں کئی طرح کے موسم آتے ہیں ۔ کسان بارش کے موسم کا انتظار کرتا ہے۔ بارش کی ہلکی پھوار سے خوش ہوجاتا ہے۔خوب محنت سے اپنی کھیتی میں جُٹ جاتا ہے۔ آخر اسکی  محنت رنگ لاتی ہے اور بہترین فصل تیار ہوتی ہے۔ اسی طرح امتحانات کا زمانہ آتا ہے تو طالبِ علم کمر کَس لیتا ہے۔ اپنے اوقات کو منظّم کر لیتا ہے۔قلم و کتابوں کے ساتھ ایک جگہ جَم جاتا ہے۔ دل لگا کر محنت کرتا ہے اور نتیجتاً کامیاب ہوکر نکلتا ہے۔  اسی طرح شادیوں کا سیزن جنوری سے دسمبر تک چلتا رہتا ہے۔

اسی طرح گرما کی چھٹیوں کے لئے  سرما سے تیاری اور  پلاننگ  شروع کردی جاتی ہے۔ لیکن آج سے ہم پر ایک بہت ہی با برکت اور سعادت والے مہینے ’رمضان المبارک‘ کا  موسم جلوۂ فگن ہوگیا ہے۔ جہاں یہ عظیم مہینہ برکتوں ، سعادتوں اور نیکیوں کی سوغات ساتھ لاتا ہیں ، وہیں پورا مسلم معاشرہ دینی فضا سے روشناس نظر آتا ہے۔ لوگوں میں عبادت کا جذبہ بیدار ہوجاتا ہے۔ روحانی قوت بڑھ جاتی ہے۔ تلاوت و عبادت، ذکر و اذکار کی کثرت ہوجاتی ہے۔

رمضان جو نعمتوں ، فضیلتوں ، گناہوں کی بخشش اور مغفرت کا مہینہ ہے، وہیں یہ وہ ’ماہِ مبارک‘ ہے جس میں قرآن پاک کے نزول کے ذریعے ایمان و یقین کی روشنی اور امن و امان کی فضا قائم کردی گئی۔ یہ وہ’ ماہِ مقدس‘ ہے جس میں ایک ایسی متبرّک رات بھی ہے جس میں اللہ کا آخری پیغام انسانوں تک پہنچادیا گیا، جسے قرآن ’خیرٌ مِن الفِ شھرٌ(ہزار راتوں سے بہتر)‘ کہتا ہے۔

  اگر ہم اپنے اطراف غور کرے تو کائنات کا پورا نظام اور ہر چیز ہمیں وقت کی پابندی کا درس دیتی ہے۔ رمضان میں سحری و  افطار کے اوقات، نماز کے فرض، مکروہ اور قضا ہونے کے اوقات، حج کے ایّام، طلوع و غروبِ آفتاب، چاند کا گھٹنا بڑھنا، ایسے قدرتی عوامل ہیں جو کسی بے قاعدگی کے بِنا انجام پاتے ہیں ۔

ہر شئے وقت کی اہمیت، افادیت اور پابندی کا درس دیتی نظر آتی ہے۔ ہر چیز وقت کی قدر سکھلاتی ہے۔ ہر عمل ایک بہترین منصوبہ بندی کی تعلیم دیتا ہے۔ اسی لئے ہمیں ایک نئے حوصلے، جوش اور امنگ کے ساتھ اس ماہِ مبارک کا بھرپور فائدہ اٹھانا ہے۔ ہمارا وقت بازاروں ، باورچی خانوں اور لغو و بے کار باتوں میں برباد ہونے کے بجائے عبادت و تلاوت میں لگیں ۔ کوشش ہو کہ قرآن مجید کا ہماری زندگی سے ایک مضبوط اور گہرا رشتہ استوار ہوجائے۔اپنی ذات سے کمزوریوں کا ادراک کرکے ، ان کو ترک کرنے کی کوشش کی جائے۔ نئی خوبیوں کی پرورش و نشوونما کی جائے۔

لوگوں کے درد کو محسوس کرے۔رمضان جہاں دونوں ہاتھوں سے نیکیاں سمیٹنے کا ایک موقع ہیں ،وہیں اس ماہِ مقدس میں دعا جیسے ہتھیار کو اپنے لئے لازم و ملزوم جان لیں ۔اللہ کو راضی کروالیں تاکہ ہماری مغفرت اور عذاب النّار سے خلاصی ہوجائے۔خوب گڑگڑاکر رقّتِ طلبی سے دعا کے ذریعے سکون و اطمینان اور اللہ کی مدد و نصرت کا حصول اپنے لئے آسان بنالیں ۔ تہجّد کا بِلا ناغہ اہتمام کرے۔ آخری عشرے کی طاق راتوں میں دعا و اذکار اور عبادت و تلاوت کے ذریعے ’لیلۃ القدر‘ کو پانے کی ہمہ تن کوشش کرے۔ ایک  بہترین منصوبہ بندی کے ساتھ، اس ماہِ مبارک کو ’ زندگی میں تبدیلی برائے بہتری‘ کی نیت سے گزارے۔

اللہ تعالیٰ نے اپنے رحم و کرم سے ایک اور رمضان تک ہمیں پہنچادیا ہے تو اب  ہمارا فرض ہے کہ اس ماہِ صیام کی برکات کا صحیح طور سے فائدہ اٹھائے۔ ممکن ہو یہ رمضان ، ہمارا آخری رمضان ثابت ہو تو ہم اسکا ہر لمحہ، ہر پَل، ہر وقت اور ہر گھڑی قیمتی اور بہترین بنانے کے لئے کوشاں ہوجائیں تاکہ یہ ’ماہِ مقدس ‘ ہماری زندگی کا ایک نیا موڑ ثابت ہو، کیونکہ   ؎  گیا وقت پھر ہاتھ آتا نہیں !

تبصرے بند ہیں۔